حضرت ابراہیم بن ادہم: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو
اس دنیا کا عجیب و غریب نظام اور پے در پے پیش آنے والے اعجوبات اس بات پر دال ہیں کہ اس نظام کائنات کو کوئی چلانے والا ہے، کوئی ذات ہے جو ہر طرح کے تصرف پر قادر ہے، جو شاہ کو فقیر اور فقیر کو شاہ بنانے پر قدرت رکھتا ہے، جو عیش و نشاط میں زندگی بسر کرنے والے کو زاہد و عابد اور نیک پارسا بنا دیتا ہے اور کبھی متقی و پرہیزگار کو متاع تعیش کا عاشق اور دلدادہ بنا دیتا ہے۔ عیش و طرب میں پلنے والے کو سنگلاخ وادی کا مسافر اور صحرا نوردی کرنے والے کو محلات کا مالک بنا دیتا ہے۔ وہ ذات گرامی ہے جو ہر طرح کے تصرفات پر قادر ہے۔ وہ جس سے چاہے کام لے اورجسے چاہے راندہ درگاہ قرار دے ۔ ایک ایسی ہی داستان اورایک واقعہ جس نے ایک راج گدی پر بیٹھنے والے اور جاہ و حشم اور لاؤ لشکر کے درمیان زندگی بسر کرنے والے بادشاہ کو اپنے حقیقی عشق کا جام پلا کر صحرانوردی میں قلبی سکون کی متلاشی بنا دیا تھا۔ یہ شاہ بلخ سلطان ابو اسحق ابراہیم بن ادہم کی ذات گرامی ہیں جن سے بیک وقت تصوف و سلوک اور علم حدیث کے سوتے پھوٹے ہیں۔ جن کے شاگردوں اور فیض یافتگان میں شیخ شقیق بلخی ، سفیان ثوری اور امام اوزاعی جیسی شخصیات شامل ہیں۔ ابراہیم بن ادہم کی زندگی شروع تو محلات سے ہوئی لیکن آپ کی حیات علم و عمل اور زہد و تقوی کے میدان میں جفا کشی کرتے ہوئی گزری ہے۔
ولادت باسعادت:
آپ کی پیدائش قرن اول میں ہوئی ہے۔ راجح قول کے مطابق آپ کی پیدائش 100 ہجری بمطابق 13 مئی 718 عیسوی ہے۔ آپ کے سلسلہ نسب میں مؤرخین کا قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض آپ کو فاروقی (حضرت عمر فاروق) کی جانب منسوب کرتے ہیں اور بعض نے آپ کو حسینی سید بھی قرار دیا ہے۔ آپ کے بچپن کے حالات بہت زیادہ واضح نہیں ہے اور نہ ہی اسے موضوع بنایا گیا ہے۔ البتہ آپ شاہ بلخ کے متبنی یا نواسے تھے اور اسی نسبت سے شاہ نے آپ کو اپنا ولی عہد مقرر کردیا تھا۔ بادشاہ کے انتقال کے بعد حکومت کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں آگئی۔ حکومت سنبھالنے کے بعد آپ کے ساتھ پے در پے ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے آپ کے دل کی دنیا بدل دی اور ترک سلطنت پر آمادہ کردیا تھا۔
ابراہیم بن ادہم کے ساتھ پیش آنے والے واقعات
ایک مرتبہ آپ دربار سجائے بیٹھے ہوئے تھے۔ تمام وزراء اور دیگر درباری ملازمین دست بستہ کھڑے تھے، تبھی اچانک ایک بارعب شخص دربار میں داخل ہوا۔ اس کی ہیبت اور رعب و دبدبہ کی وجہ سے کوئی اس سے سوال کرنے کی جسارت نہیں کرسکا۔ وہ اجنبی سیدھا بادشاہ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ بادشاہ نے پو چھا کون ہو اور کیوں آئے ہو؟ اجنبی نے جواب دیا، مسافر ہوں، سرائے کی تلاش میں یہاں آیا ہوں۔ بادشاہ متعجب ہوا اور کہا کہ یہ ہمارا محل ہے سرائے خانہ نہیں۔ اجنبی نے سوال کیا کہ آپ سے پہلے یہاں کون بادشاہ تھا۔ بادشاہ نے جواب دیا۔ پھر اجنبی نے سوال کیا کہ اس سے پہلے کون بادشاہ تھا۔ بادشاہ نے پھر جواب دیا۔ پھر اجنبی نے سوال کیا کہ اس سے پہلے کون بادشاہ تھا، غرضیکہ یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا اور بالآخر اجنبی مسافر نے کہا کہ جب یہاں کوئی مستقل نہیں رہتا ہے اور یکے بعد دیگرے افراد بدلتے رہتے ہیں تو پھر یہ سرائے خانہ نہیں تو اور کیا ہے۔ اس واقعہ سے بادشاہ کے دل پر بہت اثر ہوا اور اس نے اسی دن سے خدا طلبی شروع کردی۔ بادشاہ وقت سلطان ابراہیم بن ادہم کی زندگی میں تغیرات پیدا ہونے شروع ہوگئے تھے۔ سلطنت کے کام کاج کے علاوہ مستقل اللہ کی جانب متوجہ رہتے اور رفتہ رفتہ اللہ کی یاد میں مشغول ہوتے چلے گئے، اسی درمیان ایک اور واقعہ پیش آیا جس نے آپ کی زندگی مکمل بدل دی اور آپ راج محل چھوڑ کر جنگلات کی جانب روانہ ہوگئے۔ ایک رات آپ اپنے حجرہ میں آرام فرمارہے تھے کہ اچانک چھت پر کسی کے چلنے کی آواز آئی۔ رات کے سناٹے میں آواز نے آپ کے آرام میں خلل پیدا کردیا تھا۔ آپ نے اپنے شاہانہ انداز میں سوال کیا: چھت پر کون ہے اور کیا کررہا ہے؟ جواب آیا کہ غیر نہیں ہوں، بس اپنا اونٹ تلاش کرنے آیا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ کیا چھت پر بھی اونٹ مل سکتا ہے۔ جواب آیا کہ اگر چھت پر اونٹ نہیں مل سکتا ہے تو چھت کے نیچے آرام دہ کمرہ میں خدا کیسے مل سکتا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ کے دل کی کیفیت بدل گئی اور آپ تخت شاہی کو چھوڑ کر جنگلات کی جانب روانہ ہوگئے۔جنگلات میں رہتے ہوئے آپ نے رہبانیت کو اختیار کرنے کے بجائے علم و معرفت اور حقائق و دقائق کے میدان کو اپنے لئے منتخب فرمایا۔حصول علم کی تلاش میں وقت کے کبار محدثین و مفسرین کی درسگاہ میں پہنچے اور علوم ظاہری و باطنی میں وہ مقام حاصل ہوا، جس کے نتیجہ میں دنیا کو عظیم الشان اور بلند مرتبہ محدث، مفسر اور راہ سلوک کا راہی ملا جن کے فیوض و برکات اور علمی ورثہ سے آج تک دنیا مستفید ہورہی ہے۔حضرت ابراہیم بن ادہم نے خلوت نشینی کے بجائے خلق خدا کو علمی و روحانی انوار و برکات سے مستفیض کرنے کا سلسلہ تاعمر جاری رکھا تھا۔
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں۔۔۔فیضان محبت عام تو عرفان محبت عام نہیں
ابراہیم بن ادہم کی درویشانہ زندگی کی جھلکیاں
جنگل و بیابان میں رہتے ہوئے آپ نے مجاہدہ شروع کیا۔ کئی دن مستقل روزہ رکھا کرتے تھے۔ چار پانچ دنوں تک مستقل بلا افطار روزہ رکھنے کا معمول بن گیا تھا۔ ہفتہ میں ایک دن (جمعرات) کو جنگل سے باہر تشریف لاتے، لکڑیاں کاٹ کر انہیں فروخت کرتے اور جو کچھ کمائی ہوتی ان میں سے نصف حصہ راہ خدا میں خرچ کردیتے اور مابقیہ نصف سے اپنا گزارہ کرتے تھے۔ یہ سلسلہ تقریبا نو سالوں تک جاری رہا۔ اس درمیان آپ کی سلطنت کے وزراء مستقل آپ کے پاس منت سماجت کے لئے حاضر ہوتے کہ آپ دوبارہ تخت شاہی کو سنبھال لیں، لیکن آپ کسی طرح بھی اس کام کے لئے دوبارہ تیار نہیں ہوئے۔خدا کی محبت سے آشنائی کے بعد دنیا کی عارضی لذت کیا معنی رکھتی ہے، حضرت ابراہیم بن ادہم نے خالق کائنات کی محبت کا مزہ پالیا تھا، پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس لذت ابدی کو چھوڑ کر دوبارہ دنیاوی فریب میں گرفتار ہوجاتے۔
ایک مرتبہ جب آپ نہر کے کنارے اپنی گدڑی سی رہے تھے، آپ کے وزراء حاضر خدمت ہوئے اور وہی فرمائش کی۔ آپ نے اپنی سوئی نہر میں پھینک دی اور اپنے وزراء سے کہا کہ اسے واپس لادو، جب سب لوگ عاجز ہوگئے تو آپ نے مچھلیوں کو حکم دیا کہ ہماری سوئی ہمیں واپس کردو۔ پورے نہر میں مچھلیاں اپنے منھ میں سونے، چاندی اور دیگر دھات کی سوئیاں لے کر نمودار ہوئیں۔ ایک مچھلی کے منھ میں آپ کی اپنی سوئی موجود تھی، آپ نے اسے لے لیا اور اپنے وزراء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ ایک ملک کی بادشاہت کی بات کرتے ہو، اب تو پانی کی مچھلیاں بھی ہمارے حکم کی تابعداری کرتی ہے۔
حضرت فضیل بن عیاض کی خدمت میں
تقریبا نو سال تک صحرانوردی کرنے کے بعد آپ مکہ مکرمہ حاضر ہوئے۔ یہاں آپ کی ملاقات صوفی وقت، محدث عصر حضرت فضیل بن عیاض (حضرت فضیل بن عیاض کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں)سے ہوئی۔ آپ ان کے حلقہ درس میں شریک ہونے لگے اور پھر ان کے دامن سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ زندگی بھر کے لئے انہیں کے ہوکر رہ گئے۔ حضرت فضیل بن عیاض سے بیعت ہوئے اور انہیں سے آپ کو خلافت بھی میسر ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ، خواجہ عمران بن موسی، امام باقر، شیخ منصور سلمی اور حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہم سے بھی خلافت حاصل ہے۔ علم حدیث میں آپ نے امام اعمش، مالک بن دینار، مقاتل اور محمد بن زیاد سے فیض اٹھایا اور اس درجہ عبور حاصل کیا ہے کہ سفیان ثوری، شقیق بلخی، بقیہ بن ولید، امام اوزاعی اور محمد بن حمید جیسے محدثین کا شمار آپ کے فیض یافتگان میں ہوتا ہے۔ امام بخاری نے اپنی کتاب (الادب المفرد) میں اور امام ترمذی نے اپنی جامع میں آپ سے تعلیقا احادیث نقل کیا ہے۔
ابراہیم بن ادہم کے چند متفرق واقعات
ایک مرتبہ آپ جبل ابو قیس پر کھڑے تھے۔ آپ نے اولیاء اللہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض اللہ والے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ پہاڑ سے کہہ دیں کہ چل، تو وہ پہاڑ چلنے لگتا ہے۔ یہ کہنا تھا کہ جبل ابوقیس میں حرکت شروع ہوگئی۔ آپ نے فرمایا تو رک جا۔ وہ پہاڑ رک گیا۔
ایک مرتبہ جب آپ ایک باغ کی نگرانی کررہے تھے ۔ ایک سپاہی کا گزر وہاں سے ہوا۔ اس نے ایک انار طلب کیا۔ آپ نے مالک کی اجازت کے بغیر دینے سے انکار کردیا۔ انکار کی وجہ سے سپاہی نے آپ کو ایک کوڑا مارا۔ آپ نے اپنا سر نیچے کردیا اور فرمایا کہ جو سر اللہ کی نافرمانی کرے وہ اسی قابل ہے۔ یہ سن کر سپاہی چونکا اور اس نے معذرت طلب کی تو آپ نے فرمایا کہ جس سر کی معذرت کی جاتی تھی اسے بلخ میں چھوڑ آیا ہوں۔
ایک مرتبہ آپ ایک مسجد میں تھے۔ عشاء کی نماز کے بعد مسجد کا امام آیا، اور اس نے کہا کہ مسجد بند کرنا ہے، اس لئے باہر جاؤ۔ آپ نے اس سے عرض کیا کہ اس قدر شدید سردی ہے، مجھے رات بھر مسجد میں قیام کرنے کی اجازت دیدو، لیکن مسجد کا امام تیار نہ ہوا۔ طیش میں آکر مسجد کے امام نے کہا کہ اگر ابراہیم بن ادہم بھی آجائیں تو انہیں رکنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ آپ نے جواب دیا کہ میں ہی ابراہیم بن ادہم ہوں۔ یہ سن کر مسجد کا امام غصہ ہوگیا اور اس بات کو مذاق پر محمول کرتے ہوئے زبردستی گھسیٹ کر آپ کو مسجد سے باہر کردیا۔ سخت سردی کا موسم تھا اور اس وقت کوئی جائے پناہ بھی نہیں تھی۔ آپ وہاں سے اٹھ کر ایک حمام کی جانب روانہ ہوگئے، وہاں دیکھا کہ ایک شخص چراغ جلا رہا ہے۔ آپ نے اسے سلام کیا، لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن وہ شخص بار بار آپ کو خوفزدہ نظروں سے دیکھتا رہا ۔ اپنے کام سے فارغ ہوکر اس نے جواب دیا۔ آپ نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ ایک شخص کا ملازم ہوں، مجھے خوف ہوا کہ کہیں دوسرے کام میں مشغول ہوکر اس میں دیر نہ ہوجائے، اور یہ خیانت ہوگی۔ آپ نے پھر پوچھا کہ ادھر اُدھر کیا دیکھ رہے تھے۔ اس نے کہا کہ یہ خوف ہے کہ کہیں موت کا فرشتہ نہ آرہا ہو۔ انہیں باتوں کے درمیان اس شخص نے بتایا کہ میں بیس سال سے یہ دعا کررہا ہوں کہ اللہ ابراہیم بن ادہم کی ملاقات سے قبل میری موت نہ ہو۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ مژدہ ہو: کہ میں ہی ابراہیم بن ادہم ہوں اور آج تمہارے پاس سر کے بل بھیجا گیا ہوں۔
ابراہیم بن ادہم کے فرمودات
ایک مرتبہ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ سے دعا مانگتے ہیں لیکن ہماری دعا قبول نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا تم اللہ کو مانتے ہو مگر اس کی بندگی نہیں کرتے۔ اس کے رسول اور قرآن کو پہچانتے ہو مگر اطاعت نہیں کرتے۔ اس کی نعمتیں کھاتے ہو مگر شکر ادا نہیں کرتے، اور جنت کی حصولیابی اور دوزخ سے نجات کا سامان پیدا نہیں کرتے۔ شیطان کو دشمن جانتے ہو مگر اس سے عداوت نہیں کرتے۔ موت کا یقین ہے مگر اس کی فکر نہیں کرتے۔ ماں باپ کو قبر میں دفن کرتے ہو مگر اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ جانتے ہو کہ ہمارے عیب موجود ہے پھر بھی دوسروں کے عیوب تلاش کرتے ہو، بھلا ایسی صورت میں دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا والوں نے دنیا میں راحت ڈھونڈی مگر انہیں راحت نہیں ملی، اگر انہیں اس سلطنت و حکومت کی خبر ہوجائے جو ہمارے قبضہ میں ہے تو اس کے حصول کے لئے تلواروں سے لڑیں گے۔
فرمایا کرتے تھے ترازو میں سب سے زیادہ وزنی عمل قیامت کے دن وہ ہوگا جس کا کرنا دنیا میں سب سے زیادہ مشکل ہوگا۔
ایک شخص نے ایک مرتبہ آپ سے درخواست کی کہ مجھ سے تہجد کی نماز کے لئے نہیں اٹھا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا، دن میں حق تعالی کی نافرمانی نہ کیا کرو۔ اس لئے کہ رات کو تہجد میں کھڑا ہونا شرف کی بات ہے اور نافرمان آدمی اس شرف کا اہل نہیں ہوتا۔(صوفیاء کرام کا مشہور قول ہے کہ گناہوں کی وجہ سے آدمی تہجد کی نماز سے محروم ہوجاتا ہے۔)
ایک مرتبہ آپ نے ایک صاحب کرامات بزرگ سے دریافت فرمایا کہ معاش کی کیا صورت اختیار کی ہے۔ انہوں نے جواب دیا مل جاتا ہے تو کھالیتا ہوں ورنہ صبر کرتا ہوں۔ آپ نے کہا کہ یہ تو شہر کے کتے بھی کرتے ہیں، ملا تو کھا لیا ، نہیں ملا تو کوئی بات نہیں۔ کام تو یہ ہے کہ ملے تو ایثار کرے نہ ملے تو صبر کرے۔
حضرت ابراہیم بن ادہم نے بلخ کی سلطانی کو چھوڑ کر اس سلطنت کو حاصل کیا تھا جس میں راحت و سکون اور ابدی اطمینان قلب ہوتا ہے۔ خدا جب کسی کو اپنی سچی اور حقیقی محبت سے روشناس کراتا ہے تو اس کے سامنے دنیا کی آرائش و زیبائش اور ناز و نعم کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔
سفر آخرت
حضرت ابراہیم بن ادہم کی وفات کے سلسلہ میں مختلف اقوال موجود ہیں۔ حافظ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق آپ کی وفات 162 ہجری ہے اور امام سمعانی کے مطابق 161 ہجری ہے۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے قول کو زیادہ معتبر تسلیم کیا ہے۔ اس اعتبار سے آپ اپنے شیخ حضرت فضیل بن عیاض سے پچیس چھبیس سال قبل ملک شام میں وفات پائے ہیں۔ بعض لوگوں نے آپ کا مزار مدینہ منورہ بھی بتلایا ہے۔ حدیث و معرفت کا یہ ستارہ جو بلخ کے شاہی تخت سے نمودار ہوا تھا ایک عالَم کو اپنے نور ایمانی سے منور کرکے ہمیشہ کے لئے دربار ایزدی میں پہنچ گیا تھا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔
One thought on “حضرت ابراہیم بن ادہم: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو”