قاری عثمان صاحب منصور پوری: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو
گزشتہ چند سالوں میں علم و عمل اور فضل و کمال کے حامل اشخاص کی رحلت اور جدائی نے ملت اسلامیہ ہند کے ذہن و دماغ اور قلب و جگر کو معطل کردیا ہے۔ ناامیدی و یاس کی عجیب و غریب کیفیت نے قوم مسلم پر اپنا سایہ دراز کردیا ہے، ہر آئے دن یتیمی اور بے کسی کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے۔ تلاطم خیز موجوں اور منجدھار میں پھنسی نیا پار لگانے والے اور باد مخالف کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے نیز حالات کی سنگینی کو بھانپ کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے والے اصحاب فکر و نظر کی پے در پے مفارقت سے جو خلا پیدا ہو ا ہے اس کی بھر پائی تو درکنار ان کا مثل بھی تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ رات کی تاریکی میں خدائے وند کی بارگاہ میں سر بسجود ہوکر قوم و ملت کے لئے آنسوبہانے والے اور مسلمانوں پر تنگ ہوتی جارہی زمین پر کُڑھنے والے اور ان کے تدارک کے لئے تدابیر اختیار کرنے والے افراد کی رخصتی امت مسلمہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ان زندہ دل، شب بیدار، محسن و مربی اور قائدانہ صلاحیتوں کے مالک افراد میں ایک نمایاں نام قاری عثمان صاحب منصور پوری (استاذ دارالعلوم دیوبند) کا ہے، جو حال میں ہی ہمارے درمیان سے رخصت ہوئے ہیں۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری کی وفات شخص واحد یا فرد فرید کی جدائی نہیں ہے بلکہ ایک انجمن کی جدائی ہے، جس کے بینر تلے اور جس کی آغوش شفقت میں قوم مسلم نے باطل طاقتوں اور اندرونی خلفشار سے نمٹنا سیکھا ہے ۔
قاری عثمان صاحب منصور پوری باکمال مدرس، بافیض مربی ہونے کے علاوہ محنتی، جفاکش، جہد مسلسل کے پیکر، تجربہ کار اور نہایت سلجھے ہوئے، اعلیٰ ترین ذوق کے مالک منتظم بھی تھے۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری نے دارالعلوم دیوبند کے کئی ایک شعبے جات کو اپنی فعال و متحرک شخصیت سے ثمر آور بنائے رکھا تھا۔ آپ نے زمانہ نیابت اہتمام میں انتظام و انصرام کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے جو بعد والوں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ انتظام و انصرام کے باب میں ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو تاریخ دارالعلوم کا حسین باب ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی تسلسل کے ٹوٹنے کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند نے اساتذہ کرام کی فارغ البالی کو قوم و ملت کے مفاد کی خاطر بروئے کار لانے کا مضبوط و مستحکم لائحہ عمل تیار کیا، جس میں تصنیف و تالیف اور اصلاح معاشرہ کے دو اہم شعبے جات قائم کئے گئے۔ شعبہ اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری قاری عثمان صاحب منصور پوری کے سپرد کی گئی۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری کی سر پرستی میں مختلف عناوین پر مختصر مگر جامع رسائل مرتب کرکے تقسیم کئے گئے اور حسبِ سہولت دینی تربیت کے لئے اساتذہ کرام کو عوام الناس کے درمیان بھی بھیجنے کا سلسلہ جاری کیا گیا ۔ مختصر رسائل کے لئے ایسے موضوعات منتخب کئے گئے جو عوام کی ضرورت اور سہولت دونوں کو دینی معاملات میں پورا کرسکے۔ گاؤں اور دیہات کے وہ علاقے جہاں بے دینی یا مسلمانوں میں بے راہ روی کی وبا پھیل گئی تھی، ان علاقوں میں مبلغین اور اساتذہ دارالعلوم کے ذریعہ اصلاحات کی تحریکیں چلائی گئیں۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری اپنی ذات میں ایک انجمن تھے جن کی ذات گرامی سے بے شمار بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم جانے کی توفیق ملی تھی۔
تاریخ پیدائش
قاری عثمان صاحب منصور پوری کی پیدائش متمول دیندار گھرانے میں ہوئی تھی۔ آپ نسباً سید ہیں اور منصور پور میں آپ کے گھرانے کو عظمت و شرافت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ قاری عثمان صاحب کی پیدائش نواب سید محمد عیسیٰ کے گھر 12 اگست 1944 میں ہوئی۔ قاری عثمان صاحب کے والد محترم علاقہ کے مشہور زمیندار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت متقی و پرہیز گار لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ اہل علم اور علماء کرام سے والہانہ محبت و عقیدت تھی جس نے قلوب کی تطہیر سمیت ظاہری علومِ دینیہ میں بھی ان کو مستند بنا دیا تھا۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری کی ابتدائی تعلیم و تربیت والد محترم کے زیر سایہ ہوئی۔ آپ نے قرآن مجید مکمل حفظ اپنے والد محترم کے پاس کیا تھا۔ بعد ازاں عربی کی تکمیل کے لئے دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور از اول تا آخر دارالعلوم دیوبند کی آغوش میں رہتے ہوئے علمی خوشہ چینیوں میں مصروف رہے۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری کے والد محترم اپنے صاحب زادہ کی تعلیم کے تئیں اس قدر سنجیدہ تھے کہ آپ نے منصور پور کے بجائے دیوبند میں سکونت اختیار کرلی اور دیوبند میں ہی 1963 میں آپ کا انتقال ہوا، آپ مزار قاسمی میں مدفون ہیں۔ والد محترم کی قربانی اور دعائے نیم شبی کا اثر تھا کہ قاری عثمان صاحب کو وہ مقام رفعت نصیب ہوا جس نے انہیں دارالعلوم دیوبند کا استاذ حدیث اور جمعیت علمائے ہند کی صدارت پر فائز کردیا تھا۔
زمانہ طالب علمی میں قاری عثمان صاحب منصور پوری اساتذہ کرام کے نور نظر رہے ہیں۔ آپ کا شمار ذکی، ذہین، متواضع، فرمانبردار طلباء میں ہوتا تھا اور علمی صلاحیت کا عالم یہ تھا کہ آپ ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوا کرتے تھے۔ دورہ حدیث شریف میں آپ نے اول نمبر سے کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں قاری حفظ الرحمٰن کی زیر تربیت تجوید و قرات کے فن میں عبور حاصل کیا اور وحید العصر حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی کی نگرانی میں عربی زبان و ادب کی تکمیل فرمائی۔عربی زبان و ادب کے آپ بہترین ادیب تھے، آپ کی زبان دانی اور گفتگو میں سلاست و روانی کا اندازہ جمعہ کے خطبات سے بخوبی ہوتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی مسجد رشید میں بارہا راقم کو حضرت الاستاذ کی اقتدا میں جمعہ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ آپ نہایت سہل، شستہ اور سلیس زبان میں حالات حاضرہ کے تناظر میں نہایت قیمتی اور قابل عمل باتیں بتایا کرتے تھے۔
قاری عثمان صاحب منصور پوری کا زمانہ طالب علمی نہایت خوش گوار گزرا، آپ کی علمی شخصیت اسی زمانہ میں نکھر کر سامنے آگئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے جبال العلوم اساتذہ کی مشفقانہ نگاہیں اور مربیانہ محبت ہمیشہ آپ کو حاصل رہی تھی۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی کے رفیق درس تھے اور دونوں حضرات کا تعلق اخیر عمر تک باقی رہا تھا۔
عملی زندگی کا آغاز
1965/66 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ بحیثیت مدرس جامعہ قاسمیہ گیا تشریف لائے، یہاں پانچ سال کی مدت میں مختلف علوم وفنون کی کتابیں آپ سے وابستہ رہی اور آپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ ان پانچ سالوں میں طلباء کی تعلیم و تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ پانچ سال تک مسلسل دینی خدمت انجام دینے کے بعد آپ جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ تشریف لے آئے۔ یہاں گیارہ سالوں تک تشنگانِ علوم نبوت کو سیراب کرتے رہے۔ آپ نے جامع مسجد امروہہ میں قیام کے دوران بے مثال معلم اور بے بدل مربی کی حیثیت سے طلباء کرام کی ذہنی تربیت فرمائی۔ایک دہائی سے زیادہ پر محیط آپ کا زمانہ درس و تدریس جامع مسجد امروہہ کا شاندار و تابناک دور ہے جس میں تعلیم و تربیت کا معیار اپنے عروج کو پہنچا ہوا تھا، اور یہاں کے طلباء ممتاز شمار کئے جاتے تھے۔
دارالعلوم دیوبند سے وابستگی
1982 میں دارالعلوم دیوبند میں آپ کی تقرری ہوئی۔ آپ منجھے ہوئے، باصلاحیت، اکابرین کے پروردہ اور جبال العلوم شخصیات کے نور نظر تھے، آپ کی تدریسی صلاحیت اور مربیانہ محبت کا چرچہ پہلے سے ہی زبان زد عام و خاص تھا۔ دارالعلوم دیوبند سے وابستگی نے آپ کے فیوض و کمالات کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ علوم دینیہ کے متلاشی اپنی سیرابی کے لئے آپ کے در دولت پر پہنچ کر علمی سیرابی حاصل کیا کرنے لگے۔ آپ کا درس مکمل طور پر حشو و زوائد سے پاک ہوا کرتا تھا۔ غیر ضروری باتوں سے مکمل اجتناب فرماتے اور مکمل وقت اسباق کی جانب متوجہ رہا کرتے تھے۔ آپ کا انداز درس اس قدر نرالا اور انوکھا تھا کہ طلباء عش عش کر اٹھتے تھے۔ حوالے جات کے سلسلہ میں آپ حد درجہ محتاط واقع ہوئے تھے، زبانی حوالوں سے احتراز کرتے اور عموماً کتاب سامنے رکھ کر حوالے دیتے یا کبھی خود لکھ کر لایا کرتے تھے۔ کلام نہایت مرتب اور ترجمہ سلیس و شستہ ہوا کرتے تھے۔ درس گاہ میں وقت کی پابندی ضرب المثل تھی۔
راقم کو قاری عثمان صاحب منصور پوری سے دورہ حدیث شریف میں مؤطا امام محمد اور رد قادیانیت پر محاضرہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہے، بروز جمعہ آپ کا درس ہوا کرتا تھا، جمعہ کی عام تعطیل کے باوجود طلباء کی تعداد آپ کی مقبولیت کی دلیل تھی۔ طلباء کشاں کشاں آپ کے درس میں کھنچے چلے آتے تھے۔اوقات کے تحفظ کا عالَم یہ تھا کہ خارجی باتوں کو درمیان میں بیان کرنے سے گریز فرماتے اور مکمل وقت کتاب کی افہام و تفہیم میں صرف ہوتا۔ مسلک احناف کے دلائل اور صاحبین کی آراء کو احادیث کی روشنی میں منقح و مجلی کردیا کرتے تھے۔
کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کی سر پرستی
1986 میں عالمی تحفظ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کے آپ کنوینر منتخب کئے گئے تھے۔ بحیثیت کنوینر آپ کی کارکردگی اور مسئلہ کی حساسیت کے تئیں آپ کے جوش و خروش نے اکابرین کی نگاہ میں آپ کو مزید نکھار دیا۔ شرعی اعتبار سے یہ نہایت اہم اور حساس مسئلہ تھا اور اس کی باگ ڈور ایسے شخص کے ہاتھوں میں دینے کی ضرورت تھی جس میں مولانا محمد علی مونگیری کا جذبہ اور علامہ انور شاہ کشمیری کی ایمانی حرارت موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قاری عثمان صاحب منصور پوری کو اُس عظیم الشان مقصد کی خاطر چن لیا تھا جسے ہمارے اسلاف نے زندگی کا نصب العین بنایا اور جس فتنہ کی بیخ کنی کے لئے آلام و مصائب کے بھنور میں بے خطر کود پڑے تھے۔ کانفرنس کے اختتام پر آپ کو (کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت) کا ناظم مقرر کیا گیا اور تادمِ حیات آپ اس عہدہ پر برقرار رہے اور ہمیشہ، ہر طرح اسے فعال و متحرک بنائے رکھا۔ آپ کی نظامت میں اس شعبہ نے رد قادیانیت کے باب میں عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں تخصصات کے طلباء کے لئے رد قادیانیت پر آپ کا محاضرہ صرف معلوماتی نہیں بلکہ روح و ایمان کو جھنجھوڑ دینے والا ہوا کرتا تھا۔ جس طرح آپ خود ایمانی جذبے سے سرشار تھے یہی جذبہ آپ دیگر مسلمانوں اور خصوصاً فارغین دارالعلوم میں دیکھنا چاہتے تھے۔
قاری عثمان صاحب بحیثیت نائب مہتمم
دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے 1999 میں قاری عثمان صاحب منصور پوری کی منتظمانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے سابق مہتمم مولانا مرغوب الرحمن بجنوری رحمۃ اللہ علیہ کے تعاون کے لئے آپ کو نائب مہتمم بنایا۔ تقریباً گیارہ سالوں تک آپ نے اس عہدہ کو رونق بخشا۔ نیابت کی ذمہ داری سمیت آپ کا طلباء کے ساتھ مشفقانہ رویہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ طلباء کرام کی شکایات اور ان کو پیش آنے والی پریشانیوں کے سد باب کے لئے ہمیشہ کوشاں رہا کرتے تھے۔ طلباء کرام کی رہائش اور ان کے کھانے پینے کی جانب حد درجہ متوجہ رہا کرتے تھے، ان امور سے متعلق افراد کو مہمانان رسول کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت فرماتے تھے۔ طالبان علوم نبویہ کے ساتھ ہمیشہ ناصحانہ انداز اختیار فرماتے۔ 2020 میں مجلس شوریٰ نے باتفاق رائے آپ کو کار گزار مہتمم کے لئے منتخب فرمایا لیکن عمر نے وفا نہ کی اور آپ محض چند مہینوں بعد دار فانی سے رخصت ہوگئے۔
قاری عثمان منصورپوری کی قومی و ملی خدمات
قاری عثمان صاحب منصور پوری ملی خدمات کے جذبے سے سرشار تھے، آپ کا خانوادہ رفاہی خدمات کے لئے مشہور و معروف تھا، دوسری جانب آپ کا سسرالی حسب و نسب ہندوستان کی تاریخ کا ایسا زریں باب ہے جو علم و فضل کے ساتھ ساتھ قیادت و سیادت میں بھی ہندوستان کے افق پر نمایاں ہے۔ آپ مجاہد آزادی، شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے داماد اور فدائے ملت مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور دارالعلوم دیوبند کے موجودہ صدر المدرسین حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے بہنوئی ہیں۔
قاری عثمان صاحب منصور پوری ہمیشہ جمعیت علمائے ہند کی مجالس و محافل میں شرکت فرماتے اور اپنی قیمتی آراء سے نوازتے تھے۔ 1979 میں (ملک و ملت بچاؤ تحریک) کے تحت جیل بھرو تحریک میں آپ نے تقریباً دس دن تہاڑ جیل میں گزارے ہیں۔ آپ کی یہ قربانی ایک جانب ملت کے تئیں آپ کی خدمت کا بہترین نمونہ ہے تو دوسری جانب ملک سے محبت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ جمعیت سے قدیم وابستگی، آپ کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کو دیکھتے ہوئے ہوئے 2008 میں جمعیت علمائے ہند کے ایک حصے نے آپ کی صاف و شفاف اور بے داغ شبیہ کو بروئے کار لاتے ہوئے جمعیت علمائے ہند کا صدر منتخب کیا اور آپ تا دمِ حیات اس عہدہ پر برقرار رہے ہیں۔ جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے فساد زدگان کی امداد، ان کی باز آبادکاری کی جد وجہد، سیلاب متاثرین کی داد رسی اور سب سے بڑھ کر بے قصور مسلمانوں کی جیل سے رہائی کی کامیاب کوششیں، قاری عثمان صاحب کی ملی خدمات کا حسین باب ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔قاری عثمان صاحب نے بلا تفریق مذہب و مسلک وبائی امراض، کرونائی عہد اور قدرتی آفات کے مواقع پر خدمت خلق کے تئیں ہر کس و ناکس کی مدد اور ان کے لئے ریلیف کا کام انجام دیا ہے۔
قاری عثمان صاحب بحیثیت امیر الہند رابع
جمعیت علمائے ہند کے تحت قائم "امارت شرعیہ ہند” کا قیام 1986 میں عمل میں آیا۔ حالات اور وقت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملکی سطح پر کسی لائق و فائق اور باوقار شخصیت کو "امیر الہند” کے عہدہ پر متمکن کرنے کی تجویز منظور ہوئی۔ امارت شرعیہ ہند نے 1986 میں سب سے پہلے محدث عظیم حضرت مولانا حبیب الرحمان اعظمی کو اس منصب جلیلہ کے لئے منتخب فرمایا۔ 1992 میں محدث اعظمی کی رحلت کے بعد فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ امیر الہند ثانی منتخب کئے گئے۔ امیر الہند ثالث کی حیثیت سے 2006 میں حضرت مولانا مرغوب الرحمان مہتمم دارالعلوم دیوبند کا انتخاب عمل میں آیا۔ 2010 میں مولانا مرغوب الرحمان صاحب کی رحلت کے بعد اس عہدہ جلیلہ کے لئے باتفاق دانشوران قوم و ملت حضرت مولانا قاری عثمان منصور پوری کا انتخاب عمل میں آیا۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری نے اس عہدہ پر رہتے ہوئے اس کے کاز کو مزید تقویت بخشی اور اسے اپنی فعال و متحرک شخصیت کے ذریعہ کارآمد بنائے رکھا۔
بے مثال مربی اور بافیض والد
عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قومی و ملی اور دیگر مصروفیات میں مشغول رہنے والے اشخاص اپنے گھر والوں کے تئیں ذمہ داری میں خصوصاً اولاد و احفاد کی تعلیم و تربیت کے باب میں مکمل کردار ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں یا ان کی خارجی مصروفیات انہیں اس جانب توجہ مبذول کرنے کی فرصت نہیں دیتی ہے لیکن اس باب میں آپ ایسے بے بدل مربی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں جو دوسروں کے لئے قابلِ تقلید ہے۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری کی خارجی مصروفیات، اولاد و احفاد کی تعلیم و تربیت میں مانع نہیں رہی۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری نے اپنے دونوں صاحبزادگان کی اس انداز میں تربیت کی ہے کہ آج دونوں فرزند آسمان علم و فضل کے دمکتے ستارے اور صف اول کے قائدین میں شمار کئے جاتے ہیں۔مفتی سلمان صاحب منصورپوری (شیخ الحدیث جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد) اور مفتی عفان صاحب منصور پوری(استاذ حدیث جامع مسجد امروہہ)۔ مفتی سلمان صاحب منصور پوری عالَم اسلام کے ممتاز لوگوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور اب وہ نائب امیر الہند کے عہدہ جلیلہ پر متمکن ہیں۔ آپ کی علمی تحقیقات و تصنیفات علماء کرام کے درمیان مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
بیعت و خلافت
قاری عثمان صاحب منصور پوری ایسے خانوادہ کے چشم و چراغ تھے جو ہمیشہ سے اہل علم اور علماء و مشائخ سے قریب رہا ہے۔ علماء اسلام اور صوفیاء کرام کی محبت اور ان کی دعاؤں کے طفیل آپ کا گھرانہ مکمل دینی ماحول میں ڈھلا ہوا تھا۔ گھر کے صاف ستھرے ماحول اور ذکر و اذکار کی چاشنی نے آپ کے ذہن و دماغ کو معطر کر رکھا تھا۔ دوسری جانب فطری صالحیت اور ذوقِ سلیم کی وجہ سے تعلیم سے فراغت کے بعد تزکیہ قلوب کے لئے فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے دامن ارادت سے وابستہ ہوگئے۔ ہمارے اسلاف و اکابرین کا یہ طریق رہا ہے کہ وہ تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ تزکیہ قلوب کی جانب مکمل توجہ دیا کرتے تھے اور ان دونوں ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بغیر تکمیل علوم کا تصور نہیں تھا۔قاری عثمان صاحب منصور پوری نے اس باب میں اپنی ذات کو ہمیشہ پردہ خفا میں رکھا تھا۔
ذاتی اوصاف و خصائل
قاری عثمان صاحب منصور پوری جسم و جثہ، شکل و شباہت، طور طریق، تواضع و انکساری، خرد نوازی میں یکتائے روزگار تھے۔ آپ کی شباہت ایسی دلکش تھی کہ دیکھنے والا ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہ جاتا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حسن ملاحت سے نوازا تھا جو ایک بار آپ کو دیکھ لیتا دوبارہ دیکھنے کی آرزو ہوتی تھی، حتیٰ کہ طلباء دارالعلوم دیوبند بھی آپ کے دیدار کے لئے چھتہ مسجد کا رخ کیا کرتے تھے جہاں آپ عموماً نماز ادا کیا کرتے تھے۔ آپ کی ذاتی محافل و مجالس دوسروں کے تذکروں اور لغو کلام سے مکمل پاک ہوا کرتی تھی۔ طلباء کو نصیحتیں فرماتے اور واردین کے ساتھ ضرورت کے مطابق گفتگو فرماتے۔ آپ کی مجالس بیک وقت علمی و روحانی دونوں قسم کے فیوض وبرکات سے پُر ہوا کرتی تھی۔ علم و فضل کے لعل و گہر لٹائے جاتے تھے اور ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق اس سے استفادہ کرتا تھا۔ صبر و تحمل اور شکر گزاری کے اوصاف جمیلہ سے آپ متصف تھے، طلباء کرام کے پروگراموں میں بھی از اول تا آخر بیٹھتے اور قیمتی نصائح سے نوازا کرتے تھے۔
قاری عثمان صاحب منصور پوری اور انگریزی تعلیم
قاری عثمان صاحب منصور پوری ان باصفا اشخاص میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قوت ایمانی اور فہم و فراست کا بھرپور حصہ عطا کیا تھا۔ آپ جدید تعلیم اور انگریزی زبان کی اہمیت کے قائل ہی نہیں بلکہ عظیم داعی تھے۔ مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی اور اس کے طرز پر قائم اداروں کی پذیرائی کرتے تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں شعبہ انگریزی قائم ہونے کے بعد اکثر و بیشتر اس کے پروگراموں میں شرکت فرماتے اور طلبائے کرام کو قیمتی نصائح سے نوازا کرتے تھے۔
زندگی میں دو ایسے مواقع میسر ہوئے جہاں راقم نے براہ راست آپ سے انگریزی زبان کی اہمیت و افادیت اور اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے موقف کو آپ سے سنا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کی قدیم روداد سے اکابرین دارالعلوم کے درست موقف کو علماء کے سامنے پیش کیا، اور یہ غلط فہمی کہ ہمارے اکابرین اور بزرگوں نے انگریزی زبان کے تعلیم و تعلم سے منع کیا ہے اس کا رد کیا۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے علماء و فضلاء پر ہونے والے اعتراضات کا دنداں شکن جواب دیا۔ پہلا موقع اس وقت میسر ہوا جب مرکز المعارف ممبئی کے تحت منعقد ہونے والے دوسرے تقریری مسابقہ (آل انڈیا تقریری مقابلہ بزبان انگریزی) مقام انکلیشور گجرات میں قاری عثمان صاحب کو سننے کا موقع ملا۔ آپ کی تقریر کا موضوع یہی تھا اور آپ نے اس سمت پیش رفت کرنے والوں کی خدمات کو سراہا اور طالبان زبان کو اپنی دعاؤں سے نوازا تھا۔ دوسرا موقع میسر ہوا جب مرکز المعارف نے 2019 میں اپنا پچیس سالہ جشن جمعیت علمائے ہند کے مرکزی ہال میں منعقد کیا تھا۔ اس موقع پر قاری عثمان صاحب نے انگریزی زبان کے تعلق سے اور اس میدان میں پیش رفت کی ایسی خوش اسلوبی سے تعریف و توصیف اور تائید فرمائی تھی جس نے مجلس میں موجود تمام افراد کو فرحاں و شاداں کردیا تھا۔ آپ نے بتایا کہ 120 سال قبل دارالعلوم دیوبند نے انگریزی زبان کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے پڑھنے پڑھانے اور طلباء کو اس میدان میں تیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ابتدائی دور میں مالی تنگی کی وجہ سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا اور بالآخر یہ کام اللہ تعالیٰ نے مولانا بدر الدین اجمل کے ہاتھوں شروع کرایا اور آج الحمدللہ ملک کے مختلف ادارے اس کام سے جُڑے ہوئے ہیں۔ قاری عثمان صاحب منصور پوری پروگرام میں اخیر تک بیٹھے رہے باوجودیکہ پروگرام انگریزی زبان میں تھا، آپ کے چہرے کی طمانینت قابلِ دید تھی۔ مرکز المعارف کے متعلقین کے لئے یہ قیمتی لمحہ تھا جب ان کے قائد و مربی اور مشفق استاذ نے ان کے عمل کو نہ صرف سراہا تھا بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی تھی اور ان پر ہونے والے اعتراضات کا جواب بھی دیا تھا۔
قاری عثمان صاحب منصورپوری حالات حاضرہ سے واقف اور نباض وقت تھے، آپ نے اسی پروگرام میں نئی تعلیمی پالیسی پر کھل کر گفتگو کی، اس کی وجہ سے پیش آنے والے مسائل اور ان سے تدارک اور بچاؤ کی تدابیر کو بھی مجمع کے سامنے واضح انداز میں بیان کیا۔ آپ نے مکمل جرات و بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہل مدارس کو اس جانب خاطر خواہ توجہ دینے اور وقت سے پہلے اس سمت میں پیش رفت کرنے کا مشورہ دیا، ورنہ نتائج کے اعتبار سے سرکاری احکامات کے تحت حکومت کی دخل اندازی مدارس کے لئے سم قاتل ثابت ہوگی، جس سے مفر اور بچاؤ کی کوئی صورت اس وقت ممکن نہیں ہوگی۔
سفر آخرت
عہد کرونائی نے جس طرح اپنے خونی شکنجوں میں عوام الناس کو جکڑا تھا، اور لاکھوں کروڑوں افراد اس جان لیوا مہلک نظر نہ آنے والے وائرس کا شکار ہوگئے، اس سے عالم اسلام کی عظیم ترین علمی و ادبی شخصیات بھی محفوظ نہیں رہی تھی۔ ملک ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ناقابل تلافی نقصان دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و صدر المدرسین حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری کی جدائی تھی۔ آپ کا انتقال اس خوفناک دور میں جب ایک انسان دوسرے انسان کے قریب جانا تو درکنار بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ ہر فرد بشر اپنے جیسے انسان سے خائف اور ڈرا ہوا تھا، علاوہ ازیں احتیاطی تدابیر کے نام پر حکومتی کارندوں کی من مانی نے رہی سہی کسر پوری کردی تھی۔ ایسے نازک وقت میں ممبئی شہر کے جوگیشوری میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ ایک سال بعد جب اس نادیدہ بیماری نے دوبارہ اپنے پیر پسارے ہیں تو لاشوں کے انبار لگ گئے، قبرستان اور شمشان گھاٹ میں جگہیں تنگ ہوگئی، انسانیت کے نام لیوا اتنے سنگ دل ہوگئے کہ اپنے اعزہ و اقارب کی لاشوں کو ندی نالے میں بہانے کو عافیت سمجھنے لگے۔ ایسے پرآشوب اور ڈرے ہوئے ماحول میں دارالعلوم دیوبند یکے بعد دیگرے اپنے قدیم اور لائق و فائق اساتذہ کرام سے محروم ہوتا چلا گیا۔ عربی و اردو زبان و ادب کے بے مثال ادیب حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی داغ مفارقت دے گئے۔ ابن حجر سے مشہور دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز محدث مولانا حبیب الرحمان اعظمی، سر زمین اعظم گڑھ کو اپنے وجود سے منور کرگئے۔ دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم اور شائستہ طرز تکلم کے مالک مولانا عبد الخالق سنبھلی بھی مالک حقیقی کے دربار میں پہنچ گئے، اس فہرست میں خادم قوم و ملت قاری عثمان منصورپوری کا نام بھی شامل ہوگیا۔
وفات سے قبل دس بارہ دنوں سے آپ کی بیماری کی اطلاع نے اہل علم حضرات اور آپ کے منتسبین و محبین کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ ہر آئے دن آپ کی طبیعت میں گراوٹ اور کمزوری بڑھتی جارہی تھی۔ جب طبیعت میں افاقہ نہیں ہوا تو آپ کو میدانتا اسپتال میں داخل کرایا گیا لیکن انسان تو محض تدابیر اختیار کرنے کا مکلف ہے، قضائے الٰہی کے آگے انسان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام ہو جاتا ہے، بالآخر وہ وقت بھی آگیا جب علم وفضل کا آفتاب و ماہتاب اور قوم و ملت کا مخلص قائد 21 مئی بروز جمعہ 2021 کو اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں چلا گیا۔ اکابرین دیوبند کے آخری مسکن (مزار قاسمی) میں آپ آرام فرما رہے ہیں۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را