خواجہ معین الدین چشتی اجمیری: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

خواجہ معین الدین چشتی اجمیری

حضرت شیخ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ المعروف (خواجہ غریب نواز) ہندوستان کی سرزمین کے ان پاکباز اولیاء کرام میں سے ہیں، جنہوں نے ظلم و استبداد کے خلاف محبت اور پیار کے پیغام سے انسانیت کا درس دیا ہے۔ آپ کا حلقہ ادارت سرحدوں سے پرے ہیں اور آپ کے دربار میں حاضری دینے والے مذہبی عصبیت سے ماوراء ہیں۔ آپ کے دربار میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے افراد حصول برکت کیلئے تشریف لاتے ہیں۔ آپ کی شخصیت آپ کے زمانہ سے ہی مرجع خلائق رہی ہے اور آج بھی آپ عالمی طور پر مرجع الخلائق ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ آپ کے اخلاق کریمانہ اور اسوہ حسنہ سے متاثر ہوکر نوے لاکھ کے قریب انسان حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور ساری زندگی اس پر قائم رہتے ہوئے تبلیغ اسلام کے فرائض انجام دیئے ہیں۔ آپ کی ہستی، وہ مبارک ہستی ہے جس نے ہزاروں کوس دور سے آکر یہاں ہند میں گنگا جمنی تہذیب کی بنیاد رکھی، صلہ رحمی کا درس دیا اور اخوت و بھائی چارگی کے پیغام کو عام کیا ۔خواجہ معین الدین چشتی  نے کبھی کسی کو برا بھلا نہیں کہا اور نہ ہی کسی سے نفرت کی بلکہ نفرت کے مقابلے میں پیغام محبت عام کیا اور لوگوں کو حسن سلوک کی تعلیم دی جس کا اثر یہ ہوا کہ جو لوگ اسلام لائے وہ تو محبت کرتے ہی تھے لیکن جن کی قسمت میں اسلام نہیں تھا وہ بھی آپ سے عقیدت و محبت رکھتے تھے جو آج تک جاری ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے پیار و محبت، اخوت و بھائی چارگی اور ہمدردی و غمگساری کے جو دیپ جلائے تھے آج بھی ان کی روشنی سے نوع انسانی مستفید ہو رہی ہے۔

ولادت باسعادت

خواجہ معین الدین چشتی کی پیدائش باتفاق مؤرخین14 رجب 537 ہجری کو ایران کے مشہور قصبہ سیتان کے سنجر نامی گاؤں میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد ماجد کا نام غیاث الدین سنجری تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب والد ماجد کی جانب سے تیرھویں پشت میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اور والدہ ام الورع بی بی ماہ نور کا سلسلہ گیارھویں پشت میں حضرت حسن رضی اللہ سے جاملتا ہے۔ آپ سادات گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ذہانت و فطانت اور زہد و تقوی کا مادہ روز اول سے آپ کی ذات میں موجود تھا۔ جب خواجہ معین الدین چشتی اجمیری عمر کی پندرھویں دہلیز پر تھے، آپ کے سر سے والد محترم کا سایہ اٹھ گیا۔ وراثت میں آپ کے حصہ میں ایک باغ آیا، جسے آپ اپنی گزر اوقات کے لئے استعمال کرتے تھے۔ خواجہ معین الدین چشتی  کا بچپن نہایت پرآشوب زمانے میں بسر ہوا تھا، تاتاریوں نے مسلمانوں کے خون سے روئے زمین کو سرخ بنادیا تھا، خون ریزی اور قتل و غارت گری اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔ بلا امتیاز، عوام و خواص، وزراء اور رعایا، مشائخ و صوفیاء کرام سب کے سب تہہ تیغ کردیئے گئے تھے۔ ہر جانب آتش فساد کے شرارے پھوٹ رہے تھے۔ نفرت و عداوت اور تخت و تاج کی ہوس نے انسانی نشیمن کو جلا کر خاکستر کردیا تھا۔ ان حالات نے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری پر گہرا اثر چھوڑا اور دنیا کی بے ثباتی اور بے وقعتی آپ کے ذہن و دماغ میں رچ بس گئی تھی۔ اسی زمانہ میں خواجہ معین الدین چشتی کی ملاقات مشہور شیخ ابراہیم قندوزی ہوئی، آپ پہلے سے ہی اس عارضی دنیا سے دل گرفتہ تھے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے جیتی جاگتی آنکھوں سے ہنستے بستے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل ہوتے دیکھا تھا، ان کی صحبت نے اس کیفیت کو اور بڑھادیا۔ آپ اپنا سب کچھ راہ خدا میں خرچ کرکے حصول علم کے لئے روانہ ہوگئے۔

تحصیل علم کا شوق

خواجہ معین الدین چشتی اجمیری اپنے علاقہ کو خیرباد کہہ کر سمرقند کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ یہاں پہنچ کر آپ نے سب سے پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ تکمیل قرآن کے بعد سمرقند کے جید علماء و مشائخ کی تربیت میں رہ کر دینی علوم میں استعداد بہم پہنچائی۔ سمرقند میں حصول علم کے بعد، مزید کی تلاش میں عراق کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ عراق کے سفر میں خواجہ معین الدین چشتی کی ملاقات خواجہ عثمان ہارونی  سے ہوئی۔ خواجہ عثمان ہارونی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ پھر انہیں کے ہوکر رہ گئے۔ تقریبا بیس سال تک خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں اس طرح مصروف خدمت رہے کہ سفر و حضر میں بھی ہمیشہ ساتھ رہا کرتے تھے۔ بیس سال کے طویل عرصہ بعد شیخ کی اجازت سے خواجہ معین الدین چشتی نے سلوک و معرفت کے لئے دیگر علاقوں کا رخ کیا۔ یہ اس زمانے کا عام رواج تھا کہ تصوف و سلوک کے متلاشی اپنے شیوخ کی خدمت میں کئی دہائیاں گزار دیا کرتے تھے، جب وہ زہد و ریاضت کی بھٹی میں تپ کر کندن ہوجاتے پھر انہیں خلق خدا کی تعلیم و تربیت کی اجازت دی جاتی تھی۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے تقریبا بیس سالوں تک اپنے آپ کو عبادت و ریاضت کی بھٹی میں تپایا پھر کہیں جاکر ایسا کندن  بننا نصیب ہوا جس نے ہند کی سرزمین کو جگمگا دیا۔ 

خواجہ معین الدین چشتی کی علمی تلاش جاری رہی اور آپ نے ملکوں ملکوں ہوتے ہوئے، بخارا، سمر قند، نیشاپور، بلخ، عراق، اصفہان، غزنی وغیرہ کے اکابرین عظام سے تعلقات استوار کئے اور ان سے روحانی فیض  کسب کیا ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی مستقل روحانیت کی تلاش میں سرگرداں رہے، جس کی بناء پر آپ کو ولایت کا اعلی مقام نصیب ہوا تھا۔ ان اسفار کے درمیان آپ کی ملاقات شیخ المشائخ شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی۔ شیخ عبد القادر جیلانی کی روحانی تربیت نے آپ کو چمکتا دمکتا ہیرا بنا دیا، یہ ملاقات گرچہ زیادہ طویل نہیں ہے لیکن اس کے اثرات خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ اس مختصر ملاقات نے آپ کے قلوب کو منور و مجلی کردیا۔ علاوہ ازیں شیخ نجیب الدین ابو الخیر سہروردی، شیخ ابوسعید تبریزی، شیخ عبد الوحید غزنوی، شیخ نجم الدین کبریٰ وغیرہ سے بھی روحانی فیض کسب کیا ہے۔خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کو وقت کے کبار علماء اور مشائخ عظام سے فیض حاصل کرنے کا بھر پور موقع نصیب ہوا تھا۔ 

اکابرین عظام اور اولیاء کرام کی مستقل صحبت نے خواجہ معین الدین چشتی کے قلوب کو منور و مجلی کردیا تھا۔ روحانیت کا یہ حسین سنگم شدہ شدہ ہندوستان کی سرزمین پر قدم رنجہ ہوا، سب سے پہلے آپ لاہور تشریف لائے، یہاں شیخ علی ہجویری کے مزار پر حاضری دی اور کچھ ایام ان اطراف میں گزارا۔ شیخ ابو یوسف ہمدانی اور شیخ ابو عبداللہ انصاری کے مزارات کی زیارت فرمائی۔ لاہور آپ کی منزل نہیں تھی، یہاں سے آپ نے رخت سفر باندھا اور دہلی تشریف لائیں۔ یہاں کا ماحول دیکھنے کے بعد آپ دہلی سے قریب اجمیر تشریف لے گئے۔ یہ وہ جگہ تھی، جسے اللہ ربّ العزت نے آپ کیلئے منتخب فرمایا تھا۔

خواجہ معین الدین چشتی اجمیر میں

اجمیر اس زمانے میں راجپوتانہ سلطنت کا دارالسلطنت تھا، ملک بھر کے ہندو اپنے مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لئے اجمیر آیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں سلطنت کی باگ ڈور پرتھوی راج چوہان کے ہاتھوں میں تھی۔ ایک ایسے علاقہ میں قیام کا قصد، جو پہلے سے ہی مذہبی شناخت رکھتا ہو، آسان نہیں تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے لئے مصائب کے انبار لگے ہوئے تھے۔ لیکن اللہ کی مخلوق کو اللہ کے راستے پر لانے کے لئے آپ نے تمام تکالیف کو پس پشت ڈال کر اپنے دعوتی کام کو جاری رکھا۔ اجمیر میں قیام کے دوران راجہ پرتھوی راج اور رائے پتھورا کو اسلام کی دعوت پیش کی۔ جادوگروں کے مقابلہ کی نوبت آئی۔ پینے کے لئے پانی بند کردیا گیا تو رانا ساگر کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں اسلام کے اخلاقی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ اسلام کے آفاقی پیغام کو عوام تک پہنچانے کیلئے آپ نے خدمت خلق کا وہ نمونہ پیش کیا اور ایسی بےنظیر مثال قائم فرمائی کہ دنیا آج تک انہیں (غریب نواز) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ آپ کے اخلاق حسنہ اور بے لوث خدمات نے غیروں کو آپ کا ایسا گرویدہ بنا یا کہ لوگ جوق در جوق آپ کے ہاتھ پر بیعت کرکے دامن اسلام سے وابستہ ہونے لگے تھے۔ لاکھوں کی تعداد نے آپ سے کسب فیض کیا اور دنیاوی تعیش کو چھوڑ کر مالک حقیقی کی یاد اور دین حنیف کی ترویج و اشاعت میں گزار دیا۔ یہ اظہر من الشمس ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی محنت اور توجہات کے صلہ میں جس قدر تیزی سے اسلام کی نشر و اشاعت ہوئی ہے، ہندوستان میں اس کی مثال نادر و نایاب ہے۔ 

خواجہ معین الدین چشتی اور اتباع سنت کا اہتمام

شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی نے اپنی کتاب "مشائخ چشت” میں نقل فرمایا ہے کہ ہمارے زمانے میں عموما نام نہاد صوفیوں کی زندگی، سنت نبوی اور اتباع سنت سے خالی ہوتی ہے۔ اتباع سنت کے بغیر ولایت اور بزرگی کا تصور وہم کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ جب تک رسول اللہ ﷺ کا اسوہ زندگی کا جز نہ بنے اور آپ ﷺ کی زندگی مشعل راہ نہ ہو، ولایت تو کجا،  انسان سیدھا راستہ بھی نہیں پاسکتا ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ ان یاران باصفا میں سے تھے، جن کی زندگی سنت نبوی ﷺ سے معمور تھی۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے متعلق لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آپ وضو کے دوران انگلیوں میں خلال کرنا بھول گئے، غیب سے آواز آئی، محبت رسول کا دعوی اور ترک سنت؟ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری فورا متنبہ ہوئے اور توبہ کی۔ اگر کبھی آپ آگ دیکھ لیتے تو بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا، مبادا  قیامت کے روز اس کی سزا نہ ہو۔

 خواجہ معین الدین چشتی کی سخاوت 

خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ حد درجہ فیاض اور سخی تھے۔ آپ کے خاص مرید خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ فرماتے ہیں کہ میں تقریبا بیس سالوں تک آپ کی خدمت میں رہا، میں نے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ واپس جاتے نہیں دیکھا ہے۔ جب کوئی سائل آتا، آپ مصلی کے نیچے ہاتھ ڈال کر جو کچھ نکلتا اس سائل کو مرحمت فرمادیا کرتے تھے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث پر عمل کا ایک نمونہ ہے۔ اہل دل اور اللہ والوں کی شان یہی رہی ہے کہ وہ ہمیشہ غریبوں اور محتاجوں کی داد رسی کے لئے خود کو تیار رکھتے تھے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا یہ عمل ایک جانب تو مذہب اسلام پر عملی نمونہ ہے اور دوسری جانب غیروں کی تالیف کا بھی بہترین ذریعہ تھا۔

سلسلہ چشتیہ کے نامور بزرگ

خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے مایہ ناز شاگرد اور مشہور زمانہ بزرگ شیخ قطب الدین بختیار کاکی  کو اپنا روحانی جانشین مقرر کیا، اور اپنے علوم کی نشر و اشاعت کیلئے سیر و سیاحت کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اس وقت تک چشتیہ سلسلہ تقریباً اجمیر اور اطراف کے علاقوں میں منحصر تھا، شیخ قطب الدین بختیار کاکی نے دہلی کو اپنا مسکن بنایا اور یہاں سے اپنے شیخ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے علوم و معارف اور روحانی فیض کی اشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ آپ کی بے لوث خدمت نے شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ جیسا گوہر نایاب آپ کی جھولی میں ڈال دیا۔ جنہوں نے روحانی معارف کو ایک نئی سمت عطا فرمائی۔

شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ  نے اپنے شیخ سے حاصل کردہ علوم و معارف کو کما حقہ محفوظ رکھا اور عوام کو اس سے مستفید کرتے رہے۔ آپ کا حلقہ ادارت بسرعت چہار جانب پھیلتا چلا گیا۔ آپ کی مخلصانہ کاوش اور رحمت الٰہی نے آپ کو شیخ نظام الدین اولیاء  جیسا روحانی فرزند عطاء فرمایا۔ جنہوں نے اکناف عالم میں اپنے شیخ اور اس کڑی کے مبتدی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے علمی ورثہ کو ہمیشہ ہمیش کیلئے زندہ و جاوید بنا دیا۔

شاہان مملکت خواجہ معین الدین چشتی  کے دربار میں

خواجہ معین الدین چشتی کی تعلیم و تربیت نے گنگا جمنی تہذیب کی بے مثال روایت قائم کی، جس کی وجہ سے آپ کی ذات گرامی بالاتفاق اور مذہبی قیود سے پرے ہر کسی کیلیے باعث برکت بن گئی۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ بنانے کا شرف دہلی کے نامور حکمراں محمد بن تغلق کو نصیب ہوا، بعد ازاں مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اسی سے متصل وسیع و عریض خطہ پر اکبری مسجد کی تعمیر فرمائی تاکہ علم و عمل اور زہد و ورع کی اس عظیم شخصیت کے دامن ادارت سے وابستہ افراد بآسانی ان کے جوار میں یاد الٰہی میں مصروف رہیں۔ اجمیر شریف کا عظیم الشان (نظام دروازہ) بنانے کا شرف، حیدرآباد کے نظام میر عثمان علی خان کے حصہ میں آیا۔ (بلند دروازہ) کی تعمیر سلطان محمود خلجی کے حکم پر ہوئی۔ مغل سلطنت کے عظیم ترین شہنشاہ "اکبر” تقریباً ہر سال مع اہلیہ زیارت کیلئے تشریف لاتے اور یہاں کے فضائل و برکات سے مستفید ہوتے۔ یہ ایک طویل سلسلہ ہے جس میں شاہان ہند نے اپنی عقیدتوں کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا ہے۔ مغل سلطنت کے بعد برطانوی راج میں بھی آپ کی شان و شوکت برقرار رہی اور آپ کے معتقدین گوشہائے عالم سے اپنی عقیدتوں کا اظہار کرنے کیلئے تشریف لاتے رہے ہیں۔ آزاد ہندوستان میں ہر سال ماہ رجب میں (6 رجب المرجب یوم وفات ہے) عرس کے موقع پر حکومت ہند کی جانب سے تبرکات کے حصول کی نیت سے چادر پیش کرنے کی روایت برقرار ہے۔ علاوہ ازیں مختلف ریاستوں کی جانب سے بھی چادر پیش کی جاتی ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوبامہ کی جانب سے حصول برکت کیلئے چادر پیش کی گئی تھی۔ اکناف عالم سے ہر سال عرس کے موقع پر مختلف ممالک کے وفود شرکت کرتے ہیں۔ کئی ممالک کے سربراہان مملکت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضری دینے کیلئے تشریف لاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ 

ہمارے ملک ہندوستان کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے، مختلف کاروبار اور پیشہ سے منسلک افراد برکت کے حصول کی خاطر چادر پیش کرتے ہیں۔ یہ رواج آج تک بدستور جاری ہے۔ بڑے بڑے نامی گرامی اشخاص اس درویش کی چوکھٹ پر حاضری دینے کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کو اللہ نے یہ مقام و مرتبہ اور یہ قبولیت عام و خاص اتباع سنت اور احیاء دین کے صدقہ میں عطا فرمایا ہے۔ آج ہم خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے نام لیوا بنے ہوئے ہیں، لیکن افسوس کہ ہماری زندگی ان کی تعلیم کے بالکل برعکس ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی اسی دین مستقیم کو اپنی زندگی کے لئے راہ عمل بنائیں جس پر چل کر وہ فلاح و بہبود کو پہنچے ہیں۔ بدعات و خرافات اور منہیات سے اجتناب کرتے ہوئے ان کی تعلیمات کو عام کرنے کی سعی کریں۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی زندگی قرآن و حدیث کے مطابق تھی، آپ جیسی شخصیات کے لیے کہا گیا ہے "جو اللّٰہ کا ہوگیا اللّٰہ اس کا ہوگیا”۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے حقیقی محبت کا تقاضا ہے کہ آج ہم بھی ان کی طرح دین اسلام کی تبلیغ میں مصروف رہیں اور اپنی زندگی سنت رسول کے مطابق گزاریں۔

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو بدعات و خرافات سے محفوظ رکھے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور سنت نبوی ﷺ کا جذبہ ہمارے قلوب میں پیدا فرمائے۔ آمین۔

Related Posts

One thought on “خواجہ معین الدین چشتی اجمیری: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے