پردہ کی شرعی حیثیت اور موجودہ دور کی ذہنیت

پردہ کی شرعی حیثیت اور موجودہ دور کی ذہنیت

مذہب اسلام نے عورتوں کو معاشرہ کا اہم اور بنیادی جز قرار دیا ہے اور جس طرح دین اسلام کی تعلیمات مرد حضرات کے لئے ہے، عورتوں کے لئے بعینہ اسی طرح بے کم و کاست فرض کی گئی ہے۔ حصول علم سے لے کر فرائض کی ادائیگی تک میں، نوع انسانی کی دونوں جنس یکساں اور ایک ہے۔ ہر دو جنس کے حقوق قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں تفصیلا بیان کئے گئے ہیں، اور معاشرتی سطح پر بھی مذہب اسلام کے ماننے والے ان حقوق کی پاسداری اور ان کو ادا کرنے میں پہل کرتے نظر آتے ہیں۔ مذہب اسلام نے عورتوں کو بعض ایسی فضیلت اور شرف سے نوازا ہے جو کسی اور مذہب میں موجود نہیں ہے۔ عورت بحیثیت ماں اس قدر مقدس ہے کہ رب ذو الجلال نے اس کے قدموں کے نیچے جنت بسادی ہے، بحیثیت بہن غیرت اور بحیثیت بیوی شریک سفر اور عزت ہے۔

لیکن تخلیقی اعتبار سے نوع انسانی کے ہر دو جنس میں ایسے تفاوت پائے جاتے ہیں جن میں مساوات ممکن نہیں ہے، بلکہ یہ خدائی نظام ہے جس کے تحت انسانی نسل کی نشو و نما اور نوع انسانی کی دیکھ بھال ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے دونوں جنس کے لئے ایک دوسرے کے تئیں حقوق متعین کئے ہیں جن کی ادائیگی ضروری ہے۔ بلکہ دور حاضر میں سائنسی ایجادات کی پرستش کرنے والے بھی اس بات کے قائل ہوئے ہے کہ دونوں جنس میں کئی اعتبار سے تفاوت پائے جاتے ہیں۔ مذہب اسلام نے عورتوں کو گھر کی چہار دیواری میں رہ کر بچوں اور آنے والی نسل کی نشو و نما کی ذمہ داری سے نوازا ہے جبکہ مرد حضرات کو باہر کی ضروریات اور معاشی مسائل کے حل کرنے کا ذمہ دار بنایا ہے۔ مذہب اسلام نے دونوں جنس کے کام کو تقسیم کردیا ہے تاکہ سماجی زندگی تسلسل کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے، البتہ بعض ایسی صورتیں بھی ہیں جن میں استثنائی طور پر عورتوں کو گھر سے باہر جانے اور ضروریات زندگی کی تکمیل کی اجازت دی گئی ہے، لیکن مکمل پردہ کے ساتھ تاکہ نگاہ غیر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔ قرآن و حدیث میں یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔

پردہ کی شرعی حیثیت اور قرآن مجید

اللہ رب العزت کا فرمان ہے: "اے پیغمبر ! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنے آپ پر گھونگٹ لٹکا لیا کریں ، اس سے اُمید ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی ، تو ان کو تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والے اور بڑے مہربان ہیں”۔ یعنی بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ عورتیں بلا وجہ گھر سے باہر نہ نکلیں ؛ لیکن اگر کسی ضرورت سے نکلنا پڑے تو ایسا گھونگھٹ (پردہ)  استعمال کریں ، جس سے گزرنے والوں کو چہرہ نظر نہ آئے اور گھونگھٹ لٹکانے والی کو راستہ نظر آتا رہے ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی شکل یہ بتائی کہ پیشانی کے اوپر دوپٹہ اس طرح باندھا جائے کہ سینہ اور چہرہ کا بڑا حصہ چھپ جائے اور دونوں آنکھیں کھلی رہیں ؛ تاکہ راستہ دیکھ سکیں ، اس کی گنجائش ہے۔ ( آسان تفسیر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قَدْ أَذِنَ اللَّهُ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِكُنَّ۔ "اللہ تعالیٰ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے باہر جا سکتی ہو”. ( بخاری: 5237)

پردہ کی شرعی حیثیت اور حدیث شریف

قرآن و حدیث میں جو ممانعت آئی ہے وہ بلاوجہ اور بغیر کسی ضرورت کے گھر سے باہر جانے کی صورت میں ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مہذب اور شرفاء حضرات کا یہ وطیرہ نہیں رہا ہے کہ وہ اوباشوں کی مانند بلا ضرورت بادہ پیمائی کرتے پھرے، جب یہ بات مہذب سماج میں مرد حضرات کے لئے ہے تو تصور کیجئے عورتیں جنہیں عزت اور آبرو قرار دیا گیا ہے ان کو بلا وجہ اور بغیر سبب کے بازاروں کی زینت بننے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔ عورتوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید فتنہ و فساد سے بچنے کے لئے کی گئی ہے تاکہ معاشرہ کا تانا بانا بکھرنے نہ پائے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے، جو کہ عورت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے، اسی پردے میں عورت کی عزت ہے، یہی عورت کی حیا کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جو عورت پردہ کرتی ہے اللہ تعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت کی بے شمار نعمتیں عطا کرتا ہے، جن میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی عورت سے راضی ہوجاتا ہے، ظاہر ہے کہ ایک مسلمان عورت کے لیے اس سے بڑھ کر نعمت اور خوشی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے۔عورت سراپا پردہ ہے۔سنن الترمذی میں ہے:”عَنْ عَبْدِ اللہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمَرْاَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ”۔ ترجمہ: حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ:”عورت سراپا پردہ ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے۔‘‘
یعنی شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات پر اُبھارے کہ وہ اس عورت کو دیکھ کر بدنظری اور دیگر گناہوں میں مبتلا ہوں۔اسی بات کو ایک دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ بدنظری شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔

لیکن موجودہ دور میں آزادی نسواں اور عورتوں کے حقوق کے نام پر پردہ کی شرعی حیثیت کو چیلنج کردیا گیا ہے، اور بھولی بھالی عورتوں کے ذہن میں یہ خام خیالی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ عورتیں گھروں کی چہار دیواری میں قید ہے، ان کی حقیقی آزادی باہر کی دنیا میں پنہاں ہے، جب تک وہ اپنے گھروں کی چہار دیواری سے باہر نکل کر دنیاوی لہو و لعب اور کھیل تماشوں میں حصہ نہیں لیں گی اور جب تک بھیڑ کا حصہ نہیں بنیں گی انہیں حقیقی آزادی اور کامیابی  نصیب نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ نعرہ اور خواب ان لوگوں کا تھا جو سماجی زندگی میں بیوی بچوں کے حقوق تلف کرنے والے تھے، جو دنیاوی تعیش کے لئے رشتہ ازدواج کو اپنے لئے اور  معاشرہ کے لئے بوجھ تصور کرتے تھے۔ جو بیویوں کے حقوق سے راہ مفر چاہتے تھے ، چنانچہ انہوں نے ایک دلکش اور پیارا نعرہ دیا کہ عورتیں نوع انسانی کی دوسری جنس مرد حضرات کی برابری کرسکتی ہے، اور برابری کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ گھر کی چہار دیواری سے باہر آئے۔ انسان جسے اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات بناکر مبعوث کیا ہے، اور اس میں غیرت و حمیت اور عزت و آبرو کا مادہ پیدا کیا ، اس انسان نے خدائی تحفہ سے راہ مفر اختیار کرتے ہوئے جانوروں کی زندگی کو ترجیح دینے کا من بنالیا، اور ایسی چیزوں میں کامیابی ڈھوندنے کا متمنی ہوگیا جس دنیا و آخرت دونوں کے لئے باعث شرمندگی اور عار ہے۔

عورتوں کو گھر سے باہر نکالنے میں پردہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیونکہ جب تک بنت حوا میں حیا و پاکدامنی اور عفت و عصمت کا اہتمام ہے، انہیں نمائش کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ پردہ کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیا گیا، مختلف طریقوں سے بنت حوا کو لبھانے اور انہیں ورغلانے کی کوشش کی گئی، پردہ، عفت و عصمت اور حیا و پاکدامنی کے خلاف مواد تیار کئے گئے اور انہیں اشتہارات اور حتی کہ تعلیم گاہوں کا استعمال کرکے ذہنیت کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی، جبکہ بعض ممالک میں قانون بنایا گیا کہ عورتیں شرم و حیا اور پاکدامنی کے لباس میں نہیں رہ سکتی ہے، حجاب اور پردہ کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا لیکن برہنہ رہنے اور سامان تعیش بننے کی مکمل آزادی فراہم کی گئی، اور عورتوں کے دلوں میں پردہ اور حجاب کے تعلق سے اس قدر نفرت بھرنے کی کوشش کی گئی کہ بعض عورتوں نے اس کو ترک کرنے میں اپنی کامیابی تصور کرلیا اور اس راستہ پر چل پڑی جس پر دنیا انہیں چلانا چاہتی تھی اور جو راستہ بنت حوا کو غیرت و حمیت کی چھاؤں سے نکال کر فحاشی و بے غیرتی کے دلدل میں ڈھکیلنے والا تھا۔

ہمارے ملک ہندوستان میں بھی آئے دن اس طرح کی خبریں گردش کرتی نظر آتی ہے کہ فلاں اسکول یا کالج یا کسی دفتر میں حجاب یا دیگر اسلامی شعائر کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ابھی حال فی الحال میں کرناٹک کے ایک کالج میں مسلم بچیوں کو حجاب پہن کر کلاس میں جانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور انہیں کلاس میں داخل ہونے سے منع کردیا گیا ہے۔ لیکن اب یہ معاملہ ایک کالج کا نہیں بلکہ تقریبا پورے کرناٹک کا مسئلہ بن گیا ہے، اور بعض شدت پسند تنظیموں نے اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ اور جس طرح ایک مذہب کے بچوں کو دوسرے کے خلاف ورغلایا جارہا ہے اور انہیں اکسایا جارہا ہے کسی بھی مہذب سماج میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ حجاب تو بنت حوا کی شان اور شناخت ہے اور یہ اس کی عزت و عصمت اور حیا و پاکدامنی کا مظہر ہے لیکن ذہنی دیوالیہ پن کے شکار افراد نہ جانے کن دنیا میں رہتے ہیں کہ وہ آزادی اور حقوق کے نام پر بنت حوا سے زبردستی ان کے حقوق چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ شخصی آزادی اور مذہبی آزادی کے نام لیوا حجاب اور پردہ کے اس قدر خلاف کیوں ہوجاتے ہیں۔ حقوق نسواں پر بات کرنے والے حجاب اور پردہ کو اپنانے والی خواتین کے حقوق کی باتیں کیوں نہیں کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں میں کھوٹ ہے، یہ آزادی نسواں اور حقوق نسواں کے نام پر عورتوں کو سامان تعیش اور زینت بازار بنتے دیکھنا چاہتے ہیں پھر پردہ اور حجاب کی حمایت میں کیسے لب کشائی کرسکتے ہیں

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے