شب قدر کی فضیلت

اللہ تعالی نے امت محمدیہ پر خاص رحم و کرم کا معاملہ فرمایا ہے، اور اس امت کو ایسے ایسے انعامات و اکرامات سے نوازا ہے جو کسی اور امت کو حاصل نہیں تھے۔ امت محمدیہ کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں قرآن مجید جیسی مقدس اور متبرک کتاب عطا فرمائی ہے جو ساری دنیا کے لئے رحمت اور ہدایت ہے۔ علاوہ ازیں، کئی ایام اور مہینے اور کئی راتیں ایسی ہیں جن کو دیگر اوقات پر غیر معمولی فوقیت حاصل ہے۔ ہفتہ میں جمعہ کے دن کو باقی ایام پر فضیلت حاصل ہے اور اسی طرح رمضان المبارک کو سال کے دیگر تمام مہینوں پر فضیلت و فوقیت حاصل ہے۔ اور اسی ماہ مقدس میں اللہ تعالی نے ایک ایسی رات پوشیدہ رکھی ہے جسے ہزار  مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے، یعنی اس رات میں عبادت کرنا ایک ہزار مہینہ تک عبادت کرنے سے بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالی کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے امت محمدیہ کو ایسی بابرکت رات عطا فرمائی ہے اور پھر اسے تلاش کرکے اس میں عبادت کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ شب قدر کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے خود اللہ تعالی نے فرمایا ہے: "شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے” یعنی اس رات میں عبادت کرنے کا اتنا ثواب ملے گا جتنا ہزار مہینوں تک عبادت کرنے میں ثواب ملتا ہے۔

شب قدر کی فضیلت قرآن مجید میں

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایک مکمل سورۃ اسی نام سے نازل فرمائی ہے اور اس رات میں کیا امور انجام پائے جاتے ہیں اس کو بھی اس سورۃ میں بیان کیا ہے۔ اور دوسری جگہ سورہ دخان میں اس رات کو لیلۃ مبارکۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سورۃ القدر کے شان نزول کے متعلق مفتی شفیع صاحب معارف القرآن میں لکھتے ہیں: "ابن جریر نے بروایت مجاہد ایک واقعہ یہ ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد کا یہ حال تھا کہ ساری رات عبادت میں مشغول رہتا اور صبح ہوتے ہی جہاد کے لئے نکل کھڑا ہوتا دن بھر جہاد میں مشغول رہتا، ایک ہزار مہینے اس نے اسی مسلسل عبادت میں گزار دیئے۔ اس پر اللہ تعالی نے سورہ قدر نازل فرماکر اس امت کی فضیلت سب پر ثابت فرمادی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شب قدر امت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے”۔ اس رات کی یہ ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسی رات کو اللہ تعالی نے قرآن مجید نازل فرمایا ہے، رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں شب قدر جیسی بابرکت اور باعظمت رات کو اس کلام مجید کا نزول ہوا جس نے ساری دنیا میں انقلاب برپا کردیا اور جس کی روشنی میں لاکھوں کروڑوں پیشانیاں اللہ تعالی کےسامنے جھکنے والی بن گئیں۔ شب قدر کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس رات کو حضرت جبریل علیہ السلام فرشتوں کی مقدس جماعت کے ساتھ زمین پر تشریف لاتے ہیں اور جتنے مومنین اور مومنات دعا و اذکار اور دیگر عبادات میں مصروف ہوتے ہیں ان کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔

شب قدر کی فضیلت احادیث کی روشنی میں

یہ رات اتنی مقدس اور بابرکت ہے کہ اس کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں خود بیان فرمایا ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے مختلف طریقوں سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو اس رات میں عبادت کے لئے ابھارا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ نے سوال فرمایا کہ اگر مجھے شب قدر میسر ہوجائے تو اللہ تعالی سے کیا مانگوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ سے دعا مانگو: ” اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی” اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے، اس لئے مجھے معاف فرما۔ یہ آپ ﷺ کی بتائی ہوئی دعا ہے ، اس لئے تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اس دعا کا اہتمام کرے۔ معارف القرآن میں مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں: "حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شب قدر میں عبادت کے لئے کھڑا رہا اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوگئے، اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر میں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہی پر ہے جبریل امین کے ساتھ دنیا میں اترتے ہیں اور کوئی مومن مرد یا عورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں بجز اس آدمی کے جو شراب پیتا یا خنزیز کا گوشت کھاتا ہو”۔ مذکورہ دونوں احادیث سے  شب قدر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور شب قدر کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس رات میں عبادت کرنے سے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں کس قدر خوش قسمت ہیں وہ افراد جن سے ملائکہ اس رات مصافحہ کرتے ہیں، اور ساتھ ہی قابل غور و فکر بات یہ ہے کہ شراب اس قدر بُری اور گندی چیز ہے کہ اس کے عادی افراد اس رات کی بھی برکتوں سے محروم ہوتے ہیں اور فرشتے جیسی نورانی مخلوق کے مصافحہ سے محروم رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں کھانے پینے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ ایسی چیزوں کا استعمال جس میں شکوک و شبہات ہوں مناسب نہیں ہے اور ایسی غذا جس کے متعلق یہ خدشہ ہوکہ اس میں نجس جانور کا گوشت یا کوئی جز شامل کیا جاتا ہے ہرگز نہیں کھانا چاہئے کیونکہ ایسے افراد بھی شب قدر کی فضیلت سے محروم رہتے ہیں۔

شب قدر کو کب تلاش کریں

مذہب اسلام کا یہ خاص طریقہ ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کےلئے  تمام چیزوں کو واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ حلال و حرام، نماز، روزہ، حج ، زکوۃ اور دیگر عبادات تمام چیزیں تفصیلی طور پر بیان کردی گئی ہے لیکن اللہ تعالی نے شب قدر کی تعیین کو مخفی رکھا ہے۔ شب قدر کو مخفی  اس کی اہمیت کو بتانے کے لئے رکھا گیا ہے تاکہ لوگ اس کی تلاش و تتبع میں رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں کا بھرپور استعمال کریں اور زیادہ سے زیادہ یاد الہٰی میں مصروف رہیں۔ شب قدر کی تعیین میں کافی اختلاف ہے اور علماء کرام نے کئی اقوال ذکر کئے ہیں لیکن یہاں ہم قارئین کے لئے چند احادیث ذکر کررہے ہیں جن کی روشنی میں شب قدر کی تعیین سہل اور آسان ہوجاتی ہے اور ان راتوں میں جاگ کر اور عبادت الہٰی میں مصروف رہ کر شب قدر کی فضیلت کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :”تحروا لیلۃ القدر فی العشر الاواخر من رمضان” یعنی شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو اور مسلم شریف میں حضرت ابن عمر کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” فاطلبوھا فی الوتر منھا” یعنی شب قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ شب قدر کے متعلق دیگر روایات اور مذکورہ دونوں روایات سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں ہر سال بدلتی رہتی ہے اور اس کا کوئی دن متعین نہیں ہے البتہ طاق راتوں کے متعلق صریح احادیث موجود ہیں اس لئے طاق راتوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ البتہ شب قدر کی دو بہت اہم علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ اول یہ کہ رات بہت گرم یا سرد نہیں ہوتی ہے بلکہ اس رات موسم معتدل اور خوشگوار ہوتا ہے اور دوسری علامت یہ ہے کہ شب قدر کے بعد والے دن جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی شعاعیں یعنی کرنیں نہیں ہوتی ہیں۔

موجودہ دور میں شب قدر

مذکورہ احادیث سے یہ بات عیاں ہے کہ شب قدر کو کسی ایک رات میں مقید نہیں کیا جاسکتا ہے، اس لئے رمضان کے اخیر عشرہ میں  اس کو تلاش کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ لیکن ہمارے معاشرہ میں ایک مرض پیدا ہوگیا کہ ستائیسویں شب کو شب قدر سمجھ کر باضابطہ منایا جاتا ہے۔ بعض لوگ تو مساجد کی چہار دیواری میں ذکر و اذکار اور تلاوت کلام اللہ نیز نوافل میں گزار دیتے ہیں لیکن مسلم نوجوانوں کا طبقہ عموما سڑکوں پر اور گلی کوچوں میں وقت کو برباد کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتا ہے۔ حالانکہ یہ وقت عبادت و ریاضت کا ہے اور ہمارے دن بدن بگڑتے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم اللہ سے لَو لگائیں اور اپنے دکھ درد کا مداوا قرآن و حدیث میں تلاش کریں۔ دعا یقینا بہت کارآمد اور مفید شے ہے کیونکہ اللہ تعالی نے خود فرمایا ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کروں گا میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ دعا کی اہمیت و فضیلت قرآن و احادیث میں بکثرت موجود ہے۔

Related Posts

4 thoughts on “شب قدر کی فضیلت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے