الحاد و ارتداد کی جانب بڑھتا ہوا قدم

الحاد و ارتداد کی جانب بڑھتا ہوا قدم

عالم اسلام کے نامور مفکرین و مدبرین اور اکابرین کی رائے ہے کہ موجودہ وقت میں مسلمانوں میں چند اہم اور بنیادی مسائل میں سے اہم یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں میں الحاد و ارتداد کی لہر بہت تیزی کے ساتھ چل رہی ہے۔ پہلے تو ہم اس بات کے شاکی تھے کہ مروجہ مغربی تہذیب اور طرز تعلیم ہمارے نوجوانوں کے دین سے دوری کا سبب ہے، اور انیسویں اور بیسویں صدی کے اہم مفکرین نے اس جانب خاطر خواہ اقدامات بھی کئے ہیں اور مغربی فلسفہ اور طرز تعلیم کا جو طوفان بلا خیز آیا تھا اس کی روک تھام اور اس کے اثرات سے مسلم قوم کو بچانے کے لئے کتابیں تصنیف فرمائیں اور ان کے سموم  باطلہ سے عوام کو آگاہ کیا ہے۔ ان اکابرین نے اسلامی عقائد و مسائل اور دیگر اختلافی اور ذہنی ہیجان پیدا کرنے والے مسائل کو مکمل طور پر منقح و مجلی کرکے بیان کیا ہے۔ کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس میں کوئی تشنگی باقی رہے لیکن ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہم اپنے اکابرین و اسلاف کی قربانیوں کو محفوظ کرنے کرنے میں بخیل واقع ہوئے ہیں۔ان کتابوں کی تشہیر و ترویج اور عوام الناس تک خصوصا علوم عصریہ سے وابستہ افراد تک جس تیزی اور جس انداز میں ان کتابوں کو پہنچنا چاہئے تھا، ہم اس کام کو انجام دینے سے عاجز و قاصر رہے ہیں۔ لیکن اس کمی و کوتاہی کے باوجود اسلامی شناخت اور اسلامی تعلیمات کا عام رواج قائم رہا اور دین حنیف کی جانب لوگ مائل ہوتے رہے ہیں۔

لیکن بحیثیت مسلمان ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلام ایک مکمل اور کامل دین ہے، اس میں کسی طرح کی کمی و زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اسی لئے اللہ تعالی نے مذہب اسلام کی اساس قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے اور احادیث مبارکہ کی حفاظت و صیانت کے لئے ایسے نادر و نایاب انسانوں کو پیدا فرمایا جنہوں نےتدوین حدیث کے لئے محیر العقول کارنامے انجام دیئے ہیں۔ ائمہ احادیث اور ائمہ اسماء رجال کے حالات زندگی ہمیں بتاتے ہیں کہ ان حضرات نے علم حدیث کے مختلف گوشوں کو اس طور پر منضبط کردیا ہے کہ اس تمام احادیث اب تک اپنی اصل حالت میں برقرار ہے۔ اللہ تعالی نے یہ انتظام اس لئے کرایا کیونکہ اب کوئی دین آنے والا نہیں ہے اور یہ آخری دین ہے اس لئے اس کی صحیح تعلیمات کا باقی رہنا ضروری ہے۔ آج اسلامی تعلیمات اپنی تمام تر کشش اور حقانیت کے باوجود اجنبی اور غیر مانوس ہوتی جارہی ہے، اور اسلامی تعلیمات سے دوری برتنے والے اور اس کے منصوص مسائل میں تخفیف پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے وہ افراد ہیں جنہیں بادی النظر میں قوم کا اشرافیہ تصور کیا جاتا ہے۔

مذہب اسلام میں سب سے عظیم ترین گناہ شرک کو قرار دیا گیا ہے، بلکہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے: "یقینا اللہ اس بات کو معاف نہیں کرین گے کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے سوا جس گناہ کو چاہیں، معاف فرمادیں گے، اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ حق سے دور جا پڑا”۔ مذکورہ آیت میں اس بات کی صراحت ہے کہ شرک ایسا گناہ ہے جس کی بخشش نہیں ہوگی اور شرک کرنے والے ہمیشہ اللہ تعالی کی رحمت سے دور رہیں گے۔ علاوہ ازیں، احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ رسول اکرم ﷺنے شرک کی قباحت اور اس کی ہولناکی سے امت کو متنبہ کیا ہے اور اس سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ شرک کی ایک قسم تو واضح ہے کہ خدا کی ذات میں کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، یعنی خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت و پرستش کرنا اور اس سے مرادیں مانگنا۔ دوسری قسم شرک فی الصفات ہیں، یعنی کسی انسان یا دیگر مخلوق کے متعلق عقیدہ رکھنا کہ فلاں سے فلاں کام ہوجائے گا۔ یہ تو وہ اقسام ہیں جو ظاہر ہیں لیکن شرک کی باریکی اور سنگینی بہت پیچیدگی رکھتی ہے۔ ایسے تمام اعمال جو اسلامی روح کے منافی ہے اور جو کسی طور اللہ تعالی کی ربوبیت میں کسی اور کو شریک کرنے کا مدعی ہو وہ شرک کی تعریف میں شامل ہے۔

اب ہمیں یہ سمجھنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ جب شرک کی اس قدر ممانعت بیان کی گئی ہے تو ہمیں کس طرح ایسے اعمال و افعال سے دور رہنا ہے۔ جس طرح بقائے ایمان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی محبت ضروری ہے ٹھیک اسی طرح کفر و شرک سے نفرت بھی ضروری ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان ان دونوں چیزوں کو اپنے قلوب میں سمائے رکھے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں اور ایسے علما کرام کے بیانات سے مستفید ہونے کی کوشش کریں جو عقائد کے باب میں ہماری راہنمائی کا ذریعہ بنیں، نیز ایسے عناصر جو عقائد اور دین سے سمجھوتے تک پہنچائے، خواہ وہ تعلیمی میدان سے ہو، عملی میدان سے ہو، سیاسی یا نام نہاد اصلاحی میدان سے ہو، ضروری ہے کہ ایسے کاموں اور ایسے اعمال سے دور رہا جائے۔ ہم لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مذہب اسلام محض چند باتوں پر محیط کوئی ناقص یا ادھورا دین نہیں ہے بلکہ یہ خدائی دین ہے جو مکمل ضابطہ حیات ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں مذہب اسلام نے مکمل راہنمائی نہیں فرمائی ہے اور یہی وہ چیز ہے جسے ہم اسلامی تہذیب و ثقافت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کے اعتبار سے مذہب اسلام کسی دوسری تہذیب یا رواج یا محتاج نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ زمانہ ماضی میں ہمارے اسلاف و اکابرین نے اسلامی تعلیمات سمیت اسلامی شناخت اور تہذیب و ثقافت پر بھی قابل قدر کارنامے انجام دیئے ہیں اور شاہان اسلام نے اس جانب خصوصی پیش رفت فرمائی تھی۔ لیکن آج بعض ناعاقبت اندیش اور عدم علم کی بنا پر مذہب اسلام کی تہذیب کو دوسری تہذیب کے ساتھ اس طور پر مدغم کرنے کو بے چین و بے قرار ہے کہ ہماری اپنی اصل شناخت کہیں گم ہوکر رہ جائے۔ ضروری ہے کہ ہم ایسے افعال و اعمال سے اجتناب برتیں جو ہمیں اسلامی تعلیمات اور شناخت سے دور کرے۔ اللہ تعالی ہمیں دین مستقیم پر گامزن رکھے۔

Related Posts

4 thoughts on “الحاد و ارتداد کی جانب بڑھتا ہوا قدم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے