اسلام کا نظام مساجد اور ہمارے مکاتب

اسلام کا نظام مساجد اور ہمارے مکاتب

مذہب اسلام ایک آفاقی دین ہے جس کی تعلیمات ہر دور اور ہر زمانے میں بسنے والے انسانوں کے لئے یکساں طور پر مفید ہے۔  تعلیم کے تعلق سے مذہب اسلام نے اپنے متبعین کو جتنا ابھارا ہے اور انہیں ترغیب دی ہے اس کی مثال دیگر مذاہب میں نہیں ملتی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں علم کی فضیلت کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مذہب اسلام نے علم کو کتنی اہمیت دیا ہے۔ قرآن مجید نے علم کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اے نبی کہہ دیجئے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں”۔  آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے”۔ اسلام کا نظام مساجد اور ہمارے مکاتب کے عنوان سے مضمون لکھنے کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہم جان سکیں، ابتدائے اسلام میں یا بعد کے ادوار میں مساجد نے تعلیمی میدان میں کیا کارنامے انجام دیئے ہیں۔ دینی علوم کی بیداری اور تعلیم و تعلم میں سب سے اہم کردار مساجد کا رہا ہے۔

اسلام کا نظام مساجد قرن اول میں

 چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے پہلے زمانہ نبوت میں مسجد نبوی کو باضابطہ تعلیم گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ اپنے اصحاب کو مسجد نبوی میں تعلیم سے آراستہ فرماتے اور وہاں رہنے والوں کے لئے باقاعدہ ایک چبوترہ قائم کیا گیا، جسے صفہ کہا جاتا تھا۔ آپ ﷺ کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا ہے اور جیسے جیسے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا تعلیمی حلقوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مذہب اسلام جب عرب کی سر زمین سے عجم کی سرزمین پر پھیلا تو اہل علم حضرات نے اپنے اعتبار سے اپنے دینی حلقے قائم کئے جہاں مختلف علوم و فنون میں دسترس رکھنے والے افراد اپنے حلقے لگاکر علوم کے متلاشی افراد کی سیرابی کا کام انجام دیا کرتے تھے۔ ائمہ احادیث، ائمہ تفسیر، ائمہ فقہ و فتاوی ان تمام کی حیات مبارکہ میں یہ باتیں مشترک نظر آتی ہے کہ ان تمام کے حلقے موجود تھے  اور ان سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ اہل علم کے ان ذاتی حلقوں کے علاوہ سلطنت اسلامیہ میں عام رواج یہ تھا کہ تمام مساجد میں باضابطہ تعلیمی حلقے لگائے جاتے تھے اور سوال و جواب کے ذریعہ یا درس و تدریس کے ذریعہ تشنگان علوم اپنی پیاس بجھایا کرتے تھے۔ اگرچہ مساجد میں حلقوں کا رواج بعض اسلامی ممالک میں کچھ حد تک باقی ہے لیکن بیشتر جگہوں پر ان کا رواج ختم ہوگیا ہے۔ بعد کے ادوار میں جب اسلامی حکومتوں نے اپنے اعتبار سے دینی اداروں کا سلسلہ شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم اسلام میں دینی اداروں کی چہل پہل نظر آنے لگی تو علماء کرام کا بڑا طبقہ ان اداروں سے وابستہ ہوگیا۔ ان اداروں میں طالبان علوم کے لئے قیام و طعام اور دیگر ضروریات کی تکمیل حکومت کی جانب سے ہوا کرتی تھی اور ان اداروں میں پڑھانے والے افراد کے معاش کی ذمہ داری حکومت کی جانب سے طے ہوتی تھی۔ عالم اسلام میں آج بھی ایسے قدیم ادارے موجود ہیں جن کی بنیاد صدیوں قبل مسلم حکمرانوں نے رکھی تھی اور جن اداروں کی چھاؤں میں علم و عمل کے پہاڑ پیدا ہوئے ہیں۔لیکن جب مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی اور انہیں اپنے دین و اسلام کو بچانے کے لئے دیگر ذرائع کا سہارا تلاش کرنا پڑا تو مسلمانوں نے مکمل طور پر اپنا نظام تعلیم تبدیل کرلیا، خاص طور پر برصغیر اور ملک ہندوستان میں جو طریقہ اختیار کیا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔

ملک ہندوستان میں مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے رفقاء کار نے ایک نئے نظام کی داغ بیل ڈالی، ایک ایسا نظام بنایا گیا جس کے تئیں طالبان علوم نبویہ کی کفالت عوامی ذمہ داری قرار دی گئی کیونکہ  اب حکومتی اداروں کی جانب سے کفالت کا مسئلہ ختم ہوچکا تھا۔ اس سلسلہ میں بعض اہم اصول و ضوابط بنائے گئے اور یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ان اکابرین کے اخلاص نے گزشتہ ڈیڑھ صدی میں مسلم قوم پر تمام طرح کے آلام و مصائب کے باوجود دین کو زندہ رکھا ہے اور ان میں دینی و ایمانی غیرت و حمیت کو باقی رکھا ہے۔ ان مدارس کے قیام کے جو مقاصد اکابرین کے پیش نظر تھے، اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے انہیں پایہ تکمیل تک پہنچا یا ہے۔ لیکن موجودہ وقت میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے مسلم قوم کے لئے مسائل پیدا کئے جارہے ہیں اور اس بات کی پوری کوشش جاری ہے کہ مسلم قوم کو دین سے دور کردیا جائے۔ کیونکہ جب تک ان میں دین باقی ہے ان کی قوت مدافعت اور دینی غیرت کو کوئی چھین نہیں سکتا ہے۔ لہذا اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے موجودہ اکابرین ایک مرتبہ پھر اپنے نظام تعلیم پر غور و فکر کریں اور قبل از وقت آنے والے حالات سے نمٹنے کے لئے تیار رہیں۔ ہمیں ایک ایسے متبادل کی ضرورت ہے جو مدارس کے موجودہ نظام کی مکمل نہ سہی لیکن کچھ حد تک کمی کو پورا کرسکے۔ بندہ کی رائے میں سب سے بہتر متبادل قرن اول کا وہی نظام ہے جو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے دیا تھا۔

ہمارے اسلاف و اکابرین کو اس سمت نظر دوڑانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کا نظام مساجد قرن اول میں کیا تھا اور اب ہمارے یہاں نظام مساجد کیا ہے۔ جس طرح قرن اول میں دین کے تمام شعبوں کے لئے مساجد کا نظام سب سے بہتر اور مناسب تھا، اب ضرورت ہے کہ ہم پھر سے اسی ڈگر پر واپس آئیں اور دین کے تمام شعبوں کو مساجد میں پھر سے زندہ کریں۔  جو مدارس  دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے بلکہ ان میں مضبوطی، استحکام، تعلیمی معیار اور دیگر ضروریات کی جانب بھر پور توجہ کی جائے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ڈیڑھ صدی بعد بھی ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ جس طرح دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ نیز مسلمانوں میں جس طرح دینی دعوت کا کام ہونا چاہئے تھا، نہیں ہوسکا ہے۔ آج بھی ملک ہندوستان کے بے شمار علاقے ہیں جہاں مسلم قوم اپنے نام کے علاوہ مذہب اسلام سے کوئی واسطہ نہیں رکھتی ہے، ان کی مساجد ویران ہے اور ان کے یہاں دینی تعلیم کا کوئی نظم نہیں ہے۔ ایسے علاقوں میں رہائش پذیر افراد رسم و رواج کے اعتبار سے مکمل طور پر غیروں کے نقش قدم پر ہیں، فتنہ ارتداد کی لہر کب ان کے نام کو اپنی تیز و تند آندھی میں ختم کردے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ آئے دن ایسے مقامات اور واقعات کا تذکرہ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے جس میں مسلم قوم کی جانب سے ایسے اعمال کے سرزد ہونے کی تصدیق ہوتی ہے جو مذہب اسلام کی روشنی میں شرک سے کم نہیں ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ شرک ایسا گناہ ہے جس کی بخشش نہ کرنے کا اعلان خود ذات باری تعالی نے کیا ہے، ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو دوسروں کی رعایت میں یہ کام کرجاتے ہیں اور کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو یہ جانتے ہی نہیں ہے کہ ان کے اعمال و افعال انہیں ظلمت کی کس کھائی میں لے جائیں گے۔

مسلم قوم کی اپنی ایک شناخت اور پہچان ہے، یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی مسلم آبادی ہے یا جس علاقہ میں چند مسلم گھرانے آباد ہیں وہاں کے افراد اپنی حیثیت کے مطابق مسجد کا انتظام ضرور کرتے ہیں۔ چاہے وہ باضابطہ عمارت کی شکل میں ہو یا پھر گھاس پھوس کے چھپر کی شکل میں۔ یہ قوم مسلم کی علامت اور زندہ ہونے کی دلیل ہے کہ جہاں بھی مسلمان بستے ہیں وہاں اللہ تعالی کی عبادت کے لئے مسجد تعمیر کرتے ہیں، لیکن ایک عام تصور یہ بن گیا ہے کہ مساجد صرف پانچ وقت کی نماز کی لئے تعمیر کی جاتی ہے، دیگر دینی کام کاج کی اجازت نہیں ہے۔ بعض علاقوں میں ایسا بھی ہوا کہ مکاتب کو مساجد میں صرف اس لئے نہیں قائم ہونے دیا گیا کہ بچے شور مچائیں گے یا مساجد کی بے حرمتی ہوگی۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ خود مسجد نبوی میں آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں بچے مسجد نبوی میں آتے تھے اور اپنے بچکانہ حرکات سے دیگر لوگوں کو مستفید بھی کیا کرتے تھے۔ جب نبی کریم ﷺ نے انہیں مسجد نبوی میں آنے سے منع نہیں فرمایا ہے تو مناسب نہیں ہے کہ بچوں کو مساجد میں آنے سے روکا جائے۔ مساجد میں دین کے تمام شعبوں کو قائم کیا جائے، چھوٹے بچوں کے لئے مکاتب قائم کئے جائیں، بڑوں کی تعلیم کے لئے کوشش کی جائے، گاؤں گھر کی خواتین کی دینی تعلیم کا نظام بنایا جائے۔ ایسا مرتب نظام بنایا جائے کہ مکاتب کے بچے دین کی بنیادی تعلیم اور اسلامی عقائد کو جان سکیں نیز نماز روزہ اور دیگر عبادات کی فرضیت کو سمجھیں۔ کیونکہ موجودہ وقت میں اسکولی نظام اس طور پر مرتب کیا گیا ہے جو معصوم اذہان کو شرکیہ اور باطل عقائد کی جانب لے جاتا ہےنیز مذہب اسلام کے تئیں ایسے شکوک و شبہات پیدا کئے جاتے ہیں جو مسلمان بچوں کو اپنے مذہب سے بیزار کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔

مکاتب کا نظام دو صورتوں میں مضبوط اور مستحکم کیا جاسکتا ہے، اول یہ کہ نظام الاوقات کو ایسے ترتیب دیا جائے کہ اسکولی نظام سے وابستہ طلبہ بھی مکاتب سے بھر پور استفادہ کرے، نیز طلبہ و طالبات ہر دو کی مکمل رعایت کی جائے، مشاق اور ماہر تجربہ کار اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں، محض نورانی قاعدہ اور قرآن مجید کی تلاوت تک مکاتب محدود نہ کئے جائیں بلکہ طہارت کے مسائل، صوم و صلوۃ کے مسائل نیز بنیادی عقائد کے اہم گوشوں کا احاطہ کیا جائے۔ طلبہ میں یہ شعور پیدا کرنا ضروری ہے کہ حلال و حرام کا تعلق کن چیزوں سے ہے اور یہ کہ مذہب اسلام ایک مکمل دین ہے اور طریق زندگی ہے، اس کے بتائے اصول و قوانین سے انحراف دنیا و آخرت دونوں میں خسارے کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو کیوں ہے اور مسلمان ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی کے کن احسانات سے ہم مستفید ہورہے ہیں اور کن بُرائیوں اور غلط عقائد سے اللہ تعالی نے ہمیں محفوظ رکھا ہے۔ علاقہ اور بستی کے اعتبار سے تقاضے الگ ہوسکتے ہیں، ایسی صورت میں ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔

دوسرے، مکاتب کے نظام کو مستحکم کرنے کے لئے مساجد میں ایسے ائمہ کا انتخاب کیا جائے جن میں دین اسلام کا شعور ہو، جو مسائل سے کما حقہ واقف ہو، ورنہ ایسا بھی مشاہدہ ہوا کہ محض تنخواہ سے بچنے کے لئے اہل محلہ ایسے امام کا انتخاب کرتے ہیں جن میں طہارت تک کے مسائل کی شد بد نہیں ہوتی ہے۔ جو کسی صورت امامت کے اہل نہیں ہوتے ہیں لیکن اہل محلہ کی دینی غیرت کا عالَم یہ ہوتا ہے کہ  پانچ وقت کا امام ایسا بندہ ہوتا ہے جو دین کے شعور سے ناواقف ہوتا ہے۔ صورت حال اس حد تک خراب ہوگئی ہے کہ شہری علاقوں میں جہاں صاحب ثروت افراد بستے ہیں وہاں کی مساجد معتمد عالم دین کی امامت سے محروم ہورہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب اہل محلہ اپنے دینی امام کے لئے اس حد تک مردہ دل ہوچکے ہیں تو پھر ان کے دینی امور کی انجام دہی کون کرے گا۔ کون ان کے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرے گا؟ ایک عام تصور بن گیا ہے کہ کسی حافظ جی یا قرآن جاننے والے سے ٹیوشن کرا دیا جائے یہ کافی ہے۔ حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دینی علوم اللہ تعالی کے نور میں سے ایک نور ہے۔  اس کے حصول کے لئے سعی و تگ ودو ضروری ہے۔ ہمارے معاشرہ کا عام رواج بن گیا ہے کہ مساجد کی امامت اور علم دین پڑھانے والوں کو معقول تنخواہیں بھی نہیں دی جاتی ہیں۔ یہ دنیا دارالاسباب ہے، یہاں بہترین اور عمدہ چیزوں کے حصول کے لئے  محنت اور مشقت کی ضرورت ہوتی ہے، تو پھر دینی علوم چاہے وہ مکاتب کی شکل میں ہو یا دیگر شعبوں کی شکل میں، ان تمام اداروں میں کام کرنے والے افراد اگر معاشی اعتبار سے فارغ نہیں ہوں گے تو یقینا ان کی توجہ دیگر جانب مبذول ہوگی، جس کے نتیجہ میں وہ خاطر خواہ فائدے حاصل نہیں ہوسکیں گے جن کے لئے ان شعبے جات کا قیام عمل میں آیا تھا، اور جن اہم مقاصد کے لئے ائمہ اور علماء حضرات کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ضروری ہے کہ مکاتب میں ایسے قابل اور لائق اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں جو بچوں کی تعلیم و تربیت سمیت علاقے میں دینی ماحول کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکے، قرآن و حدیث اور مسائل پر بات کرنے کی صلاحیت ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب مناسب اور حسب لیاقت ان کی معاشی کفالت کی ذمہ داری اہل مساجد لیں۔ اگر ہم نے مساجد کے نظام کو معیاری مکاتب سے جوڑ دیا تو اس کے کئی بڑے اور دور رس فوائد حاصل ہوں گے۔ اہل محلہ اور مسجد سے متصل تمام گھرانوں کے بچوں کے لئے دینی تعلیم کا حصول آسان اور ممکن ہوجائے گا۔ بنیادی عقائد کی معلومات کی وجہ سے فتنہ ارتداد کی لہر سے حفاظت کا سامان ملے گا۔ مسلسل مسجد میں آمد و رفت کی وجہ سے تقرب الی اللہ اور نماز کی پابندی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ بچوں میں دینی رجحان بڑوں میں تبدیلی کے محرکات بن سکتے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ معیاری مکاتب ہماری نئی نسل اور موجودہ نسل کو دین سے جوڑنے اور فتنہ ارتداد سے بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

Related Posts

One thought on “اسلام کا نظام مساجد اور ہمارے مکاتب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے