مولانا قاسم نانوتوی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

مولانا محمد قاسم نانوتوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

برصغیر کے علماء ومشائخ میں جن مقدس ہستیوں نے وقتاً فوقتاً دینی کاز کیلئے قربانیاں دی ہیں، ان کی فہرست کافی طویل ہے۔ شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے نام نہاد دین الہٰی ( اکبری) کا قلع قمع کرنے کیلئے زندگی کا طویل عرصہ زنداں کی تاریکیوں میں گزارا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اشاعت حدیث اور قرآنی تعلیمات کی ترویج کیلئے کئی طرح کے الزامات سہے ہیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کی تعلیمات کیلئے طویل زمانے تک جد وجہد کی ہے۔ سید الطائفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی( حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) نے بیعت و سلوک کے ذریعہ بدعات و خرافات کی پھیلی قبیح رسومات کو جڑ سے اکھاڑا ہے۔ انہیں نابغہ روزگار اور دین حنیف کے مقدس قافلہ میں ایک نام حجۃ الاسلامولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ برصغیر نہیں بلکہ عالمی سطح پر آپ کی شخصیت متعارف ہے۔ آپ کی شخصیت کے متعلق مختلف سوانح حیات، مقالات ومضامین مخطوطات وغیرہ آپ کے زمانہ سے اب تک لکھے جارہے ہیں۔ ان تمام تحریرات میں آپ کی زندگی، کارنامے، خدمات، علمی تفوق، ولایت، فقاہت، فلسفہ، کلام نیز دیگر علوم باطنیہ و ظاہریہ کا جو خلاصہ سلطان القلم مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے سوانح قاسمی میں درج فرمایا ہے وہ کہیں اور نہیں ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی مرتب کردہ سوانح سے زیادہ جامع اور معتبر تحریر کس کی ہوسکتی ہے، کیونکہ اس سوانح کا اصل مآخذ مولانا قاسم نانوتوی  کا خاندان اور خصوصاً آپ کے پوتے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے اور وہ جمع شدہ احوال ہیں جنہیں تحریری شکلوں میں سنبھال کر رکھا گیا تھا۔مولانا  قاسم نانوتوی تا دم حیات مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل رہے ہیں۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی نے بیک وقت کئی محاذ پر مذہب اسلام کی نمائندگی کی ہے، اور آپ  نے نمائندگی کا حق ادا کیا ہے۔ 

maulana qasim nanautavi aur unki khidmaat
مولانا قاسم نانوتوی

مولانا محمد قاسم نانوتوی کی ولادت با سعادت

مولانا قاسم نانوتوی کی ولادت با سعادت ہجری سن کے اعتبار سے 1248 ہے لیکن ماہ کی تعیین میں اختلاف ہونے کی بنا پر عیسوی سن میں بھی قدرے اختلاف ہوگیا ہے، اس اعتبار سے 1832 یا 1833 ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی کی پیدائش اس دورمیں ہوئی جب انگریز اپنا تسلط تقریباً پورے ملک میں  جما چکے تھے اور سلطنت مغلیہ صبح کے چراغ کے مانند ٹمٹما رہی تھی۔ آپ کے جدِ امجد مولانا ہاشم صاحب کو شاہجہانی عہد میں نانوتہ کی جاگیر داری عطاء کی گئی تھی۔ مولانا قاسم نانوتوی کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اور اسی مناسبت سے صدیقی لکھنے کا قدیم رواج آپ کے خاندان میں پایا جاتا ہے۔

ابتدائی تعلیم

مولاناقاسم نانوتوی بچپن سے ہی نہایت ذہین، طباع، بلند ہمت، تیز، وسیع حوصلہ، جفاکش، جری و چست و چالاک تھے۔ آپ نے نانوتہ میں قائم مکتب سے تعلیمی سفر کا آغاز کیا، چند دنوں کے قلیل عرصہ میں قرآن مجید مکمل کرلیا تھا۔ چند دنوں تک مکتب میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ دیوبند تشریف لائے، یہاں آپ نے مولوی مہتاب صاحب سے عربی تعلیم کا آغاز کیا۔ اس وقت آپ کی عمر بمشکل آٹھ سے نو سال تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس ذات گرامی سے محض 49 سال کی عمر میں بڑے بڑے تجدیدی کارنامے ذات باری کو لینا مقصود تھا، اس بچہ کی ذہنی سطح بھی لاکھوں کروڑوں سے الگ تھی۔ آپ میں تفہیمی صلاحیت ناقابل یقین حد تک موجود تھی۔ دیوبند میں کچھ دنوں قیام کے بعد مولانا قاسم نانوتوی سہارنپور اپنے نانا مولوی وجیہ الدین رحمۃ اللہ علیہ کے گھر تشریف لے گئے۔ یہاں آپ نے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے سہارنپور کے مشہور بزرگ مولانا نواز سہارنپوری سے عربی زبان کی بعض کتابیں پڑھیں۔ان ایام میں وقت کی حفاظت سمیت مولانا قاسم نانوتوی نے کتابوں پر بھر پور توجہ رکھی تھی۔ 

مولانا قاسم نانوتوی مولانا مملوک علی کی خدمت میں

1260 ہجری میں مولانا قاسم نانوتوی، مولانا مملوک علی (استاذ الکل مولانا مملوک علی نانوتوی کےمتعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں)  ہمراہ دہلی پہنچے۔ مولانا مملوک علی اس وقت دلی عربی کالج کے استاد تھے۔ مولانا مملوک علی صاحب، مولانا قاسم نانوتوی کے والد محترم شیخ اسد علی مرحوم کے رفیق اور قریبی رشتہ دار تھے۔ دہلی میں رہتے ہوئے آپ نے مختلف علوم و فنون میں دسترس حاصل کیا، یہیں دہلی کے قیام کے دوران آپ کی ملاقات قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی (مولانا رشید احمد گنگوہی  کے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) سے ہوئی۔ اگرچہ مولانا رشید احمدگنگوہی عمر میں تقریباً چار سال بڑے تھے لیکن ایسا دوستانہ تعلق پیدا ہوا جو اپنے آپ میں مثال ہے۔ بعد کے زمانے میں ان دونوں ہستیوں نے تقریباً تمام عمر ایک دوسرے کے معاون اور دست راست کے طور پر گزارا۔ دہلی میں قیام کے دوران حدیث میں صحاح ستہ آپ نے شاہ عبد الغنی سے اور  دیگر اہم کتابیں اورمولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہما سے پڑھا ہے۔ محض سترہ سال کی عمر میں آپ علوم ظاہریہ کی تکمیل سے فارغ ہوکر اپنے وطن مالوف نانوتہ تشریف لے آئے۔

مولانا  قاسم نانوتوی کے اساتذہ

 یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شخصیت کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کرام کا کردار اہم ہوتا ہے ۔ روئے زمین پر کئی ایسے نامور ماہر فن گزرے ہیں جن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا، اور تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ ایسے اساتذہ کے تربیت یافتہ افراد نے علم و فضل کے میدان میں کامیابی و کامرانی کے پرچم نصب کئے ہیں۔ایسے ہی رجال سازوں اور رجال شناسوں میں ایک اہم نام مولانا مملوک علی کا ہے۔مولانا مملوک علی سے استفادہ کرنے والوں کی فہرست طویل ہے لیکن ان کی خدمات جلیلہ کو شمار کرانے کے لئے یہ کافی ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی،مولانا رشید احمد گنگوہی  اور حافظ احمد علی محدث سہارنپوری جیسے اصحاب ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔  مولانا قاسم نانوتوی کے  اہم اساتذہ کرام کی فہرست میں مولانا مملوک علی نانوتوی، شاہ عبد الغنی، مولانا نواز سہارنپوری اور مولوی مہتاب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

بیعت و سلوک

علوم ظاہریہ سے فراغت کے بعدمولانا قاسم نانوتوی  علوم باطنیہ کی تکمیل کیلئے سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے دامنِ ارادت سے وابستہ ہوئے۔ حاجی صاحب سے آپ کی ملاقات بچپن سے ہی ہوا کرتی تھی۔ حالت طفولیت سے ہی حاجی صاحب سے قلبی لگاؤ تھا، نانوتہ میں قیام کے دوران اور بارہا نانوتہ سے دہلی اور دہلی سے نانوتہ جاتے ہوئے مولانا قاسم نانوتوی تھانہ بھون میں روحانی تسکین کیلئے قیام فرماتے۔ لیکن اس ملاقات اور عقیدت و محبت میں مزید شدت اس وقت پیدا ہوئی جب آپ دہلی میں مقیم تھے۔ باوجودیکہ حاجی امداد اللہ صاحب کا حلقہ ادارت دہلی میں بہت وسیع تھا حتی کہ شاہی خاندان کے بعض افراد بھی آپ کے دامنِ ارادت سے وابستہ تھے، لیکن حاجی صاحب جب بھی دہلی تشریف لاتے ہمیشہ مولانا مملوک علی نانوتوی کے پاس قیام فرماتے۔ اس موقع سے مولانا قاسم نانوتوی اور آپ کے رفیق خاص مولانا رشید احمد گنگوہی کو فائدہ اٹھانے کا بھر پور موقع ملا کرتا تھا، یہ بھی عجیب بات ہے کہ ابتداء میں مولانا رشید احمد گنگوہی کو حاجی صاحب سے کچھ خاص لگاؤ نہیں تھا، مولانا قاسم نانوتوی کی تشکیل اور حاجی صاحب کے متعلق بیانات نے مولانا رشید احمد گنگوہی کو بھی بیعت و سلوک کے منازل طے کرنے پر آمادہ کرلیا۔ مولانا قاسم نانوتوی کے علم و فضل پر حاجی صاحب کو اس قدر اعتماد تھا کہ فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح اللہ نے شمس تبریز کو مولانا رومی بطورِ لسان عطاء کیا تھا، اللہ نے مجھے قاسم نانوتوی کو بطورِ لسان عطاء کیا ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی کو دیکھنے والے اور آپ کے ساتھ رہنے والے اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ کرامات و مکاشفات کا عمل ہر روز آپ سے ہوا کرتا تھا، لیکن آپ انہیں اس طرح چھپاتے کہ کسی کو خبر تک نہ ہوتی تھی۔ 

1857 کی جنگ آزادی

مولانا قاسم نانوتوی  کا قیام دہلی میں ایسے وقت میں ہوا تھا  جب دہلی کے لال قلعہ کی رونقیں پھیکی پڑ چکی تھی۔ دہلی کی سیاسی ہنگامہ آرائی کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا تھا۔ یہ ایسا زمانہ تھا جب ہر دن مسلمانوں کیلئے کہیں نہ کہیں سے کوئی اندوہناک خبر موصول ہوا کرتی تھی۔ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ شان و شوکت کا چراغ ہواؤں کی تھپیڑوں میں ٹمٹمانے لگاتھا۔ ایسے وقت میں کیرانہ اور تھانہ بھون کے درویشوں نے بھی اپنی جماعت کے ساتھ مل کر انگریزوں سے مقابلہ کرنے کی تیاری شروع کی۔ کیرانہ کا محاذ مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی قیادت میں تھا۔ 1857 کے غدر میں پاکبازوں کی یہ مقدس جماعت بھی انگریزوں کے خلاف شاملی کے میدان میں سینہ سپر ہوگئی۔دوسری جانب شاملی کی قیادت سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فرمارہے تھے، جبکہ فوج میں مولانا قاسم  نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی اور حافظ ضامن شہید جیسے نوجوان صف اول میں تھے۔ مسلمانوں کیلئے یہ آخری لڑائی ثابت ہوئی اور پھر ہمیشہ کیلئے ہندوستان کی سرزمین جس پر مسلمانوں نے صدیوں حکمرانی کی تھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔ مغلیہ سلطنت کا ٹمٹماتا چراغ اس آندھی کا مقابلہ نہیں کرسکا اور ہمیشہ کیلئے گل ہوگیا۔ 

بخاری شریف کا حاشیہ

مولانا قاسم نانوتوی کی علمی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی۔ لیکن ابتدائی زمانہ میں جب عوام کا بڑا طبقہ آپ کی علمی صلاحیتوں سے ناواقف تھا، ایسے زمانہ میں حافظ احمد علی محدث سہارنپوری نے بخاری شریف کے اخیر کے چھ پاروں پر حاشیہ کا کام آپ کے سپرد کردیا۔ حافظ احمد علی محدث سہارنپوری نے تقریباً بارہ سالوں تک اس اہم کام کو انجام دیا تھا۔ حافظ احمد علی محدث سہارنپوری کے علم حدیث کا چرچہ پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا اور علماء دور دراز سے سند کی حصول یابی کیلئے درس میں شریک ہوتے، انہیں ایام میں بانی ندوہ مولانا محمد علی مونگیری  (مولانا محمد علی مونگیری کے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) گیارہ مہینوں تک آپ کے حلقہ درس میں شامل رہے تھے۔ آپ کے اس فیصلہ سے علمی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں، بعضوں نے خطوط لکھ کر حافظ احمد علی محدث سہارنپوری سے اعتراض جتلایا کہ ایک نو خیز کے ذمہ اتنا اہم کام کیسے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ حافظ احمد علی محدث سہارنپوری نے مولانا قاسم نانوتوی کوقریب سے  پرکھا تھا، جانچا تھا، آپ کی علمی گہرائی و گیرائی سے واقف تھے، آپ نے مولانا قاسم نانوتوی کو کام کرنے دیا۔ کام کے اختتام پرحافظ احمد علی محدث سہارنپوری نے وہ مسودہ ان معترضین کے سامنے پیش کیا جو اب تک اس نوخیز عالم ربانی کی حقیقت سے ناواقف تھے۔ کسی معترض کو یہ کہنے کے علاوہ کہ "اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے "کچھ نہیں تھا۔ 

مولانا قاسم نانوتوی  کا علمی سرمایہ اتنا اہم اور ایسے باریک مسائل پر مشتمل ہےکہ موجودہ زمانے میں ان کی تسہیل کی ضرورت ہے۔ بحمد اللہ یہ کام کئی افراد نے انجام دیا ہے اور فی الوقت خانوادہ قاسمی کے چشم وچراغ ڈاکٹر مولانا محمد شکیب قاسمی کی زیر نگرانی حجہ الاسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف دیوبند میں یہ کام بخوبی انجام دیا جارہا ہے۔ امید ہے کہ نسل نو کیلئے یہ قیمتی علمی سرمایہ کار آمد ثابت ہوگا۔ رسائل نانوتوی کے نام سے مولانا قاسم نانوتوی کی تمام تصانیف و مقالات کو یکجا کردیا گیا ہے۔

مولانا قاسم نانوتوی کی تصانیف

مولانا قاسم نانوتوی نے وقتاً فوقتاً حالات و واقعات کے پس منظر میں کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔آپ کی تصانیف اپنے آپ میں سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مولانا قاسم نانوتوی کی تصانیف اصولی ہوا کرتی ہے۔ رطب و یابس کے بجائے مغزیات کو اہمیت دی گئی ہے۔مولانا قاسم نانوتوی کی تصانیف اُس دور سے آج تک علمی حلقوں کے لئے مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔مولانا قاسم نانوتوی کی تصانیف سے استفادہ حاصل کرنے والوں کو آج بھی علمی حلقوں میں اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مرور زمانہ اور اصطلاحات کی تبدیلیوں کی وجہ سے موجودہ دور میں مولانا قاسم نانوتوی کی تصانیف عوام کے لئے قدرے مشکل ہے لیکن ان تمام تصانیف کو سہل اور آسان بنانے کے علاوہ نئی تحقیق و تخریج کے ساتھ منظر عام پر لانے کا کام شروع ہوگیا ہے۔ حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) نے امام محمد قاسم نانوتوی کی تصانیف کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، آسان، دقیق اور ادق (مشکل ترین)۔ حضرت مفتی صاحب نے امام محمد قاسم نانوتوی کی کُل چھتیس کتابیں شمار کرائی ہے۔ مفتی صاحب نے ایک جگہ شاہ ولی اللہ اور مولانا قاسم نانوتوی کی تصانیف کے متعلق لکھا ہے "حضرت شاہ صاحبؒ کے استدلالات زیادہ تر نظری اور عقلی ہیں مگر حضرت نانوتوی دقیق اور خالص عقلی مسائل کو بھی محسوس بناکر رکھ دیتے ہیں، اور یہ آپ کی تصنیفات کی وہ خصوصیت ہے جو کہیں نظر نہیں آتی ہے۔ اور یہ بات دونوں بزرگوں کے علوم و معارف میں مشترک ہے کہ وہ زیادہ تر وہبی ہوتے ہیں، کتابی کم ہوتے ہیں۔ اللہ پاک جل شانہ نے آپ دونوں بزرگوں کو علم لدنی سے حصہ وافر عنایت فرمایا ہے۔ آگر چل کر مولانا یعقوب نانوتوی (اولین صدر مدرس دارالعلوم دیوبند) کے حوالے سے لکھتے ہیں "حضرت والا کے دماغ کی ساخت ہی خلقی طور پر حکیمانہ واقع ہوئی تھی۔ اس لئے بلا اختیار ان کے دماغ میں، حکمت ہی کی باتیں آسکتی تھیں، جس سے ان کے یہاں جزوی مسائل کا کلام بھی کلیاتی رنگ اختیار کرکے ایک کلیہ بن جاتا تھا۔ اور اس سے وہی ایک جزیہ نہیں، بلکہ اس جیسے سینکڑوں جزئیے حل ہوجاتے تھے، اور اوپر سے ان کا وہ کلی اصول کل جاتا تھا، جس سے اس جزیہ کا نشو و نما ہوا ہے”۔ ایک جگہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب (سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند) کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں”حضرت حجۃ الاسلام کے یہاں شرعی واقعات بھی اصول عقلیہ سے باہر نہیں ہیں۔ آپ کا خدا داد علم اور فراست اخبار اور واقعات کی عقلی لمیات میں بھی اسی طرح کام کرتا ہے، جس طرح وہ احکام اور اوامر و نواہی کی حقائق بیانی میں کار فرما ہے، چنانچہ آپ کے نزدیک بیت اللہ عقلا بھی اسی محل میں ہونا چاہئے تھا جس میں وہ واقع ہے، نیز اس کا اول بیت ہونا بھی عقلی ہے، حتی کہ مسجد اقصی کی تاسیس عقلا بھی کعبہ کے چالیس سال کے بعد ہی ہونی چاہئے تھی اور اس سے عجیب تر یہ کہ کعبہ اور اقصی کا درمیانی فاصلہ جو تقریبا ڈھائی تین سو میل ہے یہ بھی آپ کے اصول پر عقلی ہےمحض تاریخی یا جغرافیائی نہیں ہے”۔(بحوالہ،کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے)

 اور ان شاء اللہ جلد ہی امام محمد قاسم نانوتوی کی تمام تصانیف سہل انداز میں عوام کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گی۔امام محمد قاسم نانوتوی کی بعض تصانیف یہ ہیں: 

تحذیر الناس

آب حیات

قبلہ نما

حجۃ الاسلام

انتصار الاسلام

ہدیۃ الشیعہ

اجوبہ اربعین

تقریر دلپزیر

تصفیہ العقائد

تحفہ لحمیہ

مباحثہ شاہ جہاں پور (علمی مناظرہ)

سلطنت مغلیہ کے سقوط کے بعد، مسلمانوں پر کئی طرح کے حملے ہوئے۔ انگریز حکومت کے وظیفہ خور پادریوں نیز پنڈتوں نے یکبارگی مسلمانوں کے عقائد پر چہار جانب سے حملہ کیا۔ ایسے وقت میں مولانا قاسم نانوتوی کی ذات گرامی نے ہندوستانی مسلمانوں کو چہار جانب سے محفوظ رکھنے کیلئے مختلف لائحہ عمل تیار کیا، اور بیک وقت ہر محاذ پر بذات خود آہنی دیوار بن کر مسلمانوں کے لئے کھڑے ہوگئے۔ مولانا قاسم نانوتوی نے کئی مناظرے کئے ہیں۔ کبھی پنڈتوں سے تو کبھی پادریوں سے۔ اخیر میں شاہ جہاں پور کے مناظرہ (میلہ خدا شناسی) جس میں ہر سہ مذاہب کے نمائندوں کو بیک وقت ایک ہی اسٹیج پر اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔ یہ ایسا مناظرہ تھا جس نے مسلمانوں میں اعتماد بحال کیا اور انہیں یہ یقین دلایا کہ ہند میں ملت کے نگہبان موجود ہیں۔ میلہ خدا شناسی کی مکمل روداد (مباحثہ شاہ جہاں پور) میں موجود ہے۔ یہ دوسرا موقع تھا جب انگریزوں کو مناظرے میں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس سے قبل مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے آگرہ میں عالم عیسائیت کے سب سے بڑے مبلغ اور پادری  فنڈر کو راتوں رات میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔

جس زمانہ میں انگریزی مشنریز مکمل تیاری کے ساتھ صرف ہندوستان میں ہی بیٹھ کر نہیں، بلکہ سات سمندر پار بیٹھے لوگوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی زبوں حالی اور بربادی کے منصوبے بنا رہی تھی، مسلمانوں کو قرآن و حدیث سے دور کرنے کی سعی کی جارہی تھی، اسی زمانہ میں ان منصوبوں کے توڑ کا کام دیوبند میں بوریہ نشیں مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے رفقاء کار انجام دے رہےتھے۔ ایک جانب عیسائیت کی ریشہ دوانیاں تھی تو دوسری جانب پنڈت دیانند سرسوتی بھی وقفہ وقفہ سے مسائل پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ مولانا قاسم نانوتوی نے بارہا پنڈت دیانند سرسوتی کو مناظرہ کی دعوت دی لیکن وہ شکست اور ہزیمت کے خوف سے کبھی سامنے نہیں آیا۔

اندرونی خلفشار

مغلیہ سلطنت کے اخیر زمانے میں شیعوں کا دبدبہ قائم ہوچکا تھا۔ خصوصاً میرٹھ، مظفر نگر، سہارنپور کے علاقوں میں سادات بارہہ کے تسلط اور اثر و رسوخ کی وجہ سے شیعیت کا خطرہ بھی سر پر منڈلانے لگا تھا۔ مولانا قاسم  نانوتوی کے شیعوں کے ساتھ کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جو کتابوں میں موجود ہے۔ ایک مرتبہ چند شیعوں نے آپ کا تمسخر اڑانے کیلئے زندہ شخص کا جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔ ان کے منصوبے کے اعتبار سے جب جنازہ کی دو تکبیرات ہوجائے تو جنازہ سے بندہ اٹھ کھڑا ہو۔ اس سے یقینا آپ کو سبکی ہوگی۔ آپ نے ابتداء میں منع کردیا اور عقائد کے اختلاف کو وجہ بتاتے ہوئے معذرت چاہی، لیکن شیعوں کے گروپ کی جانب سے جب اصرار زیادہ ہوا تو مولانا قاسم نانوتوی غصہ کی حالت میں جنازہ کے سامنے تشریف لائے، نماز شروع ہوئی۔ دو تکبیر کے بعد جنازہ میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ پیچھے سے لوگوں نے جنازہ کو منصوبہ کے مطابق اٹھنے کا اشارہ کیا لیکن جنازہ میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ نے غصہ کی حالت میں فرمایا اب یہ قیامت کی صبح ہی اٹھے گا۔ جب جنازہ دیکھا گیا تو وہ مر چکا تھا۔ اس واقعہ کا کافی گہرا اثر ہوا۔ کئی شیعہ تائب ہوکر دین اسلام کے سچے پیروکار بن گئے۔ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جن سنیوں کے اذہان میں کچھ شکوک وشبہات پیدا ہوئے تھے ان کے عقائد میں پختگی پیدا ہوگئی۔

دارالعلوم دیوبند کا قیام

 ان شورشوں کے درمیان مولانا قاسم نانوتوی نے چند مخلصین کے ساتھ مل کر 1866 میں دیوبند میں ایک مدرسہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسلامی دور حکومت میں عموما دینی مدارس اور تعلیم وتعلم کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی تھی۔ اہل علم اپنے معاش سے بے فکر ہوکر دینی خدمات میں لگے رہتے تھے، لیکن سلطنت مغلیہ کے زوال کے ساتھ علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت کا یہ طریقہ بند ہوگیا تھا۔ اس لئے نئے نہج پر دارالعلوم کے قیام کے لئے علاقے کے بڑے بزرگوں کی سرپرستی حاصل کی گئی اور بے سرو سامانی کے عالم میں مکتب قائم کیاگیا۔ اخلاص و عمل کے پیکر اور مخلصین کی جماعت ہمہ تن اس مکتب کو کامیاب بنانے میں لگ گئی۔ جس طرز کو اپناتے ہوئے دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا تھا، وہ بے نظیر تھا۔ اس سے قبل مدارس کا ایسا تصور موجود نہیں تھا۔ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ نے اسے عوام الناس کے ذریعہ چلانے کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے باضابطہ اصول ہشتگانہ متعین کیا گیا۔ آج بھی بحمد اللہ ان اصول ہشتگانہ کی اہمیت و افادیت برقرار ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی کا لگایا ہوا یہ پھل ایسا ثمر آور درخت کی شکل میں امت کے سامنے آیا کہ آج عالم اسلام میں جو فیوض و برکات، جو علمی کارنامے ان مدارس سے وجود میں آئے ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ خصوصاً برصغیر میں جو اسلامی تعلیمات، اسلامی شناخت موجود ہے اس کا سہرا دارالعلوم کے سر جاتا ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی نے بذات خود چار دینی مدارس کی بنیاد رکھی تھی۔ دارالعلوم دیوبند(2) مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد(3) مدرسہ منبع العلوم گلاوٹھی (4) مدرسہ جامع مسجد امروہہ۔  ان چار مدارس میں دارالعلوم دیوبند کو یہ خصوصیت حاصل رہی کہ مولانا قاسم نانوتوی بذات خود اس ادارہ سے وابستہ رہے اور درس و تدریس کے علاوہ تادم حیات دیوبند میں رہ کر اس کی سرپرستی فرمائی ہے۔

مولانا قاسم نانوتوی کا نظریہ تعلیم

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد انگریزوں نے ہندوستان کے مروجہ نظام تعلیم کو بدل دیا اور سرکاری سطح پر ملک کے مختلف علاقوں میں انگریزی تعلیم کے ادارے قائم کئے گئے۔ ان اداروں کے قیام کی وجہ سے دینی تعلیم پر کاری ضرب پڑی، اب مسلمانوں کے پاس دینی تعلیم کے حصول کا ذریعہ باقی نہیں رہا تھا۔ ایسی صورت میں دینی علوم کی حفاظت و صیانت اور اشاعت و تبلیغ کے عظیم مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا قاسم نانوتوی اور آپ کے رفقاء کار نے مدرسہ کے قیام کی جانب توجہ دی اور اس میں خصوصیت کے ساتھ ان علوم کو شامل نصاب کیا گیا جو دینی علوم کے معاون و مددگار ہوں۔ ان مدارس کے قیام سے دینی علوم کی حفاظت کا کام بحمد اللہ آج تک جاری و ساری ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی کا نظریہ تعلیم یہ تھا کہ انگریزی تعلیم کے لئے بے شمار ادارے قائم ہیں لیکن ہماری دینی تعلیم کے لئے ہمیں اپنے ادارے خود قائم کرنے ہوں گے تاکہ مسلمانوں میں ایک جماعت ایسی ہو جو دین اسلام کی صحیح تصویر سے عوام کو روشناس کرائے اور نت نئے جنم لینے والے فتنوں کا سد باب کریں۔ مولانا قاسم نانوتوی نے 9 جنوری 1874 کو دارالعلوم کے جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر فرمایا: "دارالعلوم کے نصاب میں دینی علوم کے ساتھ جو علوم عقلی و نقلی رکھے گئے ہیں تو اس کا مقصد ایک طرف تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے وہ علوم جو حکومت کی بے توجہی سے زوال پذیر ہیں وہ محفوظ ہوجائیں اور دوسری طرف ان کے پڑھنے سے طلبہ میں علوم جدیدہ حاصل کرنے کی استعداد و صلاحیت پیدا ہوجائے۔ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے کے بعد اگر طلبہ سرکاری مدارس میں جاکر علوم جدیدہ حاصل کریں تو ان کے کمال میں اس سے بہت اضافہ ہوگا”۔ مولانا قاسم نانوتوی کا منشا یہ تھا کہ دینی علوم میں دسترس حاصل کرنے کے بعد علوم جدیدہ کے حصول کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ دنیاوی مسائل اس سے متعلق ہیں۔  مولانا قاسم نانوتوی نے دارالعلوم دیوبند کے نصاب تعلیم میں علوم جدیدہ کو شامل کیوں نہیں فرمایا،اس کا جواب مولانا قاسم نانوتوی کے 1874 والے بیان میں موجود ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مناظر احسن گیلانی سوانح قاسمی (سوانح مولانا قاسم نانوتوی) میں لکھتے ہیں: "سب سے پہلی بات تو صرف اس سوال سے یہ سمجھ میں آتی ہے کہ جدید علوم و فنون کے سوال سے جو یہ باور کرلیا گیا ہے یا ا ب بھی باور کرایا جارہا ہے کہ ہمارے علماء قطعا خالی الذہن تھے، افترا ء یا اتہام کے سوا وہ کچھ نہیں ہے۔ کم از کم دیوبندی حلقہ کے علماء کی ذمہ دار ہستیوں کا دامن تنگ خیالی اور جمود کے اس داغ سے پاک تھا۔ اس کے لئے تو یہی کافی ہے کہ اس طبقہ کے سب سے بڑے پیشوا امام کبیر (مولانا قاسم نانوتوی) کے سامنے یہی نہیں کہ صرف سوال ہی تھا، بلکہ جو جواب اس سوال کا دیا گیا ہے اسے سنئے اور انصاف سے کہئے کہ تقریبا ایک صدی پہلے حضرت والا (مولانا قاسم نانوتوی) کا ذہن جن اشتباہی پہلوؤں کو چاک کرکے نتیجہ پہنچ چکا تھا کیا اس وقت فراخ چشمیوں کے مدعیوں کا گروہ وہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے؟ مولانا قاسم نانوتوی علوم جدیدہ کو علوم قدیمہ سے کس طرح جوڑنا چاہتے تھے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں: "سیدنا الام الکبیر (مولانا قاسم نانوتوی) قدیم علوم کا جدید علوم سے جو رشتہ قائم کرنا چاہتے تھے، حضرت والا کے منشا کے مطابق اگر یہ رشتہ قائم ہوجاتا ، تو بجائے اس مردہ فلسفہ کے یورپ کے "جدید فلسفہ”کے مطالعہ کا موقع ہمارے علماء کے لئے بآسانی میسر آسکتا تھا، اور اس وقت بقول سیدنا الامام الکبیر (مولانا قاسم نانوتوی) دنیا دیکھ سکتی تھی کہ علماء کی علمی استعداد کیسی ہوتی ہے”۔  مولانا قاسم نانوتوی کو اللہ تعالی نے ایمانی فراست سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ فراست ایمانی سے آپ وہ دیکھ سکتے تھے اور محسوس کرسکتے تھے جو عام دانشوران کی عقل و فہم سے ماورا اور بعید تھا۔ آپ نے مدرسہ کا نصاب دینی علوم کی حفاظت و صیانت اور ترویج و اشاعت کی خاطر کیا تھا اور اس باب میں اللہ تعالی نے آپ کو کامیابی نصیب فرمائی اور آپ کا لگایا ہوا پودا آج شجر سایہ دار بن کر عالم اسلام کو دینی علوم و معارف سے مستفید کررہا ہے۔ انگریزی زبان کے متعلق مولانا قاسم نانوتوی کا نظریہ کیا تھا اسے اس واقعہ سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ جب آپ حج کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو دوران سفر جہاز کے انگریز کپتان کے ذریعہ  مذہبی امور میں سوالات کئے گئے، جس کا جواب مولانا قاسم نانوتوی نے "ترجمان” کے ذریعہ دیا تھا۔ کپتان آپ کے جواب سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا تھا، اس کپتان میں ہندوستان واپسی پر آپ سے ملاقات کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن مولانا قاسم نانوتوی کو احساس ہوا کہ ترجمان کے ذریعہ میری بات کما حقہ کپتان تک نہیں پہنچ سکی ہے ، لہذا آپ نے عزم کرلیا کہ حج سے واپسی پر انگریزی زبان سیکھوں گا۔ لیکن افسوس کہ زندگی نے وفا نہیں کی ورنہ یورپ کے فلسفیوں کو معلوم ہوتا کہ اصل فلسفہ تو وہ ہے جسے مولانا قاسم نانوتوی لئے بیٹھے ہیں۔ 

مولانا قاسم نانوتوی کی وفات

 15 اپریل 1880 میں آپ دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ 1294 ہجری میں آپ نے تیسرا اور آخری حج کیا تھا، حج سے واپسی میں سفر کے دوران طبیعت میں اضمحلال پیدا ہوا اور پھر دوبارہ طبیعت سنبھل نہیں سکی۔  اس قلیل مدت میں آپ نے وہ کارہائے نمایاں اور تجدیدی کام انجام دئیے ہیں، جو صدیوں میں بمشکل انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ آپ کے مربی سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فرمایا کرتے تھے کہ مولوی قاسم جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک تنہا فرد جو اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتا تھا، جس کے علوم و فنون اور سلوک و معرفت کی روشنی نے برصغیر کے مسلمانوں کو جینے کا حوصلہ دیا تھا، جس کے کارنامے آج تک تابندہ ہیں اور جس کے معارف سے فیض حاصل کرنے والے آج بھی اس روئے زمین پر بے حساب ہیں۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

 

 

Related Posts

34 thoughts on “مولانا قاسم نانوتوی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

  1. ماشاءاللہ بہت عمدہ۔
    بارگاہِ صمدیت میں دستِ دراز کرتے ہوئے ،دعا گو ہوں کہ بارہِ الہٰ آپ کے قلم میں مزید جولانی عطاء فرمائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے