تقابل ادیان کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟

تقابل ادیان کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟

ملک ہندوستان کا موجودہ منظر نامہ کسی بھی طرح مسلمانوں کےلئے  باعث اطمینان نہیں ہے، ہر آئے دن مسلمانوں کے مذہبی تشخصات اور اسلامی شعائر کے خلاف زبان درازیاں کی جارہی ہیں اور زبان درازی کرنے والے وہ افراد ہیں جو حکومت یا سیاسی پارٹیوں کی پشت پناہی میں بیٹھے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے مسلسل ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی خاطر خواہ کاروائی نہیں ہورہی ہے۔ شدہ شدہ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ نیشنل پارٹی کی ترجمان نے نیشنل ٹی وی پر بیٹھ کر ہمارے نبی ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے مگر حکومت اور حکومتی اداروں سمیت تمام کے لب سلے ہوئے ہیں۔تمام طرح کے دباؤ کے بعد بھی جو کاروائی کی گئی ہے اس کی حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ سلسلہ تھم گیا ہے بلکہ ایسے لوگوں کو شہ دینے والے موجود ہیں اور ان کی حمایت میں نعرے لگانے والے بھی موجود ہیں۔

ان مسائل کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ موجودہ وقت میں یہ پیدا کیا جارہا ہے کہ بعض ایسے لوگوں کو ٹی وی چینل پر یا سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام الناس کے درمیان لایا جارہا ہے جو خود کو سابق مسلم یا مسلم گھرانے کا فرد بتاتے ہیں اور لوگوں کو ورغلانے کے لئے جھوٹے اور غلط بیانات کو مذہب اسلام کی جانب منسوب کرکے  ان کی اشاعت کرتے ہیں۔ ایسے افراد کو سوشل میڈیا پر اسلام مخالف گروہ کی جانب سے خاطر خواہ پزیرائی مل رہی ہے اور ان کی شہرت کے لئے ہر طرح کے سامان فراہم کئے جارہے ہیں۔ کن مسائل پر بات ہورہی ہے اور کن موضوعات کو یہ لوگ استعمال کررہے ہیں یہ طویل بحث ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ سب کچھ مکمل طور پر منصوبہ بند طریقے سے کیا جارہا ہے اور ان کے مقابلہ کے لئے ٹی وی چینلز پر ایسے نام نہاد مسلم افراد کو بٹھایا جارہا ہے جو تقابل ادیان یا مسائل شرعیہ کی حکمت سے ناواقف ہوتے ہی، بلکہ بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ سیاسی میدان کا انسان مسلمانوں کی جانب سے مذہبی مسائل پر بات کرنے بیٹھ جاتا ہے جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہر شخص کا اپنا میدان ہوتا ہے جب تک وہ اس میدان میں کام کرے ٹھیک ہے لیکن تن تنہا تمام عناوین کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ٹی وی ڈیبیٹ میں شرکت کرنے والے مسلم افراد ہر موضوع کے لئے خود کو تیار اور لائق سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ عموما شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات تین چار افراد کے درمیان ایک مسلم نام کو بٹھایا جاتا ہے اور ہر چہار جانب سے سوالات کی بوچھار شروع ہوجاتی ہے۔ معلوم نہیں کیوں ہمارے افراد  چینلز میں شرکت سے گریز نہیں کرتے ہیں، آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ ان میں شرکت کو ناگزیر تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارا عمومی مسئلہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ٹی وی چینلز ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں، مسلم مسائل پر غلط طریقوں سے عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے، کیا ضروری ہے کہ ایسے پروگرام میں ایک بار نہیں بار بار شریک ہوا جائے جہاں ہر بار بے عزتی کی جائے۔ اگر مسلم قوم کی جانب سے ڈیبیٹ میں شرکت بند ہوجائے تو ان چینلز کو دیکھنے کے لئے کوئی وقت فارغ نہیں کرے گا، عوام کی بڑی جماعت نیوز چینلز تسکین قلب کی خاطر دیکھ رہی ہے کہ کس طرح چار پانچ افراد کے درمیان میں ایک مسلم نام والے کو بے عزت اور شرمندہ کیا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں کئی لوگوں  نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ مسلمانوں کو گودی میڈیا کے بائیکاٹ سے پہلے ان مولانا حضرات کا بائیکاٹ کرنا چاہئے جو مسلسل ٹی وی ڈیبیٹ میں شرکت کرتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ٹی وی ڈیبیٹ میں مسلمانوں کو بلایا اس لئے جاتا ہے تاکہ فرقہ پرست ناظرین کے لئے انہیں سامان تضحیک بناکر پیش کیا جائے۔

جہاں تک بات فتنہ ارتداد کے شکار افراد کی ہے جو خود کو سابق مسلمان ظاہر کرکے مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا کلمات کہتے ہیں یا شعائر اسلام کی توہین کرتے ہیں تو ایسے افراد سے بحث و مباحثہ کے لئے تقابل ادیان کے ماہرین کا میدان میں آنا ضروری ہے۔ تلخ سہی لیکن حقیقت ہے کہ ہمارے درمیان ایسے افراد کی حد درجہ کمی ہے جو تقابل ادیان پر دسترس رکھتے ہیں، دو چار اشلوک اور سنسکرت کے دو چار شبد یاد کرکے تقریر کرنے والے بے شمار ہیں لیکن مذہب کے بنیادی مسائل سے واقفیت رکھنے والے نہیں ہے۔ امت مسلمہ کے لئے یہ میدان بالکل خالی پڑا ہوا ہے، اور اس لئے اس میدان میں ایسے افراد کا آنا ضروری ہے جو باضابطہ اس میدان میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہمارے اکابرین نے وقت اور موقع کی مناسبت سے باطل کا مقابلہ کیا ہے، جب جس میدان میں ضرورت پڑی ہے تو مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں اترے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ چاہے آگرہ میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی کا پادری فنڈر سے مذہب اسلام اور عیسائیت پر مناظرہ ہو، شاہ جہاں پور کے میلہ خدا شناسی میں مولانا قاسم نانوتوی کی حق گوئی و بے باکی ہو یا مونگیر میں قادیانیوں کے خلاف محاذ برپا کرنے والے مولانا محمد علی مونگیری یا علامہ انور شاہ کشمیری کی ایمانی غیرت ہو، نفوس قدسیہ کی اس جماعت نے ہر محاذ پر باطل کے چھکے چھڑائے ہیں اور انہیں ان کے منتخب کردہ مقامات اور موضوعات پر چاروں شانے چت کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج ہمارے درمیان ان اکابرین کا نام اور ان کے کارنامے تو موجود ہیں لیکن ان کی روح اور ان کا ایمانی جذبہ مفقود ہوگیا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ان اکابرین کی کتابوں کو کھنگالا جائے، ان سے مواد اکٹھا کیا جائے، ان کے فکر و نظرکو  اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا جائے اور مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں اترا جائے۔  ہمارے ان اکابرین کی کتابوں میں تقابل ادیان کے متعلق اتنا مواد موجود ہے کہ اگر ان کا مطالعہ کیا جائے اور ان کی روشنی میں مذہب اسلام پر طنز کرنے والوں کو گھیرا جائے تو پنڈت دیانند سروتی کی طرح میدان چھوڑ کر بھاگنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا۔

اگر آج ہم نے ان مسائل کی روک تھام کے لئے اقدامات نہیں کئے تو ان کے اثرات بہت مہلک ثابت ہوں گے، یوں بھی آئے دن ملک ہندوستان میں ارتداد کی خبریں گردش کرتی نظر آتی ہے لیکن یہ آندھی بذات خود نہیں ختم ہوگی بلکہ اس کو روکنے کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا، نوجوان نسل کے ذہن میں مذہب اسلام کے خلاف جو شکوک و شبہات پیدا کئے جارہے ہیں ان کا حل تلاش کرنا ہوگا، انہیں تشفی بخش جوابات سے مطمئن کرنا ہوگا، اور جس سطح پر، جس زبان میں، جن موضوعات پر باطل مذہب اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کررہا ہے ہمیں ان تمام کا ادراک کرکے اسی طرح جواب دینا ہوگا، اور جواب صرف دفاعی پوزیشن میں نہیں بلکہ اقدامی حالت میں دینا ہوگا۔

تقابل ادیان کے سلسلہ میں دو کام کرنا نہایت ضروری ہے۔ سب سے پہلے اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے افراد کا انتخاب کرکے انہیں باضابطہ تربیت دی جائے، اس سلسلہ میں مدارس و مساجد نیز ملک بھر میں چلنے  والی تنظیمیں اور مسلم ادارے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ دینی اور قومی فریضہ ہے جس کے لئے صرف مدارس و مساجد یا دیگر اداروں کو مختص نہیں کیا جاسکتا ہے، اس کام کے لئے وقت درکار ہے لیکن یہ وقت کی اہم ضرورت ہے، کیوں کہ ہم جس معاشرہ اور سماج میں جی رہے ہیں اس میں ہر آئے دن ایسے حالات کا سامنا ہورہا ہے، ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے اور مستقبل میں بھی اس کے وقوع سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا کام یہ ہونا چاہئے کہ ملکی سطح پر زمینی اعتبار سے کام کیا جائے، ہر علاقہ اور شہر میں دیگر پروگرام کی مانند تقابل ادیان پر پروگرام منعقد کئے جائیں اور خاص طور سے کالج و یونیورسٹی کے طلبہ کی شرکت کو ضروری بنایا جائے۔ ان پروگرام میں عقائد اور موجودہ دور میں جن مسائل پر شکوک و شبہات کے جالے بُنے جارہے ہیں ان پر قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل سے بات کی جائے، نیز مذہب اسلام کی آفاقیت، خاصیت، نورانیت، روحانیت اور زمانہ سے یکسانیت کو عقلی دلائل سے سمجھائیں۔ جو لوگ یہ جھوٹ پھیلانے میں مگن ہے کہ اسلام موجودہ دور کے مطابق نہیں ہے یا اسلام کے احکامات مرد و عورت کے لئے یکساں نہیں ہیں ان کے سامنے پُر زور انداز میں اسلام کی تعلیم سمیت دیگر ادیان کی حقیقت کو بیان کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ انسانیت کا جتنا احترام مذہب اسلام میں موجود ہے دیگر مذاہب اس سے عاری ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر معاملہ مسلم قوم کے نمائندے معذرت خواہانہ انداز اپناتے ہوئے نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ خود مذہب اسلام کی تعلیمات سے مکمل طور پر واقف نہیں ہیں تو پھر دوسروں کو کیسے مطمئن کرسکتے ہیں۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے