مولانا محمد علی مونگیری: ‏حیات ‏و ‏خدمات ‏کے ‏چند ‏درخشاں ‏پہلو

مولانا محمد علی مونگیری: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

انیسویں صدی عیسوی پورے عالمِ اسلام کیلئے سیاسی زوال اور فکری اضمحلال کی صدی ہے۔ یہ وہ صدی ہے جس میں عالم اسلام کے جاہ و جلال والے ممالک مغربی پایہ تخت کے زیر نگیں آئے ہیں۔ دجل و فریب، گمراہ کن فرقے یہاں تک کہ مدعی نبوت نے بھی اس صدی میں جنم لیا ہے۔ یہ حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ اب عالم اسلام کے سب سوتے خشک ہوجاتے اور اسلامی فکر و حیات کا درخت خزاں رسیدہ اور بے برگ و بار ہو جاتا لیکن خدا کی ذات اقدس کو اس روئے زمین پر اپنے دین کا تحفظ مقصود تھا جس کا وعدہ اس نے قرآن مجید میں کیا ہے، اسلئےاس پر آشوب دور میں  ایسے افکار و خیالات کے حامل افراد کو کارگہ عالم میں بھیجا، جن کے بلند و بالا نظریات اور عزائم کے سامنے ظلم و استبداد اور کفر و الحاد کے کوہ گراں خس و خاشاک کی مانند بہتے نظر آئے ہیں۔ جن کی بے مثال قربانیوں کے صلہ میں مسلمانوں کو دین حنیف پر رہ کر زندگی گزارنے کا موقع ملا ہے۔انہیں پاکبازوں کے قافلہ میں ایک نمایاں نام مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ مولانا محمد علی مونگیری نے پوری زندگی مذہب اسلام کی خدمت میں گزاری ہے۔ مولانا محمد علی مونگیری نے رد عیسائیت اور رد قادیانیت کے باب میں بے مثال کارنامہ انجام دیا ہے۔دوسری جانب امت مسلمہ کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کی شکل میں ایک کامیاب دینی درسگاہ کا تحفہ دیا ہے۔

muhammad ali monger, founder of nadwat al ulama, maulana muhammad ali mongeri
محمد علی مونگیری

ولادت با سعادت

مولانا محمد علی مونگیری کی ولادت با سعادت 28 جولائی 1846 کو کانپور میں ہوئی۔ آپ کی عمر محض دو سال تھی جب آپ والد محترم کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے۔ والد محترم سید عبد العلی کے انتقال کے بعد آپ دادا محترم حضرت سید شاہ غوث علی کی تربیت میں آگئے۔ آپ کے کارہائے نمایاں خاندانی حسب و نسب کے محتاج نہیں ہے تاہم آپ جس سلسلۃ الذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ شیخ المشائخ شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب ہمیشہ ولایت کے فیض سے مزین رہا ہے۔ آپ کے خاندان میں ایک عظیم المرتبت بزرگ شیخ ابوبکر چرم پوش گزرے ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ ان شاءاللہ میرے خاندان میں ہمیشہ صاحب ولایت افراد رہیں گے۔ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آج تک بفضل اللہ یہ خانوادہ اس نعمت سے محروم نہیں ہوا ہے۔ موجودہ دور میں اس خانوادہ کے چشم وچراغ امیر شریعت ثامن مولانا احمد ولی فیصل رحمانی ہیں جو اپنے والد محترم حضرت مولانا ولی رحمانی ( حضرت مولانا ولی رحمانیؒ کی تعلیمی خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں) کے جانشین اور خلیفہ ہیں۔ 

مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے چچا سید ظہور علی سے حاصل کی، فارسی کی بعض کتابیں مولانا سید عبد الواحد بلگرامی سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ درسیات کی تکمیل آپ نے مولانا لطف اللہ علی گڑھی اور مفتی عنایت احمد کاکوری سے کی ہے۔ آپ نے علم الصیغہ کا سبق صاحب علم الصیغہ سے پڑھا ہے۔ 

دیار مدینہ کا شوق

مولانا محمد علی مونگیری نے بمشکل عمر مبارک کی بارہ بہاریں دیکھی تھی کہ دیار مدینہ کے شوق نے قلب مضطر میں اضطراب پیدا کردیا۔ یہ خواہش شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی۔ والد محترم کے بعد دادا محترم اور چچا بھی داغ مفارقت دے گئے تھے۔ گھر کی مکمل ذمہ داری اس ناتواں کاندھوں پر آن پڑی تھی۔ ایک طرف ذمہ داری کا بوجھ اور دوسری جانب در اقدس میں حاضر ہونے کی لگن نے آپ کو بیقرار کردیا۔ آپ تنہائی میں بیٹھ کر روتے اور سرزمین مقدسہ جانے کیلئے دعائیں مانگتے۔ اس شوق کی تکمیل کیلئے آپ نے اہل خانہ سمیت گھر بار بیچ کر ہجرت کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اسی اثناء میں آپ کی ملاقات شیخ عبد اللہ شاہ سے ہوئی، شیخ صاحب نے قلبی اضطراب کو بھانپ لیا اور سوال کیا کہ کیا زیارت مدینہ کا شوق دامن گیر ہے؟ آپ نے جواب دیا، ہاں، دل پر قابو نہیں ہے۔ شیخ صاحب نے جواب دیا، ابھی نہ جاؤ، دل بیقرار کو قرار آ جائے گا۔ خدا کا کرم ایسا ہوا کہ بے کیفی کی کیفیت ختم ہوگئی اور دل بیقرار کو قرار آگیا۔ 

بیعت و سلوک

بچپن سے ہی مولانا محمد علی مونگیری اہل اللہ کی مجالس میں شریک ہوا کرتے تھے، جب کبھی موقع ملتا، یا کسی صاحب دل کے آنے کی خبر سنتے فوراً ملاقات کیلئے تشریف لے جاتے۔ آپ کی عمر تقریباً اٹھارہ برس کی تھی اور آپ اس وقت مدرسہ فیض عام کے طالبِ علم تھے، جب آپ کی ملاقات شیخ حافظ محمد صاحب سے ہوئی، ملاقات کے بعد آپ میں عجیب کیفیت پیدا ہوگئی۔ دنیاوی لذتوں سے قلب اچاٹ ہوگیا۔ ہمیشہ حالت استغراق میں رہنے لگے، پھر کچھ دنوں بعد آپ مولانا کرامت علی قادری ( شاگرد شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ) کی مجالس میں شریک ہونے لگے۔ یہ رفاقت محض دس مہینوں تک رہی لیکن اس کے اثرات کے متعلق مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں” دس مہینوں تک ملازمت کا شرف حاصل ہوا اور پھر آپ کو سفر آخرت در پیش آیا، اور کالپی میں جاکر انتقال فرمایا۔ آپ کی برکت توجہ اور فیض صحبت سے مجھ پر عجیب و غریب حالات گزرے، اور حضور علیہ السلام کی بندہ نوازی ایسی ہوئی کہ اس کے متعلق میں بجز اس کے اور کیا کہہ سکتا ہوں، شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا".

مولانا محمد علی مونگیری حضرت مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی کی خدمت میں

مولانا کرامت علی قادری رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد مولانا محمد علی مونگیری مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی کے دامنِ ارادت سے وابستہ ہوگئے۔ مولانا کی صحبت میں آپ نے بیعت و سلوک کے مراحل طے کئے، مولانا فضل رحماں گنج مرادآبادی کی خدمت میں رہتے ہوئے مولانا محمد علی مونگیری کو  علم حدیث سے خاص شغف پیدا ہوگیا۔ جب کہ اس دور میں رائج منطق و فلسفہ کی کتابوں سے آپ متوحش رہنے لگے تھے۔ مولانا محمد علی مونگیری کے بیعت ہونے کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ آپ بغرض بیعت اور نوکری کی سفارش کے مقصد سے مولانا کے دربار میں حاضر ہوئے۔ پہنچنے کے فوراً بعد، سفارش کا خیال تو دل سے نکل گیا لیکن بیعت کیلئے آپ نے درخواست کی۔ آپ کی درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا گیا اور آپ بیعت ہوگئے۔ اس کے بعد کافی دیر تک مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی آپ پر توجہ دیتے رہے۔ اس کے بعد خادم سے فرمایا کہ جاؤ کچھ کھانے کو لاؤ، خادم نے بتایا کہ ابھی کچھ تیار نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا جو کچا پکا ہے وہی لے آؤ، چنانچہ خادم ایک برتن میں تقریباً دو ڈھائی کلو چنے لایا۔ آپ نے مولانا محمد علی مونگیری کو رومال پھیلانے کا حکم دیا۔ پھر تین لپ چنے اس میں ڈال دیئے اور فرمایا کہ یہ تمہاری دنیا ہے، جاؤ اس سے کھاؤ۔ پھر آپ نے خادم کو حکم دیا کہ ان کیلئے پان لاؤ، آپ نے عرض کیا کہ مجھے پان کی عادت نہیں ہے۔ مولانا محمد علی مونگیری فرماتے ہیں میری بات کی جانب توجہ دیئے بغیر آپ نے پان کو اپنے منھ میں ہلکا سا چبا کر مجھے عنایت فرمایا اور کہا کہ لو یہ پان ہے عرفان کا اسے کھالو۔شیخ کامل کی دعا اور توجہ نے ایسا رنگ دکھایا کہ پھر دنیا بھی قدموں میں رہی اور ولایت و معارف کے اس مقام تک پہنچے ہیں جہاں برسوں کی عبادت و ریاضت کے بعد بھی پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔مولانا محمد علی مونگیری سے اللہ تعالی نے جو کام لیا ہے وہ یقینا ان بزرگ ہستیوں کی دعاؤں کا ثمرہ ہے ۔

مولانا محمد علی مونگیری حافظ احمد علی محدث سہارنپوری کی درسگاہ میں

مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی کی معیت نے قلب کو جو جلا بخشا اس کے نتیجہ میں سنت رسول اور حدیث رسول کا شغف پہلے سے کہیں زیادہ پیدا ہوگیا۔ علی گڑھ میں علوم حدیث کی تکمیل بعد مولانا محمد علی مونگیری مزید علوم حدیث کیلئے وقت کے عظیم محدث اور استاد الکل مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد خاص حافظ احمد علی محدث سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کی درسگاہ میں پہنچ گئے۔حافظ احمد علی محدث سہارنپوری ( حافظ احمد علی محدث سہارنپوری  کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں)علم حدیث میں اپنے وقت کے امام سمجھے جاتے تھے، آپ نے صرف بخاری شریف کے حواشی پر تقریباً بارہ سال کی مدت تک کام کیا ہے۔ اخیر میں آپ نے تکمیل کیلئے یہ اہم کام اپنے معتمدامام محمد قاسم نانوتوی ( امام محمد قاسم نانوتوی کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں) کے سپرد کردیا ، چنانچہ اخیر کے پانچ پاروں پر حاشیہ کا کام مولانا قاسم نانوتوی نے انجام دیا ہے۔ 

مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ تقریباً گیارہ مہینوں تک سہارنپور میں مقیم رہے، یہاں آپ پابندی سے حضرت الاستاذ کے اسباق میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ آپ کے ذوق و شوق، محنت و لگن اور علم حدیث سے شغف کو دیکھتے ہوئے حافظ احمد علی محدث سہارنپوری آپ کا اس درجہ احترام کرنے لگے، جس طرح ایک طالب علم اپنے استاد کا کرتا ہے۔ استاذ مکرم کو آپ سے بے انتہا قلبی لگاؤ تھا، دراصل یہ مرد مومن کی فراست ایمانی تھی جس نے اس نوخیز عالم دین میں چھپے ہوئے اصلی جوہر کو پہچان لیا تھا۔ مولانا محمد علی مونگیری نے حافظ احمد علی محدث سہارنپوری کی خدمت میں رہ کر علم حدیث کے ذخائر سے بھر پور استفادہ کیا تھا۔

مولانا محمد علی مونگیری کی تدریسی خدمات

سہارنپور سے واپسی پر مولانا محمد علی مونگیری نے کانپور کی ایک مسجد میں درس حدیث کا سلسلہ شروع کیا۔ چند دنوں میں طلبہ کا اژدہام ہوگیا۔ دور دراز سے تشنگان علوم آکر اپنی پیاس بجھانے کے لئے  حلقہ درس میں شرکت کرنے لگے تھے۔  لیکن مسجد میں درس حدیث کا سلسلہ زیادہ دنوں تک جارہ نہیں رہ سکا کیونکہ آپ نے اپنے مرشد مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی کی منشا کے مطابق پھر سے مدرسہ فیض عام کی مدرسی کو قبول کرلیا تھا۔ 

کثرتِ مطالعہ اور تحقیق و تخریج کا اس قدر شوق تھا کہ آپ کے ذاتی کتاب خانہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مشرقی حصے میں لکھنؤ سے بنگال کے اخیر حصہ تک خدا بخش لائبریری پٹنہ اور ندوہ کی لائبریری کے علاوہ کوئی اتنا بڑا کتب خانہ نہیں ہے جو تشنگانِ علوم کو سیراب کرسکے۔ کتابوں میں استغراق کی برکت سے اللہ تعالی نے آپ کے ذہنی دریچے کو اس قدر وسیع فرمادیا تھا کہ آپ نے مسلمانوں پر آنے والے خطرات کو بھانپ لیا تھا۔یہ فراست ایمانی اور تعلق مع اللہ کی برکت تھی کہ آپ نے بیک وقت کئی میدانوں میں دین اسلام کی خدمات انجام دی ہیں۔

مولانا محمد علی مونگیری اور رد عیسائیت اور تحفظ دین اسلام

انگریزوں نے ہندوستان میں صرف حکومت کا اختیار حاصل کرنے تک خود کو محدود نہیں کیا، بلکہ اپنے عیسائی مذہب کو ہندوستانیوں پر مسلط کرنے کی مختلف تدابیر اختیار کیں۔ حکومت برطانیہ سے اجازت طلبی کے بعد ہندوستان کا کوئی گوشہ اور کوئی خطہ ایسا نہیں تھا جہاں عیسائی مبلغین مکمل تندہی سے اس کام کو انجام دینے کی کوشش نہیں کررہے تھے۔ یورپ کے مختلف ممالک کے مختلف چرچ اور پادریوں نے ہندوستان کو حصوں میں تقسیم کرلیا تھا، تاکہ کام کرنے میں باہمی چپقلش پیدا نہ ہونے پائے۔ اس طوفانی سلسلہ اور ہلاکت خیز طوفان کو 1854 میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے سب سے پہلے آگرہ میں منعقد ہوئے مناظرہ میں عیسائی پادریوں کو شکست سے دوچار کیا تھا( مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی حیات و خدمات اور مناظرہ کی مکمل روداد پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں )  لگام لگایا لیکن 1857 کی جنگ آزادی کے بعد  عیسائی مبلغین نے اپنا طرز بدل دیا تھا لیکن ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کی جانب سے خاطر خواہ کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی تھی ۔عیسائیت کی روک تھام میں جن اکابر علماء کو سر فہرست شمار کیا جاتا ہے ان میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی، امام محمد قاسم نانوتوی اور مولانا محمد علی مونگیری کے اسماء گرامی سر فہرست ہیں۔

مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کو اس بات کا شدید احساس تھا، آپ نے اس کی روک تھام کیلئے سب سے پہلے کانپور سے ایک اخبار ( منشور محمدی) کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ اس میں آپ نے عیسائی مبلغین کے اعتراضات کے جوابات کے علاوہ دین محمدی کی حقانیت پر بے شمار مضامین تحریر فرمایا۔ اس اخبار کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ عام مسلمانوں کو ایک سایہ نصیب ہوگیا اور تحفظ دین کے اسباب و عوامل نظر آنے لگے تھے۔ جو شکوک وشبہات عام ذہنوں میں پیدا کئے گئے تھے ان شکوک وشبہات کے ریت کے گھروندے مسمار ہونے لگے تھے۔ آپ کے رفیق خاص اور تربیت یافتہ شیخ مولا بخش نے پادری آئزک فیلڈ بریو کا زبردست تعاقب کیا اور انجیل میں تحریفات کی تقریبا سولہ ایسی مثالیں پیش کی، جس کا کوئی جواب نہیں دے سکا تھا۔ 

عیسائیت کے رد میں مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ نے کئی کتابیں تصنیف فرمائیں، جن میں سب سے پہلی کتاب ( مراۃ الیقین) ہے۔ 

آئینہ اسلام

ترانہ حجازی

دفع التلبیسات

براہین قاطعہ

ساطع البرھان

پیغام محمدی

یہ چند کتابیں قابلِ ذکر ہیں۔ عیسائیت کی روک تھام کیلئے ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف علماء کرام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے ہجرت کر جانے کے بعد اس میدان میں کافی دنوں تک خلا محسوس کیا جاتا رہا، لیکن ذات وحدہ لاشریک لہ نے تحفظ دین اسلام کیلئے مولانا محمد علی مونگیری، امام محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی جیسے صاحب علم وفضل کو اس چمن کی آبیاری کیلئے منتخب فرمایا، اور ان نفوسِ قدسیہ کی راہنمائی کیلئے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت کو چنا، جو علوم معرفت سے ان کے قلوب کو منور و مجلی رکھتےتھے۔ 

تحریک ندوۃ العلماء

ندوۃ العلماء کا قیام اور اسباب و وجوہات

 مولانا محمد علی مونگیری نے عیسائیوں کا تعاقب کرنے میں ان کے طریق کار کا بنظر غائر جائزہ لیا تھا۔ آپ نے ان اسباب و عوامل کو پیش نظر رکھا جن کو بطور زینہ استعمال کرکے عیسائی مشنریز اپنے منصوبوں کی تکمیل کیلئے تگ ودو کررہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے غریب مسلم بچوں کیلئے کانپور میں یتیم خانہ کی بنیاد رکھی۔یہ مومن کامل کی فراست کا اعلی معیار ہے کہ وہ اپنے دین کے مخالفین کی ریشہ دوانیوں اور ان کی چالبازیوں سے مکمل واقفیت رکھتے ہوئے ان کے روک تھام کے لئے سعی پیہم کرے۔  

جس وقت تحریک ندوۃ کا فیصلہ کیا گیا اس وقت ہندوستانی مسلمانوں میں دو مکتبہ فکر وجود میں آگئے تھے۔ ایک جانب امام محمد قاسم نانوتوی نے دارالعلوم دیوبند کی شکل میں خالص علمی و دینی ادارہ قائم کیا، جس میں اس وقت کے مروجہ فلسفہ اور منطق سے احتراز کرتے ہوئے احادیث و فقہ اور دیگر علوم اسلامی کو اساسی حیثیت سے شامل نصاب فرمایا۔ قیام دارالعلوم کے زمانہ میں منطق و فلسفہ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض علاقوں میں حدیث و فقہ برائے نام شامل درس تھیں جبکہ منطق و فلسفہ کی کتابوں کے ڈھیر طلباء کے سامنے انڈیل دیئے جاتے تھے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس صورتحال کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ علوم قلوب کی ظلمت کا باعث ہیں جبکہ آپ کے خلیفہ اور علماء دیوبند کے سرخیل مولانا رشید احمد گنگوہی ان علوم کو ضیاع وقت سمجھتے تھے۔ بہرحال دارالعلوم کی اساس مکمل طور پر تحفظ دین اسلام کے مقصد سے رکھی گئی تھی۔ دوسری جانب سر سید احمد خان کا نظریہ تھا جن کا گمان یہ تھا کہ اپنے عقیدہ کو سنبھال کر رکھو لیکن مکمل طور پر مغربی تہذیب کے سانچوں میں ڈھل جاؤ، معاشرتی، سیاسی، قومی اور تعلیم و تربیت کے اصول و ضوابط سب مغربی مفکرین کی فکروں سے اخذ کیا جائے۔ عقیدہ حجاز سے لو لیکن طریق عمل مغرب سے، ایمان کتاب الٰہی اور سنت رسول سے لو لیکن طرزِ فکر اور نظامِ زندگی فلسفہ یورپ سے۔ غرضیکہ اپنا سب کچھ تیاگ کر مغربی رنگ و روغن میں مکمل طور پر گھل مل جاؤ۔ 

ایسے انقلاب آفریں عہد میں ایک ایسے انقلابی شخصیت کی ضرورت تھی جو نہ تو اس عہد کے اہل مدارس کی طرح ہر جدید چیز سے متنفر ہو اور نہ ہی جدت پسندوں کی طرح ہر قدیم طریق کا مخالف ہو، ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت جن کی دور رس نگاہیں علوم اسلام کی گہرائیوں اور باریکیوں سے مکمل طور پر واقف ہو اور دوسری جانب دشمنان اسلام کے طریق کار سے واقف ہو تاکہ ایسے افراد کی ذہن سازی اور تربیت کی جاسکے جو بیک وقت دونوں محاذ کو سنبھال سکے۔اللہ تعالٰی نے اس کام کی انجام دہی کے لئے مولانا محمد علی مونگیری کا انتخاب فرمایا تھا۔ 

تحریک ندوہ کا پہلا اجلاس

 1892 میں کانپور کے مدرسہ فیض عام کے سالانہ اجلاس کے موقع پر یہ بات طے کی گئی کہ، آئندہ سال ہندوستان کے تمام علماء کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جائے۔ اس وقت اتفاق رائے سے یہ قرار داد منظور کی گئی۔ کانپور کے اس اجلاس میں ملک کے ممتاز علماء کرام شامل تھے جنہوں نے اپنے توثیقی کلمات سے اس امر خیر کو سراہا تھا۔ جن میں قابلِ ذکر حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی:

مولانا خلیل احمد سہارنپوری

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی

مولانا محمد علی مونگیری

مولانا سلیمان پھلواروی

وغیرہ کی ذات گرامی ہیں۔ 

علماء کی مقدس جماعت کو ایک لڑی میں پرونے کے اس عمل کو مختلف طبقات کے معززین نے سراہا اور ایک خلا جو مدتوں سے محسوس کیا جارہا تھا اس کی بھرپائی مولانا محمد علی مونگیری کے ہاتھوں ہورہی تھی۔ 

1894 میں کانپور میں تحریک ندوہ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا، جس میں مختلف امور پر قرار داد منظور کی گئیں جن میں نصاب تعلیم خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کام کیلئے مولانا محمد علی مونگیری کی قیادت میں بارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی تاکہ مروجہ نصاب تعلیم کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاسکے اور منتخب کتابوں کو شامل درس کیا جائے۔ اس کمیٹی کی ذمہ داری یہ بھی تھی کہ کام کو مکمل ترتیب دینے کے بعد وقت کے کبار علماء خصوصاً قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں نیا مرتب شدہ نصاب پیش کیا جائے۔ مولانا محمد علی مونگیری نے ندوہ کی اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کرانے کیلئے مختلف جماعتوں کو مختلف علاقوں میں بھیجا، تاکہ صحیح صورتحال سے آگاہ کیا جائے۔ ایک وفد مکہ مکرمہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچا تو حاجی صاحب نے اسے لطیفہ غیبی سے تعبیر فرمایا۔ 

تحریک ندوہ کا دوسرا اجلاس

 ایک سال بعد دوسرا اجلاس لکھنؤ میں منعقد ہوا جس میں کثیر تعداد میں علماء کرام کی جماعت نے شرکت فرمائی۔ مولانا محمد علی مونگیری نے اتحاد و اتفاق کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے امام محمد قاسم نانوتوی کے قول کو بیان کرتے ہوئے مسلمانوں سے متحدہ جماعت کی شکل میں رہنے کی تلقین کی۔ لیکن لکھنو اجلاس کے بعد چند لوگوں نے اس تحریک کی مخالفت شروع کردی، یہ مخالفت وقت کے ساتھ ساتھ شدید تر ہوتی چلی گئی لیکن مولانا محمد علی مونگیری نے سکوت کے دامن کو تھامے رکھا۔ یہ طوفان جو چند لوگوں کی جانب سے برپا کیا گیا تھا، یہ اس کی ترقی، کامیابی و کامرانی کے راہ میں تار عنکبوت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھ سکا تھا۔مولانا محمد علی مونگیری مکمل توجہ اور اخلاص کے ساتھ اس مشن میں مصروف رہے تھے۔ 

تحریک ندوہ کا تیسرا اجلاس بریلی میں منعقد ہوا، یہاں آپ نے چند امور کی جانب خاطر خواہ توجہ فرمائی جن میں سب سے اہم تحریک ندوہ کے تحت ایک باضابطہ ( دارالعلوم) کا قیام عمل میں لایا جائے۔ مولانا محمد علی مونگیری نے یہ تجویز 12 محرم الحرام 1313 ہجری کو پیش کردی تھی اور علماء کی اس مقدس جماعت نے آپ کے عمل کو سراہا تھا اور پھر مسودہ دارالعلوم کے نام سے مکمل خاکہ تیار کیا گیا تھا، لیکن بریلی کے اجلاس میں باضابطہ طور پر اس کے مختلف امور پر بحث کی گئی تھی تاکہ مکمل تیاری اور تائید کے ساتھ اس کار خیر کا آغاز کیا جائے۔

دارالعلوم کے خاکہ کو دیگر علماء کرام کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے اس تجویز پر فرمایا کہ ایسے جلیل القدر اور عظیم الشان دارالعلوم کا وجود ذہنی سے وجود خارجی میں آنا موجد الموجودات کی قدرت کاملہ کے سامنے کوئی مستبعد امر نہیں ہے۔ 

تحریک ندوہ کے تحت دارالعلوم  ندوۃ العلماء کے قیام کا فیصلہ

 قیام دارالعلوم کے متعلق کافی پیچیدگی رہی، بعض افراد کی رائے تھی کہ دہلی میں قائم کیا جائے اور بعض دوسرے علاقوں کو اس کام کیلئے زیادہ مناسب خیال کررہے تھے۔ بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ دارالعلوم کا قیام لکھنؤ میں کیا جائے۔ لکھنؤ کے اصحاب ثروت نے اس پیش کش کو قبول فرمایا اور منشی احتشام وغیرہ نے زمین اور وقتی طور پر رہائش کیلئے زمین فراہم کی۔مولانا محمد علی مونگیری کی محنت رنگ لائی تھی اور ایک ایسے مدرسہ کا وجود عمل میں آیا تھا جسے وقت کے کبار علماء کی تائید حاصل تھی۔ 

9 جمادی الاول 1316 بمطابق 26 دسمبر 1898 کو باضابطہ تعلیم کا آغاز کیا گیا۔ 

تحریک ندوہ سے قیام دارالعلوم تک مولانا محمد علی مونگیری نے جس صبر و استقلال اور جفاکشی سے اپنے مفوضہ امور کو انجام دیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ آپ نے ملک کے مختلف علاقوں میں معین الندوہ کے نام سے انجمنوں کا قیام کیا تاکہ کام کے اثرات دور رس ثابت ہوں۔ میرٹھ کے اجلاس میں آپ نے علی الاعلان تجویز پیش کی کہ جو اہل سنّت والجماعت سے نہیں ہے وہ ندوہ کا رکن نہیں بن سکتا ہے۔ ندوۃ العلماء اہل سنت و الجماعت کا ادارہ ہے اور یہاں قرآن و سنت کی وہی تعلیم ہوتی ہے جو اہل سنت والجماعت کے علماء کرام کے یہاں مستند ہے۔ 

مولانا محمد علی مونگیری نے دارالعلوم ندوہ العلماء کیلئے مکمل خاکہ تیار کیا تھا، جس میں معیار تعلیم، وقت کی ضرورت، علماء کی ذمہ داری، نئے نصاب تعلیم سے ہم آہنگی، زبان میں مہارت، انداز تخاطب، انداز تحریر حتی کہ فراغت کے بعد انجام دیئے جانے والے امور پر بھی آپ نے سیر حاصل بحث کی ہے۔ 

حج بیت اللہ کی سعادت

 بچپن سے آپ کو زیارت حرمین شریفین کا شوق دامن گیر تھا، لیکن مشغولیت نے اتنا موقع نہیں فراہم کیا کہ آپ حج بیت اللہ کیلئے تشریف لے جاتے۔ طلب صادق کی دعا مقبول ہوئی اور ایسے عالم میں جبکہ ہندوستان کے بیشتر مقامات وبائی امراض کی لپیٹ میں تھے۔ حکومت نے مختلف علاقوں میں قرنطینہ ہاؤس بنا رکھا تھا۔ سفر حج کے متمنی حضرات واپس کئے جارہے تھے۔ بظاہر کوئی سبیل نہیں تھی۔ آپ 15 شعبان 1318 کو مونگیر تشریف لے گئے اور تقریباً ایک ماہ بعد 11 رمضان المبارک کو پانچ افراد پر مشتمل یہ مختصر قافلہ مونگیر سے چاٹگام کیلئے روانہ ہوا۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ

خادم خاص عبد السمیع

مولانا بشارت کریم دربھنگوی

مولانا نور محمد پنجابی

مولوی غلام حسین

شریک سفر تھے۔ 

اللہ نے خصوصی کرم فرمایا اور جس دن آپ چاٹگام پہنچے، اسی دن سرکاری اعلان ہوا کہ مسافرین حج کو اجازت دی جائے۔ چاٹگام میں چند روزہ قیام کے دوران مولانا محمد علی مونگیری کی شہرت اتنی زیادہ پھیل گئی کہ لوگ دور دراز سے ملاقات اور بیعت کیلئے تشریف لانے لگے۔ علماء اور طلباء کرام کے علاوہ عامی افراد کے رجوع کو دیکھ کر وہاں موجود سرکاری عملہ پریشانی میں گھر گیا۔ چاٹگام والوں نے اصرار کیا کہ آپ کچھ دن مزید قیام فرمائیں لیکن زیارت بیت اللہ کا شوق دامن گیر تھا اس لئے آپ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ 

مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران نائب سلطان اور مکہ کے گورنر وغیرہ سے مولانا محمد علی مونگیری کا تعارف ہوا۔ اس درویش کی عظمت کیا کہئیے جس کے پاس واپسی کیلئے خاطر خواہ بندوبست نہیں تھے اسے امیر مکہ نے خلافت کے ایک پروجیکٹ میں تعاون کیلئے مدد کی درخواست کی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرب علماء اور وہاں کے دیگر عہدیداروں کے نزدیک مولانا محمد علی مونگیری کی شخصیت کیا تھی۔یہ اللہ کے وہ بندے ہیں جن کی فقیری میں بھی شاہانہ عظمت ہوتی ہے۔ 

مونگیر میں اقامت کا ارادہ

 مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی کے انتقال کے بعد، آپ کے متوسلین کا رجوع مولانا محمد علی مونگیری کی طرف ہوگیا۔ خصوصاً صوبہ بہار میں مونگیر، بھاگلپور اور دربھنگہ وغیرہ کے اضلاع آپ کی خدمت کیلئے ہمہ وقت پلکیں بچھائے رہتے۔ 1316 ہجری میں پہلی بار مولانا محمد علی مونگیری نے مونگیر میں مستقل اقامت کے متعلق غور و خوض کیا، لیکن تحریک ندوہ اور دارالعلوم ندوہ العلماء کی ذمہ داریوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ لیکن صوبہ بہار میں اچانک قادیانیوں کی سرگرمیاں تیز ہوگئی اور سب سے زیادہ مونگیر اور بھاگلپور کے علاقے متاثر ہوئے۔ ایسے میں مولانا محمد علی مونگیری نے قادیانیوں کی سرکوبی کیلئے اور مسلمانوں کے دین و ایمان کے تحفظ کیلئے مونگیر کو اپنا مسکن بنایا۔ یہاں آپ کی مصروفیت اور عوام کی آپ سے عقیدت اس درجہ بڑھ چکی تھی کہ آپ نے 1320 ہجری کو باضابطہ مونگیر میں سکونت اختیار کرلی۔ 

فتنہ قادیانیت اور مولانا محمد علی مونگیری

 قادیانیوں کی سرکوبی کیلئے مولانا محمد علی مونگیری نے خرابی صحت کے باوجود پورے علاقہ میں ایک نیا جوش و خروش پیدا کردیا۔ تحفظ ختم نبوت کیلئے اسلام کے شیدائیوں نے ہر ممکن طریقے سے آپ کا تعاون کیا اور آپ نے اس فتنہ سے جو سیلاب کی سی تیزی سے پورے علاقے کو اپنے فریب میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہا تھا، اس کے مکر سے عوام کو محفوظ رکھا۔ آپ نے انہیں مصروفیات کے پیش نظر 1321 ہجری میں باضابطہ مجلس ندوہ العلماء سے استعفیٰ دے دیا۔ جس بزم کو آپ نے اپنے خون جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا تھا اس سے علیحدگی کا قلق تو بہرحال رہا تھا۔ 

قادیانیت کے فتنہ سے نمٹنے کیلئے مولانا محمد علی مونگیری نے اپنے عقیدت مندوں کو ہر طرح سے تیار کیا۔ باضابطہ مبلغین کی جماعت تیار کی۔ بذات خود آپ نے تقریباً ایک سو رسالے تصنیف کئے ہیں۔ جن میں تقریباً چالیس رسالے آپ کے نام کے ساتھ شائع ہوئے ہیں۔ اس دور میں کتابوں اور رسائل کو چھاپنے کیلئے کانپور یا دہلی بھیجا جاتا تھا، جس میں زیادہ وقت صرف ہوتا، آپ نے مونگیر میں خاص اسی مقصد سے پریس قائم کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ قادیانیوں کے لٹریچر کے خلاف علماء حق کی باتیں اور مذہب اسلام کی حقانیت عوام کے سامنے آئے۔ فتنہ قادیانیت نے مولانا محمد علی مونگیری کے چین و سکون کو ختم کردیا تھا۔ آپ ہمہ وقت اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے کوشاں رہا کرتے تھے۔

قادیانیوں سے مناظرہ

 مولانا محمد علی مونگیری کی اس تحریک نے قادیانیوں کے پیر اکھاڑ دیئے تھے۔ ایک وقت ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ پورا علاقہ قادیانیوں کے نرغہ میں چلا جائے گا، لیکن اللہ نے اپنے اس مرد مجاہد سے تحفظ ختم نبوت کا ایسا کام لیا جس نے ہمیشہ کیلئے اس فتنہ کے دروازے کو بند کردیا۔ مولانا محمد علی مونگیری کی اس سرگرمی کی وجہ سے قادیان سے چند نام نہاد قادیانی مونگیر پہنچے۔ دوسری جانب علماء حق کی طرف سے علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا مرتضی حسن، علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا عبد الوہاب بہاری جیسے جبال علم مولانا محمد علی مونگیری کے دست و بازو بن کر پہنچ گئے تھے۔ مولانا کی طبیعت ناساز تھی، مناظرہ میں شمولیت مشکل تھی اس لئے مولانا کی نمائندگی کیلئے قرعہ اندازی کی گئی۔ مولانا مرتضی حسن کے حصہ میں یہ سعادت آئی۔ مناظرہ کا اسٹیج تیار تھا۔ ایک جانب جھوٹے ملعون مرزا کے لوگ تھے جبکہ دوسری جانب دین اسلام کے عظیم سپوتوں کا مجمع تھا۔ مولانا مرتضی حسن کی پہلی ہی تقریر اتنی موثر ثابت ہوئی کہ قادیانی بغلیں جھانکنے لگے۔ جس مناظرہ کی قادیانیوں نے خوب تشہیر کی تھی، اور اس سے عوام کو ورغلانے کی کوشش کررہے تھے لیکن جب علماء حق کا سامنا ہوا تو دم دبا کر بھاگ نکلے۔ دوسری جانب مولانا محمد علی مونگیری کا حال یہ تھا کہ جوں ہی مناظرہ شروع ہوا، آپ سجدہ ریز ہوگئے اور جب تک فتح مبین کی خبر کانوں میں نہیں پڑی مستقل دربار خداوندی میں آنسوؤں کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر فریاد کرتے رہے۔ 

مولانا محمد علی مونگیری فطرتاً کم گو اور نہایت ملنسار اور خوش اخلاق تھے۔ غصہ کا شائبہ بھی آپ کو چھو کر نہیں گزرا تھا لیکن رد قادیانیت اور تحفظ ختم نبوت کے متعلق آپ نے اپنے متوسلین سے علی الاعلان فرمایا کہ جو اس کار خیر میں میرا معاون ہے میں اس سے خوش ہوں اور جو اس کا حصہ نہیں ہے میں اس سے خوش نہیں ہوں۔ 

رد قادیانیت کیلئے مولانا محمد علی مونگیری نے اپنے تمام منتسبین کو واضح پیغام دے دیا تھا کہ اس کار خیر میں شرکت کے بغیر مجھ سے تعلق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ مختلف جماعتوں کو گاؤں دیہات بھیجا کرتے، اخراجات کے انتظامات کیلئے باضابطہ اپیلیں کرتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ قادیانیوں کے خلاف لکھو اور خوب لکھو۔ رسائل  اس کثرت سے تقسیم کئے جائے کہ کہیں بھی کوئی مسلمان صبح نیند سے بیدار ہو تو اس کے سرہانے رد قادیانیت پر مبنی رسالہ موجود ہو۔ آپ نے اپنا اثاثہ، نقد رقومات کو اس کار خیر کیلئے بے دریغ خرچ کیا۔ منشا صرف یہ تھا کہ کوئی مسلمان یا کوئی گھر قادیانی فتنہ سے متاثر نہ ہوسکے۔ 

مولانا محمد علی مونگیری کا عام معمول تھا کہ آپ رات تقریباً تین بجے تہجّد کیلئے بیدار ہو جاتے اور رات کی خاموشی میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو جایا کرتے تھے لیکن اس موقع پر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ رد قادیانیت پر تصنیف کی تکمیل یا مبلغین کی روانگی کو ان اوقات میں بھی انجام دینے لگے تھے۔ آپ اپنے محرر سے فرمایا کرتے تھے کہ کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا دیا کرو،  اس میں جہاد بالسیف والا ثواب ملے گا۔

مولانا محمد علی مونگیری کی تصنیفات رد قادیانیت میں

رد قادیانیت میں آپ نے ایک قول کے مطابق سو کے قریب رسالے مرتب فرمائے ہیں۔ آپ نے تنہا اتنا کام کیا، جو کسی اکیڈمی کے کرنے کا کام ہوتا ہے۔ آپ کی چند مشہور تصانیف یہ ہیں

فیصلہ آسمانی (3جلد) 

شہادت آسمانی (2جلد) 

چشمہ ہدایت

معیار صداقت

چیلنج محمدیہ

معیار المسیح

آئینہ کمالات مرزا۔

مولانا محمد علی مونگیری نے کتابوں میں قادیانیت کے جھوٹ کا پردہ فاش کیا ہے، حتی کہ آپ نے قادیانیوں کیلئے اس دور میں دس دس ہزار روپے انعامات رکھے ہیں، صرف سوالات کے جوابات کیلئے، آپ اپنی تصانیف قادیانیوں کے بڑے مبلغین کو بھیجا کرتے تھے تاکہ کبھی جواب دے سکے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 

کتابوں کے علاوہ مولانا محمد علی مونگیری نے بے شمار خطوط مختلف علاقوں کے علماء اور دیگر ذمہ داران کے نام لکھے ہیں۔ آپ کے یہ خطوط نقش راہ ثابت ہوئے اور ان کی برکتوں سے اللہ نے حیدرآباد، کٹک اور دیگر علاقوں کو اس فتنہ سے محفوظ رکھا۔ 

مولانا محمد علی مونگیری کی وفات

 مولانا محمد علی مونگیری عمر کی اس دہلیز پر تھے جہاں کمزوری اور دیگر پریشانیاں انسانی جسم میں اپنا مسکن بنا لیتی ہے لیکن آپ تو خلقا ضعیف و ناتواں تھے۔ درد گردہ کے مریض تھے۔ بخار وغیرہ کی وجہ سے کمزوری میں مزید شدت ہوجایا کرتی تھی۔ 

آپ تقریباً گیارہ روز مرض الوفات میں رہے۔ استغراق کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی، لیکن نماز اور اتباع سنت میں کبھی فرق نہیں پڑنے دیا۔ بالآخر 9 ربیع الاول 1346 بمطابق 13 ستمبر 1927 کو آپ اللہ کے دربار میں حاضر ہوگئے۔ اپنے علم و عرفاں کی روشنی سے عالم کو منور کرنے والا ماہتاب ہمیشہ ہمیش کیلئے غروب ہوگیا۔

ایک ایسا شخص جس نے کسب علم کیلئے دور دراز کا سفر کیا اور عین عنفوان شباب میں عیسائیت کے سیلاب سے ٹکرا گیا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے بعد آپ نے جس ثابت قدمی اور استقلال سے عیسائیت کا تعاقب کیا ہے اس کی مثال نہیں ہے۔ تصوف و سلوک میں حافظ محمد، شاہ کرامت کے بعد مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی سے وابستہ ہوئے ، خلافت کا خرقہ آپ کو سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مرحمت فرمایا ہے۔ عمر کے درمیانی حصہ میں تحریک ندوہ اور قیام دارالعلوم ندوہ العلماء کیلئے تگ ودو کی اور زندگی کا آخری حصہ رد قادیانیت میں گزارا۔

در کف جام شریعت در کف سندان عشق، یہ آپ کی زندگی کی تعبیر ہے

 

 

 

Related Posts

9 thoughts on “مولانا محمد علی مونگیری: ‏حیات ‏و ‏خدمات ‏کے ‏چند ‏درخشاں ‏پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے