حلالہ کیا ہے

مذہب اسلام ایک مکمل دستور حیات ہے، جو زندگی کے ہرشعبہ کے بارے میں ہمیں واضح تعلیمات اور ہدایات سے روشناس کراتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا کی کامیابی اور ہر سماج کی معاشرتی زندگی میں امن و سکون کا واحد راستہ اسلام ہے۔ کیونکہ مذاہب عالَم میں اسلام واحد ایسا مذہب ہے جس کے احکامات انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں کو محیط ہے۔ خلوت و جلوت، نشست و برخاست، سفر و حضر، سماجی اور معاشرتی تعلقات نیز شب و روز کے اعمال و افعال کوئی ایسا میدان نہیں ہے جس میں مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کی مکمل راہنمائی نہیں فرمائی ہے۔

شادی بیاہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے، انسانی نسل کی بقا کے لئے بھی ضروری ہے اور ایک خوش حال معاشرہ کی تکمیل کے لئے بھی ضروری ہے، کیونکہ شادی بیاہ کے بعد انسان عام    طور پر ایسے گناہوں سے محفوظ رہتا ہے جو معاشرہ میں فتنہ و فساد کو جنم دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی استطاعت رکھتا ہے یعنی اپنی بیوی کو نان و نفقہ دینے اور رہائش دینے پر قادر ہے تو شادی کرلے، لیکن اگر کوئی استطاعت نہیں رکھتا ہے، غربت کی وجہ سے پریشانی ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسے شخص کو کثرت سے روزہ رکھنا چاہئے کیونکہ یہ شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔ غرض اینکہ، شادی کا ایک بنیادی اور اہم مقصد افزائش نسل کے علاوہ، عفت و عصمت اور برائی سے حفاظت بھی ہے۔

لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شوہر بیوی میں باہمی ہم آہنگی نہیں ہوتی ہے، اور مزاج کے نہ ملنے کی وجہ سے شادی کا باقی رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ شادی کے بعد اگر شوہر بیوی میں اختلاف ہوجائے، تو مذہب اسلام اس سلسلہ میں کیا راہنمائی کرتا ہے، اس چیز کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر شوہر اور بیوی میں اختلاف ہوجائے تو پہلے دونوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کام کے لئے دونوں خاندان کے ایسے معزز افراد اور سنجیدہ  حضرات منتخب کئے جائیں گے جن میں سوج بوجھ اور معاملہ فہمی کی صلاحیت ہو، تاکہ جب یہ افراد بیٹھ کر بات کریں تو معاملہ کی صلح صفائی کریں اور حتی الامکان یہ کوشش ہو کہ رشتہ کو باقی رکھا جائے، کیونکہ رشتہ کو ختم کرنا کسی بھی طور اچھی اور پسندیدہ بات نہیں ہے۔ لیکن اگر پھر بھی بات نہ بنے اور ایسا محسوس ہوکہ شوہر بیوی میں علیحدگی بہتر ہے تو، اس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو حالت طہر (جن ایام میں حیض نہ آئے) میں  ایک طلاق دے۔ ایک طلاق دینے کے بعد جب عدت پوری ہوجائے گی تو نکاح از خود ختم ہوجائے گا، اور اب شوہر اور بیوی دونوں اپنے اعتبار سے آزاد ہیں۔ اگر چاہیں تو دونوں اپنی مرضی سے جہاں چاہے شادی کرے، کیونکہ اس میں اب کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔

لیکن اگر کچھ مدت گزرنے کے بعد، شوہر اور بیوی کو محسوس ہو ہے کہ ہم دوبارہ ساتھ رہ سکتے ہیں اور پرانے گلے شکوے بھلا کر پھر سے نئی زندگی کی شروعات کر سکتے ہیں، تو ایسی صورت میں مذہب اسلام نے اجازت دی ہے کہ دونوں نکاح کرلے۔ اور اس کے بعد دونوں خوش و خرم اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ پھر بھی اگر حالات اور مزاج میں مطابقت پیدا نہ ہو، اور کچھ دنوں کے بعد ایسا محسوس ہو کہ ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے تو باہمی رضامندی سے حالت طہر میں ایک طلاق دے۔ عدت پوری ہونے کے بعد دونوں آزاد ہیں، اگر چاہیں تو اپنی زندگی کی نئی شروعات کر سکتے ہیں اور الگ الگ اپنا گھر بسا سکتے ہیں۔

علیحدہ رہنے کے کچھ دنوں بعد پھر دونوں کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم اس بار زندگی کی گاڑی کو بہتر طور پر چلا سکتے ہیں۔ اور تیسری بار جبکہ شوہر نے پہلے ہی دو طلاق دے دیا ہے۔ دونوں نکاح کرتے ہیں۔ زندگی کو از سر نو شروع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس بار بھی مزاج میں موافقت یا کسی اور سبب سے بات بگڑ جاتی ہےاور نباہ مشکل ہوجاتا ہے، پھر نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے، اور شوہر اپنی بیوی کو حالت طہر میں تیسری طلاق دے دیتا ہے۔

مذہب اسلام کا نظریہ ہے کہ دونوں کو تین مرتبہ موقع دیا گیا، کہ کسی طرح اپنی زندگی کی گاڑی کو درست سمت میں چلائیں اور نباہ کی کوشش کریں، لیکن اسباب و وجوہات کی بنا پر تینوں مرتبہ ناکامی ہاتھ لگی، اور ہر بار نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ اب ان دونوں کے راستے جدا ہیں، اب اگر یہ ساتھ رہنا چاہیں تو مذہب اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے، کیونکہ تین مرتبہ پہلے ہی موقع دیا جاچکا ہے۔ اب دونوں یا تو تنہا زندگی گزارے، یا پھر دوسری شادی کریں۔

اس صورت میں اگر عورت اب کہیں اور نکاح کرتی ہے تاکہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے شروع کرسکیں تو اسلام اس کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ مستحسن بھی سمجھتا ہے۔ کیونکہ انسانی ضروریات کی تکمیل ساتھی کے بغیر مشکل ہوجاتی ہے۔ اب جو عورت نے دوسرا نکاح کرلیا ہے اور اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ عورت کا یہ دوسرا نکاح، پہلے شوہر کے حق میں حلالہ ہے۔ مذہب اسلام میں اسی کو حلالہ کہا جاتا ہے، نکاح حلالہ یا اس جیسی چیز اسلام میں نہیں پائی جاتی ہے۔ اب اگر عورت کا نباہ دوسرے شوہر کے ساتھ بھی نہیں ہو         رہا ہے، اور اختلافات و تنازعات یہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ دوسرے شوہر سے بھی طلاق کی نوبت آجاتی ہے، تو عدت گزارنے کے بعد چاہے تو پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرلے اور چاہے تو کہیں اور نکاح کرلے۔ کیونکہ طلاق کی عدت مکمل ہونے کے بعد عورت پر کوئی زور زبردستی نہیں  ہے کہ کس سے نکاح کرنا ہے اور کس سے نکاح نہیں کرنا ہے، وہ بااختیار ہے اور اپنے لئے فیصلہ لینے کا اسے مکمل حق حاصل ہے، جو شریعت نے اسے عطا کیا ہے۔

مذہب اسلام میں حلالہ کی اس سے زیادہ کوئی حیثیت یا اہمیت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اس قاعدہ اور اصول کا غلط فائدہ اٹھائے اور غلط طریقہ سے بیوی کو طلاق دے، جسے مذہب اسلام نے منع کیا ہے، اور پھر حلالہ کرائے تو ایسے شخص کے متعلق آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اللہ کی لعنت ہے حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے اس پر”۔ بحالت مجبوری کو طلاق دینے یا خلع لینے کی اجازت دی گئ ہے، لیکن طلاق کو مباح چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے، اس لئے طلاق دینے سے بچنا چاہئے اور اگر دینا ضروری ہو تو ایک طلاق دے کر معاملہ ختم کردے۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا، شرعا غلط ہے اور گناہ کا باعث ہے، نیز اس میں شرمندگی بھی ہے۔ اور یہی وہ صورت ہے جہاں بعض ناعاقبت افراد ایک گناہ کرکے پھر دوسرے گناہ یعنی حلالہ کرانے کا گناہ کرتے ہیں۔

موجودہ دور میں مذہب اسلام کو مختلف طریقوں سے بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور حلالہ کے معاملہ کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے گویا کہ یہ عورت کے لئے کوئی عذاب ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو بااختیار بنانے اور معاشرہ میں بہتر طریقے سے زندگی گزارنے کے لئے یہ اصول مرتب کیا ہے، ورنہ اسلام سے پہلے جب تین طلاق کی قید نہیں تھی تو لوگ عورتوں کو زندگی بھر اپنی چوکھٹ پر مجبور اور بے سہارا بنا کر رکھا کرتے تھے۔ جب چاہتے طلاق دیتے اور جب چاہتے رجوع لرلیا کرتے تھے۔ یا دوسری صورت یہ تھی کہ شادی کے بعد عورت کے تمام اختیارات ختم کردئے جاتے تھے، حتی کہ اگر شوہر مر جائے تو ساتھ میں اسے بھی زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ ان سب رسم و رواج کو ختم کرکے، اسلام نے طلاق کے اصول متعین کئے تاکہ عورت معاشرہ میں باعزت طریقے سے زندگی گزار سکے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے