شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی، حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی، حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ نے دین اسلام کے لئے جو خدمات انجام دی ہیں آج بھی وہ سنہرے حروف سے تاریخ میں محفوظ ہے۔ آپ کی تصانیف اور مکتوبات صدیوں بعد بھی مردہ دلوں میں شمع ایمانی جلانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ خانقاہوں اور علماء کرام کی مجالس میں آپ کے مکتوبات کو خاص اہمیت حامل ہے اور بعض افراد ان مکتوبات کی روشنی میں موجودہ وقت میں پھیلی بدعات و خرافات اور عوام الناس کے درمیان عود کر آئی برائیوں سے نمٹتے ہیں۔ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی پیدائش اگرچہ ہندوستان کے خطہ سر ہند میں ہوئی لیکن آپ سے بلا واسطہ یا بالواسطہ فیض اٹھانے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، آج بھی آپ کے مکتوبات کو عالم اسلام میں خصوصا تصوف و سلوک سے وابستہ افراد کے درمیان جو مقبولیت عامہ حاصل ہے وہ منجانب اللہ آپ کے قبول و مقبول ہونے کی واضح اور بین دلیل ہے۔

تاریخ پیدائش اور ابتدائی تعلیم

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی پیدائش 14 شوال 971 ہجری مطابق 26 جون 1564 ہے۔ آپ کی پیدائش سرہند میں ہوئی، آپ کا نام "احمد” تجویز کیا گیا جبکہ لقب "بدرالدین” اور کنیت ابو البرکات”۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے، اور خاندانی روایات کے مطابق آپ بابا فرید الدین گنج شکر کے ہم جد تھے۔ آپ علمی گھرانہ کے چشم و چراغ تھے، آپ کے والد محترم شیخ عبد الاحد کا شمار وقت کے ممتاز علماء کرام میں ہوتا تھا، آپ شیخ عبد القدوس گنگوہی کے تربیت یافتہ اور ان  کے صاحبزادہ شیخ رکن الدین کے خلیفہ تھے، آپ نے تصوف میں کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں۔ چنانچہ شیخ احمد سرہندی  کی ابتدائی تعلیم والد محترم کے پاس ہوئی، ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے علامہ کمال الدین کشمیری ، شیخ یعقوب صوفی کشمیری اور علامہ بہلول بدخشانی  سے دیگر علوم متداولہ کی تعلیم حاصل کی۔ علامہ بہلول بدخشانی سے آپ نے علم تفسیر اور علم حدیث سمیت کئی فنون کی متداول کتابوں کا فیض اٹھایا تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کو بلند مقام تک پہنچانے میں ان کے والد گرامی کا بڑا عمل دخل تھا، بچپن سے ہی ایسا ماحول انہیں نصیب ہوا، جس نے ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

عملی زندگی کا آغاز

علوم متداولہ کی تحصیل سے فراغت کے بعد شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی نے سرہند میں رہتے ہوئے درس و تدریس کے اہم فریضہ کو اپنا لیا تھا۔ آپ نے تقریبا سترہ سال کی عمر میں ان تمام علوم کا احاطہ کر لیا تھا جو اس دور کے علماء کرام کے درمیان رائج تھا۔ سرہند میں آپ سے فیض پانے والوں کا جم غفیر امڈ پڑا، اور ہر کوئی اپنے حصہ کے بقدر اس نایاب موتی سے علم و فن کے گوہر سمیٹنے کی کوشش کرتا جسے اللہ رب العزت نے صدی کا مجدد بناکر بھیجا تھا، اور جس کی کوشش اور محنت شاقہ نے دین محمدیہ پر لاکھوں لوگوں کو استقامت سے نوازا تھا۔ سرہند میں رہتے ہوئے آپ نے وہاں سے کوچ کرنے کا فیصلہ کیا اور اکبرآباد (آگرہ) آکر مقیم ہوگئے۔  یہاں رہتے ہوئے آپ کے علوم و فنون کا چرچہ ہوا اور بہت جلد آپ شہر کے معزز علماء کرام کی فہرست میں شمار کئے جانے لگے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب اکبر بادشاہ کے دربار میں ابو الفضل اور فیضی کے علوم و فنون کا طوطی بولتا تھا، اور ان دونوں بھائیوں کے یہاں علماء کرام کی مجالس لگا کرتی تھیں۔ ان مجالس کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی تاریخ دعوت و عزیمت میں لکھتے ہیں: "وہاں ابو الفضل اور فیضی سے صحبتیں رہیں، لیکن اختلاف و ذوق و مسلک کی وجہ سے ان سے مناسبت نہ ہوئی بعض مرتبہ کچھ رد و کد کی بھی نوبت آئی اور ابو الفضل کے بعض بے باکانہ الفاظ پر ناگواری کا اظہار فرمایا، اور آمد و رفت موقوف کردی، ابو الفضل نے آدمی بھیج کر بلوایا اور معذرت کی، ایک مرتبہ فیضی کو جو اس زمانہ میں تفسیر غیر منقوط لکھنے میں مصروف تھے، ایک جگہ مناسب (غیر منقوط) لفظ ملنے میں اور مطلب کے ادا کرنے میں دقت پیش آئی اور قلم رک گیا، حضرت مجدد سے انہوں نے تذکرہ کیا، آپ نے مشکل کشائی فرمائی اور فیضی کو آپ کے طبع رسا اور وفور علم کا اعتراف کرنا پڑا”۔

بیعت و خلافت

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کا دور وہ تھا جب ملک ہندوستان میں صوفیاء کرام اور سلوک و معرفت کا ٖغلغلہ تھا، ملک کے مختلف حصوں میں اولیاء کرام دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں مصروف تھے۔ ایک عام دستور تھا کہ علماء اور عوام کے درمیان تقریر و تحریر اور دینی معاملات میں قیادت و سیادت کی ذمہ داری انہیں حضرات کے سپرد ہوا کرتی تھی جو علوم ظاہریہ سمیت علوم باطنیہ کی دولت سے مالا مال ہوتے تھے۔ آپ نے ابتدا میں اپنے والد ماجد سے باطنی علوم میں کسب فیض کیا اور پھر کشاں کشاں خواجہ باقی باللہ کی خانقاہ میں پہنچ گئے۔ حالانکہ آپ سرہند سے سفر حج کے مقصد سے دہلی روانہ ہوئے تھے لیکن یہاں شیخ کی فرمائش پر ان کے یہاں مقیم ہوگئے، دو ڈھائی مہینہ قیام کرنے کے بعد جب سرہند واپس ہوئے تو سلسلہ نقشبندیہ کے باکمال فیض یافتہ بن کر لوٹے، اور پھر دوبارہ دہلی آمد پر آپ کو شیخ کی جانب سے خلعت خلافت سے نوازا گیا۔ خواجہ باقی باللہ اپنے ایک مخلص کو شیخ احمد سرہندی کے متعلق لکھتے ہیں: "شیخ احمد جو سرہند کے باشندہ کثیر العلم قوی العمل بزرگ ہیں، فقیر کے ساتھ چند دن نشست و برخاست کی، فقیر کے مشاہدہ میں ان کے عجیب کمالات و اوصاف آئے، امید ہے کہ وہ ایک ایسا چراغ بنیں گے جس سے ایک عالم روشن ہوجائے گا، ان کے احوال کاملہ پر میرا یقین استوار ہے”۔

حضرت خواجہ باقی باللہ کی تربیت میں رہنے کے بعد جب آپ سرہند تشریف لائے تو خلوت نشینی کو اختیار کرلیا۔ طالبین کی آمد اور کثرت کے باوجود کسر نفسی اور اپنی کم مائیگی کے احساس کی وجہ سے عوام الناس کے درمیان ربط و ضبط بڑھانے سے گریز کرتے رہے۔ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی اپنے ایک مکتوب میں اپنی حالت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "اپنے نقص کا علم روشن ہوگیا جو طالب میرے پاس جمع تھے، سب کو جمع کرکے اپنا نقص ان سے بیان کیا اور سب کو رخصت کردیا، لیکن طالب اس بات کو کسر نفسی سمجھتے ہوئے اپنے عقیدے (عقیدت و محبت) سے نہ پھرے کچھ مدت بعد حق سبحانہ و تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل احوال منتظرہ عطا فرمادیئے”۔ سرہند میں قیام کے دوران آپ لاہور کے لئے عازم سفر ہوئے، اس وقت لاہور اہل علم و فضل کی ایسی بستی تھی جہاں مختلف رنگ و روپ کے پھول اپنی بھینی بھینی خوشبو سے واردین کو معطر کررہے تھے، لاہور میں چند روز قیام فرماکر آپ دہلی واپس ہوئے لیکن دوران سفر آپ کو شیخ و مرشد خواجہ باقی باللہ کے رحلت کی خبر ملی۔

عوام الناس کی اصلاح کے لئے وفود کی روانگی

مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی تاریخ دعوت و عزیمت میں لکھتے ہیں: "1026 ہجری میں آپ نے اپنے بہت سے خلفاء تبلیغ و ہدایت کےلئے مختلف مقامات پر بھیجے، ان میں سے ستر مولانا محمد قاسم کی قیادت میں ترکستان کی طرف روانہ کئے گئے، چالیس مولانا فرخ حسین کی امارت میں عرب، یمن شام اور روم کی طرف بھیجے گئے، دس ذمہ دار اور تربیت یافتہ مولانا محمد صادق کابلی کے ماتحت کاشغر کی طرف اور تیس خلفاء مولانا شیخ احمد برکی کی سرداری میں توران، بدخشاں اور خراسان گئے، ان حضرات کو اپنے اپنے مقامات پر بڑی کامیابی حاصل ہوئی اور بندگان خدا نے ان سے فائدہ اٹھایا۔ 1027 ہجری تک آپ کی شہرت عرب ممالک تک پہنچ گئی تھی، ہندوستان میں تو مشکل سے کوئی شہر ہوگا جہاں آپ کے نائبین اور دعوت الی اللہ دینے والے موجود نہ ہوں”۔ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی نے سرہند کو اپنا مسکن بنائے رکھا لیکن عالم اسلام پر مکمل گہری نظر تھی اور جب جہاں ضرورت پیش آئی آپ کے تربیت یافتہ اہل اللہ کی جماعت ان علاقوں میں دعوت و تبلیغ اور اشاعت اسلام کے لئے پہنچ جاتی تھی۔ عالم اسلام کے مختلف حکمرانوں کے وزراء اور معتمد علماء کرام اپنے باطنی احوال میں جِلا بخشنے کے لئے آپ سے رجوع فرمایا کرتے تھے، بلکہ کئی ایسے نام تاریخ میں موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وقتا فوقتا ایسے علماء کرام کا وفد آپ کی خدمت میں استفادہ کے لئے آیا کرتا تھا۔  

گوالیار کی نظر بندی

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی نے دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔ کوئی علاقہ اور کوئی دیار ایسا نہیں تھا جہاں شیخ کے تربیت یافتہ افراد موجود نہیں تھے۔ شاہی لشکر میں حضرت کے خلیفہ شیخ بدیع الدین سہارنپوری کے اثر و رسوخ کا عالم یہ تھا کہ عام سپاہی کے علاوہ بڑے بڑے عہدیداران ان سے ملنے کے لئے وقت طلب کیا کرتے تھے۔ جہانگیر کے اہم ہم نشینوں میں خان اعظم مرزا عزیز الدین، خان جہاں خاں لودھی، خان خاناں مرزا عبد الرحیم اور مرزا داراب وغیرہ وہ اہم افراد تھے جن کو وقتا فوقتا شیخ خطوط لکھا کرتے تھے، اور اسلامی شعائر کے تئیں احساس ذمہ داری کے لئےخطوط روانہ کئے تھے۔ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی گرفتاری ان کے زمانہ عروج میں ہوئی تھی جب  پورا عالم اسلام ان کے علوم و فنون سے بہرہ ور ہورہا تھا۔ عام مورخین نے شیخ کی گرفتاری کا اہم سبب اس خط  کو قرار  دیا ہے جو انہوں نے ۱۰۱۲ ہجری میں اپنے شیخ خواجہ باقی باللہ کو ارسال کیا تھا اور جس میں اپنے احوال باطنی کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ خاص نوعیت کا خط تھا جو ایک طالب نے اپنے مرشد کو لکھا تھا، تاکہ اصلاح کا سلسلہ شیخ کی جانب سے جاری رہے۔ تصوف و سلوک سے وابستہ مشائخ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کیسے کیسے حالات پیش آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ افراد جب تک عبادت و ریاضت اور فنا فی اللہ کی بھٹی میں تپ کر کندن نہیں بن جاتے ہیں انہیں عوام الناس کے درمیان اصلاح کے لئے نہیں بھیجا جاتا ہے۔ تاریخ نے منصور اور شمس تبریز کی فنائیت کو بھی دیکھا ہے اور ان پر پیش آئے واقعات تصوف و سلوک کی تاریخ میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی تاریخ دعوت و عزیمت میں لکھتے ہیں: "راقم سطور کو اس میں بہت شبہ ہے کہ حضرت مجدد کو یہ ابتلاء محض اس غلط فہمی میں پیش آیا، اور اس کا سبب جہانگیر کی دینی حمیت اور جمہور اہل سنت کے عقائد و مسلمات کی حمایت تھی، یا یہ محض علمائے دربار یا اس عہد کے قابل احترام علماء و مشائخ کے اصرار و تقاضہ سے کیا گیا، جہانگیر کسی زمانہ میں اس دینی مزاج کا آدمی نہیں تھا اور اس کی دینی حس کبھی اتنی تیز اور نازک نہیں تھی کہ وہ ایک ایسے مسئلہ میں جو اس کے فہم سے بالاتر تھا اور جس کا امور سلطنت اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، ایک ایسی بلند پایہ دینی شخصیت کے خلاف اتنا بڑا اقدام کرے جو ہزاروں آدمیوں کی محبت و عقیدت کا مرکز تھی”۔ اس سلسلہ میں شیخ محمد اکرام رود کوثر میں لکھتے ہیں: "حضرت مجدد کی تشریح سے معترضین کی تسلی ہوجانی چاہئے تھی، لیکن پتا نہیں یہ تشریح بہتوں تک پہنچی یا نہ۔ بہر کیف علمائے ظاہر بیں نے جہانگیر کے حضور میں شکایت کی کہ سرہند کا ایک مشائخ زادہ اپنے تئیں حضرت صدیق اکبر سے افضل سمجھتا ہے اور ایسے دعوی کرتا ہے، جن سے کفر لازم آتا ہے۔ اس کے علاوہ شیعہ اور دوسرے مخالفوں نے نمک مرچ لگائی ہوگی کہ شیخ احمد نے مجددیت کا دعوی کیا ہے۔ ہزاروں آدمی اس کے حلقہ بگوش ہیں۔ عجب نہیں کہ اس کا اثر حکومت کے لئے مضر ثابت ہو”۔ ایک بات تو طے ہے کہ جہانگیر کے دربار میں شیعہ حضرات کو اہمیت حاصل تھی، اور حضرت مجدد کا معاملہ شیعوں کے تعلق سے کافی سخت تھا۔ انہوں نے ابتدائی دور میں ہی "رد روافض” لکھ کر شیعوں کی بیخ کنی اور ان کے مذموم عقائد کو سر عام عوام کے سامنے لانے کا کام کیا تھا، جس کی وجہ سے شیعہ حلقہ میں ان کے خلاف کدورت اور انتقام کا جذبہ پنپنے لگا تھا۔ اور یہ حضرت شیخ کی گرفتاری کی صورت میں ظاہر ہوا، حضرت شیخ کے جس خط کو گرفتاری کی وجہ بنائی گئی تھی وہ 1012 ہجری میں لکھا گیا تھا، اکبر کا انتقال 1014 ہجری میں ہوا، اور حضرت شیخ کی گرفتاری 1028 ہجری کو ہوئی۔ جہانگیر کے ذہن کو درباریوں نے شیخ مجدد کے خلاف اس قدر پراگندہ کردیا تھا کہ اس نے "تزک جہانگیری” میں حضرت شیخ کے لئے جن الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔

جہانگیر نے شیخ احمد سرہندی کو بلا بھیجا اور ان سے خط کے متعلق دریافت فرمایا، حضرت شیخ نے تفصیلی جواب دیا اور مثال سے اسے مطمئن کردیا۔ شیخ اکرام لکھتے ہیں: "اس جواب سے بادشاہ کا عتاب دور ہوگیا’۔ لیکن جب بدخواہوں کی بھیڑ ہو اور جھوٹ بولنے والے کی کثرت تو سچ ہمیشہ عارضی شکست سے دوچار ہوتا ہے۔ جہانگیر کے دربار میں آپ نے سجدہ تحیۃ نہیں کیا اور اصرار کرنے پر انکار کردیا۔ حالانکہ شہزادہ شاہجہاں جو آپ سے خصوصی تعلق اور لگاؤ رکھتا تھا، اس نے درخواست کی کہ شریعت میں سجدہ تحیۃ کی گنجائش ہے اگر آپ بجا لائیں تو میں اس بات کا ضامن ہوں کہ آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ لیکن شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی ایمانی غیرت نے اسے ماننے سے انکار کردیا اور آپ کو گوالیار کے قلعہ میں قید کردیا گیا اور آپ کے تمام اثاثوں کو ضبط کرلیا گیا۔

گوالیار کی قید میں خدمت دین

گوالیار کی قید اگرچہ ظاہری طور پر پریشان کن اور آپ کے معتقدین کے لئے انتہائی تکلیف دہ مرحلہ تھا، لیکن حضرت مجدد الف ثانی نے اس مرحلہ کا خوب فائدہ اٹھایا، آپ کا ذاتی بیان ہے کہ دوران قید روحانیت اور تعلق مع اللہ میں مزید شدت و قوت پیدا ہوتی چلی گئی، نیز قید خانہ میں بند قیدیوں کے درمیان تبلیغ اسلام اور اصلاح نفس کی تحریک کی وجہ سے ہزاروں مسلمان تائب ہوئے اور ہزاروں افراد کو دین مستقیم قبول کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔ مولانا عبد الماجد دریابادی اپنے مضمون "حضرت مجدد الف ثانی یورپ کی نظر میں” رقمطراز ہیں: "ہندوستان میں سترہویں صدی میں ایک عالم جن کا نام شیخ احمد مجدد تھا، جو ناحق قید کردیئے گئے، ان کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے قید خانہ کے ساتھیوں میں سے کئی سو بت پرستوں کو مسلمان بنالیا”۔آپ کی مصلحانہ کاوشیں جاری رہی جس کے نتیجہ میں بہت جلد جہانگیر کی غلط فہمی دور ہوگئی اور جن شکوک و شبہات کی بنا پر انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا گیا تھا وہ ختم ہوگیا۔ گوالیار کی قید میں ایک سال گزارنے کے بعد 1029 ہجری مطابق 1620 میں آپ کو رہائی نصیب ہوئی۔

لشکر شاہی کی رفاقت

گوالیار کی رہائی کے متعلق مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی لکھتے ہیں: "حضرت مجدد بڑی عزت و احترام کے ساتھ قلعہ سے باہر تشریف لائے، تین یوم سرہند میں قیام فرماکر معسکر شاہی آگرہ تشریف لے گئے، ولی عہد شہزادہ خرم اور وزیر اعظم نے آپ کا استقبال کیا، مگر بادشاہ نے حکم دیا کہ چند روز آپ ہمارے ساتھ لشکر میں رہیں، آپ نے منظور فرمایا، اس رفاقت سے بادشاہ اور اہل لشکر کو بہت فائدہ پہنچا، جہانگیر نے اپنی توزک میں لکھا ہے کہ میں نے خلعت اور ہزار روپیہ خرچ عنایت کیا اور جانے اور ساتھ رہنے کا اختیار دیا، انہوں نے ہمرکابی کو ترجیح دی”۔ حضرت مجدد اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: "برخورداران و رفقاء میں سے جو بھی ساتھ تھے، ان سب کو وابستگی حاصل ہے، اور ان کے احوال میں ترقی ہے، ان کے واسطے یہ چھاؤنی گویاکہ خانقاہ بن گئی ہے”۔ لشکر کے ساتھ رہنے کے کئی فائدہ سامنے آئے، آپ شاہی لشکر کے ساتھ لاہور، دہلی، بنارس، آگرہ، اجمیر اور دیگر کئی مقامات پر تشریف لے گئے جہاں لشکر کی اصلاح سمیت عوام الناس کی اصلاح کا عمدہ اور بہترین موقع ہاتھ آیا تھا۔علاوہ ازیں، عہد اکبری کے دوران مسلمانوں میں دین سے جو دوری اور پیدا ہوگئی تھی، اور خاص کر شاہی دربار سے وابستہ افراد میں ان میں کمی واقع ہوئی۔ جہانگیر جو خود بہت زیادہ مذہبی نہیں تھا اس میں دینی غیرت و حمیت پیدا ہوئی اور اس نے عہد اکبری میں مسمار کی گئی مساجد کی از سر نو تعمیر کرائی اور دینی علوم کی ترویج و اشاعت میں دلچسپی دکھائی۔ البتہ بعض مورخین نے جہانگیر کی بیعت و ارادت کا ذکر کیا ہے جس کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے اور قدیم مورخین نے اس حوالہ سے کچھ نہیں لکھا ہے، علاوہ ازیں جہانگیر نے توزک میں بعض مقامات پر جس انداز میں حضرت مجدد کا  ذکر کیا ہے وہ بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔ البتہ یہ بات تاریخی اعتبار سے ثابت ہے کہ جہانگیر کی دینی حمیت و غیرت میں جو تبدیلی حضرت مجدد الف ثانی کی معیت سے پیدا ہوئی وہ پہلے نہیں تھی۔

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی اور بدعات و خرافات

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے زمانہ میں اسلامی شناخت کو جس طرح حکومت کے کار پردازوں سے نقصان پہنچا تھا اسی کے مثل خانقاہوں میں بیٹھ کر عوام الناس کے درمیان جھوٹی ضربیں لگانے والوں کی وجہ سے بھی پہنچا تھا۔ ہندوستان چونکہ عرصہ دراز سے ہندو جوگیوں کا مسکن رہا تھا جن کے نزدیک ریاضت و عبادت کا اپنا الگ ہی مفہوم تھا، مسلمانوں میں بعض ایسے صوفیاء کرام پیدا ہوئے جن میں سنت نبوی کی سمجھ اور دین اسلام کی حقیقی شناخت نہیں تھی اور انہوں نے بدعت و خرافات کو اسلام کا جز بنا دیا۔ حضرت شیخ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: "اس وقت عالم میں بدعات کا اس کثرت سے ظہور ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ظلمات کا دریا امڈ رہا ہے، اور سنت کا نور موج دریا میں اس کے مقابلہ میں اس طرح ٹمٹما رہا ہے؛ کہ معلوم ہوتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں کہیں کہیں جگنو اپنی چمک دکھا رہے ہیں”۔ مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:” یہ اصلاح عقائد  رد و شرک و بدعت اور دین خالص کی دعوت کا وہ عظیم الشان  تجدیدی کام تھا جو عرصہ دراز کے بعد حضرت مجدد نے ہندوستان کی سرزمین پر شروع کیا، جس کی مسلمان آبادی غیر مسلم اکثریت کے درمیان گھری ہونے اور اسلام کے حدیث العہد ہونے کی بنا پر مشرکانہ جاہلیت کے خطرہ سے ہر وقت دوچار تھی) اور پھر اس کی تکمیل و توسیع انہیں کے سلسلہ کے نامور مشائخ حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ دہلوی، اور ان کے خاندان اور حضرت سید احمد شہید اور ان کی جماعت نے زبان و قلم، رسائل و تصنیفات، ترجمہ قرآن و حدیث اور اپنے وسیع تبلیغی دوروں کے ذریعہ کی”۔

سفر آخرت

مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی، خواجہ محمد کشمیری کے حوالہ سے لکھتے ہیں: "1032 ہجری کا زمانہ تھا، اور آپ اجمیر میں تشریف رکھتے تھے، آپ نے فرمایا کہ سفر آخرت کے دن قریب ہیں، مخدوم زادگان کو جو اس وقت سرہند میں تھے، ایک خط میں تحریر فرمایا کہ (زندگی کے اختتام کے دن قریب ہیں)، صاحبزادگان اس خط کو پاتے ہی اجمیر حاضر ہوئے ایک دن خلوت میں دونوں فرزندون (خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم) سے فرمایا کہ "مجھے اب اس دنیا سے کسی طرح کی دلچسپی اور اس کی طرف التفات نہیں، اب اُس عالم کا خیال غالب ہے، اور سفر کے دن قریب معلوم ہوتے ہیں””۔ آپ اجمیر سے سرہند تشریف لائیں، لیکن سرہند میں دس ماہ آٹھ دن یا دس دن قیام رہا اور پھر خالق حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ وفات سے قبل آپ کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے جو اللہ تعالی کے خاص بندوں کی نشانیاں ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ آپ کے صاحبزادہ نے فرمایا کہ ہم لوگوں سے اس قدر اجتناب اور پرہیز کیوں؟ آپ نے جواب دیا کہ کیوں کہ اللہ کی ذات تم سے زیادہ محبوب ہے۔ ماہ ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو عالم اسلام کا وہ بلند ستارہ جس نے دین اسلام کی خاطر بیش بہا قربانیاں پیش کی تھی اور جس کی اصلاحی تحریک نے مٹتے ہوئے اسلامی آثار و نقوش کو دوبارہ تابندہ کیا تھا ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے