کیا ہم دفاع اسلام کے لئے تیار ہیں

کیا ہم دفاع اسلام کے لئے تیار ہیں

آپ ﷺ نے جب صفا پہاڑی سے سب سے پہلے قریش کو جمع کرکے نبوت کا پیغام سنایا اور انہیں باطل خداؤں، جھوٹی دیویوں اور ان گنت بتوں کو چھوڑ کر دین حنیف کی طرف بلایا، ایک اللہ کی عبادت کے لئے ابھارا، نیکی اور بھلائی کا حکم دیا تو سب سے پہلے آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والے وہ لوگ تھے جنہوں نے سب سے زیادہ آپ ﷺ کو عزیز رکھا تھا۔ جو آپ ﷺ کو” الصادق الامین” کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ جو آپ ﷺ کے ہر فیصلہ کو بلا قیل و قال تسلیم کرلیا کرتے تھے۔ جو آپ ﷺ کو مکہ شہر کا سب سے شریف اور سب سے زیادہ معتبر اور مستند تصور کرتے تھے۔ جن کی زبانیں آپ ﷺ کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللسان رہا کرتی تھیں۔ یہ مخالفت اور عناد آپ ﷺ کی ذات سے نہیں بلکہ اس پیغام سے تھا جسے لے کر آپ ﷺ کو ان کے درمیان بھیجا گیا تھا۔ بغض و عناد اور نفرت و تعصب کا جو سلسلہ آپ ﷺ سے شروع ہوا وہ ہمیشہ اہل اسلام کے ساتھ رہا ہے، ہر دور اور ہر زمانے میں محمد عربی ﷺ کے ماننے والوں کو اس قسم کے حالات کا سامنا رہا ہے۔ لیکن حالات اور وقت کے اعتبار سے اہل اسلام نے ہمیشہ مذہب اسلام کا دفاع کیا ہے، اور نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی پر طعن و تشنیع یا شعائر اسلام پر لب کشائی کرنے والوں کا دنداں شکن جواب دیا ہے۔ مذہب اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ باطل کسی اعتبار سے مذہب اسلام پر قوت حاصل کرلے یا دلائل و براہین کے  سلسلہ میں مذہب اسلام پر حاوی ہوجائے، آج پھر مسلمان ایسے حالات سے دو چار ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے اسلاف و اکابرین کی مانند مذہب کے دفاع کے لئے تیار ہیں؟

قابل تشویش بات یہ ہے کہ آج یقینا مسلمانوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں، حکومت اور تمام حکومتی ادارے فرقہ پرستوں کی انگلیوں پر ناچ رہے ہیں، انسانیت کے نام پر انسانوں کا خون بہایا جارہا ہے، اور مذہب کی آڑ میں غیر مذہبی امور انجام دیئے جارہے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ یہ حالات مسلمانوں پر پہلی دفعہ آئے ہیں،  ماضی میں مسلم قوم اس سے زیادہ سنگین حالات سے دوچار ہوچکی ہے۔ تاریخ انسانی کا عظیم ظالم چنگیز خان جس نے مسلمانوں کے خون کو پانی کی مانند بہایا تھا اور بغداد جیسے ہنستے کھیلتے شہر کو موت کی نیند سلادیا تھا۔ لیکن اہل اسلام نے ہمت نہیں ہاری، اللہ کی طرف متوجہ ہوئے، بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہوکر اپنے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہوئے اور فراہم کردہ اسباب و وسائل سمیت میدان میں نکل آئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جو قوم مذہب اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ابھری تھی، جس قوم کا مقصد مذہب اسلام کی بیخ کنی تھا وہ مذہب اسلام کی مطیع و فرمانبردار اور مذہب اسلام کے لئے جان کی بازی لگانے والی قوم بن گئی۔ ملک ہندوستان میں انگریزوں نے مسلمانوں کو زیر کرنے کے لئے اور انہیں مذہب اسلام سے دور کرنے کے لئے بیک وقت عیسائیت کی تبلیغ اور پنڈت دیانند سرسوتی کی تحریک شروع کرائی تاکہ مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہو اور وہ مذہب اسلام سے ہٹ کر ہمارے دین پر عمل پیرا ہوجائے، اور یہ سب کچھ حکومتی سرپرستی میں انجام دیا جارہا تھا، لیکن ان فتنوں کی سرکوبی کے لئے مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا محمد علی مونگیری جیسے افراد تیار تھے۔ تقریبا آج بھی ملک کے حالات وہی ہیں فرق ہے کہ ماضی میں ہمارے اسلاف و اکابرین نے دفاع اسلام کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا جبکہ موجودہ دور میں ہم دفاع اسلام کے لئے بھی تیار نہیں ہیں اور مذہب اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ ہم غیروں کو کہاں  مطمئن کریں گے ہم اپنی نوجوان نسلوں کو مذہب اسلام کی صداقت و حقانیت کا درس دینے سے عاجز ہیں۔جس کا نتیجہ ہے کہ ہر آئے دن مسلم سماج میں فتنہ ارتداد کی آندھی زور پکڑتی جارہی ہے۔

دفاع اسلام کا بہترین طریقہ

اس وقت دو کام بہت ضروری ہے جسے انجام دینا نہایت ناگزیر ہے۔ مسلم قوم میں دینی بیداری اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی کوشش۔ دوسری بات، ہم جس معاشرہ میں جی رہے ہیں وہاں ہندی زبان بولنے والے افراد کی کثرت ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ہندی زبان کا اخبار شائع ہوتا ہے اور سب سے زیادہ ہندی زبان میں نیوز وغیرہ نشر کئے جاتے ہیں اور عوام کی کثیر تعداد ہندی زبان پڑھنے لکھنے کو ترجیح دیتی ہے، ایسے ملک میں جہاں مسلم قوم کے علاوہ دیگر اقوام ہندی زبان کو اپنے لئے سرمایہ حیات  تصور کئے بیٹھی ہے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہندی زبان میں مذہب اسلام کی اشاعت کریں۔ مذہب اسلام پر کئے جانے والے بیشتر اعتراضات ہندی زبان میں ہوتے ہیں اور ہمارے افراد اردو میں جواب لکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کردیا ہے۔ حالانکہ ہم بخوبی واقف ہیں کہ اردو داں طبقہ کون ہے اور ہم اس زبان میں کس کو مخاطب کررہے ہیں۔ ہندی زبان میں مذہب اسلام پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا ہے بلکہ اگر گوگل یا انٹر نیٹ کے کسی بھی سرچ انجن پر سرچ کریں تو کوئی معتبر اور قابل ذکر کام مسلمانوں کی جانب سے نہیں ملتا ہے، البتہ بعض غیر مسلموں نے اپنی ویب سائٹ یا اپنے مضامین کو گوگل پر اپلوڈ کیا ہے، اور وہ کتنے معتبر ہوسکتے ہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مذہب اسلام کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے لیکن افسوس کہ ہم اس جانب توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ ملک ہندوستان میں دفاع اسلام کی ایک بہترین صورت یہ ہے کہ ہم ہندی زبان میں اس کی اشاعت پر توجہ دیں۔ مذہب اسلام کے خلاف جو لٹریچر تیار کئے گئے ہیں یا جو غلط باتیں منسوب کی جاتی ہیں ان کا ہندی زبان میں جواب دیں اور جواب کو عام کرنے کے لئے تمام طرح کے وسائل کا استعمال کریں۔پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا اور جو بھی وسائل استعمال کئے جاسکتے ہیں ان کا بھرپور اور مفید طریقے سے استعمال کریں۔

دنیا دارالاسباب ہے، اسباب اختیار کئے بغیر کامیابی کا تصور کرکے بیٹھے رہنا یا نصرت غیبی کا انتظار کرنا اللہ تعالی کی سنت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالی کی مدد یقینا مسلمانوں کے لئے ہے، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ اسباب و وسائل استعمال کئے جائیں جو دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ضروری ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ اساطیری اور افسانوی طور طریقوں پر زندگی گزارنے والے، اُس قوم کے طرز حیات پر انگشت نمائی کرے جسے ذات صمدیت نے قرآن مجید جیسے دستور سے نوازا ہے، جس کے پاس رسول اکرم ﷺ جیسی مقدس ہستی کو نبی بناکر مبعوث فرمایا ہے اور جس قوم کو دنیا کی امامت و قیادت کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ لیکن افسوس کہ یہ حقیقت ہے اور ہم کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ مذہب اسلام کے خلاف مکمل منصوبہ بندی جاری ہے اور مسلمانوں کی دل آزاری کے لئے ہر اُس کا م کو سند جواز فراہم کیا جارہا ہے جو غیر اخلاقی ہی نہیں بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔ آئے دن رسول اکرم ﷺ کی شان اقدس کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور مسلم شعائر کی توہین کی جاتی ہے نیز غلط اور جھوٹ باتوں کو مذہب اسلام کی جانب منسوب کرکے غیر مسلموں کے درمیان عام کیا جاتا ہے تاکہ مذہب اسلام کی نفرت ان کے دلوں میں پیوست ہوجائے۔ قرآن مجید کی آیات، احادیث مبارکہ اور فقہ کی کتابوں میں کتر بیونت کرکے معصوم اذہان کو پراگندہ کرنے کی ناپاک سازش دہائیوں سے جاری ہے۔ اس لئے اب ضرورت ہے کہ ہم بھی کمر بستہ ہوجائیں اور منظم طریقہ سے ایسے لٹریچر اور بیانات کا مدلل انداز میں انہیں کی زبان میں جواب دیں۔ اسلام کی زندہ مذہب ہے اگر مذہب اسلام کی تعلیم کو صحیح طریقے سے غیروں کے سامنے پیش کیا جائے اور انہیں اسلام کی روح سے متعارف کرایا جائے تو ہر شی میں معبود تلاش کرنے والوں کے لئے یہ ایسا انمول اور نادر و نایاب تحفہ ہوگا جس کے حصول کے لئے وہ ہمہ دم تیار رہیں گے۔ ماضی میں ہمارے اکابرین اشاعت اسلام کا فریضہ سرزمین ہندوستان پر اسی انداز سے دیا ہے، چاہے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ہوں، بابا فرید الدین گنج شکر یا شیخ شرف الدین یحیی منیری اور دیگر صوفیاء کرام، ان تمام لوگوں نے مذہب اسلام میں مساوات اور عدل و انصاف کو عوام کے سامنے رکھا اور ان تعلیمات پر عمل کرکے دکھایا، جس کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے ان کے ہاتھوں پر لاکھوں لوگوں کو ایمان لانے کی سعادت سے نوازا تھا۔

Related Posts

One thought on “کیا ہم دفاع اسلام کے لئے تیار ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے