مولانا نسیم اختر شاہ قیصر: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

ہمارے ملک ہندوستان میں بعض ایسے خانوادے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے خاص فضل و کرم سے نوازا ہے، ان خانوادوں کی خصوصیات میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ ان میں نسل در نسل علوم و معارف اور فضل و کمال کا سلسلہ جاریرہا ہے۔ ان کے احسانات عظیم کے  خصوصا ملک ہندوستان کے مسلمان اور عموما عالم اسلام کے افراد مرہون منت ہیں۔ علوم الہیہ اور دیگر فنون میں ان کے کارنامے آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے ان کے کارناموں کو برسہا برس سے لکھنے والوں نے لکھا ہے اور بولنے والوں نے اپنی قوت گویائی کو بروئے کار لاتے ہوئے امت مسلمہ کو ان کے روشن کارناموں سے روشناس کرایا ہے۔ ان چند خانوادوں میں ایک دیوبند میں مقیم علامہ انور شاہ کشمیری کا خانوادہ ہے۔ آپ کے جد امجد شاہ مسعود نرواریؒ وادی لولاب کے عظیم دینی و روحانی راہنما تھے جن کی تعلیم و تربیت نے وادی میں سنت نبوی اور شمع ایمانی جلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے دیوبند کو اپنا مسکن بنایا اور دارالعلوم کی مسند حدیث کو اپنے علمی و روحانی فیوض و برکات سے ایک زمانہ تک روشن کئے رکھا۔ آپ کے بعد آپ کے لائق و فائق فرزند فخر المحدثین مولانا انظر شاہ کشمیری نے اپنے والد گرامی کی روایت کو باقی رکھا جبکہ دوسری طرف علامہ انور شاہ کشمیری کے بڑے فرزند مولانا ازہر شاہ قیصر دارالعلوم سے شائع ہونے والے ماہانہ مجلہ میں اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کے ذریعہ خلق خدا کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔ مولانا ازہر شاہ قیصر کے گھر 1960 میں مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی پیدائش ہوئی۔

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر 1960میں مولانا ازہر شاہ قیصر کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں وقت کی دو عظیم ہستیاں بیک وقت موجود تھیں۔ قلم و قرطاس کے در نایاب مولانا ازہر شاہ قیصر اور علم حدیث کے گوہر بے مثال فخر المحدثین مولانا انظر شاہ کشمیری۔ ایسی عظیم ہستیوں کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کے نرالے اور انوکھے انداز نے مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کو علم سے وارفتگی اور وقت کی قدر و قیمت اور اہمیت و افادیت کا خوگر بنا دیا تھا۔ عہد طفلی میں ہی آپ کی پیشانی پر بلندئ اقبال کا ستارہ جگمگانے لگا تھا اور پھر دارالعلوم دیوبند کی علمی و روحانی فضا نے آپ کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔ دارالعلوم دیوبند میں رہتے ہوئے آپ نے کتابوں کی ورق گردانی، اسباق کی پابندی اور اساتذہ کرام سے خصوصی استفادہ کے علاوہ طلبہ کشمیر کی انجمن سے  بھی بھرپور استفادہ کیا تھا۔ آپ انجمن کے ساتھیوں میں سب سے زیادہ فعال و متحرک اور تقریرو تحریر کے باب میں سب سے زیادہ محنتی ثابت ہوئے، یہی وجہ ہے کہ بعد کے ادوار میں آپ نے صحافت و خطابت کے میدان میں ہر چہار جانب جولانی قلم،  جادو بیانی اور طلاقت لسانی سے اپنا لوہا منوایا ہے۔

تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے مختلف جامعات سے مختلف کورسیز کی تکمیل فرمائی۔ 1973 اور 1975 کے درمیان آپ نے ادیب، ادیب ماہر اور ادیب کامل کے امتحانات دیئے۔ بعد ازاں، 1976 اور 1978 کے درمیان جامعہ دینیات دیوبند سے عالم دینیات، ماہر دینیات اور فاضل دینیات کے امتحانات کی تکمیل کی اور پھر ایم اے اردو کے لئے آگرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1989/90 میں ایم اے کی ڈگری سے سرفراز کئے گئے۔ اور اسی درمیان 1989 میں آپ بحیثیت استاذ دارالعلوم وقف دیوبند میں تشریف لائے اور تادم حیات اس ادارہ سے وابستہ رہے۔ آپ نے مختلف کورسیز کے ذریعہ اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو جِلا بخشا اور پھر انہیں بروئے کار لاتے ہوئے مختلف میدانوں کو فتح کیا ۔ آپ علم دوست اور کتاب دوست شخصیت کے مالک تھے جن کے شب و روز کا مشغلہ لکھنا پڑھنا اور کتابوں کی ورق گردانی کرنا تھا۔

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا شمار ملک ہندوستان کے ان چنندہ ناموں میں ہوتا ہے جن کا قلم سیل رواں ہے، جس میں سیلانی اور جولانی دونوں بیک وقت نظر آتے ہیں۔ آپ ایک اچھے قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ زود قلم کی صفت سے بھی متصف تھے۔ مضامین اس سرعت کےساتھ اترتے کہ آپ لکھنے کے بجائے بولنے پر اکتفا کرتے اور کاتب لکھنے کا کام انجام دیا کرتا تھا۔ الفاظ و تعبیرات میں اس قدر ندرت و یکسانیت ہوتی کہ مضمون مکمل ہونے تک آپ مسلسل بغیر ٹھہرے بولتے چلے جاتے تھے۔ آپ کے قلم کی جولانی نے بے شمار علماء کرام کی زندگیوں کے ان پوشیدہ پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے جن پر لکھنے سے عموما لوگ کتراتے ہیں۔ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے تو ایک بے باک، نڈر، بے خوف صحافی کی جھلک نظر آتی، حالات پر سرسری نگاہ نہیں بلکہ گہری نظر رکھنے والے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ایک طویل زمانہ تک آپ مسلسل اخبار ات کے لئے بھی لکھتے رہے ۔ آپ نے 1979میں "اشاعت حق” نامی پندرہ روزہ رسالہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نائب مدیر کی حیثیت سے آپ مسلسل چھ سال 1985 تک خدمت انجام دیتے رہے ۔ 1983 میں آپ "ماہنامہ طیب” کے معاون مدیر منتخب ہوئے، اور پھر 1986 میں آپ "اشاعت حق” کے مدیر منتخب کئے گئے۔ دارالعلوم وقف دیوبند سے وابستگی کے بعد "ندائے دارالعلوم” کی مجلس ادارت کے رکن منتخب ہوئے۔ غرضیکہ آپ نے مختلف جرائد و رسائل کو اپنی قلمی خدمات سے حیات نو عطا کی تھی اور ملک کے مختلف اخبارات آپ کی تحریروں کی اشاعت کے متمنی رہا کرتے تھے۔

آپ اپنی عمر کے لحاظ سے کثیر التصانیف تھے، آپ نے مختلف موضوعات پر اپنے قلمی جواہر کو بکھیرا ہے۔ جس موضوع پر آپ قلم اٹھاتے اس کا مکمل حق ادا کرنے کی قابلیت سے آپ مالا مال تھے۔ اصلاح معاشرہ، سیرت رسول اکرم ﷺ، واقعات قرآنی  نیز شخصیات کا تعارف ان جیسے کئی موضوعات ہیں جن پر آپ کی سیر حاصل کتابیںموجود ہیں۔ آپ نے اپنے والد محترم مولانا ازہر شاہ قیصر کی سوانح عمری” ایک ادیب ایک صحافی” کے نام سے مرتب کی۔ سیرت رسول پر آپ نے "سیرت رسول ﷺ واقعات کے آئینہ میں”، "حرف تابندہ” "میرے عہد کے لوگ” "جانے پہچانے لوگ” "خوشبو جیسے لوگ” "اپنے لوگ” "کیا ہوئے یہ لوگ”  وغیرہ تالیف کیں۔”میرے عہد کا دارالعلوم” یہ کتاب دارالعلوم میں تعلیمی اوقات کے واقعات و حالات پر مشتمل ایک دلچسپ اور قابل مطالعہ کتاب ہے۔ یہ کتاب اساتذہ کرام کی خصوصیات، ان کے انداز درس اور تربیتی اسلوب پر عمدہ کاوش  ہے۔ "اکابر کا اختصاصی پہلو” "وہ قومیں جن پر عذاب آیا” یہ کتاب قرآن مجید میں مذکور ان اقوام کے تذکرہ پر مشتمل ہے جن پر رب العالمین نے عذاب نازل فرمایا۔ آپ طویل زمانہ تک ترجمہ قرآن پڑھاتے رہے تھے۔ "اسلام اور ہمارے اعمال” اصلاح معاشرہ، حالات حاضرہ اور مسلمانوں  کے اعمال پر شاندار تجزیاتی تحریر ہے۔ آپ نے تقریبا دو درجن کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بہترین اور زود قلم ہونے کے ساتھ ساتھ الفاظ و تعبیرات کو طلاقت لسانی سے ادا کرنے کے فن کے بھی ماہر تھے۔ بلکہ ایک طویل زمانہ تک آپ کی خطابت کا چرچہ آپ کی کتابت سے زیادہ رہا ہے۔ دیوبند اور دیگر علاقوں کے جلسے مولانا کی موجودگی کے بغیر ادھورے اور ناقص تصور کئے جاتے تھے۔ آپ شور شرابہ، چیخ و پکار اور روایتی مقررین کی مانند اوٹ پٹانگ حرکتوں کے سخت مخالف تھے۔ آپ کے کلام میں سنجیدگی و متانت، آواز  کا زیر و بم،  اورسحر انگیز طرز بیان جیسی خصوصیات تھیں جو سامعین کےقلوب پر گہرا نقش چھوڑنے کا کام بخوبی انجام دیا کرتی تھیں۔ آپ کا یہ بے مثال فن اور الفاط و تعبیرات کی ادائیگی اور بر محل استعمالات آپ کو ریڈیو اسٹیشن بھی لے گئے جہاں سے آپ کی تقاریر نشر کی جاتی تھیں۔ آپ کی کتاب "حرف تابندہ” انہی ریڈیائی تقاریر کا مجموعہ ہے۔

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی سادگی، تواضع اور انکساری ایسا امتیازی وصف تھا جو آپ کو بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان یکساں طور پر مقبول بنائے ہوئے تھا۔ آپ بڑوں کی محافل و مجالس میں ہوتے تو ان کے مزاج  کو سامنے رکھتے لیکن اگر چھوٹوں سے محو کلام ہوتے تو ان کی حوصلہ افزائی اور ان میں خود اعتمادی پیدا کرتے۔ راقم کو بارہا مولانا موصوف سے مختلف موضوعات پر بات کرنے کا اتفاق ہوا ہے، ایک مرتبہ دارالعلوم وقف سے چھٹی کے بعد نکلتے ہوئے ملاقات ہوئی، ان دنوں میں اپنے مقالہ "علامہ انور شاہ کشمیری اور علامہ اقبال کے تعلقات” کے سلسلہ میں ان خطوط کو تلاش کرنے کی فکر میں تھا جو علامہ انور شاہ کشمیری نے مختلف مواقع پر علامہ اقبال کو لکھے تھے۔ یہ وہ خطوط ہیں جن کے متعلق حکیم الاسلام قاری طیب صاحب ؒ سمیت مختلف علماء کرام نے لکھا ہے اور ان کو بیان کیا ہے لیکن افسوس کہ وہ خطوط ناپید ہیں۔ اس گفت و شنید کے درمیان مولانا نے بتایا کہ 1980 کی دہائی میں  میرے والد محترم مولانا ازہر شاہ قیصر نے ان خطوط کو جمع کرنے اور ان کی بازیابی کا فیصلہ کیا لیکن تلاش بسیار کے باوجود کچھ نہیں مل سکا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ماہر اقبالیات اور علامہ اقبال کے خاص شاگرد جناب جگن ناتھ آزاد سے ملاقات کی۔ لیکن جگن ناتھ آزاد کے بقول علامہ اقبال  ان خطوط کو محفوظ نہیں رکھ سکے تھے۔ یہ آپ کی وسعت ظرفی اور عجز و انکساری کا عملی نمونہ تھا کہ آپ راہ چلتے، بوقت ضرورت دیر تک ٹھہر کر گفتگو کرنے کو اپنی شان کے خلاف نہیں تصور کرتے تھے۔ آپ کی سادگی اور تواضع کو جناب معصوم مرادآبادی نے خوب الفاظ کا جامہ پہنایا ہے وہ لکھتے ہیں: "ایک چھوٹے سے کمرے میں جس کی دیواریں بوسیدہ تھیں مجھے لے جاکر مولانا کے سامنے کھڑا کردیا گیا۔  وہ زمین پر ایک پرانی چٹائی پر بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر کھڑے ہوگئے، میں نے کمرے کا جائزہ لیا تو وہاں کوئی چیز ایسی نظر نہیں آئی جسے آرام دہ یا آسائشی کہا جاسکے۔ ان کی کٹیا میں مجھے خانقاہ جیسی خوشبو محسوس ہوئی۔ جسم پر کپڑے بھی معمولی قسم کے تھے۔ لیکن گفتگو بڑی معنی خیز اور علمی انداز کی تھی، مجھے ان کی سادگی او درویسی نے متاثر کیا۔ انہیں دیکھ کر مجھے گزرے زمانے کے وہ علماء یاد آئے جن کا اوڑھنا بچھونا علم ہی ہوتا تھا۔ وہ عالم با عمل کہلاتے تھے اور ان ہی کی نابغہ روزگاز شخصیات کی موت پر کہا جاتا تھا کہ عالم کی موت ایک عالَم کی موت ہے”۔

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر جادوئی اور کرشماتی شخصیت کے مالک انسان تھے۔ دارالعلوم وقف دیوبند میں عرصہ دراز تک آپ کا علمی فیضان جاری رہا، لیکن اس کے علاوہ آپ نے "مرکز نوائے قلم” کے نام سے اپنا ایک قلمی ادارہ شروع کیا جہاں قلم و قرطاس سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کرام کی سیرابی کا سامان فراہم کیا جاتا تھا۔ آپ کے اس ادارہ سے فیض اٹھانے والے اداروں کی حدود و قیود سے آزاد تھے اور خارج اوقات میں بے شمار طلبہ کرام استفادہ کیا کرتے تھے۔ مولانا کی رحلت پر لکھنے والوں میں بیشتر افراد وہ ہیں جنہوں نے اس ادارہ سے خوشہ چینی کی ہے اور مولانا کے زیر سایہ قلم پکڑنا سیکھا ہے۔ لیکن افسوس کہ اب آپ کی رحلت کے ساتھ یہ تمام فیوض و برکات اور عملی جد وجہد کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ لیکن آپ کے فیض یافتگان اور آپ کی تقاریر و تحریریں آپ کی شخصیت کو زوال بخشنے کے لئے کافی ہیں۔

گزشتہ مہینہ اچانک گھر پر پیر پھسل گیا اور کمر میں چوٹ آگئی۔ علاج و معالجہ کا سلسلہ جاری رہا اور طبیعت افاقہ کی جانب مائل تھی۔ لیکن تقدیر الہی کے سامنے تدبیر انسانی بے وقعت اور بے کار ثابت ہوتی ہے۔ مولانا بہت تیزی کے ساتھ روبہ صحت تھے اور امید کی جارہی تھی کہ جلد ہی آپ کی مجالس و محافل کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن گیارہ ستمبر کی شام اچانک قلب متاثر ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہنستا کھیلتا اور خوش مزاج و خوش طبیعت انسان ہمیشہ ہمیش کے لئے داغ مفارقت دے گیا۔

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا: آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے