شاہ عبد العزیز محدث دہلوی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

یہ نظام قدرت ہے کہ جب کبھی باطل نے سر ابھارا ہے تو اس کی سرکوبی کے لئے اللہ تعالی نے ایسے افراد پیدا کئے ہیں جو ہر طرح سے اس فتنہ کا سدباب کرنے کی اہلیت و قابلیت رکھتے ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب اکبر نے دین مستقیم میں ایک نئی طرح کی بنیاد ڈالی تو اس کی سرکوبی اور اس کی وجہ سے عود کر آنے والی بدعات و خرافات کا قلع قمع کرنے کے لئے شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کو پیدا کیا، اسی طرح جب ملک ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے آخری عہد میں  شیعوں کا تسلط ہوا اور شریعت محمدی میں خرد و برد کرنے کا بازار گرم ہوا تو اس کی بیخ کنی کے لئے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی میدان عمل میں آئے۔ آپ نے مسلسل علالت و نقاہت اور سیاسی انتشار و اختلاف کے باوجود دہلی میں بیٹھ کر چمنستان علوم و معارف دینیہ سے تشنگان بادہ توحید و سنت کو سرشار و سیراب کیا، جن کی ظاہری بینائی اگرچہ عالم شباب ہی میں جاچکی تھی لیکن ان کے دل کی حیرت انگیز روشنی نے ہزاروں دلوں کو روشن کردیا تھا۔

پیدائش

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی پیدائش 1159 ہجری کی ہے، آپ دہلی میں وقت کے عظیم محدث اور ملک ہندوستان کے عظیم مصلح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا شاہ عبد الرحیم علماء کرام کی اس جماعت میں شامل تھے جنہوں نے بادشاہ اورنگزیب کی ایما پر "فتاوی ہندیہ” کو ترتیب دیا تھا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تاریخ ہند کے پہلے عظیم انسان ہیں جنہوں نے علم حدیث کی تمام کتابوں کے درس و تدریس کا سلسلہ قائم فرمایا۔ آپ سے قبل اگرچہ شاہ عبد الحق محدث دہلوی اور شیخ شرف الدین یحیی منیری نے اس کام کو انجام دیا تھا لیکن صحاح ستہ کی تعلیم کا جو اثر آپ کی ذات سے شروع ہوا تھا وہ آج بھی الحمد للہ قائم و دائم ہے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے ایسے گھر میں آنکھیں کھولی تھی جہاں ہر  طرف علم و عمل اور فضل و کمال کا بول بالا تھا۔تشنگان علوم ملک کے طول و عرض سے دینی علوم میں رسوخ کے لئے آپ کے درپر جمع ہوا کرتے تھے۔ آپ نے تعلیمی سلسلہ والد محترم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے شروع کیا ، آپ نے بعض علوم شاہ محمد عاشق پھلتی اور حضرت شاہ نور اللہ بڈھانوی سے بھی حاصل کیا تھا۔ اللہ تعالی نے آپ کو عجیب صالحیت و صلاحیت سے نوازا تھا، زمانہ طفلی میں ہی زہد و ورع کے نمایاں اثرات ظاہر ہونے لگے تھے، اور صرف پندرہ سال کی عمر میں مروجہ علوم کی تکمیل سے فارغ ہوکر درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرمادیا تھا۔

عملی زندگی کا آغاز

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز والد محترم کی حیات میں ہی شروع کردیا تھا لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور والد محترم کا سایہ محض سولہ سال کی عمر میں  سر سے اٹھ گیا۔آپ بھائیوں میں بڑے تھے اس لئے دیگر تینوں بھائیوں کی ذمہ داری آپ کے ناتواں کندھوں پر آگئی، لیکن چشم فلک شاہد و عادل ہے کہ سولہ سال کے اس نوجوان نے جس جوانمردی اور ہنرمندی سے اپنے بھائیوں کی دینی تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کی اور ان کی پوشیدہ صالحیت و صلاحیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ کسی عام انسان کے بس کا روگ نہیں تھا۔ آپ کے تینوں بھائی  شاہ رفیع الدین، شاہ عبد القادر اور شاہ عبد الغنی اپنے وقت کے عظیم محدث اور مفسر رہے ہیں اور ان سے کثیر خلق خدا نے فیض حاصل کیا تھا۔ آپ سے کسب فیض کرنے والوں کی تعداد یقینا کثیر جماعت پر مشتمل ہوگی، کیونکہ آپ دہلی میں مقیم تھے اور اس وقت دہلی پورے ملک ہندوستان کے لئے علمی مرکز تھا۔ آپ سے جن اہم اور باکمال افراد نے فیض اٹھایا ہے ان کے ناموں کو صاحب تذکرہ علمائے ہند، صاحب نزہۃ الخواطر، صاحب عمدۃ الصحائف اور صاحب تذکرہ شاہ عبد العزیز وغیرہ نے مرتب کرنے کی کوشش کی ہے اور تذکرہ شاہ عبد العزیز میں چند اہم ناموں کی فہرست بھی مرتب کی گئی ہے۔

بیعت و خلافت

یہ وہ دور تھا جب ہر صاحب فضل و کمال اور علم و ہنر کے راہی کے لئے تصوف و سلوک کی بھٹی میں تپ کر عبادت و ریاضت کی سیڑھیوں سے ولایت کے اس مقام تک پہنچنا ضروری ہوتا تھا جہاں سے وہ بیک وقت عوام الناس کی دینی اور روحانی ہر دو تربیت کے لائق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے مشائخ اپنے متوسلین و منتسبین کو اس وقت تک عوامی اصلاح کی اجازت نہیں فرماتے تھے جب تک انہیں شرح صدر نہ ہوجاتا تھا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی محض پندرہ سال کی عمر میں دینی علوم سے فارغ ہوکر درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرما دیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ آپ نے والد محترم سے بیعت و ارشاد کا تعلق بھی قائم کر لیا تھا۔ مولانا نسیم احمد فریدی اپنی کتاب "تذکرہ شاہ عبد العزیز” میں لکھتے ہیں: "اپنے والد ماجد سے تمام سلاسل میں بیعت ہوئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں میدان سلک طے کرلیا، 16 سال کے تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تمام خلفاء کی موجودگی میں آپ ہی قائم مقام اور سجادہ نشین بنائے گئے”۔  شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے درس قرآن کی مجلس علمی و روحانی فضا سے منور ہوا کرتی تھی۔ آپ ہفتہ میں دو دن جمعہ اور منگل اپنے مدرسہ میں وعظ کی مجلس منعقد کرتے تھے۔ صاحب تذکرہ شاہ عبد العزیز نے مولانا حیدر علی فیض آبادی کے حوالہ سے آپ کی مجلس کا نقشہ یوں کھینچا ہے: "علامہ دہلوی روز جمعہ اور سہ شنبہ کو مجلس وعظ اپنے مدرسے میں منعقد کرتے تھے۔ مشتاقین وہاں جمع ہوتے تھے اور یہ وعظ کافی دیر تک ہوتا تھا۔ علماء کرام تفسیر بیضاوی، تفسیر نیشا پوری، کشاف اور دیگر تفاسیر مشکلہ اپنے سامنے رکھتے تھےاور سمجھ لیتے تھے کہ اس وقت فلاں اشکال کو فلاں تفسیر میں سے حل فرمایا گیا ہے۔ میں نے بارہا یہ دیکھا کہ جس شخص کے دل میں کسی قسم کا اعتراض یا شبہ آتا تھا آپ کی تقریر سے وہ شخص مطمئن ہوجاتا تھا۔ آپ کے فیض صحبت سے اکثر غیر مسلم مسلمان ہوجاتے اور رشک و تردد والے قوت اعتقاد حاصل کرتے تھے”۔

تصنیف و تالیف

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے عمر کے ابتدائی حصہ میں ہی درس و تدریس کو اپنا مشغلہ بنا لیا تھا، اور خاندانی علمی و روحانی وراثت کو جاری رکھتے ہوئے شدید مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود کبھی اس میں کمی نہیں پیدا ہونے دیا تھا۔ درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف میں بھی آپ نے بیش بہا علمی خزانے جمع کیے تھے لیکن گردش ایام اور حالات کی ستم ظریفی نے بہت کچھ تہس نہس اور تباہ و برباد کردیا تھا۔ تفسیر عزیزی جو آپ نے عمر کے اخیر دور میں املا کروایا تھا، ہنگامہ 1857 نے اس کے بیشتر حصوں کو ضائع کردیا البتہ اس کی دو جلدیں دستیاب ہوسکی ہیں جن کا اب اردو میں بھی ترجمہ کیا جاچکا ہے اور اسی نام سے بازار میں دستیاب ہے۔

تحفہ اثناء عشریہ اردو کے مقدمہ میں رضی عثمانی صاحب  لکھتے ہیں: اس زمانہ میں روافض کا غلبہ اور نجف علی خان کا تسلط تھا جس نے حضرت شاہ ولی اللہ کے پہنچے اتروائے تھے تاکہ کچھ لکھ نہ سکیں اور حضرت مرزا مظہر جان جاناں کو شہید کرا دیا تھا۔ روافض نے خود شاہ عبد العزیز کو دو مرتبہ زہر دلوایا تھا”۔  ایسے سخت دور میں شاہ صاحب نے "تحفہ اثناء عشریہ” لکھا تھا۔ یہ کتاب اپنے آپ میں سند کا درجہ رکھتی ہے اور قرآن و حدیث کے بہت سے گوشے اس کے مطالعے سے کھلتے ہیں۔ فرقہ امامیہ کی حقیقت اور ان کے اعتراضات کے مکمل اور مدلل جوابات اس کتاب میں موجود ہیں۔ صاحب تذکرہ شاہ عبد العزیز لکھتے ہیں: "خود شاہ صاحب نے ایک مجلس میں تحفہ اثنا عشریہ کا ذکر آنے پر فرمایا کہ ایک شخص نے اس کتاب کے بارے میں لکھا تھا: "یہ کتاب ایسی ہے کہ اگر اس کے برابر سونا لے کر اس کو فروخت کیا جائے تو بھی بیچنے والا خسارہ میں رہے گا””۔ صاحب رود کوثر لکھتے ہیں: "شاہ صاحب فرماتے ہیں، ہمارے زمانے اور ہمارے شہروں میں شیعہ مذہب کی اشاعت کی اب یہ حالات ہوگئی ہے کہ شاید ہی کوئی گھر ہوگا جس میں ایک دو آدمی اس مذہب کے اور شیعہ خیالات سے متاثر نہ ہوں”۔

بستان المحدثین، یہ علم حدیث پر لکھی گئی کتابوں کی فہرست ہے اور ان کے مرتبین کی تفصیلی سوانح ہے۔ علم حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لئے نادر و نایا ب تحفہ ہے۔ اس کا اردو ترجمہ مولانا عبد السمیع صاحب دیوبندی استاذ دارالعلوم دیوبند نے کیا تھا۔ "عجالہ نافعہ” اصول حدیث پر شاندار اور جامع و مانع رسالہ ہے، اس کا اردو ترجمہ بھی کیا جاچکا ہے۔ "میزان البلاغۃ” علم بلاغت پر اہم اور مفید کتاب ہے یہ مفتی عزیز الرحمان دیوبندی کے حاشیہ کے ساتھ میرٹھ سے شائع ہوئی تھی۔ "میزان الکلام” علم کلام میں جامع متن ہے۔ "ستر الجلیل فی مسئلۃ التفضیل”۔ "عزیز الاقتباس”یہ خلفاء راشدین کے فضائل و مناقب میں لکھی گئی عمدہ کتاب ہے۔ "رسالہ فی الانساب”۔ "رسالہ فی الرویا”۔ حضرت شاہ عبد العزیز کی کتابوں کی فہرست یہی ہے اس میں بعض لوگوں کو کلام ہے، ان اہل علم کا ماننا ہے کہ شاہ صاحب کی کئی تصانیف ہنگامہ کی نذر ہوگئی  جو بعد میں نہیں دستیاب ہوسکی تھی۔ صاحب نزھۃ الخواطر نے مزید کتابوں کا شمار کرایا ہے جن میں کئی کتابوں پر لکھے گئے حاشیے بھی شامل ہیں۔

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ذوق دہلوی

شیخ محمد ابراہیم ذوق دہلوی اردو زبان و ادب کے عظیم اور نامور شاعر جو سلطنت مغلیہ کے آخری چراغ بہادر شاہ ظفر کے اتالیق بھی رہے تھے ان کے متعلق مشہور ہے کہ وہ شیخ نصیر  دہلوی سے اپنے اشعار کی تصحیح لیا کرتے تھے لیکن پھر شیخ نصیر دہلوی نے درست کرنے سے انکار کردیا۔ پھر ذوق نے دہلی کے تمام اساتذہ کو چھوڑ کر شاہ عبد العزیز کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب آپ نے اس کی غزل کے متعلق تسلی کردی تو ذوق نے کسی سے اصلاح لئے بغیر بے دھڑک اس غزل کو مشاعرہ میں پڑھا۔ صاحب رود کوثر لکھتے ہیں: "جب شاہ نصیر صاحب کا ذوق سے دل کھٹا ہوگیا اور اصلاح موقوف ہوئی تو ذوق ہر جمعہ کو مولانا عبد العزیز صاحب کے وعظ میں جانے لگےاور وعظ بہت غور سے سننے لگے۔ کسی دوست نے اس کا سبب پوچھا تو ذوق نے کہا، استاذ مجھ گنہگار سے ناخوش ہوگئے، شعر و سخن میں اصلاح ملتی نہیں، اس کا بدل میں نے یہ نکالا ہے کیونکہ مولانا عبد العزیز صاھب اردو زبان دانی میں شاہ نصیر سے کسی طرح کم نہیں۔ ان کے بیان اور گفتگو کو سنتا ہوں اور اردو کے محاورے روز مرہ یاد کرتا ہوں”۔ شاہ عبد العزیز کی معلومات کافی وسیع تھی،  فن موسیقی اور مختلف راگوں کو پہچانتے تھے، آپ کی  عظمت و وقعت صرف قرآن و حدیث کے باب تک محدود نہیں تھی بلکہ ادبیات کے باب میں بھی آپ ید طولی رکھتے تھے اور جن علوم کو آپ نے پڑھا تھا اس کے مالہ و ماعلیہ سے اچھی اور گہری واقفیت تھی۔ صاحب رود کوثر لکھتے ہیں: "آپ (شاہ صاحب) خود فرماتے تھے کہ جو علوم میں نے مطالعہ کئے ہیں او اپنی استعداد کے مطابق مجھے یاد بھی ہیں، ان کی تعداد ایک سو پچاس ہے۔ ان میں سے نصف کے قریب ایسے علوم تھے جو امت اسلامی کی تخلیق تھے اور باقی نصف دوسری امتوں کے”۔

شاہ عبد العزیز دہلوی اور دہلی کالج

تاریخ ہند اس بات کی شاہد ہے کہ انگریزوں کے خلاف باضابطہ فتوی جہاد سب سے پہلے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے 1803 میں دیا تھا، لیکن 1828 میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدرسہ غازی الدین خان کو دہلی عربک کالج میں تبدیل کردیا تو مسلمان شش و پنج میں مبتلا ہوگئے۔ ایک طرف مسلمان مکمل طور پر انگریز کے خلاف تھے اور دوسری جانب انگریزوں نے تعلیمی نظام کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ صاحب رود کوثر لکھتے ہیں: "جب ایسٹ اندیا کمپنی نے دہلی کالج قائم اور لوگ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے متعلق متامل تھے تو آپ نے ان سب کے شبہات کو رفع کیا اور علی گڑھ کالج قائم ہونے سے پچاس سال پہلے انگریزی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کا فتوی دیا تھا”۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مولانا رشید الدین خان کشمیری اورمولانا مملوک علی نانوتوی جیسے صاحب علم افراد نے اس کالج سے تعلق قائم کیا اور مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی جیسی شخصیات نے استفادہ کیا تھا۔

سفر آخرت

صاحب نزھۃ الخواطر کے مطابق محض پچیس سال کی عمر میں شاہ صاحب کو مختلف قسم کے امراض لاحق ہوگئے تھے، بعض لوگوں نے چودہ قسم کے امراض کا تذکرہ کیا ہے، لیکن اس کے باوجود آپ نے کبھی شکوہ و شکایات اور بے کلی کی کیفیت کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔ آپ کی وفات کے مکمل احوال کو کئی افراد نے سپرد قرطاس کیا ہے، آپ کی خوراک حد درجہ کم ہوگئی تھی، بلکہ اخیر میں قوت ممسکہ زائل ہوگئی جس کی وجہ سے کھانے پینے کی کوئی رغبت یا خواہش باقی نہیں رہی تھی۔ بالآخر سات شوال 1239 ہجری  بعد نماز فجر ہندوستان کا یہ آفتاب علم غروب ہوگیا جس نے تقریبا آٹھ دہائیوں تک امت مسلمہ کی قیادت و سیادت کے اہم فریضہ کو بحسن خوبی انجام دیا تھا۔ آپ کے انتقال سے دہلی میں کہرام مچ گیا، عوام کا تانتا بندھ گیا۔ صاحب تذکرہ شاہ عبد العزیز، کمالات عزیزی کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ آپ کی نماز جنازہ پچپن 55 مرتبہ ادا کی گئی تھی۔ آپ کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

مولانا نسیم احمد فریدی لکھتے ہیں: "ہنگامہ 1947 میں اس قبرستان کے کتبے تک برباد ہوگئے تھے، بعض اہل خیر نے مسجد و احاطہ درگاہ شاہ ولی اللہ کی مرمت کا کام بڑے اہتمام سے کیا ہے۔ مزارات اکابر پر دوبارہ کتبے بھی نصب کرائے گئے ہیں۔ مگر یہ دیکھ کر افسوس اور تعجب ہوا کہ مزار شاہ عبد العزیز پر جو کتبہ ہے اس میں سن وفات موٹے قلم سے 1248 ہجری  لکھا ہوا ہے، اس کو بھی معمولی غلطی کہہ دیجئے لیکن میرے نزدیک بہت بڑی غلطی ہے”۔

Related Posts

2 thoughts on “شاہ عبد العزیز محدث دہلوی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے