کیا والدین کی بددعا قبول ہوتی ہے؟

کیا والدین کی بددعا قبول ہوتی ہے؟

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جگہ جگہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، ان کے ساتھ نرم رویہ اپنانے اور ان کی باتوں کو رد کرنے سے منع فرمایا ہے حتی کہ قرآن نے ایسے الفاظ کے استعمال سے بھی منع فرمایا ہے جو والدین کے لئے ناگوار ہو۔ رسول اکرم ﷺ نے بھی بارہا والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے، اور اپنے متبعین کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ روئے زمین پر ماں باپ سے زیادہ مقدس اور بابرکت ہستی اولاد کے لئے کوئی اور نہیں ہے اور جس صراحت کے ساتھ والدین کے حقوق بیان کئے گئے ہیں وہ کسی اور کے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ: اگر میرے والدین ظلم کریں ! آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اگر وہ ظلم کریں تو بھی ان کی اطاعت کرو، ان کی فرمانبرداری کرو، ان کےساتھ حسن سلوک کو روا رکھو۔ ترمذی شریف کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "ثلاث دعوات مستجابات، دعوۃ المظلوم، و دعوۃ المسافر و دعوۃ الوالد علی ولدہ”۔ تین لوگ ایسے ہیں جن کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے، مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد کی دعا بیٹے کے حق میں۔ یہاں پر ایک سوال ہے کہ کیا جس طرح والدین کی دعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے ان کی بددعائیں بھی قبول ہوجاتی ہیں؟  کیا والدین کی بددعا قبول ہوتی ہے؟ کیا والدین اگر ناراض ہوکر اپنی اولاد کو طعن و تشنیع کریں تو ان کی وقتی ناراضگی اولاد کے حق میں مضر ہوسکتی ہے؟ 

ہمارے معاشرہ میں کم خواندگی اور معلومات کے نہ ہونے کی وجہ سے عام بیماری پائی جاتی ہے کہ بچے بچیوں کی ادنی غلطیوں اور شرارت کی بنا پر بسا اوقات ماں باپ ناراض ہوکر انہیں ڈانٹ پلاتے ہیں اور کبھی اس حدتک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ان کی زبان سے ایسے کلمات صادر ہوتے ہیں جو بددعا کی قبیل میں شمار کئے جاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت والدین کو اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنے لخت جگر کو جس کو انہوں نے بچپن سے پالا ہے، جس کے ہزاروں نخرے برداشت کئے ہیں، جس کی خوشی کے لئے اپنے آپ کو قربان کردیا ہے، جس کی ہنسی کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی ہے، اس اولاد کو، اس بچہ کو یا اس بیٹی کو بددعا دے رہے ہیں۔  ابو داؤد شریف کی روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لا تدعوا علی انفسکم، ولا تدعوا علی اولادکم، ولا تدعوا علی خدمکم، ولا تدعوا علی اموالکم، لا توافقوا من اللہ تعالی ساعۃ نیل فیھا عطاء فیستجیب لکم”۔ آپ ﷺ نے انسان کو اپنے خلاف، اپنی اولاد کے خلاف، اپنے خدام کے خلاف اور اپنے مال و اسباب کے خلاف دعا کرنے سے منع فرمایا ہے، ممکن ہے کہ جس وقت بددعا کی جائے وہ اللہ تعالی کی جانب سے قبولیت کا وقت ہو، اور انسان کی بددعا قبول ہوجائے۔ مفتی شفیع صاحب معارف القرآن میں لکھتے ہیں: "اس جگہ بددعا سے مراد یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی انسان غصہ کی حالت میں اپنی اولاد یا مال و دولت کے تباہ ہونے کی بد دعا کر بیٹھتا ہے یا ان چیزوں پر لعنت کے الفاظ کہ ڈالتا ہے، اللہ تعالی اپنے لطف و کرم سے ایسی دعا قبول کرنے میں جلدی نہیں فرماتے۔ امام قرطبی نے اس جگہ ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اللہ جل شانہ سے دعا کی ہے کہ وہ کسی دوست و عزیز کی بد دعا اس کے دوست و عزیز کے متعلق قبول نہیں فرماویں، اور شہر بن حوشب فرماتے ہیں کہ میں نے بعض کتابوں میں پڑھا ہے کہ جو فرشتے انسانوں کی حاجت روائی پر مقرر ہیں اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے ان کو یہ ہدایت کر رکھی ہے کہ میرا بندہ جو رنج و غصہ میں کچھ بات کہے اس کو نہ لکھو۔ اس کے باوجود بعض اوقات کوئی قبولیت کی گھڑی آتی ہے جس میں انسان کی زبان سے جو بات نکلے وہ فورا قبول ہوجاتی ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اولاد اور مال کے لئے کبھی بد دعا نہ کرو،  ایسا نہ ہو کہ وہ وقت قبولیت دعا کا ہو اور یہ بد دعا فورا قبول ہوجائے”۔ والدین کے لیے اپنے غصہ پر قابو رکھنا اور خصوصاً غصے کے وقت اپنے الفاظ پر قابو رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ ہوسکتا ہے وہ وقت قبولیت کا ہو اور وہ بد دعا قبول ہو جائے”۔

والدین اپنی اولاد کو یا انسان اپنے کسی رشتہ دار کو یا خود کو ہمیشہ غصہ کی حالت میں ہی کوستا ہے۔ بسا اوقات ذہنی پریشانیاں دوسروں کی مداخلت سے مزید گہری ہوجاتی ہے یا ظاہری نقصان اپنی جانب سے یا اپنے اولاد کی جانب سے زبان پر ایسے کلمات کا باعث بنتے ہیں جس کا پچھتاوا انسان کو زندگی بھر ہوتا ہے۔  اسی لئے قرآن و حدیث میں غصہ کی ممانعت آئی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "ان الغضب من الشیطان”، غصہ شیطان کی جانب سے ہوتا ہے اور غصہ کی حالت میں انجام دیئے گئے کام ہمیشہ انسان کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں،اس لئے انسان کو چاہئے کہ ہمیشہ احتیاط سے کام لیں اور غصہ کی حالت میں یا جلد بازی میں کوئی ایسا فیصلہ یا کوئی ایسی بات نہ کہے جس کے مضر اثرات مرتب ہوں۔

Related Posts

2 thoughts on “کیا والدین کی بددعا قبول ہوتی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے