سودی قرض کا بڑھتا ہوا رجحان

سودی قرض کا بڑھتا ہوا رجحان

اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے اسباب و وسائل ضروری ہیں، اسباب و وسائل کے بغیر زندگی گزاارنا ناممکن نہ سہی تو مشکل ضرور ہے۔ زمانہ قدیم میں عموما ایسا ہوتا تھا کہ انسانی ضرورتیں محدود ہوتی تھی اور ان  ضرورتیں آس پاس کے علاقوں میں میسر ہو جایا کرتی تھی۔ لیکن اب معاملہ بدل گیا ہے اور ضرورتیں پہلے کے مقابلہ میں زیادہ ہوگئی ہے، اب آسائش و زیبائش کو ضروریات زندگی میں داخل کرلیا گیا ہے اور جب ضرورتیں بڑھ جاتی ہیں تو ان کی حصولیابی کے لئے تگ و دو میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اخراجات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ سماج میں رہنے والا ہر انسان اس سوچ میں حیران و پریشان ہے کہ کس طرح وہ دوسروں کے مقابلہ میں خود کو بہتر ثابت کرے، اور اسی بہتری اور ظاہری رکھ رکھا اور بے جا نام و نمود کی وجہ سے قرض لینے دینے کا رواج عام ہوگیا ہے، اور اب صورتحال سود تک جا پہنچی ہے۔

سود لینے دینے کا رواج اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ اب اسے بھی زندگی کا حصہ تصور کیا جانے لگا ہے۔ نجی سطح سے لے کر سرکاری سطح تک ہر جانب سود کے چرچے ہیں، سود کے بغیر نہ کوئی قرض دینے کو تیار ہے اور نہ ہی  ایسی تجاویز سامنے آرہی ہے جن کے ذریعہ اس حرام طریقے سے اجتناب ممکن ہوسکے۔ بازار میں دستیاب بیشتر چیزیں اس طور پر فروخت کی جارہی ہے کہ ان کی خریداری میں سود سے بچنا محال ہوتا جارہا ہے، لیکن یہ صورتیں تو وہ ہیں جہاں عام آدمی کا اختیار نہیں ہے لیکن اب تو بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے  کہ لوگ سودی قرض محض اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے لیتے ہیں۔ ایسے کاموں کی انجام دہی کے لئے سودی قرض لئے جاتے ہیں جن کے بغیر زندگی بآسانی گزاری جاسکتی ہے۔ جب کہ بحیثیت مسلمان ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سود ایسی بلا اور مصیبت ہے جس سے اجتناب کی تاکید قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ جو لوگ محض خواہشات کی تکمیل کے لئے سود لیتے ہیں انہیں ایسی آیات و احادیث کا مطالعہ کرناچاہئے۔ قران مجید میں اللہ تعالی نے صاف لفظوں میں کہدیا ہے کہ سود کو حرام کردیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی سودی کاروبار کرے یا سود کے معاملات میں ملوث ہوں تو ایسے افراد کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم ایسے کام میں دھنس رہے ہیں جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے، اور اس کے استعمال سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ سود کھانے کے متعلق سخت ترین وعیدیں احادیث نبویہ میں موجود ہیں۔

گاؤں دیہات میں سود کا بڑھتا رجحان

گاؤں دیہات میں سود کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔ لوگ چھوٹی موٹی ضرورتوں کے لئے بھی سود لینے کے لئے ایسے افراد کے پاس پہنچ رہے ہیں جو ان کاموں سے وابستہ ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ بیماری ہمارے معاشرہ میں اپنی جڑوں کو دن بدن مضبوط کررہی ہے لیکن اس سے چھٹکارہ کی سبیل نہیں پیدا ہو رہی ہے۔ گاؤں دیہات میں ایک طبقہ وہ ہے جو مجبوری کی وجہ سے سودی قرض لیتا ہے تاکہ اپنی ضروریات کو مکمل کر سکے۔ کبھی بیماری وغیرہ سے تنگ آکر علاج کے لئے بھی سودی قرض لئے جاتے ہیں اور کبھی دیگر ضروریات جیسے شادی بیاہ وغیرہ میں سودی قرض لئے جاتے ہیں۔ بسا اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسان سودی قرض سے احتراز تو کرنا چاہتا ہے اور حتی الامکان کوشش ہوتی ہے لیکن کہیں اور، کسی اور جگہ سے بر وقت بغیر سود کے رقم فراہم نہ ہونے کی صورت میں سودی قرض لینے کے لئے مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ کار حرام ہے لیکن جب کوئی راستہ نہ ملے تو اس راستہ پر روانہ ہوجاتا ہے۔ گاؤں دیہات میں عموما دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جو بحالت مجبوری سودی رقم لیتے ہیں لیکن قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جو سودی رقم اٹھاتے ہیں۔ گاؤں دیہات وغیرہ کے متعلق یہ بات معلوم ہوئی کے سودی کاروبار سے وابستہ افراد صرف خواتین کو قرض دیتے ہیں اور ان کے نمبرات حاصل کرتے ہیں۔ ایسے واقعات درج کئے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بروقت قرض کی ادائیگی نہ کئے جانے کی صورت میں ان خواتین کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے اور پھر انہیں مجبور کرکے غلط کاموں کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ اس لئے گھر کے مرد حضرات کو چاہئے کہ اپنی خواتین کو قرض لینے کے لئے دوسروں کے دروازے پر نہ بھیجے، کیونکہ اس سے فتنہ کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے جس کا بند کرنا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔

سود کی روک تھام کیسے ہو

یہ سوال بالکل بجا ہے کہ سودی کاروبار کو کیسے بند کیا جائے، بحیثیت مسلمان اگر کوئی انسان سودی کاروبار کرتا ہے تو یہ کار حرام ہے اور اسے اس کام سے توبہ کرنا چاہئے۔ دوسری جانب وہ افراد ہیں جو مجبوری کی حالت میں سود لیتے ہیں تاکہ اپنی ضرورتوں کو مکمل کرے۔ ایسے افراد جو بوقت ضرورت شدیدہ قرض لیتے ہیں اور پھر سود کے گناہ میں ملوث ہوتے ہیں ان کے لئے گاؤں کی سطح پر یا اجتماعی سطح پر کوئی انتظام کیا جانا چاہئے۔ عموما یہ ہوتا ہے کہ ہر گاؤں میں چند اصحاب ثروت موجود ہوتے ہیں اور ان کے پاس حوائج اصلیہ سے زائد رقومات ہوتی ہے، ایسے افراد کو چاہئے کہ وہ آگے آئے اور بوقت ضرورت غریب لوگوں کو قرض دیں۔ کیونکہ بغیر سود کے اگر قرض میسر ہوجائے تو پھر کوئی بھی سود کی جانب نہیں جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اجتماعی طور پر ہماری تنظیمیں ایسے شعبے جات قائم کریں اور ان کے ذریعہ سے لوگوں کی مدد کرے۔ لیکن ان دونوں صورتوں میں بہر حال ایک پیچیدگی ہے کہ کیا قرض لینے والا حسب وعدہ قرض لوٹائے گا؟ گاؤں دیہات اور شہروں میں بھی یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے کہ قرض لینے کے بعد عموما لوگ رابطہ منقطع کر لیتے ہیں۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومن کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ ایمان والوں کی شان کے خلاف ہے کہ وہ کسی سے وعدہ کرے اور بروقت وعدہ کو پورا نہ کرے۔ اگر ایسی مجبوری دامن گیر ہو کہ قرض کی ادائیگی کی صورت نہ بن سکے تو صاحب معاملہ سے مل کر بات چیت کرکے مزید وقت کا تقاضا کیا جائے۔ اس کام میں بہتری پیدا کرنے کے لئے لوگوں میں دینی حمیت اور زبان کا پاس و لحاظ سکھانا ضروری ہے اور ایسے عنوانات پر وقتا فوقتا علاقائی سطح پر علماء کرام کے بیانات کا سلسلہ شروع کیا جائے، امید ہے ان شاء اللہ ہماری قوم اس لعنت سے محفوظ رہے گی۔

Related Posts

One thought on “سودی قرض کا بڑھتا ہوا رجحان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے