والدین کے حقوق اور ہمارا مہذب معاشرہ
اللہ تعالی نے اس دنیا کو بسایا اور اس میں رہنے کے لئے انسانوں کو پیدا فرمایا، نوع انسانی کی نشو و نما اور افزائش کے لئے جوڑے پیدا کئے تاکہ انسانی نسل میں مسلسل بڑھوتری اور اضافہ ہوتا چلا جائے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالی نے انسانوں کو مختلف رنگ و نسل اور مختلف قبائل میں تقسیم کردیا تاکہ کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے تعارف کی سبیل برقرار رہے۔ انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا تاکہ ان میں باہمی محبت برقرار رہے اور ان رشتوں کی نزاکتوں سے فطری طور پر انسان کو آگاہی عطا کی تاکہ ان کے حقوق ادا کرنے میں کمی و کوتاہی نہ ہو، ان تمام رشتوں میں سب سے مقدس رشتہ والدین کا ہے۔ والدین اپنے بچوں کے لئے اور ان کی بہتری کے لئے جو قربانیاں دیتے ہیں ان کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ والدین روئے زمین پر اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے اور یہ اللہ تعالی کی ذات ہی ہے جس نے والدین کے قلوب کو اپنی اولاد کی محبت سے لبریز کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بارہا والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی ہے اور والدین کے حقوق کو جگہ جگہ بیان فرمایا ہے۔ نیز نبی کریم ﷺ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرمائی ہے۔ والدین کے حقوق کو قرآن و حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
والدین کے حقوق قرآن مجید کی روشنی میں
والدین کے ساتھ کیسے معاملات کرنا چاہئے اور کس طرح بات چیت کرنا چاہئے، ان تمام باتوں کو قرآن مجید میں مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: "اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ فرمادیا ہے کہ تم لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو، ماں باپ کے ساتھ بہتر سلوک کرو، اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بوڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو، ان کے ساتھ خوب ادب سے بات کرو، ان کے سامنے نیاز مندی سے اور عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور دعاء کرتے رہو: اے میرے رب! جیسے ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی آپ ان دونوں پر اسی طرح رحم فرمائیے”۔ (سورہ بنی اسرائیل، 23-24) اس آیت کی تفسیر میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں: "والدین کے حقوق کی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حق کےساتھ والدین کے حق کا ذکر فرمایا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں بتادوں کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: ضرور ارشاد فرمائیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کے ساتھ نافرمانی کرنا” (ترمذی شریف) یعنی نیکیوں میں بھی توحید کے ساتھ والدین کی اطاعت کا ذکر فرمایا گیا ہے اور گناہ میں بھی شرک کے بعد والدین کی نافرمانی کا ذکر فرمایا گیا ہے”۔
سورہ لقمن میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: "میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرتے رہو، آخر میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے”۔ مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے انسانوں کو حکم دیا ہے کہ میرا شکریہ ادا کرو کیونکہ میں تمہارا خالق ہوں، اور ساتھ میں والدین کا شکریہ ادا کرنے کا بھی حکم فرمایا کیونکہ انسان کے وجود کو ظاہری سبب کے طور پر والدین ہی اس دنیا میں لانے کی وجہ بنتے ہیں۔ پہلے نو مہینوں تک ماں اسے اپنے رحم میں پالتی ہے، اس کی تکالیف کو برداشت کرتی ہے اور پھر وضع حمل کے دوران ہونے والی تکالیف کو سہتی ہے ، بچہ کی پیدائش کے بعد جب وہ مکمل طور پر ناسمجھ اور ناخواندہ ہوتا ہے تو ماں اس کے اشاروں کے ذریعہ اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کی ضرورتوں کی تکمیل کرتی ہے۔ اس کے کھانے پینے اور اسے صاف ستھرا رکھنے کے لئے ہر ممکن جد و جہد کرتی ہے۔ ابتدائی ایام میں جب بچہ بولنے اور اپنی حاجتوں کے بتانے پر قادر نہیں ہوتا ہے تو ماں کے لئے بچہ کو پاک صاف رکھنا اور خود نماز روزہ اور تلاوت کا اہتمام کرنا دشوار گزار مسئلہ ہوتا ہے۔ لیکن ماں ان تمام مصائب و تکالیف کو ہنستے کھیلتے ہر موسم میں چاہے بدن کو جھلسانے والی گرمی ہو یا کپکپی پیدا کرنے والی سردی یا پھر تیز و تند آندھی ہو یا بارش کی تیز دھاریں، موسم کی تبدیلیاں ماں کے احساسات و جذبات کو ماند کرنے سے عاجز و قاصر ہوتی ہیں۔ اسی طرح باپ اپنی اولاد کو آرام اور سکھ دینے کے لئے ہزار جتن کرتا ہے۔ ان کی بہترین رہائش، عمدہ تربیت، اعلی تعلیم اور دیگر لوازمات کی تکمیل کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کردیتا ہے۔ راتوں کی نیند اور دن کا سکون تیاگ کر اپنے بچوں کے لئے خوشی خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ غرضیکہ والدین کی جانب سے قربانیوں کا ایسا سلسلہ ہے جو روئے زمین پر والدین کے علاوہ اور کسی سے ممکن نہیں ہے۔ جب والدین اپنی اولاد کی خاطر ایسی بے مثال قربانیاں دیتے ہیں تو ان کے حقوق کو بھی اسی قدر اہمیت کےساتھ بیان کیا گیا ہے، تاکہ اولاد کو معلوم ہو کہ ہمارے والدین ہماری پرورش اور تربیت میں کیسے مصائب کا سامنا کیا ہے۔
خالق کی معصیت میں والدین کی اطاعت جائز نہیں
اللہ تعالی نے سورہ عنکبوت میں فرمایا: "اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی اور (ہاں!) اگر وہ تم پر زور دیں کہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے تو (اس سلسلہ میں) ان کی بات نہ ماننا۔”آیت مذکورہ میں اللہ تعالی نے پہلے انسانوں کو حکم دیا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں، ان کی تابعداری کریں، ان کی اطاعت کریں، ان کی فرمانبرداری کریں، ان کی خدمت کریں لیکن پھر ایک تنبیہ اور اصول بیان فرمادیا کہ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری حدود و قیود میں رہ کر کی جائے، اگر والدین کی اطاعت و فرمانبرداری حکم خداوندی سے انحراف کا سبب بنے اور خالق کے متعین کردہ اصول و ضوابط سے ٹکرائے تو پھر ایسی صورت میں والدین کی بات ٹال دی جائے گی۔ لیکن ایسی صورت میں بھی اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ اگر والدین مشرک ہوں یا مذہب اسلام کے علاوہ دیگر ادیان باطلہ کے پیروکار ہوں تو بھی ان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھو، ان کی خدمت کرو، ان کے اخراجات اور دیگر ضروریات زندگی کا خیال رکھو۔ یہ مذہب اسلام کا حسن ہے کہ اس نے ہر حال میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے، اور آج دنیا اس بات کی معترف ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے تئیں مسلمانوں کا ہم پلہ کوئی نہیں ہے، آج کی تیز رفتار دنیا میں جبکہ لوگ اپنے والدین سے پیچھا چھڑانے کے لئے انہیں "اولڈ ایج ہاؤس” منتقل کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں، مسلمانوں کا کثیر طبقہ والدین کی خدمت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ والدین کی خدمت آخرت کی کامیابی کی ضامن ہے، اور ان کی نافرمانی اور ان کے ساتھ بدسلوکی ہلاکت و بربادی کا سبب ہے۔
والدین کے حقوق حدیث کی روشنی میں
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے "رغم انفه، ثم رغم انفه، ثم رغم انفه، قيل: من يا رسول الله؟ قال: ” من ادرك والديه عند الكبر احدهما او كليهما، ثم لم يدخل الجنة ". ( صحیح مسلم: 6511)۔ آپ ﷺ نے مسلسل تین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اس شخص کی ناک خاک آلود ہو (یعنی تباہ و برباد ہو) جس نے اپنے والدین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو بوڑھاپے میں پایا لیکن پھر بھی جنت میں داخل نہیں ہوا (خدمت کرکے)۔
اللہ رب العزت کی رضا، خوشنودی اور ناراضگی کا دارومدار والدین کی اطاعت و فرمانبرداری، ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی بدسلوکی پر ہے۔ "رضا الرب في رضا الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد.” ( سنن ترمذی: 1900)۔ عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔مذکورہ دونوں احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ والدین کی فرماں برداری، اطاعت گزاری، تابعداری، خدمت و صلہ رحمی یہ اولاد پر ضروری ہے بلکہ اگر والدین معاشی اعتبار سے کمزور ہیں یا انہیں جسمانی خدمات کی ضرورت ہے تو ایسی صورت میں اولاد کے لئے ان کی ضرورتوں کی تکمیل واجب ہے۔ ترمذی شریف کی دوسری روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "انت و مالک لابیک” اس حدیث کے ضمن میں محدثین اور فقہا کرام نے فرمایا کہ اگر والدین محتاجگی اور ضرورت مند ی کو پہنچ جائیں تو اولاد کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرف کرنا جائز ہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : "کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے متعلق نہ آگاہ کروں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ کیوں نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اٹھ بیٹھے حالانکہ آپ ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔پھر فرمایا: جھوٹی گواہی دیناَ "۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے والدین کی نافرمانی کو بد ترین گناہوں میں شامل فرمایا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ والدین کے حقوق کیا ہیں اور والدین کی اطاعت گزاری کو مذہب اسلام نے کتنا ضروری قرار دیا ہے۔
والدین کے حقوق اور موجودہ معاشرہ
موجودہ معاشرہ کا اگر جائزہ لیا جائے تو انسانی حقوق کے مختلف قوانین عالَم میں پائے جاتے ہیں، اور مختلف ایام کو مختلف چیزوں کی جانب منسوب کرکے منایا جاتا ہے۔ ماں باپ کی محبت میں بھی ایسے دن متعین کئے گئے ہیں اور پوری دنیا میں ان دنوں کو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ تصویریں نکالی جاتی ہیں، سوشل میڈیا پر تبصرے لکھے جاتے ہیں، ایک دوسرے کو مبارکبادی کے پیغام ارسال کئے جاتے ہیں لیکن جب ہم معاشرہ کی زمینی حقیقت کی جانب دیکھتے ہیں تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دور میں بسنے والے مہذب، تعلیم یافتہ، تہذیب و ثقافت کے علمبردار اور حقوق انسانی کی دُہائی دینے والوں کی حقیقت پوری دنیا میں موجود "پناہ گاہ (شیلٹر ہوم)” اور "اولڈ ایج ہاؤس” سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان اداروں میں اپنی زندگی گزارنے والے وہ عمر دراز افراد ہوتے ہیں جن کی تعلیم یافتہ اولادیں، مہذب سماج کے باعزت افراد تصور کئے جاتے ہیں۔ جو حقوق انسانی اور حیوانی حقوق کے لئے پوری دنیا میں تحریکیں چلاتے ہیں، جلسے جلوس منعقد کرتے ہیں، اشتہارات چسپاں کراتے ہیں، عوام میں بیداری پیدا کرنے کی بات کرتے ہیں اور خود کو دنیا کا سب سے بہترین انسان تصور کرتے ہیں حالانکہ انہیں جنم دینے والی ماں اور اپنے گود میں پیار محبت سے کھلانے والا باپ ملک کے کسی "پناہ گاہ” میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ یہ معاشرہ کا ایسا کڑوا سچ ہے جس نے موجودہ انسانیت نوازی کی قلعی کھول کر رکھ دیا ہے۔ ان اداروں میں مقیم افراد کی داستان الَم کو اگر قلم بند کیا جائے تو یہ ترقی یافتہ معاشرہ کا ایسا تاریک اور سیاہ پہلو بن کر ابھرے گا جس کی چوٹ اور کڑھن سے یہ خود ساختہ تہذیب اور جدیدیت کا بُت ہمیشہ کے لئے مسمار ہوجائے گا۔ والدین کے حقوق کے متعلق مذہب اسلام کا نظریہ درست ہے جس نے ان کی اطاعت و فرماں برداری کو صرف انسانیت سے نہیں بلکہ مذہب سے جوڑ دیا ہے اور اخروی نجات کو والدین کی خدمت اور اطاعت گزاری پر موقوف کردیا ہے۔ حقیقت ہے کہ آج بھی دنیا میں اگرکہیں سکون مل سکتا ہے، سسکتی اور بلکتی انسانیت کو آرام میسر ہوسکتا ہے تو وہ دامن اسلام ہے، اس کے علاوہ کہیں جائے پناہ نہیں ہے۔