خواجہ عثمان ہارونی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

خواجہ عثمان ہارونی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

برصغیر میں سلسلہ چشتیہ نے بیعت و سلوک میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ برصغیر میں سلسلہ چشتیہ کے فیوض و برکات کا سلسلہ  خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی سے شروع ہوا اور  بعد کے ادوار میں شیخ قطب الدین بختیار کاکی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شیخ نظام الدین اولیاء، شیخ علاؤالدین علی احمد صابر کلیری جیسے برگزیدہ بندوں نے اس شجر طوبیٰ کو سیراب کیا اور اسے تناور درخت کی شکل میں کھڑا کیا۔ ان خدمات کا سہرا خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ خواجہ عثمان ہارونی کے سر جاتاہے، جنہوں نے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری جیسے صاحب دل شخصیت کی تربیت کرکے انہیں کندن بنایا تھا۔ خواجہ عثمان ہارونی علم و عمل کے میدان میں امتیازی حیثیت کے حامل تھے، ظاہری و باطنی علوم میں ید طولی رکھتے تھے، تصوف و سلوک کے باب میں اعلی مقام پر فائز تھے۔ 

 ولادت با سعادت

خواجہ عثمان ہارونی  کی پیدائش 526 ہجری میں نیشاپور کے علاقہ مقام ہارون میں ہوئی۔ آپ کا نام عثمان، کنیت ابو النور اور لقب شیخ الاسلام تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ اس زمانے میں نیشاپور اصحاب فضل و کمال کی بستی کے طور پر عالم اسلام میں متعارف تھا اور اکناف عالم سے تشنگان علوم نبویہ اپنی سیرابی کے لئے اس شہر کا رخ کیا کرتے تھے۔

 تعلیم و تربیت

 خواجہ عثمان ہارونی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی، آپ کے والد محترم علاقہ کے جید عالم دین اور مشہور بزرگ تھے۔ آپ کا حلقہ درس عوام و خواص اور اہل علم کے نزدیک مشہور و معروف تھا، تشنگان علوم کی کثیر جماعت استفادہ کے لئے ہمہ وقت موجود رہا کرتی تھی۔ گھر کے علمی اور عملی ماحول کا اثر ہونا فطری بات تھی۔ چنانچہ کم عمری میں ہی آپ نے حفظ قرآن مکمل کرلیا اور متوسطات تک کی کتابیں والد محترم سے پڑھیں۔ علوم کی تکمیل کیلئے نیشاپور روانہ ہوئے اور یہاں رہتے ہوئے آپ نے علوم ظاہریہ میں ادراک حاصل کیا۔ تلاوت قرآن کا شوق اس قدر تھا کہ روزانہ ایک قرآن مکمل ختم فرمایا کرتے تھے۔ 

 بیعت و سلوک 

خواجہ عثمان ہارونی علوم ظاہریہ کی تکمیل کے بعد باطنی علوم کی جانب متوجہ ہوئے۔ شیخ کامل کی تلاش میں سرگرداں رہے یہاں تک کہ ذات باری تعالٰی نے آپ کو ولی کامل شیخ محمد شریف زندنی کی خانقاہ میں پہنچا دیا۔ یہاں پہنچ کر آپ کو اطمینان قلبی حاصل ہوا اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ بیعت کے بعد مسلسل تین سال تک شیخ کی خانقاہ میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہے، مجاہدہ کئے جب ریاضتوں کی بھٹی میں آپ مکمل کندن ہوگئے تو شیخ نے آپ کو خرقہ خلافت سے سرفراز فرمایا اور کلاہ ترکی عطاء فرمائی، جس میں چار کونے تھے۔ شیخ نے ان کے متعلق فرمایا کہ اس سے چار چیزیں مراد ہے۔

 ترک دنیا

ترک عقبی ( خدا کی ذات کے علاوہ اور کچھ مقصود نہ ہو)، 

ترک طعام ( بقدر حیات کھانا پینا) 

ترک ہوائے نفس ( نفسانی خواہشات سے اجتناب)

شیخ سے جدا ہوکر آپ خلق خدا کی ہدایت کیلئے روانہ ہوگئے۔ آپ بہت زیادہ مجاہدہ کیا کرتے تھے حتی کہ بمشکل سات دنوں بعد ایک مرتبہ منھ بھر کے پانی نوش فرمایا کرتے تھے۔اولیاء اللہ کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ دنیاوی لذتوں سے دور رہا کرتے تھے کیونکہ وہ عشق حقیقی کی لذت سے آشنا ہوتے تھے۔ 

 خواجہ عثمان ہارونی کی کرامات :سنت ابراہیمی کا پرتو 

خواجہ عثمان ہارونی اکثر وبیشتر خلق خدا کی تعلیم و تربیت کیلئے سفر میں رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کا گزر آتش پرستوں کی بستی سے ہوا، بستی والوں نے آگ کا الاؤ جلا رکھا تھا۔ آپ نے اپنے خادم شیخ فخر الدین کو آگ لانے کیلئے بھیجا، تاکہ رات کا کھانا وغیرہ تیار کیا جائے اور حشرات الارض سے حفاظت بھی رہے۔ بستی والوں نے آگ دینے سے انکار کردیا۔ خادم کو خالی ہاتھ دیکھ کر آپ از خود تشریف لے گئے۔ بستی والوں نے پرستش کا عذر کرکے آگ دینے سے انکار کردیا۔ آپ نے آگ کی حقیقت، اور خدا کی قدرت کو بیان کیا، دین اسلام کی صحیح تصویر ان کے سامنے پیش کی، لیکن بستی والوں نے شرط رکھی کہ اگر آگ بذات خود جلانے پر قادر نہیں ہے تو آگ میں اتر کر دکھاؤ۔ آپ نے دو رکعت نماز ادا کی، بستی کے سردار کے بیٹے کو گود میں لیا اور آگ میں اتر گئے۔ تقریباً دو گھنٹے آپ آگ میں رہے۔ خدا نے اپنے بندہ کی ایسی لاج رکھی اور سنت ابراہیمی کا ایسا پرتو ظاہر فرمایا کہ جب آپ باہر تشریف لائے تو آپ کا بال تک باکا نہیں ہوا تھا۔ آپ کے اس عمل نے بستی والوں پر ایسا اثر مرتب کیا کہ پوری بستی سردار سمیت حلقہ اسلام میں داخل ہوگئی۔ خواجہ عثمان ہارونی کا یہ واقعہ انسانی سوچ سے بعید نہیں ہے کیونکہ جو اللہ کا ہوجاتا ہے، اللہ اس کا ہوجاتا ہے۔ 

خواجہ عثمان ہارونی کا ایک واقعہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ شیخ کے ہمراہ سفر میں تھے۔ راستہ میں دریا پڑگیا۔ کنارے کوئی کشتی نہیں تھی۔ دریا پار کرنا بھی ضروری تھا۔ شیخ نے اپنے خادم خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کو آنکھ بند کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے آنکھ بند کیا، شیخ نے ہاتھ پکڑا، کچھ دیر بعد آنکھ کھولنے کا حکم ہوا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری فرماتے ہیں کہ جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ دریا عبور ہوچکا تھا، لیکن محسوس نہیں ہوا کہ کیسے دریا عبور ہوا تھا۔ 

خواجہ عثمان ہارونی کی ہندوستان آمد

سیر و سیاحت کرتے ہوئے خواجہ عثمان ہارونی ایک مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے پاس دہلی تشریف لائے اور یہاں تقریباً دو ڈھائی سال قیام فرمایا۔ دہلی میں قیام کے دوران جب سلطان التمش کو آپ کی آمد کا علم ہوا تو خدمت میں حاضر ہوئے اور دعاء کی درخواست کی۔ شیخ نے دعا فرمائی اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے سلطان التمش کیلئے کتاب مرتب فرمانے کا حکم دیا۔ 

 سفر آخرت

خواجہ عثمان ہارونی مسلسل سفر میں رہا کرتے تھےاور موقع مناسبت سے عوام الناس کو دعوت و تبلیغ کے ذریعہ خدا کی جانب بلایا کرتے تھے۔ خواجہ عثمان ہارونی کے دست مبارک  پر خلق کثیر نے اسلام قبول کیا ہے اور گناہگاروں کی کثیر جماعت تائب ہوکر راہ خدا میں مصروف عمل ہوئی ہے۔ انہیں ایام میں آپ  مکہ مکرمہ پہنچے اور زندگی کے آخری ایام تک یہیں قیام فرمایا۔ خانہ کعبہ میں آپ دو دعاؤں کا بہت اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ مکہ مکرمہ میں وفات ہو اور مرید خاص خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کو ولایت بے مثال مل جائے۔ اللہ نے آپ کی دونوں دعائیں قبول فرمائی۔

خواجہ عثمان ہارونی  کا وصال 617 ہجری میں ہوا۔ بعض دیگر روایات بھی آپ کے سن وفات کے متعلق مذکور ہے۔ 

آپ کی ریاضت و عبادت اور مجاہدہ کے طفیل حق تعالیٰ نے آپ کی تربیت میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری جیسا نگینہ منتخب کرکے عنایت فرمایا تاکہ دین کی خدمت کا سلسلہ جاری رہے۔

Related Posts

One thought on “خواجہ عثمان ہارونی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے