علم کی اہمیت و فضیلت اور مسلمانوں کی عدم دلچسپی

 

علم کی اہمیت و فضیلت  اور مسلمانوں کی عدم دلچسپی 

علم کی اہمیت و فضیلت اور مطالعہ کی قدر و قیمت کے متعلق مضامین کثرت سے لکھے اور پڑھے جاتے ہیں، لیکن کچھ دنوں قبل سوشل میڈیا پر نایاب حسن قاسمی کا مضمون "عباسی حکومت میں کتابوں اور کتب خانوں کی اہمیت” نظر سے گزرا۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد موجودہ حالات کے پیش نظر چند باتیں ذہن میں آئیں، ذیل میں انہیں باتوں کو سپرد قرطاس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مذہب اسلام کا پہلا حکم "اقرا” ہے، اور اس سے مذہب اسلام میں علم کی اہمیت و فضیلت  کا اندازہ ہوتا ہے۔ کیا مسلم قوم اپنے آقاء  نامدار ﷺ کے فرمان پر گامزن ہے یا پھر اس  قوم نے  اس حکم کو پس پشت ڈال دیا ہے، یہ ایسا سوال ہے جس نے قوم مسلم کی علمی حیثیت پر شکوک و شبہات کے بادل کھڑے کردیئے ہیں۔ تعلیم وہ مقدس شے ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا تھا۔  علم کی اہمیت ہر زمانے میں مسلّم رہی ہے اور صاحب علم ہر دور میں معزز شمار کئے گئے ہیں، علم کے زیور سے آراستہ قوم نے ہر صدی اور ہر قرن میں دنیا کی امامت کے فرائض کو انجام دیا ہے۔ علم انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے اور انہیں تہذیب و ثقافت کا علَمبردار بناتا ہے۔  علم کے بغیر انسان میں درندگی اور وحشیانہ پن کے سوا کچھ نہیں بچتا ہے۔ علم کی اہمیت و فضیلت ہی کا نتیجہ ہے کہ مذہب اسلام نے ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے علم سیکھنے کو فرض قرار دیا ہے۔

ilm ki ahmaiyat w fazeelat aur masalmanun ki adm dilchaspi
علم کی اہمیت و فضیلت

علم کی فضیلت قرآن مجید میں

اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں جگہ بجگہ علم اور اہل علم کی اہمیت و فضیلت کو بیان کیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ربانی ہے "قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون، اِنما یتذکر اولو الالباب” اے نبی  کہہ دیجئے کیا اہل علم اور جاہل برابر ہوسکتے ہیں، یقینا اہل دانش ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ اس آیت کے ضمن میں اللہ تعالٰی نے اہل علم اور غیر اہل علم کے درمیان ایک حد فاصل بنادیا ہے، اور یہ صاف کردیا ہے کہ دونوں حیثیت کے اعتبار سے الگ مقام رکھتے ہیں۔ دوسری جگہ اہل علم کی شان بیان کرتے ہوئے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں "اِنما یخشی اللہ من عبادہ العلموا” اہل علم ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔علم اور اہل علم کی اہمیت و فضیلت کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید نے ایک جگہ ارشاد فرمایا: "یؤتی الحکمۃ من یشاء، ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا”۔اللہ جسے چاہتے ہیں دین کی سمجھ عطا کرتے ہیں اور جس کو دین کی سمجھ دے دی گئی، اسے بڑی نعمت سے نوازدیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ علم کی بنیاد پر انسان حقیقت ربانی سے واقف ہوجاتا ہے اور وہ ان باتوں کو بھی بخوبی جانتا ہے جس سے غیر اہل علم ناواقف ہوتے ہیں۔ علم کی بنیاد پر وہ بے شمار عجائبات ربانی کا مشاہدہ کرتا ہے اور زمین و آسمان میں پھیلے ہوئے ہزاروں لاکھوں نشانیوں میں غور و فکر کرکے قربِ الہٰی کی لذت سے مسرور ہوتا ہے۔  علم کی بدولت انسان ان رازہائے سر بستہ کو کھولتا ہے جو نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ علم کے سمندر میں غواصی کرکے انسان ان موتیوں کو تلاش کر لاتا ہے جن کے تتبع کا امکان محال ہوتا ہے۔موجودہ دور میں نئی ٹیکنالوجی اور نت نئے وسائل علم کی پیداوار ہیں۔ تحقیقی میدان میں ہر آئے دن نئے نئے انکشافات علم کے متوالوں کی رہین منت ہیں۔ جب تک علم کے سمندر میں غوطہ لگانے والے موجود رہیں گے اس وقت تک نئی ایجادات کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔

علم کی اہمیت و فضیلت احادیث کی روشنی میں

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا "اِنما بعثتُ معلما” میں معلم بناکر مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس حدیث سے علم اور اہل علم کی اہمیت و فضیلت مزید واضح ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی آمد کا مقصد علم کی ترویج و اشاعت کو بتایا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ پر پہلی وحی "اقرا” کی صورت میں ہی نازل ہوئی ہے۔ جنگ بدر میں جب قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ درپیش ہوا اور مختلف آراء سامنے آئیں تو ان میں ایک یہ بھی تھی کہ قیدیوں میں جو لوگ پڑھنا جانتے ہیں وہ دس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں، اور یہی تعلیم ان کی آزادی کا پروانہ ہوگا۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب نے اپنے جانی و مالی اور اعدائے اسلام کی جان بخشی کو علم کے سکھانے پر موقوف کردیا تھا۔ اس واقعہ سے علم  کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ علم کی جستجو اور تلاش میں سفر کرنے والوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "من خرج فی طلب العلم، کان فی سبیل اللہ حتی یرجع”، جو علم کی تلاش میں نکلا، وہ اللہ کے راستہ میں ہے ، یہاں تک کہ وہ واپس آجائے۔ قرآن مجید اور احادیث میں جا بجا علم اور اہل علم کی اہمیت و فضیلت مذکور ہے۔ بلکہ ایک جگہ رسول اللہ ﷺ نے علم و حکمت کو مسلمانوں کا کھویا ہوا خزانہ قرار دیا ہے: "الحکمۃ ضالۃ المؤمن فحیث وجدھا فھو احق بہا”۔ علم اور حکمت مسلمانوں کی کھوئی ہوئی پونجی ہے، جہاں ملے اور جیسے ملے اسے حاصل کرلینا چاہئے۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ علم کی اہمیت و فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "کھانا جسمانی غذا ہے علم روحانی غذا ہے، زندگی علم ہی پر موقوف ہے، علم دین حاصل کرنے میں ایک نفع یہ ہے کہ حق تعالی کی رضا اس سے حاصل ہوتی ہے، جو شخص طلب علم میں مرتا ہے اس کو شہید کا ثواب ملتا ہے، حق تعالی اپنے بندوں سے راضی ہونے کے واسطے بہانہ ڈھونڈتے ہیں”۔  حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی ؒ علم کی اہمیت و فضیلت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "اور پھر ایک بہت بڑی انقلاب انگیز اور لافانی حقیقت بیان کی کہ علم کی کوئی انتہا نہیں "علم الانسان مالم یعلم” انسان کو سکھایا جس کا اسکو پہلے سے علم نہ تھا، سائنس کیا ہے؟ ٹکنالوجی کیا ہے؟ انسان چاند پر جارہا ہے، خلا کو ہم نے طے کرلیا ہے، دنیا کی طنابیں کھینچ لی ہیں، یہ سب "علم الانسان مالم یعلم” کا کرشمہ نہیں تو کیا ہے”؟ دنیا میں پائے جانے والے علوم و آلات اور دیگر ایجادات و اختراعات رب ذو الجلال کی جانب سے عطا کردہ تحفہ ہے۔ 

عہد اسلام میں  علم کا ذوق و  شوق

 ابتداء اسلام میں یا اسلامی دور حکومت میں علم کی تلاش میں لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کیا کرتے تھے۔ ہزاروں میل اور کوس کا سفر طے کرکے ایک ایک حدیث اور ایک ایک مسئلہ معلوم کرنے کے لئے پہنچ جایا کرتے تھے۔ عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ کسی صاحب علم کی خدمت اور علم کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہوئے گزار دیا کرتے تھے۔ عہد عباسی میں مسلمانوں کا علمی عروج اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ تمام خلفاء و  وزراء اور امراء کے محلات میں لائبریریاں تھیں، ایک بھی محل اس سے خالی نہ تھا، جیسا کہ  ابوبکر بن یحیی الصولی کے اس واقعہ سے پتا چلتا ہے، اس نے ایک بار خلیفہ راضی باللہ سے کہا: "لوگوں میں اس بات کا چرچاہے کہ ہمارے آقا نے اپنی علمی جلالت و عظمت کے باوجود خلفائے سابقین کی روایت کو برقرار  رکھتے ہوئے محل میں لائبریری قائم کی ہے”۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم بادشاہوں میں علم کی کتنی قدر تھی اور وہ خود علم کے کس قدر شوقین ہوا کرتے تھے۔ علم کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لئے خلفاء کا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ کتابوں کی تصنیف اور اشاعت پر صاحب کتاب کو گراں قدر انعامات سے نوازا کرتے تھے۔بغداد کا "بیت الحکمۃ” آج بھی اپنی جلالت شان کی وجہ سے جانا جاتا ہے، لیکن افسوس کہ اس کی حیثیت اب قصہ ماضی بن کر رہ گئی ہے، نہ تو اسے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی اسلامی مملکت میں اس کا متبادل قائم ہوسکا۔  کتابوں سے حد درجہ عقیدت، ان کو جمع کرنے کا شوق، ان سے فائدہ اٹھانے کا جذبہ اور لگن، اپنے گھروں کو کتابوں سے سجانے کا ذوق اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ لوگ اس کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دینے کو تیار ہوجاتے تھے۔صاحب کتاب ہونا، اہل علم  کی مجالس میں باعث فخر کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔ مسلمانوں کے قلوب میں علم کی اہمیت کو جاگزیں کرنے کے لئے عوامی سطح پر اور مساجد میں لائبریریوں کا منظم نظام تھا۔

علم کے میدان میں مسلمانوں کی تنگدستی 

جب تک مسلمانوں میں یہ ذوق و شوق باقی تھا  اُ س وقت تک مسلمانوں کا علمی دنیا پر علمی عروج قائم تھا۔ مسلم اطباء، سائنسداں، ریاضی داں، جغرافیاں داں اور دیگر علوم و فنون کے ماہرین نے ایجاداتی کارنامے ایجاد دیئے تھے۔ مسلم ماہرین کے علمی کارنامے آج تک علمی دنیا میں قابل قدر نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں، لیکن جب سے مسلمانوں نے علم سے دوری اختیار کی ہے اور علم سے اپنا رشتہ توڑا ہے، تب سے آج تک شاید کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دے سکے ہیں۔ جس امت کے نبی ﷺ نے علم کی اہمیت و فضیلت کو واضح کرنے کے لئے خود کو معلم قرار دیا تھا، اسی نبی ﷺ کی امت آج علم سے دور ہوگئی ہے۔ جس امت کا طرہ امتیاز علم و ادب رہا ہے اب وہی امت تعلیم و تعلم کے باب میں حاشیہ پر کہیں گم ہوگئی ہے۔ جس امت کو "اقرا” کی شکل میں پہلا فرمان ملا آج وہی امت علم کی فضیلت و اہمیت سے نابلد ہوگئی ہے۔اردو ادب کے مشہور ادیب "جون ایلیا” کا قول ہے : "ہم ہزار برس سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کررہے "۔یہ قول کس قدر مبنی بر حقیقت ہے اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ اندازہ لگانا ہوگا کہ گزشتہ چند صدیوں میں ہم نے کیا ایجاد کیا ہے اور کون سے علمی کارنامے ہمارے مرہون ِمنت وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ عالم اسلام، موجودہ دنیا کے معیاری تعلیمی اداروں سے خالی ہے۔قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس خلا کو پُر کرنے کی سعی بھی ہم نہیں کررہے ہیں۔ موجودہ دنیا کے علمی کارناموں میں ہمارا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ تحقیقات و ریسرچ کے باب میں ہماری کوئی شناخت نہیں ہے۔ حتی کہ ہم مذہبی امور کی انجام دہی میں بھی دوسروں کی معاونت کے محتاج ہیں۔  آج چہار جانب شور و غوغا ہے کہ مسلم قوم ناخواندہ اور ان پڑھ قوم ہے جبکہ تاریخ نے امت مسلمہ کا وہ سنہرا علمی دور بھی دیکھا ہے جس میں اکناف عالم کے نامور دانشوران مسلم درسگاہوں کا رخ کرکے اپنی تشنگی بجھایا کرتے تھے۔ اگر آج بھی امت مسلمہ میں علم کی اہمیت و فضیلت واضح ہوجائے اور وہ فرمان نبی ﷺ پر چلنے لگیں تو ماضی کی تابناکی پھر عود کرسکتی ہے۔

اہل علم دنیا کی امامت کے اہل ہوتے ہیں

اہل یورپ اور اہل امریکہ آج اس لئے قابل قدر نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں کہ ان کے یہاں اہل علم اور علم کی اہمیت ہے۔ ان کے پاس دنیا کے بہترین تعلیمی ادارے ہیں۔ ان کے پاس تحقیق و ریسرچ کے بہترین انسٹی ٹیوٹ ہیں۔ ان کا تعلیمی معیار باقی دنیا سے بہت بلند اور اونچا ہے۔ ان کے یہاں تعلیم زندگی کا جز لاینفک ہے۔ تعلیمی معیار کو بلند رکھنے کے لئے خطیر رقم مختص کی جاتی ہے نیز علم کی اہمیت، علم کے حصول اور علم سے متعلق دیگر لوازمات میں دن بدن نئے تجربات کے ذریعے طلبہ کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ ہمارا رعب و دبدبہ اور ہماری شان و شوکت اسی وقت تک برقرار ہے جب تک ان میدانوں میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ دنیاوی سطح پر ترقی کے بام عروج تک پہنچنے کے لئے علم کی اہمیت و فضیلت سے اپنی قوم کو روشناس کرانا ضروری ہے۔ عالم اسلام کی بات چھوڑ دیجئے  ہمارے ملک ہندوستان کی صورتحال بھی ناقابل بیان ہے۔ جس ملک پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکومت کی ہے آج اس ملک میں مسلمانوں کے پاس اپنے تعلیمی ادارے نہیں ہیں۔ ہمارے بچے اور بچیاں غیروں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ فتنہ ارتداد کی لہر ( فتنہ ارتداد کی لہرکے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) نے پورے معاشرہ کی جڑ کو کھوکھلا کردیا ہے۔ مسلمان لڑکیوں میں بڑھتا ہوا فتنہ ارتداد (مسلمان لڑکیوں میں بڑھتا ہوا فتنہ ارتداد اس موضوع پر پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) ہمارے لئے تازیانہ عبرت ہے، ہماری غفلت اور بے توجہی کا ثمرہ ہے، علم سے دوری کا شاخسانہ ہے اور اپنے ادارے نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔قرآن و حدیث میں علم کی فضیلت و اہمیت پر تفصیلی احکامات ہونے کے باوجود ہمارے پاس لڑکیوں کی تعلیم کا نظم (لڑکیوں کی تعلیم کا نظم اس کے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مخلوط نظام تعلیم کی بھینٹ چڑھ کر وہ دین اسلام سے دوریاں اختیار کررہی ہیں۔ بچیوں کو اس فتنہ ارتداد سے بچانے کے لئے سب سے ضروری قدم یہ ہے کہ انہیں مخلوط نظام سے دور کیا جائے اور ان کے لئے اپنے دینی و معیاری ادارے قائم کئے جائیں۔

 تاریخ کے اوراق اور اقوام عالم کے عروج و زوال اور نشیب و فراز کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو قوم زیور تعلیم سے آراستہ ہوتی ہے وہ بلندیوں کی طرف گامزن ہوتی ہے اور اسے عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جس قوم میں علم کی فضیلت و اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کے منصوبے بنائے جاتے ہیں اس قوم کو عروج حاصل ہوتا ہے۔جس قوم کے افراد علم کی فضیلت و اہمیت کو دیگر لوازمات زندگی پر فوقیت دیتے ہیں وہ کامیابی کے پرچم نصب کرتے ہیں اور فتح و کامرانی ان کے قدم چومتی ہے۔

حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے۔۔۔جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا

 

Related Posts

12 thoughts on “علم کی اہمیت و فضیلت اور مسلمانوں کی عدم دلچسپی

  1. بہت عمدہ، خوب جھنجھوڑا ہے،
    خدا امت کو بیدار کرے، اور اپنے علمی ورثہ کی تحفیظ کی طرف عملی قدم بڑھانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

    جزاکم اللہ خیرا عن امۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے