کافر کسے کہتے ہیں
ہمارے ملک ہندوستان میں، بہت سارے ایسے اسلامی الفاظ ہیں جنہیں غلط معنی اور مفہوم دے دیا گیا ہے. جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کے ساتھ خواص کا ایک طبقہ بھی ان جیسے الفاظ سے متنفر ہوگیا، اور آہستہ آہستہ یہ نفرت مذہب اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کا سبب بن گئی ہے. حالانکہ مذہب اسلام میں حقیقتاً ایسی باتیں نہیں پائی جاتی ہیں جو دوسرے مذہب یا دوسرے مذہب کے ماننے والے کی توہین کا باعث بنے۔مذہب اسلام نہ تو عملی طور ایسے کام کرنے کا قائل ہے جو انسان کی تکلیف کا باعث بنے اور نہ وہ اپنے ماننے والوں کو ایسے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے جو دوسروں کے جذبات یا مذہبی شناخت کو مجروح کرے۔
جن الفاظ کو غلط معنی دیا گیا ہے، اور وقتا فوقتاً ان پر ڈبیٹ اور مباحثہ ہوتے رہتے ہیں، ان میں ایک لفظ ہے "کافر”. کافر کسے کہتے ہیں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ خالص مذہبی تعبیر ہے، دنیاوی دستور ہے کہ جب دو یا زائد چیزوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو، لا محالہ، ان سب کو نام دیا جاتا ہے. یہاں بھی یہی چیز ہے، مذہب اسلام کی اصطلاح میں کافر اسے کہتے ہیں جو ایک خدا کو ماننے والا نہ ہو، یعنی ایک خدا کا انکار کرے. کافر کے لفظی معنی "انکار کرنے والا” کے ہیں. یہاں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جو ایک خدا کو نہیں مانتا ہے اسے کافر کہا جاتا ہے۔
موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ، میڈیا اور سوشل میڈیا پر وقت گزارنے والے افراد، جو خود کو عظیم مفکر، دانشور اور علم کا سمندر سمجھے بیٹھے ہیں، انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ کافر لفظ کا معنی کیا ہے. بلکہ بارہا، سوشل میڈیا پر اور نیشنل میڈیا پر دیکھنے کو ملا ہے کہ، لوگ اس طرح اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں، جیسے مذہب اسلام نے اس کے ذریعہ توہین کی ہو، یا انہیں حقارت سے مخاطب کیا ہو، حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے. اس لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد جو اس لفظ کو منفی سمجھتے ہیں، انہیں اس لفظ کا حقیقی معنی اور مذہب اسلام نے جس پس منظر میں استعمال کیا ہے، اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
کافر کا معنی
اہل عرب جو زبان دانی میں اپنی مثال آپ تھے، اور فصاحت و بلاغت میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا، ان کے لئے قرآن میں کئی جگہ یہ لفظ استعمال ہوا ہے لیکن انہوں نے اس پر کبھی اعتراض نہیں جتایا کیونکہ وہ اس لفظ کی حقیقت سے باخبر تھے۔ قرآن مجید میں مذکور ہے: "اور ہم نے جب بھی کسی شہر میں کوئی پیغمبر بھیجا تو وہاں کے عیش پرست لوگوں نے یہی کہا کہ تم جو دین لے کر آئے ہو ہم تو اس کا انکار ہی کرتے ہیں”۔(سورہ سبا-34)۔ اس آیت کی تفسیر میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں: "اس آیت میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید نے انبیاء کی مخاطب قوموں کی یہ بات نقل کی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ آپ جس بات کی دعوت دے رہے ہیں، ہم اس کا کفر یعنی انکار کرتے ہیں، یعنی وہ خود اپنے آپ کو "کافر” کہتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفر یا کافر کا لفظ تذلیل و اہانت پر مبنی نہیں ہے، جیسا کہ آج کل غیر مسلم قوموں کی طرف سے کہا جاتا ہے؛ بلکہ کفر کے اصل معنی انکار کے ہیں، جو قوم توحید کو اور پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے، اس کو کافر کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو خود اپنے آپ کو کافر کہنے میں کوئی تامل نہیں ہوا، قرآن میں بھی بہت سی جگہ اہل مکہ کو "کافروں” کے لفظ سے مخاطب کیا گیا ہے، لیکن کبھی اہل مکہ کو اس پر اعتراض نہیں ہوا”۔
۔ اسلام میں کافر کا لفظ کہیں بھی بطور گالی استعمال نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اسلام تو "ولاتنابزوا بالالقاب” یعنی ایک دوسرے کا بُرا نام نہ رکھو) مذہب اسلام نے ایک انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کو ایسے نام یا لقب سے بھی بھی نہ پکارے، جو اس کے لیے تکلیف کا باعث ہو۔
ایسے ہی دوسری جگہ ارشاد فرمایا:و لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ۔ اللہ کے سوا وہ جن کی عبادت کرتے ہیں، انہیں بُرا بھلا نہ کہو۔
یعنی کسی بھی مذہب کے بڑے لوگ اور مذہبی شخصیات کے متعلق غلط باتیں کرنے اور ان کو بُرا کہنے سے منع کیا گیا ہے. جب مذہب اسلام نے فرد واحد اور مذہبی شخصیات دونوں کے متعلق اتنے واضح الفاظ میں حکم دے دیا ہے کہ انہیں بُرا نہیں کہنا ہے، پھر خود مذہب اسلام پر ایسی باتوں کا الزام، نادانی نہیں بلکہ جان بوجھ کر بدنام کرنے کی سازش ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ، وَلَا الْبَذِيءِ»
اردو ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مؤمن نہ تو طعنہ دینے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش گو اور نہ گالی دینے والا۔”
یعنی ایک سچا مسلمان نہ بدزبانی کرتا ہے، نہ لوگوں کو کوستا ہے، نہ ان پر لعنت بھیجتا ہے اور نہ ہی گندی زبان استعمال کرتا ہے۔
انسان کو، اللہ تعالیٰ نے عقل سے نوازا ہے، اور عقل کا درست استعمال یہ ہے کہ ہم ہمیشہ مثبت چیزوں میں اس کا استعمال کریں، اگر ہمیں کوئی منفی بات یا خبر موصول ہوتی ہے تو اصل ذرائع اور صاحب علم حضرات سے رجوع کریں. مذہب اسلام ایک پاکیزہ مذہب ہے، اور اس کے احکام امن و امان کو قائم رکھنے والے ہیں۔سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا یا دیگر ذرائع ابلاغ سے جو باتیں مذہب اسلام کے بارے میں کہی جاتی ہے یا بتائی جاتی ہے، ان میں بیشتر باتیں غلط طریقے سے توڑ مروڑ کر پیش کی جاتی ہے۔ بلکہ بارہا دیکھنے کو ملتا ہے کہ جھوٹی باتوں کو مذہب اسلام کی جانب منسوب کردیا جاتا ہے اور اسے لوگوں کے درمیان تیزی سے پھیلایا جاتا ہے۔لفظ "کافر” ایسا ہی ایک لفظ ہے، جو عام معنی میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن منصوبہ بند طریقے سے عوام کو حقیقی معنی بتانے کے بجائے اسے ایک من گھڑت معنی دیا گیا اور پھر عوام کے درمیان مشہور کردیا گیا کہ یہ "گالی” کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔