اعتکاف کی فضیلت و اہمیت
اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں شمار کرسکتے ہو، کیونکہ پوری کائنات اپنے تمام تر لوازمات سمیت اس مالک دوجہاں کی ملکیت ہے اور اسی کی پیدا کردہ ہے۔ انسان کا وجود مکمل طور پر رحمت خداوندی اور فضل الہٰی کا مظہر ہے، اور اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کا مقصد بھی واضح اور صاف طور پر بیان کردیا ہے کہ ہم نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اب اگر کوئی انسان اللہ تعالی کا شکر ادا کرے اور اس کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا بیان کرے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں اگر تم شکر ادا کروگے تو میں مزید اضافہ کروں گا۔ اللہ تعالی کے انہیں انعامات و اکرامات میں سے رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے جسے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عطا فرمایا ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ فضیلت و اہمیت اور فضائل و برکات کے اعتبار سے تمام مہینوں سے افضل ہے اور اس کی افضلیت کو قرآن مجید میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ اور خود قرآن مجید کا نزول اسی بابرکت مہینہ میں ہوا ہے، اور جس رات میں قرآن مجید کا نزول ہوا ہے اسے اللہ تعالی نے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا ہے، یعنی شب قدر، شب قدر کی فضیلت کے لئے کافی ہے کہ قرآن مجید میں مکمل سورۃ اس کے متعلق ہے اور احادیث میں کثرت سے اس کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں سے بھرپور استفادہ کے لئے نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو ایک اور سبق دیا بلکہ ہجرت مدینہ کے بعد آپ نے ہمیشہ اس عمل کو انجام دیا ہے۔ وہ نیک عمل اعتکاف ہے، اور اعتکاف کی فضیلت و اہمیت کے کافی ہے کہ خود نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ اس عمل کو کیا ہے، مسلمانوں کو ترغیب دی ہے اور امہات المومنین کو بھی اعتکاف کرنے کا حکم فرمایا ہے۔
اعتکاف کی فضیلت قرآن مجید میں
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام کے بناء کعبہ کا واقعہ جہاں مذکور ہے وہیں سورہ بقرہ میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ؛ "اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کی طرف حکم بھیجا کہ میرے گھر کو خوب پاک رکھا کرو طواف کرنے والوں کے لئے، اعتکاف کرنے والوں کے لئے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے”۔ اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اعتکاف کا مسئلہ گزشتہ امتوں میں بھی رہا ہے اور وہ لوگ بھی تقرب الہٰی کے لئے اعتکاف کیا کرتے تھے۔
اعتکاف کی فضیلت حدیث شریف میں
اعتکاف کرنا آپ ﷺ کی سنت ہے اور آپ ﷺ نے ہمیشہ اس کا التزام فرمایا ہے، البتہ ایک سال سفر کی وجہ سے اعتکاف نہیں کرسکے تو دوسرے سال آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا تاکہ زیادہ سے زیادہ قرب الہٰی حاصل ہوجائے۔ کیونکہ اعتکاف کی حالت میں بندہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر اللہ کے گھر میں پناہ لیتا ہے، جہاں یاد الہی کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ انسان خود کو دنیاوی مشاغل سے الگ تھلگ کرکے رب العالمین کی حمد و ثنا میں مشغول ہوجاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں: "کان رسول اللہ ﷺ یعتکف العشر الاواخر من رمضان” آپ ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "ان النبی ﷺ کا ن یعتکف العشر الاواخر من رمضان حتی توفاہ اللہ، ثم اعتکف ازواجہ من بعدہ” آپ ﷺ پوری زندگی رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے، پھر آپ ﷺ کے بعد امہات المومنین اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ مذکورہ دونوں احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ ﷺ اعتکاف کا بہت اہتمام فرماتے تھے، آپ ﷺ تنہا اعتکاف نہیں فرماتے تھے بلکہ آپ ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کی جماعت ہوتی تھی جس کی تائید حضرت ابو سعید خدری کی حدیث سے ہوتی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی اعتکاف فرمایا، پھر ترکی خیمہ سے جس میں آپ ﷺ اعتکاف فرما رہے تھے، سر نکال کر فرمایا، کہ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اس کے اہتمام کی وجہ سے کیا تھا، پھر اسی وجہ سے دوسرے عشرہ میں اعتکاف کیا، پھر مجھے کسی اطلاع دینے والے (فرشتہ) نے اطلاع دی کہ وہ رات اخیر عشرہ میں ہے۔ لہذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کررہے ہیں وہ اخیر عشرہ کا بھی اعتکاف کریں۔ مجھے یہ رات دکھلادی گئی تھی، لیکن پھر بھُلادی گئی، (اس کی علامت یہ ہے کہ) میں نے اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح میں گیلی مٹی میں سجدہ کرتے دیکھا، لہذا اب اس کو اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، راوی کہتے ہیں کہ اس رات میں بارش ہوئی اور مسجد چھپر کی تھی وہ ٹپکی اور میں نے اپنی آنکھوں سے نبی کریم ﷺ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کا اثر اکیسویں کی صبح کو دیکھا۔ اس حدیث میں دو باتیں قابل غور ہیں، اول آپ ﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ اعتکاف فرمایا، اور دوسرے یہ کہ شب قدر کی فضیلت کے حصول کے لئے مستقل کوشاں رہے۔ لہذا آج بھی جو لوگ اللہ تعالی کی محبت میں اپنا وقت لگاتے ہیں اور شب قدر کی فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے اعتکاف میں بیٹھتے ہیں یا اس کے بغیر ہی کوشاں رہتے ہیں، اللہ ان کی محنتوں کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ لیکن اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اعتکاف میں ہونے کی وجہ سے چونکہ بندہ مومن خالص اللہ کے لئے اپنا مکمل وقت دیتا ہے اس لئے شب قدر کی فضیلت کے حصول کی توقع زیادہ ہوتی ہے۔
اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: اول، مسنون اعتکاف جو سنت علی الکفایہ ہے، یعنی رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف، اس صورت میں اگر پوری بستی یا محلہ کا کوئی فرد اعتکاف میں بیٹھ جائے تو یہ تمام کی جانب سے ادا ہوجائے گا، بصورت دیگر تمام افراد گناہ گار ہوں گے۔ دوم، واجب اعتکاف، یہ نذر ماننے کی صورت میں واجب ہوتا ہے اور جتنے دن کی نذر مانی جائے گی اتنے دنوں تک اعتکاف مع روزہ واجب ہوگا۔ سوم، مستحب اعتکاف، جب انسان مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرلے، اس صورت میں جب تک مسجد میں رہے گا اعتکاف کا ثواب بھی ملے گا اور جو عبادت ہوگی اس کا ثواب الگ ہوگا۔ لیکن مستحب اعتکاف کے لئے روزہ ضروری نہیں ہے۔
اعتکاف کرنے کی حالت میں بندہ کو چاہئے کہ ہمیشہ مسجد کے احاطہ میں رہے، کیونکہ بلا ضرورت مسجد سے باہر نکلنے کی صورت میں اعتکاف ٹوٹ جائے گا، البتہ اگر بشری تقاضے کے تحت مسجد سے باہر جانا ناگزیر ہو تو اس کی اجازت ہے لیکن اس دوران ضرورت کے بقدر اجازت ہے۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے، جس میں شب قدر بھی ہے، ایسی صورت میں مسلمانوں کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ تلاوت کلام اللہ میں وقت لگائیں اور دعا و اذکار کی جانب بھر پور توجہ دیں، کیونکہ دعا کی فضیلت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رب العالمین نے خود دعا مانگنے کے لئے کہا ہے۔ ایک تو رمضان المبارک کے مہینہ میں اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے نفل عبادت کا ثواب فرض کے برابر کردیتے ہیں اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے، اور پھر ایسے موقع پر اگر انسان کو شب قدر کی فضیلت حاصل ہوجائے تو کیا کہنے!اس لئے جن احباب کو اللہ نے موقع دیا ہے اور وہ بسہولت اعتکاف میں بیٹھ سکتے ہیں تو انہیں نیک کام میں سبقت کرنا چاہئے۔
بہت ہی عمدہ مضمون ہے ماشاءاللہ