قربانی کی فضیلت و اہمیت

قربانی کی فضیلت و اہمیت

اسعد اقبال قاسمی

استاذ حدیث مدرسہ اشرف العلوم شالوک پاڑہ ہاوڑہ

قربانی کیا ہے؟ قربانی تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے، سنت ابراہیمی کا احیاء ہے، اللہ رب العزت کا اس کی عظیم نعمت پر شکر بجا لانا ہے، حلاوت ایمان کی چاشنی ہے، ایثار و جاں نثاری کی انتہا ہے، عشق و محبت کی معراج ہے۔ قربانی صرف ایک جانور کو قربان کرنے کا نام نہیں ہے؛ بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دنیا کی سب سے پسندیدہ اور محبوب شئی کو قربان کرنے اور اپنی خواہشات اور مرضیات کو رضاء الہی کے آگے نچھاور کرنے کا نام ہے۔ قربانی کی فضیلت قرآن و حدیث میں کئی جگہ مذکور ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قربانی مذہب اسلام کا اہم جز ہے اور نبی کریم ﷺ نے اس پر مواظبت کیا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمارے اندر بھی وہی کیفیت، وہی جذبہ اور محبت و عقیدت پیدا ہو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اندر تھی اور جس کا انہوں نے عملی نمونہ پیش کیا۔ اور حالات جیسے بھی ہوں جس طرح کے بھی ہوں، مخالف ہوں یا موافق، ہمیشہ اللہ کے دین کے لیے قربانی پیش کرنے کو تیار رہنا ہے، چاہے اس کے لیے اہل و عیال، اعزہ واقارب کو خیرباد کہنا پڑے۔ موجودہ حالات میں اپنے دین و ایمان اور شعائر اسلام کی حفاظت اور دعوت و تبلیغ کے لیے اسی طرح کی قربانی کی ضرورت ہے۔لیکن یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالی جب اپنے محبوب بندوں کو آزماتا ہے اور ان سے قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے تو بدلہ میں انہیں وہ درجات عطا فرماتا ہے جس کا احاطہ عقل انسانی کرنے سے قاصر ہے۔

قربانی فضیلت و اہمیت قرآن مجید میں

قربانی شعائر اسلام میں سے ہے، یعنی جن کے ذریعہ اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْہَا خَیْرٌ ٭ۖ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا فَکُلُوْا مِنْہَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ” (الحج 36) اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کے شعائر ( یعنی احکام الٰہی کو ظاہر کرنے والی یادگاروں ) میں شامل کردیا ہے ، اس میں تمہاری بھلائی ہے ؛ چنانچہ کھڑا کرکے تم ان پر اللہ کا نام لو ، پھر جب وہ کروٹ کے بَل گِر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور نہ مانگنے والوں کو بھی کھلاؤ اور مانگنے والوں کو بھی ، اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارے بس میں کردیا ہے ؛ تاکہ تم احسان مانو ۔

اس آیت میں چار احکام ذکر کئے گئے ہیں ، اول یہ کہ قربانی کے جانور بھی دین حق کی علامتی چیزوں میں شامل ہیں ، جن کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی پہچان ہوتی ہے ، دوسرے : اونٹ کی قربانی کا طریقہ بتایا گیا کہ ان کو کھڑا کرکے ذبح کیا جائے، تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جب جانور ذبح ہوجائے اورپوری طرح اس کی جان نکل جائے ، تبھی اس میں سے کھایا جائے ، جان نکلنے سے پہلے نہیں ، قربانی کا گوشت صرف خود ہی نہ کھالیا جائے ؛ بلکہ محتاجوں تک بھی پہنچانا چاہئے ، خواہ وہ ایسا محتاج ہو کہ خود داری سے کام لے اور سوال نہ کرے ، یا ایسا شخص ہو جو ہاتھ پھیلاتا ہو ، بہر حال قربانی کی روح یہی ہے کہ اس میں فقراء کا خاص طورپر حصہ رکھا جائے ( آسان تفسیر)۔

قربانی کا مقصد وہ تقوی اور پرہیز گاری ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور جس کا ذکر اللہ رب العزت نے اپنے کلام میں کیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: "لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ” (الحج) یعنی اللہ تعالیٰ کے دربار میں چیزوں کی اہمیت نہیں ؛ بلکہ انسان کے اندر شکر و بندگی کے جو جذبات ہوں، ان کی اہمیت ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہاں پر تقوی سے مراد کوئی کامل تقوی مراد ہے جس کو اس مقام سے خصوصیت ہے؛ ورنہ تو تقوی کا عام مفہوم یعنی تقرب الی اللہ کی نیت تمام اعمال میں مشترک ہے۔ اور وہ کامل تقوی یہ ہے کہ خدا کے واسطے جان دے دے، یعنی جان کو اس کے سپرد کردے اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جس میں جان خرچ ہو جائے۔ ( احکام قربانی عقل و نظر کی روشنی میں)۔ یعنی قربانی اصل تو یہ تھی کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کردے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور رحمت کی بدولت جانور کی قربانی کرنے کا حکم دیا اور اسی کو بندے کی قربانی مان لیا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی کا حکم دیا،اور جب حضرت ابراہیم انہیں لے کر مکمل تیاری کے ساتھ قربان گاہ پہنچ گئے، انہیں لٹا دیا اور گلے پر چھری پھیرنے لگے تب اللہ تعالی نے حضرت اسماعیل کے عوض جنت کا دنبہ بھیجا، جسے حضرت ابراہیم نے ذبح کیا۔

قربانی کی فضیلت  احادیث کی روشنی میں

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ” ما هذه الأضاحي؟ قال: سُنَّةُ أبيكم إبراهيمَ عليهِ السلامُ، قال: قلنا: فما لنا فيها؟ قال: بكلِّ شعرةٍ حسنةٌ، قال: قلنا: يا رسولَ اللهِ ! فالصوفُ؟ قال: بكلِّ شعرةٍ من الصوفِ حسنةٌ. (السنن الكبرى للبيهقي ٩/٢٦١)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رَضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت) ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لیے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اُنہوں نے عرض کیا کہ (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی) اُون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اُون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی۔

اللہ رب العزت بھی اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ رحمت خداوندی بہانہ ڈھونڈتی ہے اور اپنی رحمتوں کی بارش برسا دیتی ہے۔ قربانی کی اتنی فضیلت اور اس کا اتنا ثواب ہے، پھر بھی کچھ لوگ تساہل سے کام لیتے ہیں، اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو قربانی تو کرتے ہیں؛ لیکن اپنی شہرت کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں جسکی وجہ سے وہ اس فضیلت اور ثواب سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کو تو مواظبت کے ساتھ انجام دینا چاہیے؛ لیکن خلوص نیت کے ساتھ، ریا اور دکھاوے کا شائبہ تک نہ ہو ۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "من وجد سعۃ ، فلم یضح فلا یقربن مصلانا” جس کے پاس استطاعت ہو، پھر بھی قربانی نہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔ یہ کتنی سخت وعید ہے اس شخص کے لئے جسے اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا ہے اور قربانی کے جانور خریدنے کی استطاعت بھی ہے پھر بھی قربانی نہ کرے تو ایسے شخص کو رحمت عالم ﷺ نے عید گاہ میں آنے سے منع فرمایا ہے۔

قربانی کے دن قربانی کے علاوہ کوئی عمل قابل قبول نہیں

اللہ تعالیٰ نے ہر عمل اور عبادت کے لیے اس کا زمان و مکان مقرر کردیا ہے۔ جس عمل کا جو وقت ہے یا جو جگہ ہے اس کو اسی وقت یا جگہ میں کرنے پر وہ عمل قابل قبول ہوگا اور اس کا ثواب دیا جائے گا۔ چنانچہ قربانی کے دن بھی اس کے علاوہ کوئی عمل قابل قبول نہیں ہوگا: 

 عن عائشة أن رسول الله ﷺ قال ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم إنها لتأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها وأن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع من الأرض فطيبوا بها نفسا. ( الترمذي 1493)

حضرت عائشہ رَضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اِبن آدم (اِنسان) نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدِیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادَہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دِن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہٰذا تم اس کی وَجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دِلوں کو خوش کرو۔

موجودہ دور میں بعض افراد نے ایک نیا فتنہ شروع کردیا کہ تین دنوں میں اتنے جانور قربان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اگر ان رقومات کو صدقہ کردیا جائے یا کسی غریب کی مدد کی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، اس سے دوسرے کی ضرورت بھی مکمل ہوگی اور ثواب بھی ملے گا۔ صدقات و خیرات کے لئے مذہب اسلام نے اپنے متبعین کو جتنا ابھارا ہے اور جن طریقوں سے صدقات و خیرات کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں ہے، اور مذہب اسلام کے ماننے والے آج بھی راہ خدا میں خرچ کرنے، غریبوں کا تعاون کرنے، یتیموں کی سرپرستی کرنے ٖضرورتمندوں کی حاجت روائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔ لیکن جن ایام کے لئے جن احکامات کو ضروری قرار دیا گیا ہے، ان کا بجا لانا اور ان پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے، ان احکامات کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں صراحت ہے کہ ایام قربانی میں اللہ تعالی کے نزدیک اہراق دم سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں ہے، جب اللہ تعالی نے اسے اپنا سب سے پسندیدہ عمل قرار دیا ہے تو پھر کسی انسان کے کہنے سے حکم نہیں بدل سکتا ہے۔   ایسے لوگوں کے بہکاوے میں آنے سے دین و دنیا دونوں کا نقصان ظاہر  ہے، بحیثیت مسلمان ہمیں جو حکم دیا گیا ہے اور جس طرح اعمال کو انجام دینے کی ترغیب دی گئی ہے بلا چوں چرا رضائے الہی کے لئے عمل پیرا ہوں کہ یہی مقصود ہے۔

Related Posts

2 thoughts on “قربانی کی فضیلت و اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے