مدارس اسلامیہ اور میڈیا کی شرانگیزی

مدارس اسلامیہ اور میڈیا کی شرانگیزی

یہ بحث اب فضول اور لایعنی ہے کہ مدارس اسلامیہ نے قوم و ملت کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا ہے اور کس طرح قوم کے پسماندہ افراد کو تعلیمی میدان سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، کیوں کہ یہ باتیں اظہر من الشمس ہے، ان باتوں کو مدارس اسلامیہ کے متعلق جانکاری رکھنے والا اور مدارس کے معاملات میں دلچسپی لینے والا ہر فرد بہتر اور اچھے طریقے سے جانتا ہے۔ ماضی میں کئی ایسے نامور غیر مسلم مفکرین اور حقائق پسند افراد نے مدارس کی اہمیت و افادیت اور ان کی خدمات پر بھرپور انداز میں تبصرہ کیا ہے، اور مدارس کی قربانیوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے، لیکن جب نیت صاف نہ ہو اور دل میں کدورت بیٹھ جائے تو پھر تمام دلائل و براہین دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

ملک ہندوستان میں بارہا شر پسند عناصر کی جانب سے مدارس کے کردار پر سوالات کھڑے کئے گئے ہیں لیکن بار بار کی تفتیش ایجنسیوں کی رپورٹ نے ہمیشہ مدارس کے کردار کو بے داغ اور ملک و ملت کے حق میں مفید بتایا ہے، لیکن اب جس طرح مدارس پر گھیرا تنگ کیا جارہا ہے وہ حکومتی عہدوں پر براجمان افراد کی نیت کو بتانے کے لئے کافی ہے۔  اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ حکومت کی منشا مدارس میں بہتری اور ان میں جدید تعلیم کی خو پیدا کرنے کے لئے ہے تو حکومتی بورڈ سے منسلک مدارس کی بہتری پر توجہ دینا زیادہ ضروری ہے۔ سرکاری مدارس کا معیار تعلیم اور دیگر سہولیات جگ ظاہر ہے۔

ہندوستان میں قانونی اعتبار سے مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی دینی تعلیم کے لئے اپنے ادارے قائم کرے، اور اپنے اعتبار سے اس کے نصاب کو متعین کرے، یہ مسلمانوں کے لئے خاص نہیں ہے بلکہ ہر طبقہ اور ہر مذہب کے افراد کو یہ حق حاصل ہے۔  یہی وجہ ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اعتبار سے اپنی مذہبی تعلیم کے لئے ادارے قائم کرتے ہیں اور انہیں چلاتے ہیں۔ اگر مسلم قوم اپنے اعتبار سے اپنے دینی ادارے قائم کر کے چلا رہی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ دینی تعلیم کی حیثیت مسلمانوں کے نزدیک کیا ہے اور آخر مسلمان دینی تعلیم پر دیگر اقوام کے مقابلہ میں اس قدر اہتمام کیوں کرتے ہیں۔ اس کا سیدھا جواب یہ ہے دینی تعلیم ہمارے لئے فرض ہے اور ہر مسلمان پر اس قدر سیکھنا ضروری ہے کہ وہ شریعت کی روشنی میں اپنی زندگی گزار سکے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں جب سے حکومت نے مدارس کے سروے کا حکم نامہ جاری کیا ہے، چند بدخواہوں کی بانچھیں کھل گئی ہیں۔ سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر ویڈیو بناکر اپلوڈ کرنے والے خود کو نیوز رپورٹر ثابت کرکے مدارس میں پہنچ رہے ہیں اور طلبہ مدارس سے غیر ضروری سوالات کی بوچھار کررہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں مدارس کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جارہی ہے جس سے یہ ثابت کرنے کی سعی جاری ہے کہ مدارس ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اور اس سلسلہ میں سب سے اہم پوائنٹ جس بات کو بنایا جارہا ہے وہ رائٹ ٹو ایجوکیشن ہے۔ اس ایکٹ کے تحت ملک میں رہنے والے ہر بچہ کے لئے ابتدائی تعلیم ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے بعض مدارس کو چھوڑ دیا جائے تو بیشتر مدارس وہ ہیں جہاں طلبہ کرام کی دینی علوم پر  مکمل توجہ دی جاتی ہے لیکن عصری علوم کا معقول بندوبست نہیں ہوتا ہے۔ جن مدارس میں عصری علوم کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہ طلبہ کرام کو دسویں یا بارہویں کا امتحان دلانے کا التزام نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے طلبہ کرام کو مستقبل میں بعض پریشانیاں لاحق ہوتی ہے۔

لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ کیا خود حکومت اپنے اس قانون کے تئیں سنجیدہ ہے۔ ہمارے ملک میں غربت کا عالم یہ ہے کہ تعلیم کا حصول تو درکنار بچوں کو مناسب غذا بھی فراہم نہیں ہوتی ہے۔ ہمارا ملک بھکمری کے معاملہ میں دنیا کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ جس ملک میں غربت کا یہ حال ہے اسے چاہیے کہ ملک میں غریب بچوں کی صحیح اور مناسب پرورش کا انتطام کرے، اگر بچوں کی مناسب پرورش ہوگی تو وہ مستقبل میں خود اپنے لئے راستہ بنا لیں گے۔ مدارس اسلامیہ کا امتیاز ہے کہ وہ ایسے ہی غریب ماں باپ کی اولاد کو اپنے یہاں قیام و طعام سمیت مناسب تعلیم کا بندوبست کرتا ہے۔ جو غریب والدین اپنے بچوں کو اسکول یا کالج بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں ان کے لئے مدارس نعمت غیر مترقبہ ہے جہاں بچوں کی اچھی نشو و نما سمیت بہترین تعلیم و تربیت ہوجاتی ہے۔ ایسے بچے جب بڑے ہوکر مدارس سے فارغ ہوتے ہیں تو کالج اور یونیورسٹی کا رخ کرتے ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والے طلبہ کرام نے مختلف میدانوں میں اپنی کامیابی و کامرانی کا جھنڈا بلند کیا ہے اور دنیا کے سامنے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ مدارس اسلامیہ پر شکنجہ کسنے کے بہت سے نقصانات میں ایک بڑا نقصان یہ ہوگا کہ غریب ماں باپ کے بچے جو پہلے ہی معاشرہ اور سماج میں کوئی وقعت اور اہمیت نہیں رکھتے ہیں مزید پستی کی جانب دھکیل دیئے جائیں گے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا واحد اور سب سے آسان راستہ مسدود ہوجائے گا اور پھر مسلم سماج سمیت ہمارے ملک میں ناخواندگی کی شرح میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اگر مدارس میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ان مدارس کو مین اسٹریم سے جوڑنے کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جائے تو مناسب قدم ہوگا لیکن ان پر کاری ضرب لگانا اور ان کی آزادی پر بندشیں لگانا نسلوں کی تعلیم و تربیت کے لئے نقصان کا باعث ہوگا۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے