عید الفطر کی فضیلت
اس کائنات میں بسنے والے تمام انسان رنگ و نسل اور مذہب کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا ہیں ، بلکہ بسا اوقات انسان کی شناخت مذہب کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن پر مذہب کا بڑا عمل دخل ہے، شادی بیاہ، تہوار، رسم و رواج اور حتی کہ بچہ کی پیدائش ہو یا کسی کا انتقال تمام چیزوں پر مذہبی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ خوشی و غم میں اور رسم و رواج میں بھی مذہبی رنگ نظر آتا ہے، لہذادنیا میں پائے جانے والے تمام مذاہب اپنے اپنے اعتبار سے اپنے تہوار اور مذہبی رسومات کو ادا کرتے ہیں۔ عیسائیت، کرسمس کا تہوار مناتی ہے، یہودیت کے ماننے والے اپنے اعتبار سے اپنا تہوار مناتے ہیں، ملک ہندوستان میں بسنے والے ہندو مختلف علاقوں کے اعتبار سے مختلف قسم کے تہوار مناتے ہیں، لیکن اس باب میں اللہ تعالی نے مذہب اسلام کو خصوصیت عطا فرمائی ہے۔ بقیہ مذاہب کے تہواروں میں لہو و لعب اور کھیل تماشا نیز عریانیت و فحاشی کا بھر پور مظاہرہ کیا جاتا ہے جبکہ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو خوشی منانے کے لئے جو دن عطا فرمایا ہے اور اس کے لئے جو ضابطے متعین کئے ہیں وہ نہایت صاف و شفاف اور پاکیزگی کے ماحول پر مبنی ہے۔ اللہ تعالی نے مذہب اسلام کو بے شمار خصوصیت سے نوازا ہے جن میں پاکی و پاکیزگی اور صفائی و ستھرائی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے متعین کردہ احکامات طہارت و پاکی کے متقاضی ہیں اور خود اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے” پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ مذہب اسلام کا کوئی دن یا کوئی تہوار اس صفت سے خالی ہو۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت اہل مدینہ زمانہ جاہلیت سے ہی دو دنوں میں تہوار منایا کرتے تھے، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: "وقد أبدلكما اللهُ بهما خيرًا منهما: يوم الفطر ويوم الأضحَى” اللہ تعالی نے لہو و لعب کے ان دو ایام کے عوض ان سے بہتر ایام تمہیں عطا فرمایا ہے، عید الفطر، دوم عید الاضحی۔ عید الفطر کی فضیلت احادیث میں بکثرت وارد ہوئی ہے۔
عید الفطر کی فضیلت حدیث شریف میں
عید الفطر مسلمانوں کے لئے خوشی کا دن ہے، کیونکہ اس دن کو نبی کریم ﷺ نے "یوم الجوائز” یعنی انعامات کا دن قرار دیا ہے۔ کیونکہ بندہ مومن رمضان المبارک کے پورے مہینہ میں جب اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرتا ہے، پورے دن روزہ رکھتا ہے، بھوک پیاس کی شدت برداشت کرتا ہے، رات میں تراویح کی نماز میں خود کو تھکاتا ہے، اور بقیہ ایام کے بالمقابل رمضان المبارک میں ثواب کی نیت سے زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ایسے بندہ کے لئے اللہ تعالی نے اس دن کو متعین فرمایا ہے؛ تاکہ مزدور کو اس کی پوری مزدوری دی جاسکے۔ نبی کریم ﷺ نے اس دن کو مسلمانوں کے لئے باضابطہ مذہبی تہوار قرار دیا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: "اِن لکل قوم عیدا و ھذا عیدنا” ہر قوم کے لئے تہوار کا ایک دن متعین ہے اور یہ ہمارے لئے عید کا دن ہے۔ حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جب ان کی عید کا دن ہوتاہے، یعنی عید الفطر کا دن تو اللہ تعالی ان بندوں پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: "اے میرے فرشتو! اس مزدور کیل اجرت کیا ہونی چاہئے جو اپنا کام پورا کردے؟ فرشتے عرض کرتے ہین: اے اللہ! اس کی اجرت یہ ہے کہ اسے پورا پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: اے فرشتو! میرے بندوں اور بندیوں نے اپنے ذمہ کا میرا فریضہ پورا کردیا۔ پھر وہ دعا میں دست طلب دراز کرتے ہوئے نکل پڑتے ہیں۔ مجھے اپنے عزت، اپنے جلال، اپنے کرم، اپنی بلندی شان اور رفعت مکانی کی قسم! میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا۔ پھر اللہ تعالی (بندوں سے فرماتا ہے) لوٹ جاؤ، میں نے تمہیں بخش دیا ہےاور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا ہے، پھر یہ لوگ بخشش یافتہ ہوکر لوٹتے ہین”۔ اس حدیث کو امام بیہقی نے بیان کیا ہے۔ لیکن ایک بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالی کا وعدہ اپنے ان بندوں کےساتھ ہے جنہوں نے پورے رمضان المبارک کے مہینہ کو اہتمام کے ساتھ گزارا ہے، روزوں کی پابندی کی ہے اور فرائض و سنن کے علاوہ نوافل میں اللہ تعالی کے سامنےکھڑے ہوکر اپنی عاجزی کو بیان کیا ہے۔
عید الفطر کی نماز کا طریقہ
عید الفطر کی دیگر نمازوں کی مانند ادا کی جاتی ہے البتہ عید الفطر کی تکبیرات میں چھ زائد تکبیرات ہیں۔ علاوہ ازیں، عید الفطر کی نماز دو رکعت ادا کی جاتی ہے جس کے بعد خطبہ مسنون ہے۔ عید الفطر کی تکبیرات دونوں رکعتوں میں تین تین زائد ہے۔ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء پڑھ کر تین تکبیرات ہیں۔ پہلی تکبیر تحریمہ کے بعد دوسری تکبیر میں دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، تیسری تکبیر میں بھی دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، چوتھی تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لے، اس کے بعد سورہ فاتحہ اور سورۃ کی تلاوت کرے، پھر رکوع وسجود سے فراغت کے بعد دوسری رکعت میں پہلے سورہ فاتحہ اور سورہ کی تلاوت کرے، پھر رکوع میں جانے سے قبل تین تکبیرات زائد ہیں۔ پہلی، دوسری اور تیسری تینوں تکبیرات میں دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، البتہ چوتھی تکبیر میں ہاتھ اٹھائے بغیر سیدھا رکوع میں چلا جائے۔ بقیہ ارکان دیگر نمازوں کی طرح ادا کرے۔ عید الفطر کی نماز کے بعد خطبہ مسنون ہے۔ عید الفطر کی چھ زائد تکبیرات ہیں اور ان کا اہتمام ضروری ہے۔
عید الفطر کے دن صدقۃ الفطر ادا کرنا
عید الفطر کے موقع پر اللہ تعالی نے مسلمانوں پر صدقۃ الفطر کو واجب قرار دیا ہے۔ صدقہ الفطر کی حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس کے پاس ضروریات زندگی سے زائد مال ہو، اور عید الفطر کے دن وہ صاحب نصاب ہو تو اس کے لئے شریعت کی جانب سے متعین کردہ مقدار رقم کی شکل میں یا غلہ کی شکل میں غریبوں کو دینا ضروری ہے۔ صدقۃ الفطر نماز عید سے قبل ادا کرنا بہتر ہے البتہ اگر کسی مجبوری کے تحت بروقت ادا نہ کیا جاسکے تو بعد میں ادا کرسکتے ہیں۔ صدقۃ الفطر کا سب سے اہم اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس دن غریب مسلمانوں کو بھی مکمل طور پر خوشی منانا میسر ہوجاتا ہے، جب معاشرہ کے تمام خوشحال اور صاحب نصاب افراد غریبوں کا تعاون کریں گے تو یقینا ان غریبوں کو بھی عید کی خوشی میں شامل ہونے کا بھرپور موقع ملے گا۔ صدقۃا لفطر گھر میں موجود ہر فرد کی جانب سے ادا کیا جانا ضروری ہے، اگر نابالغ بچے ہیں تو والدین یا سرپرست ان کی جانب سے ادا کریں گے اور اگر بالغ ہیں اور صاحب نصاب ہے تو خود ادا کرے یا ان کے اہل خانہ ان کی جانب سے ادا کرے بہر دو صورت میں صدقۃ الفطر ادا ہوجائے گا۔
عید الفطر کی رات کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ کی طویل حدیث میں مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "و یغفر لھم فی آخر لیلۃ، قیل: یارسول اللہ، اَھی لیلۃ القدر، قال: لا ولکن العامل اِنما یُوفی اجرہ اذا قضی عملہ” رواہ احمد، جب رمضان کی آخری رات ہوتی ہے تو روزہ داروں کو بخش دیا جاتا ہے، صحابہ نے دریافت فرمایا، اے اللہ کے نبی، کیا یہ لیلۃ القدر ہے، آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا، نہیں بلکہ جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہوجاتا ہے توا سے مکمل مزدوری دی جاتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں پانچ فضیلت والی راتوں کو شمار کرایا گیا ہے۔ اول، لیلۃ الترویحہ (آٹھ ذی الحجہ کی رات)، دوم، لیلۃ العرفہ (نو ذی الحجہ کی رات)، سوم، لیلۃ النحر (دس ذی الحجہ کی رات)، چہارم، عید الفطر کی رات، پنجم، شب برات۔ اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عید الفطر کی رات بڑی اہمیت اور فضیلت والی رات ہے اور اس رات میں عبادت و ریاضت اور ذکر و اذکار کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔ لیکن افسوس کہ ہم جس دور میں اور جس معاشرہ میں جی رہے ہیں عید الفطر کی رات خرافات اور لہو و لعب میں گزار دیتے ہیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی گلی محلہ اور گاؤں گھر کے بچے سب سے پہلے غیر شرعی عمل پٹاخے پھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ عید کے چاند کی مبارک باد یا اعلان نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر غیر شرعی عمل ہے جس کی شریعت اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بعض لوگ پوری رات بلا ضرورت مارکیٹ اور چوک چوراہوں پر گزار دیتے ہیں حالانکہ اس رات میں عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لئے ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ ہم اس رات کا خاص خیال رکھیں، وقت کو ضائع کرنے کے بجائے اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے استعمال کریں۔ اگر اس رات مزید عبادت نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم نماز عشاء اور فجر کی نماز باجماعت کا اہتمام کریں۔
عید یقینا خوشی اور مسرت کا پیغام لے کر آتی ہے، لیکن شریعت مطہرہ نے مسلمانوں کو بے لگام نہیں چھوڑا ہے بلکہ خوشی وغم ہر کسی کے لئے ایک حد اور راستہ متعین کردیا ہے۔ خوشی کے موقع پر ایسا کام کرنے سے حتی الامکان بچنا چاہئے جو اسلامی روح کے منافی ہو۔ موجودہ وقت میں میلہ اور سیر و تفریح کے نام پر بے حیائی و بے غیرتی اور غیر شرعی کاموں کو اس طرح انجام دیتے ہیں جیسے اس دن تمام احکامات ختم ہوگئے ہیں، لہذا خوشی منانا اور خوشی بانٹنا اچھا عمل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ شریعت کی پاسداری بھی از حد ضروری ہے۔یہ مومن کی شان نہیں ہے کہ ایک جانب اللہ تعالی تو اس دن کو انعام کا قرار دیں اور ہم اس دن کو لہو و لعب اور خرافات میں گزارنے کا منصوبہ بنائیں۔