فضیل بن عیاض: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

فضیل بن عیاض: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو 

فیضانِ محبت عام تو ہے عرفانِ محبت عام نہیں

اللہ تعالی کی قدرتِ کاملہ سے کچھ بعید نہیں ہے، اگر وہ چاہے تو ذرہ کو آفتاب بنادے اور چاہے تو چمکتے دمکتے آفتاب و ماہتاب کی روشنی کو ہمیشہ کے لئے گُل کردے۔ وادی غیر ذی زرع کو عالَم کے لئے مرجع بنادے اور سبز و شاداب ، لہلہاتے، چٹختے اور ہرے بھرے کھیت  کھلیان کو بنجر بنادے۔ یہ خدا کی قدرت کا ادنی سا کرشمہ ہے چاہے تو سمندر کی چھاتی پھاڑ کر آرام دہ اور محفوظ راستہ بنادے اور اگر چاہے تو جلتے ہوئے تنوروں سے پانی نکال کر سیلاب برپا کردے۔ اگر وہ چاہے تو دہکتے ہوئے شعلوں کو گلِ گلزار کردے اور چاہے تو میٹھے اور صاف و شفاف پانی کو ناقابلِ شرب بنادے۔ اسی ذاتِ باری نے اپنی کرم فرمائی اور نوازش سے ایک راہزن کو راہبر بنادیا۔ قافلوں کو لوٹنے اور ان کو برباد کرنے والے کو امت کا محافظ اور وقت کا راہبر کامل بنادیا۔ حضرت فضیل بن عیاض کی زندگی بھی خدا کی قدرت کاملہ اور مظہر کا ایک نمونہ ہے۔

فضیل بن عیاض کی ابتدائی زندگی

آپ کا نام فضیل اور کنیت ابو علی یا ابو الفیض ہے۔ سلسلہ نسب فضیل بن عیاض بن مسعود بن بشر التمیمی ہے۔ آپ کا وطنِ اصلی کوفہ ہے لیکن آپ کی جائے پیدائش میں قدرے اختلاف ہے،  بعض نے سمرقند اور بعض نے بخارا بیان کیا ہے۔ 726 عیسوی آپ کا سن پیدائش ہے۔

اولا فضیل بن عیاض  راہزنی اور ڈاکہ زنی کا پیشہ اختیار کئے ہوئےتھے۔ جنگلوں میں رہنے والے تمام راہزن آپ کے ماتحت کام انجام دیا کرتے تھے۔ اس اطراف میں پھیلے ہوئے تمام جنگلات اور آبادی وغیرہ میں رہنے والے راہزن فضیل بن عیاض کو اپنا سردار تسلیم کرتے تھے۔آپ ان قافلوں کو نشانہ بناتے جہاں زیادہ مال و متاع  کا گمان ہوتا لیکن ان کے پاس اتنا ضرور چھوڑ دیتے کہ وہ بالکل برباد نہ ہوجائے۔ قتل و غارت گری سے  اجتناب کرتے ، بچوں اور عورتوں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرتے تھے۔ ایک جانب راہزنی کا پیشہ تھا تو دوسری جانب نماز کی پابندی، عبادت و ریاضت کا اہتمام بھی خوب تھا۔ خود بھی نماز روزہ کا اہتمام کرتے اور گروہ کے دیگر افراد کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ اس سلسلہ کے دو واقعات پیش کئے جاتے ہیں:

فضیل بن عیاض کی عبادت کا انوکھا واقعہ

ایک دفعہ آپ کا گروہ ایک قافلہ پر حملہ آور ہوا، قافلہ میں موجود ایک شخص کسی طرح چھپ چھپاکر اپنا مال و زر لے کر محفوظ کرنے کے لئے جنگل کی جانب دوڑ گیا۔ دور چل کر دیکھا کہ ایک جھونپڑی ہے جس میں ایک شخص عبادت میں مشغول ہے۔ مسافر نے اپنا تمام قیمتی اثاثہ اس کے پاس امانت رکھ دیا اور دوبارہ قافلہ میں شامل ہوگیا۔ جب ڈاکو اپنا کام انجام دے کر روانہ ہوگئے اور قافلہ والوں کو کچھ راحت میسر ہوئی تو یہ شخص اپنا مال و متاع لینے کے لئے دوبارہ جنگل کی جھونپڑی کی جانب چل پڑا۔ دروازہ پر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ تمام ڈاکو وہاں موجود ہے اور وہ زاہد و عابد شخص ان کے درمیان لوٹ کا مال تقسیم کررہا ہے۔ یہ نظارہ دیکھ کر اپنی قسمت پر روتے ہوئے الٹے پاؤں لوٹ گیا ، تبھی سردار نے دیکھ کر  اسے اپنے پاس بلایا اور دریافت کیا، کیوں آئے ہو، اس نے ڈرتے ہوئے جواب دیا کہ اپنی امانت واپس لینے آیا ہوں۔ سردار نے حکم دیا کہ اس کی امانت واپس کردی جائے۔

آپ کے ساتھیوں نے ایک قافلہ پر حملہ کیا ، دورانِ حملہ آپ گروہ میں موجود نہیں تھے۔ قافلہ کے سربراہ نے ڈاکوؤں سے دریافت کیا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ جواب دیا گیا کہ وہ ابھی ساحل کے کنارے نماز میں مشغول ہے۔ سربراہ نے کہاکہ یہ تو نماز کا وقت نہیں ہے ۔ جواب دیا گیا کہ نفل نماز میں مشغول ہے۔ سربراہ نے پوچھاکہ وہ تمہارے ساتھ کھانے میں بھی شامل نہیں ہے۔ جواب دیا گیا کہ روزہ سے ہے۔ سربراہ نے کہا کہ یہ رمضان کا مہینہ تو نہیں ہے ۔ جواب دیا گیا کہ نفل روزہ ہے۔

فضیل بن عیاض کی ابتدائی زندگی میں عجیب کشمکش تھی۔ ایک جانب آپ زاہد و عابد اور نماز روزہ کے پابند تھے اور دوسری جانب آپ راہزنی بھی کیا کرتے تھے۔ نماز کا اس قدر اہتمام تھا کہ اگر ساتھیوں میں سے کوئی نماز میں غفلت برتتا تو اسے گروہ سے نکال دیا کرتے تھے۔ لیکن جیسا کہ اللہ کا قول فیصل ہے کہ نماز منکرات سے روکتی ہے ۔ بالآخر آپ کے لئے بھی وہ دن آگیا اور تائب ہوکر ہمیشہ کے لئے راہزن کے بجائے راہبر کی فہرست میں شامل ہوگئے۔

فضیل بن عیاض کی توبہ کا واقعہ

فضیل بن عیاض کے تائب ہونے کے واقعہ کو کئی طرح سے بیان کیا جاتا ہے، ان تمام کا نچوڑ اور حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک مرتبہ کہیں جارہے تھے کہ اچانک آپ کے کانوں میں قرآن کی آواز آئی۔ "کیا اب بھی ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے قلوب اللہ کے ذکر سے لرزنے لگے”۔ یہ سننا تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی۔ ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور ہمیشہ ہمیش کے لئے تائب ہوگئے۔

راہزنی کے زمانہ میں آپ کا معمول تھا کہ آپ ہمیشہ لوٹی ہوئی رقوم کو لکھ کر محفوظ کرلیا کرتے تھے۔ چنانچہ تائب ہونے کے بعد آپ نے تمام مال و متاع اصل مالک تک پہنچانے کا ارادہ کیا اور جلد ہی اس کام سے فارغ ہوگئے۔ اس سلسلہ میں ایک یہودی کا واقعہ مذکور ہے کہ اس نے معاف کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میرے تھیلے میں سونا بھرا ہوا تھا۔ ہر چند فضیل بن عیاض نے اس یہودی کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو اصل مال تھا وہ میں نے تمہیں واپس کردیا ہے۔ لیکن یہودی اپنی بات پر بضد رہاکہ میں قسم کھا چکا ہوں کہ جب تک سونے کی تھیلی نہیں ملے گی تیرا قصور معاف نہیں کروں گا۔ اس یہودی نے ایک تھیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تھیلی مجھے لاکر دو۔ آپ نے وہ تھیلی اسے لاکر دی، اس نے کھولا تو اس میں سونا بھرا ہوا تھا۔ اس نے دیکھ کر کہا کہ مجھے یقین ہوگیا کہ تو نے سچی توبہ کی ہےاس لئے کہ یہ تھیلی ریت کی تھی اور میں نے توریت میں پڑھا ہے کہ جس کی توبہ سچی ہوتی ہے اگر اس کے ہاتھ میں ریت بھی ہو تو وہ سونا بن جاتا ہے۔

حصولِ علم کی جستجو

دل کی دنیا بدلنے کے بعد آپ حصولِ علم میں مشغول ہوگئے۔ آپ نے وقت کے کبار علماء اور ائمہ حضرات سے استفادہ کیا ہے۔ آپ کے اساتذہ میں امام ابو حنیفہ بھی ہے اور آپ کے فیض یافتگان میں امام شافعی کا نام بھی شامل ہے۔ اس طرح آپ نے وقت کے ایک عظیم فقیہ سے استفادہ کیا اور دوسرے فقیہ نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے۔ حصولِ فقہ کے بعد آپ نے علم ِ حدیث کے لئے امام اعمش، لیث بن سعد، ابن ابی لیلی اور عطاء بن سائب جیسے محدثین کی درسگاہوں کا رخ کیااور طویل زمانہ تک ان محدثین عظام کی خدمت میں مصروف رہے ہیں۔ ان حضراتِ محدثین کی دعاؤں کی برکت اور فیضانِ محبت کا کرشمہ تھا کہ آپ کی درس گاہ سے فیض پانے والوں میں عبد اللہ بن مبارک، سفیان بن عیینہ، امام اصمعی اور عبدالرحمن بن مہدی جیسے محدثین  کا نام شامل ہے۔

فضیل بن عیاض شیخ عبد الواحد بن زید کی خدمت میں 

آتش عشق نے جب بے قرار کردیا تو حضرت حسن بصری کی درس گاہ کی جانب محو سفر ہوئے، لیکن کوفہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت حسن بصری دار فانی سے رخصت ہوچکے ہیں۔ آپ نے کوفہ میں موجود ان کے خاص خلیفہ حضرت عبد الواحد بن زید کا دامن تھام لیا۔ سب کچھ تو پہلے سے موجود تھا  بس چند ضربوں کی ضرورت تھی جس سے یہ کُندن نکھر کر دنیا کو جگمگانے کا فریضہ انجام دے سکے۔ شیخ کی صحبت اور توجہ نے بہت قلیل مدت میں آپ کو ولایت کے اس مقام پر پہنچادیا کہ بعد کے زمانہ میں آپ کی شناخت صوفی ، عارف باللہ، شہبازِ طریقت اور مرتاضِ ریاضت جیسے القاب سے ہونے لگی ۔ شیخ عبد الواحد کے علاوہ شیخ ابو عیاض منصور بن معتمر سلمی سے بھی آپ کو خلافت حاصل ہے۔  فضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ میں تقریبا تیس سال تک شیخ عبد الواحد کی خدمت میں رہا ہوں لیکن صرف ایک مرتبہ انہیں مسکراتے ہوئے پایا تھا۔ یہ وہ عظیم لوگ تھے جو قرآن کے فرمان "ہنسو کم اور رؤوزیادہ” پر عمل پیرا رہا کرتے تھے۔

شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ وضو میں سہوا کسی عضو کو تین مرتبہ کے بجائے دو مرتبہ دھولیا۔ شب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ، نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ فضیل یہ تم سے بعید ہے کہ تم میری سنت چھوڑ دو۔ آپ اس ہیبت سے بیدا ر ہوگئے اور پانچ سو نفل نماز  ہر دن ایک سال تک کے لئے اپنے اوپر اس کا کفارہ مقرر کرلیا۔

علومِ ظاہریہ کے علاوہ علومِ باطنیہ میں بھی آپ سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بے شمار ہے۔ آپ ہمہ وقت ذکرِ الٰہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔ ریاضت کا بہت زیادہ اہتمام تھا ۔ کئی کئی دن مسلسل روزہ کی حالت میں گزارلیا کرتے تھے۔ اگر کبھی افطار بھی کرتے تو بہت معمولی ۔ دوچار لقموں سے زیادہ استعمال نہیں کیا کرتے تھے۔  شیخ زکریا نے اپنی کتاب "مختصر مشائخ چشت”میں آپ کےخلفاء کی تعداد پانچ بتائی ہے۔ حضرت ابراہیم     بن ادہم، (حضرت ابراہیم بن ادہم کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں)شیخ محمد شیرازی، خواجہ بشر حافیِ، شیخ ابو رجاء عطاروی اور خواجہ عبد اللہ سباری۔ یہ پانچوں حضرات تاریخ اسلام کے عظیم صوفیاء کرام میں سے ہیں جن کے فیوض و برکات سے خلق خدا مستفید ہوئی ہے۔تصوف و سلوک کے اسی سلسلہ نے ہندوستان کی سرزمین کو دین محمدی سے سرشار کیا ہے اور ہندوستان کے چپہ چپہ میں دین اسلام کی اشاعت کے اہم فریضہ کو انجام دیا ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ بابا فرید الدین گنج شکر، خواجہ نظام الدین اولیاء اور علاء الدین علی احمد صابر کلیری مذکورہ تمام اکابرین کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے مذکورہ لنک پر کلک کریں) سب اسی سلسلۃ الذہب کی کڑی ہیں جنہوں نے دین حنیف کی خدمت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

فضیل بن عیاض کے قیمتی اقوال 

آپ کے قیمتی اقوال آج بھی لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے کافی ہے اور صوفیاء کرام کی مجالس میں پڑھے اور سنے جاتے ہیں ۔سلوک و طریقت کے متلاشی کے لئے آپ کے کلام نہایت عمدہ اور مفید ہیں۔  آپ مختصر لیکن نہایت جامع کلام فرمایا کرتے تھے۔

آپ نے فرمایا کہ جس بندہ کو خدا دوست رکھتا ہے اس کو دنیاوی غم زیادہ دیتا ہے اور جس کو دشمن رکھتا ہے اسے دنیا کی عیش دیدیتا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ لوگوں خدا کی دی ہوئی نعمت کا شکر ضرور ادا کرتے رہا کرو ، ایسا بہت کم ہوا ہے کہ خدا نے کسی کی نعمت چھین کر اس کو دوبارہ واپس فرمادی ہو۔ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں داخل ہونا تو بہت آسان ہے لیکن اس سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایاکہ جس شخص کی خواہش ہو کہ لوگ میری بات توجہ سے سنا کریں وہ زاہد نہیں ہے۔

سفرِآخرت

حضرت فضیل بن عیاض کی وفات راجح قول کے مطابق 3 ربیع الاول 187 ہجری ہے ، بعض لوگوں نے ماہ ِ محرم کو  ماہ وفات بتایا ہے۔ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران کسی قارئ قرآن کی تلاوت سماعت سے ٹکرائی جو اس وقت سورہ قارعہ کی تلاوت فرمارہے تھے۔ اچانک ایک چیخ بلند ہوئی اور روح پرواز کرگئی۔ جنت المعلی میں آپ مدفون ہیں۔  حضرت عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ فضیل بن عیاض کی وفات پر آسمان و زمین رورہے تھے اور ہر سمت  سناٹا چھایا ہوا تھا۔

Related Posts

One thought on “فضیل بن عیاض: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے