مفتی صدر الدین آزردہ: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

مفتی صدر الدین آزردہ: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

مغلیہ سلطنت کے آخری ایام میں جن نفوس قدسیہ اور عظیم الشان شخصیات نے ہندوستانی مسلمانوں کے دین و ایمان اور ان کے حالات و کوائف پر نظر رکھتے ہوئے مسلم قوم کی سیادت و قیادت کا اہم فریضہ انجام دیا ہے ان میں ایک اہم اور بنیادی نام مسند ہند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے شاگرد مفتی صدر الدین آزردہ کا ہے، جنہوں نے زندگی کے بعض ادوار سلطنت مغلیہ کی زیر  سرپرستی بسر کئے اور 1857 کے بعد غلام ہندوستان میں آلام و مصائب اور پریشان کن حالات میں زندگی جیتے رہے۔ ہندوستانی مسلمانوں پر جس وقت حالات و مصائب ہر چہار جانب سے حملہ آور تھے انہوں نے اپنی فراست ایمانی اور خدا داد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلمانوں کی راہنمائی کا اہم فریضہ انجام دیا تھا۔

پیدائش

مفتی صدر الدین آزردہ کی پیدائش 12 دسمبر   1789 دہلی میں ہوئی۔ آپ کے آباء و اجداد کشمیری تھے لیکن اکبر کے عہد میں دہلی  آکر آباد ہوگئے تھے۔ ابتدا میں اس خاندان نے تجارت کو اپنا مشغلہ بنایا لیکن بعد میں علم و عمل کی وادی میں قدم رنجہ ہوئے اور آپ کے خاندان کے اہم اور بزرگ شخصیت مولانا خیر الدین ابو الخیر اس مقدس جماعت کا حصہ تھے جس نے فتاوی عالمگیری (فتاوی ہندیہ) کو مرتب کرنے کا اہم اور غیر معمولی کام انجام دیا تھا۔ اس دور کی معروف و مشہور شخصیت مولانا رشید الدین خان کشمیری بھی اسی شاخ کی کڑی ہے۔ الغرض مفتی صدر الدین آزردہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مولانا لطف اللہ کشمیری سے حاصل کیا، علوم اسلامیہ میں عربی ادب، معانی و بیان، فقہ و اصول، کلام و تفسیر کے لئے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، حدیث و اصول حدیث، رجال و سیر وغیرہ کی کتابیں حضرت شاہ عبد القادر اور حضرت شاہ رفیع الدین سے پڑھیں۔  کچھ دنوں حضرت شاہ محمد اسحق سے بھی استفادہ کیا، منطق و فلسفہ و اقلیدس وغیرہ کی تعلیم حضرت مولانا فضل امام خیرآبادی سے حاصل کی۔ مفتی  صدر الدین آزردہ نے حصول علم کے لئے جن نابغہ روزگار ہستیوں کا انتخاب کیا تھا، وہ اپنے میدان اور علوم و فنون کے ایسے شہسوار تھے جن کی مثال صرف دہلی نہیں بلکہ پورے ملک ہندوستان میں موجود نہیں تھی، بلکہ ملک کے اطراف و اکناف سے تشنگان علوم اپنی علمی پیاس کو سیرابی فراہم کرنے کے لئے ان حضرات کی درس گاہوں کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ 

درس و تدریس

مفتی صدر الدین آزردہ دیگر اہل علم کی مانند درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ اس دور میں جماعت بندی کا دستور نہیں تھا، اساتذہ کرام طلبہ کی ذہنی کیفیت اور ان کے جذب کرنے کی صلاحیت کے اعتبار سے انہیں اسباق پڑھایا کرتے تھے۔ مفتی صاحب کا انداز درس بھی تقریبا وہی تھا، جس کی وجہ سے مختلف کتابوں کو پڑھنے والے مختلف طلبہ ہوا کرتے تھے۔ دور دراز سے آنے والے بیشتر طلبہ آپ کی کفالت میں رہا کرتے تھے، ان کے قیام و طعام اور دیگر ضروریات زندگی کا آپ بھر پور خیال رکھا کرتے تھے۔ آپ کے ایک مایہ ناز شاگرد نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ میں نے ایک سال آٹھ ماہ کی مدت میں تقریبا 28 کتابیں پڑھی ہیں۔ مولانا مناظر احسن گیلانی اپنی کتاب "ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت” کے دوسرے حصہ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "ایک سال آٹھ مہینے کی مدت کا خیال کیجئے اور چھبیس کتابوں کے اس پشتارے کو ملاحظہ کیجئے، آج کوئی باور کرسکتا ہے کہ نصاب نظامیہ کی یہ اعلی سخت  و دشوار کتابیں ایک شخص نے ڈیڑھ سال دو مہینے میں پوری کرلیں، بلا شبہ جماعت کی پابندیوں کے ساتھ اس کا تصور دشوار ہی نہیں ناممکن ہے۔ لیکن جس قسم کی آزادی مفتی صاحب (مفتی صدر الدین آزردہ) نے نواب صاحب کو عطا کی تھی اور خدا نے جیسی طبیعت ان کو ارزانی فرمائی تھی، آپ دیکھ رہے ہیں، جو بات سوچی نہیں جاسکتی ہے وہ وقوع پذیر ہوئی تھی”۔

مفتی صدر الدین آزردہ طلبہ کرام کو اپنے گھر میں پڑھایا کرتے تھے، صاحب ثروت تھے، حکومتی عہدہ پر براجمان تھے، ولی عہد کے استاذ تھے اور دہلی کی علمی مجالس کے اہم رکن رکین تھے۔ آپ نے دارالبقا کی عمارت کو اپنے جیب خاص سے از سر نو تعمیر کرایا، رہائش کے لئے کمروں کی مرمت کرائی اور ہر طرح کی سہولیات فراہم کی۔ دارالبقا عہد شاہجہانی کا مدرسہ تھا جس میں دور دراز کے تشنگان علوم سیرابی کے لئے جمع ہوا کرتے تھے اور ان کے قیام و طعام کا بندوبست اسی مدرسہ میں ہوا کرتا تھا، اس مدرسہ کا مکمل خرچ آپ برداشت کیا کرتے تھے، اس مدرسہ میں باضابطہ مدرسین متعین تھے جن کی تنخواہیں آپ ادا کیا کرتے تھے، استاذ العلماء مولانا مملوک علی نانوتوی بھی اس ادارہ سے وابستہ رہے تھے۔ آپ کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے سر سید احمد خان آثار الصنادید میں لکھتے ہیں: "جامع مسجد کے جنوبی دروازہ کی طرف مدرسہ دارالبقا ہے، اگلے زمانہ میں اس میں طالب رہا کرتے تھے، اور معقول و منقول پڑھا کرتے تھے۔ یہ مدرسہ بالکل خراب و برباد ہوگیا تھا اور بالکل ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ زمانہ اہل اللہ سے خالی نہیں اور ہر وقت میں کوئی نہ کوئی صاحب ہمت عالی اور فطرت بلند ہوتا ہے اور یہ ہمت اور دل دردمند سوائے اس کے جس پر اللہ کا سایہ رحمت ہو اور کسی کو میسر نہیں ہوتا۔ اس زمانہ میں اللہ تعالی نے جناب مولانا مولوی محمد صدر الدین خان بلند بہادر صدر الصدور شاہ جہاں آباد کو ہمت اور فطرت ارجمند عنایت کی ہے”۔ الغرض مفتی صاحب نے اشاعت اسلام کے لئے اپنے درس و تدریس پر تکیہ نہیں کیا تھا بلکہ اس کے لئے ہر وہ کوشش کی تھی جو ان کے بس میں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے فیض یافتگان کی تعداد بہت زیادہ تھی اور لوگوں میں ان کے علمی جاہ و جلال اور عظمت کی وقعت بیٹھی ہوئی تھی۔  مولانا رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں کہ دہلی میں دو ہی ایسے استاذ تھے جن کے درس میں طبیعت بحال رہتی ہے اور شکوک و شبہات ختم ہوجاتے ہیں ایک ہمارے استاذ مولانا مملوک علی نانوتوی اور دوسرے ہمارے استاذ مفتی صدر الدین آزردہ ، علاوہ ازیں بانی مظاہر علوم مولانا مظہر نانوتوی اور مولانا قاسم نانوتوی نے بھی ان سے خوشہ چینی کی ہے۔

مفتی صدر الدین آزردہ بحیثیت صدر الصدور

جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثر و رسوخ  بڑھنے لگے اور ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کرتے ہوئے دہلی پر قابض ہوئے اور سلطنت مغلیہ صرف نام کے لئے باقی رہ گئی تو انگریزوں نے مسلم معاشرہ کے مسائل کو سلجھانے کے لئے صدر الصدور کا عہدہ تخلیق کیا۔ انگریزی دور حکومت میں اس کی اہمیت جج کے برابر تھی اور عزت و وقار کا عہدہ سمجھا جاتا تھا۔ سب سے پہلے علامہ فضل حق خیرآبادی کے والد محترم مولانا فضل امام خیرآبادی اس عہدہ سے نوازے گئے اور ان کے بعد 1827 میں مفتی صدر الدین آزردہ اس عہدہ کے لئے متعین کئے گئے۔ مفتی صاحب نے اس عہدہ کو خلق خدا کی خدمت اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لئے استعمال کیا۔ آپ کے فیصلے عوام الناس کے درمیان مقبول تھے اور غریب و لاچار افراد اپنی فریاد لے کر آپ کے پاس انصاف کی امید لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ کے حسن اخلاق اور عدل پروری کا تذکرہ کرتے ہوئے نواب مصطفی شیفتہ لکھتے ہیں: "جھگڑوں کے فیصلہ کرنے پر مامور ہیں جو کہ منصب اعلی ہے، جس کو اہل فرنگ کی اصطلاح میں صدر الصدور کہتے ہیں۔ فی زمانہ ان کی سلطنت میں اہل ہند کے لائق اس سے بڑا کوئی عہدہ نہیں ہے۔ مولانا نے اس دنیوی کسب معاش کو دینی ثواب حاصل کرنے کا وسیلہ بنا رکھا ہے۔ کیونکہ ان کی تمام تر کوشش مخلوق کی حاجت روائی میں صرف ہوتی ہے۔ ان کے انصاف کی برکت ہر خاص و عام پر محیط ہے”۔ اردو زبان و ادب کے مشہور شاعر جناب مرزا غالب کے بے شمار قصے زبان زد عام ہیں،  ان کی شراب نوشی اور قرض دو ایسے لازمے تھے جو ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ چلتے تھے۔ مرزا غالب کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے قرض خواہوں نے تنگ آکر عدالت میں مقدمہ دائر کردیا، عدالت میں پیش کیا گیا، مرزا غالب نے عدالت میں پیش ہوتے ساتھ یہ شعر پڑھا: قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں: رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔ قاضی عدالت نے مسکراکر دیکھا اور اپنی جیب خاص سے مرزا غالب کے قرض خواہوں کو رقومات ادا کردیئے۔ یہ قاضی عدالت مفتی صدر  الدین آزردہ تھے جو خود مرزا غالب کے دوستوں میں تھے۔

مفتی صدر الدین آزردہ اور شاہ اسمعیل شہید کی کتاب تقویۃ الایمان

شاہ اسمعیل شہید نے جب تقویۃ الایمان مرتب فرمایا تو دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ہنگامہ ہوگیا۔ چند بدخواہوں نے حالات ایسے خراب کردیئے اور شاہ اسمعیل شہید کی شخصیت کو اس قدر بدنام کرنے کی کوشش کی کہ ان پر اپنی مرضی اور اپنی خواہش کے مطابق تکفیر کے فتوی تک لے آئے۔ لیکن مسئلہ مفتی صدر الدین آزردہ کے سامنے آیا اور ان کے موقف کو جاننے کی کوشش کی گئی تو مفتی صاحب نے جواب میں فرمایا: "تقویۃ الایمان کو بنظر اجمال دیکھا ہے، باعتبار اصول اور اصل مقصود کے بہت خوب ہے اور مولوی محمد اسمعیل صاحب کو ایسا دیکھا کہ پھر کسی کو ایسا نہ دیکھا، یہ شخص ان میں سے ہے کہ جن کے حق میں حق سبحانہ تعالی نے فرمایا  (آپ نے قرآن مجید کی دو آیتیں تلاوت فرمائی) اور فرمایا، پس جو ان کو کافر اور گمراہ کہے وہ آپ گمراہ ہے”۔

مفتی صدر الدین آزردہ اور 1857 کی جنگ آزادی

مفتی صدر الدین آزردہ انگریزی عہدہ پر براجمان تھے، اور ایسے حالات میں ان کے لئے کھلے عام انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ممکن نہیں تھا، لیکن چونکہ دہلی مکمل طور پر انگریزوں کے تسلط میں تھی اور مجاہدین کا ایک بڑا طبقہ اس بات کا مدعی تھا کہ انگریزوں سے جہاد کیا جائے۔ چنانچہ جب جنرل بخت خاں دہلی آئے اور انہوں نے دہلی کی شاہجہانی مسجد میں علماء کرام کی میٹنگ بلائی اور ان کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا کہ مسلمانوں کو جہاد کے لئے کس طرح آمادہ کیا جائے۔ اتفاق رائے سے یہ بات طے ہوئی کہ موجودہ حالات کے پیش نظر جہاد کی فرضیت پر ایک استفتاء تیار کیا جائے اور تمام سرآوردہ علماء کرام کے دستخط سمیت اسے شائع کیا جائے۔ چنانچہ اس فتوی جہاد کے بعد پورے ملک میں انگریزی سامراج کے خلاف ایک نیا محاذ تیار ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 1857 کی وہ جنگ ہوئی جسے تاریخ ہند کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے۔ سرکاری عہدہ پر براجمان ہونے کے باوجود آپ کا گھر مجاہدین کی قیام گاہ اور مشورہ گاہ بنا ہوا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ تقریبا پچاس انگریز سپاہی مفتی صاحب کے گھر پر چڑھ گئے، لیکن وہاں 70 سے زیادہ مجاہدین موجود تھے جو مقابلہ کے لئے فورا تیار ہوگئے۔ حالات کے اس نازک موقع پر بادشاہ وقت اور سلطنت مغلیہ کے آخری فرماں روا بہادر شاہ ظفر کو جن پر اعتماد کلی تھا ان میں مفتی صاحب صف اول میں تھے۔ نواب صدیق حسن خاں لکھتے ہیں: "آپ کو 1273 ہجری میں انگریزی فوجوں کے ہنگامہ فساد میں سخت صدمہ اٹھانا پڑا، تعلق روزگار بھی ہاتھ سے گیا اور تمام جائیداد و املاک جو آپ نے تیس سالہ ملازمت کے دوران پیدا کی تھی بحق سرکار ضبط ہوگئی۔ بلکہ جہاد کے فتوی کے الزام میں چند ماہ تک جیل خانے میں بند رہے”۔

جامع مسجد دہلی کی بازیابی

1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں پر قیامت صغری ٹوٹ پڑی، دہلی جو کبھی مسلمانوں کا عظیم دارالسلطنت اور جاہ و جلال کا مرکز سمجھا جاتا تھا، علماء، شرفاء اور دہلی کے شاہی خاندان کے دہلی کو قبرستان بنادیا گیا۔ ہنستے کھیلتے گھر اجاڑ دیئے گئے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، دہلی کی سڑکوں کو سرخ خون سے مزین کرکے مسلمانوں کی عظیم سلطنت کا جنازہ اٹھایا گیا، یہ سب جاری تھا کہ انگریزوں نے مسلمانوں کی پرشکوہ اور عظمت و جلال کی نشانی دہلی کی جامع مسجد پر قبضہ کرلیا اور اپنے حمایتی لوگوں کو وہاں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ دہلی کی جامع مسجد جسے شاہ جہاں نے بنوایا تھا اور جسے ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی غیرت و دینی حمیت کا علمبردار تصور کیا جاتا تھا، وہ جامع مسجد لگ بھگ پانچ سالوں تک مسلسل اذان بلالی اور صدائے تکبیر سے محروم رکھی گئی تھی۔ 1862 میں کوشش بسیار اور سعی پیہم کے بعد شرائط کی بنیاد پر اس مسجد کی بازیابی ہوسکی۔ اس موقع پر جن افراد نے جامع مسجد کی بازیابی کے لئے تن من دھن سے قربانیاں دی تھیں ان میں ایک اہم اور بنیادی نام مفتی صدر الدین آزردہ کا بھی تھا۔

مفتی صدر الدین آزردہ بحیثیت شاعر

شعر و شاعری ایسا فن ہے جس کا رواج عالم اسلام میں صدیوں سے چلا آرہا ہے، اسلام کے نامی گرامی  علماء و صلحاء  کے اشعار آج بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ مفتی صدر الدین آزردہ کی پیدائش دہلی میں ایسے وقت ہوئی جب دہلی میں علم و ادب اور فضل وکمال کا ڈنکا بج رہا تھا۔ علوم دینیہ میں اگر شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کا نام شمار کرایا جائے تو کافی ہے لیکن اردو ادب کی آبیاری و آبپاشی کے لئے مومن، نصیر دہلوی، شیفتہ ، ذوق اور مرزا غالب جیسے شعراء کرام سے دہلی کی مجلسیں آباد تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے دم میں دہلی میں اردو ادب کا غلغلہ تھا اور جن کی بیٹھک میں زبان و ادب کے لعل و گہر لٹائے جاتے تھے۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ مفتی صدر الدین آزردہ کو عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں شعر و شاعری پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ مولوی کریم الدین لکھتے ہیں: "آزردہ گنجینہ علم، کان حلم، بحر سخا، مخزن لطف و جود و عطا، لبید دوراں، حسان ہندوستان، عامل کامل، فاضل اجل، فقیہ بے مثل، عالم باعمل، مدح میں ان کی جو لکھوں سو کم ہے۔ کیوں کہ وہ ایسا ہی عالم ہے،  ہر چند کہ مناسب نہیں کہ اس کا تذکرہ شعرائے اردو میں جو کہ ان کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھا ان کا نام لکھوں، مگر میں جانتا ہوں کہ بدوں نام نامی اس کے یہ کتاب رونق نہ پاوے گی اور پسندیدہ احباب نہ ہوگی”۔

مولانا ابو الکلام آزاد کے والد محترم مولانا خیر الدین مفتی صدر الدین آزردہ کے شاگرد تھے، چنانچہ مولانا ابو الکلام آزاد ان کے حوالہ سے لکھتے ہیں: "فضل و کمال علمی کے ساتھ ادب و شعر کا ذوق بھی تینوں زبانوں میں تھا، عربی، فارسی اردو تینوں زبانوں کے شاعر تھے، ان کا اردو کلام بہت تھوڑا ہے مگر جتنا ہے انتخاب ہے اور پایہ بلند کے شایان ہے”۔ مفتی صدر الدین آزردہ صاحب کی کوٹھی پر شعراء کرام کی مجلسیں لگا کرتی تھی اور ہر فن کے ماہرین جمع ہوا کرتے تھے۔ اس دور میں ایک کہاوت مشہور تھی کہ اگر دہلی کے تمام در نایاب کو بیک وقت دیکھنا اور ان سے ملنا ہو تو مفتی صدر الدین آزردہ کی کوٹھی کا رخ کیا جائے کہ وہاں سب موجود رہتے ہیں۔

سفر آخرت

1857 کی جنگ آزادی نے مفتی صدر الدین آزردہ کو اندر سے نڈھال کردیا تھا، آپ نے ہنستے کھیلتے گھروں کو اجڑتے دیکھا تھا، اپنے دوست و احباب کو جان کا نذرانہ پیش کرتے دیکھا تھا ان باتوں کا اثر اعصاب پر ہونا فطری بات تھی چنانچہ آخری ایام میں آپ میں نقاہت پیدا ہوگئی اور درس و تدریس کے علاوہ دیگر امور سے خود کو فارغ کرلیا۔ ہمہ وقت طلبہ کرام کے درمیان رہنا پسند کرتے تھے اور تشنگان علوم کے لئے بھی یہ سنہرا موقع تھا کہ وہ ہمیشہ آپ کی کوٹھی پر موجود رہتے تھے۔ لیکن پھر مفتی صاحب پر فالج کا اثر ہوا جس کی وجہ سے ہاتھ اور زبان دونوں متاثر ہوگئے۔ اور یہی فالج ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ اکیاسی سال کی عمر میں بروز جمعرات 24 ربیع الاول 1285 ہجری مطابق 16 جولائی 1868 آپ کا انتقال ہوا۔ دہلی کی جامع مسجد میں آپ کا جنازہ لایا گیا اور عوام و خواص نے اپنی پرنم آنکھوں سے آپ کو الوداع کہا۔

Related Posts

2 thoughts on “مفتی صدر الدین آزردہ: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے