غیر مسلم دانشوران کی اسلامی معلومات

غیر مسلم دانشوران کی اسلامی معلومات

ہمارے ملک ہندوستان میں بعض امتحانات ایسے ہیں جن کی تیاری کے لیے متعینہ موضوعات کے علاوہ مختلف مذاہب کی معلومات اور ان کی تعلیمات کے حوالے سے بھی سوالات قائم کئے جاتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے برادران وطن کا ایک طبقہ جو ایسے امتحانات کی تیاری کراتے ہیں وہ خواہی نہ خواہی مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے متعلق قابلِ ذکر واقفیت رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنے اداروں سے وابستہ طلبہ (ہندو، مسلم، سکھ وغیرہ) کے سامنے ان تاریخوں اور اسلامی معلومات کو مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔ ایسے اداروں سے وابستہ اساتذہ، بہترین تربیت یافتہ، شستہ و شائستہ زبان کے مالک، من موہنی طرزِ ادا کے پیکر اور نہایت خلیق، ملنسار اور سنجیدہ ہوتے ہیں۔ اور شاید یہ بنیادی وجہ ہے کہ لاکھوں روپے خرچ کرکے والدین اپنے بچوں کے مستقبل کو بنانے اور سنوارنے کے لیے ان کے دیوانے نظر آتے ہیں۔

انٹرنیٹ کی سہولت اور آنلائن کلاسز کے علاوہ یوٹیوب چینلز کی کثرت نے ہم جیسوں کو بھی ان سے مختصراً سہی لیکن مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ان اساتذہ کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مکمل تیاری کے ساتھ درس گاہ میں نظر آتے ہیں۔ تاریخ و واقعات کو بیان کرنے میں حوالے جات کا اہتمام ہوتا ہے، طلبہ کو مختلف موضوعات پر مطالعہ کرنے کے لیے مختلف بنیادی کتابوں کی جانب راہنمائی کرتے ہیں۔ سوالات و جوابات کا سلسلہ مسلسل قائم ہوتا ہے، استاذ و شاگرد کے درمیان جو رابطہ ہونا چاہئے وہ نظر آتا ہے۔ تاریخ عالم، تاریخ ہند اور دیگر تہذیب و ثقافت اور تمدن پر ان کے پاس بہترین مواد ہوتے ہیں لیکن بارہا اس بات کا مشاہدہ ہوا کہ جب یہ حضرات مذہب اسلام، تاریخ اسلام، پیغمبر اسلام یا شعائر اسلام پر بات کرتے ہیں تو عموماً ایسی غلطیاں کرتے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان باتوں کا حوالہ کیوں نہیں دیتے ہیں جبکہ دیگر موضوعات پر یہ اساتذہ حوالے جات کا بہت اہتمام کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم نے آج تک ایسی باتوں کو جمع کرنے کا التزام نہیں کیا ہے، لیکن اب ارادہ ہے کہ ایسی باتوں کو یکجا کیا جائے، ان کے حوالے جات تلاش کئے جائیں اور کسی طور ان قابل اور ماہر اساتذہ کرام سے رابطہ کی سبیل پیدا کی جائے۔ فی الحال دو چار باتیں ذہن میں ہیں جنہیں بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔

اس مضمون میں ہم نے عمدا نام لکھنے سے احتراز کیا ہے، البتہ آئندہ ایسی باتوں کو یکجا پیش کرنے کا ارادہ ہے۔

یوٹیوب کی مشہور شخصیت جن کے آن لائن کلاس میں ہزاروں طلبہ ہوتے ہیں، وہ مذہب اسلام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیغمبر محمد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد فوراً مسلمانوں میں دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ ابوبکر صدیق (رضی اللّٰہ عنہ) کے ساتھ ہوگیا اور دوسرا گروہ حضرت علی (رضی اللّٰہ عنہ) کے ساتھ ہوگیا۔ حضرت ابوبکر کے ساتھ جو جماعت تھی اسے "سنی” کہتے ہیں اور حضرت علی کے ساتھ جو جماعت تھی اسے "شیعہ” کہتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ مذکورہ باتیں تاریخ کے منافی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت پر تو خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اتفاق کیا تھا۔ پھر حضرت عمر فاروق کے دور میں بھی آپ حضرت عمر فاروق کے ساتھ رہے ہیں، بعد ازاں حضرت عثمان غنی کے دور میں آپ حضرت عثمان غنی کی خلافت کے قائل رہے ہیں، شہادت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کے بعد جو حالات پیش آئے ہیں وہ تفصیل طلب ہیں۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ کس طرح اسلامی تاریخ کو کریدنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک معتبر اور مشہور نام ہے، وہ واقعہ معراج پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "مسجد اقصیٰ یا بیت المقدس” اس کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ نیز شب معراج میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے تھے اس کا تذکرہ بھی قرآن میں موجود نہیں ہے، البتہ یہ باتیں حدیث میں موجود ہیں۔ حالانکہ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں مسجد اقصیٰ کا ذکر صراحت کے ساتھ ہے۔جو بات مکمل وضاحت کے ساتھ قرآن مجید میں موجود ہے اس کے متعلق یہ کہنا کہ یہ بات مذکور نہیں ہے سمجھ سے پرے ہے۔  

مسئلہ طلاق کی وضاحت کرتے ہوئے ایک صاحب نے طلاق کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ (طلاق بدعت) اور (طلاق سنت)۔ طلاق بدعت کی تعریف یہ بتائی کہ طلاق کا وہ طریقہ جو پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو، بلکہ بعد کے لوگوں نے اپنی جانب سے اسے بنایا ہو۔ اور طلاقِ سنت وہ ہے جسے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ طلاقِ سنت کی تعریف اور اس کی اقسام میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن موصوف مذکور نے طلاق بدعت کی تعریف خلاف حقیقت کیا ہے اور طلاقِ ثلاثہ بل کو اسی سے جوڑتے ہوئے صحیح ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔

طلاق کی تقسیم باعتبار سنت اور بدعت فقہا کرام کی تقسیم ہے۔ طلاق کا وہ طریقہ جسے پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مناسب ٹھہرایا ہے اور طریقہ کو پسند فرمایا ہے، اسے طلاقِ سنت کہتے ہیں۔ لیکن طلاق کے بعض وہ طریقے جسے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ناگوار تصور کیا ہے، اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے، جیسے حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی زوجہ کو حالت حیض میں طلاق دے دیا، جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور رجوع کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح ایک صحابی نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دیا، جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو ناراضگی ظاہر فرمائی۔ بعض ایسی طلاقیں جو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیش آئی تھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پسند نہیں فرمایا تھا، ان جیسی تمام صورتوں کو فقہاء کرام نے طلاقِ بدعت میں شمار کیا ہے اور باعث گناہ گردانا ہے۔ اس لئے موصوف مذکور کا مطلق یہ کہنا کہ طلاقِ بدعت کو بعد کے لوگوں نے گڑھ لیا ہے، حقیقت کے خلاف ہے۔

اس مضمون کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے اور ہماری جانب سے ایسے افراد سے ملنے کی کوشش کی جائے، کیوں کہ یہ سنجیدہ اور سلجھے ہوئے مہذب تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ ان کی رسائی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں طلبہ تک ہوتی ہے۔ ایک بات مزید ذہن میں آتی ہے کہ شاید ان لوگوں کا ذریعہ اسلامی معلومات مستشرقین کی کتابیں ہیں یا پھر گوگل ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے اور ہمیں اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے