زبان و ادب کے شہسوار مولانا نور عالم خلیل امینی

 زبان و ادب کے شہسوار مولانا نور عالم خلیل امینی

محنت، جفا کشی، عزم و استقلال اور جہد مسلسل انسان کو بلندی کے اس معیار پر لے جاتے ہیں جہاں ہر کس و ناکس کی رسائی ممکن نہیں ہوتی ہے۔ انسان میں ودیعت رکھی گئی خوبیاں، صلاحیتیں، اور اعلیٰ کمالات کا استعمال معدودے چند افراد کے کوئی نہیں کرتا ہے یا بیشتر ان خوبیوں کے ادراک سے غافل رہ جاتے ہیں۔ لیکن اگر صدق دل سے محنت کی جائے تو توجہات قدسیہ کے طفیل وہ کامیابیاں نصیب ہوا کرتی ہیں جنہیں صدیوں تک یاد رکھا جاتا ہے۔ کسب اور فیض الہی نے ایک معمولی اور غیر معروف علاقہ کے فرد (مولانا نور عالم خلیل امینی) کو ایسی خوبیوں اور کمالات سے نوازا تھا جن کی جانب انتساب اہل علم وادب کے نزدیک باعث فخر و مباہات سمجھا جاتا تھا۔ جن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا طالب علم کیلئے علمی معراج تھا۔ جن کی کتابوں کا مطالعہ زبان و ادب اور رموز و اوقاف میں مہارت کیلئے کیا جاتا تھا۔ جن کے لکھے گئے مضامین و مقالات کو باعتبار زبان درجہ سند حاصل تھا۔ جن کی لکھی ہوئی کتاب پر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی گئی ہے۔ ایسی باکمال، بافیض، صاحب علم و فکر، با بصیرت، فہم وفراست سے منور ہستی اور ادراک و احساس کے اعلیٰ ترین مقام پر قائم شخصیت مولانا نور عالم خلیل امینی 3 مئی 2021 کو دار بقا کی جانب کوچ کرگئے۔ مولانا نور عالم خلیل امینی کی ذات موجودہ دور میں علم کے متوالوں کے لئے نعمت تھی جو اب ہمارے درمیان نہیں ہے۔ 

آ! عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں۔
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل۔

مولانا نور عالم خلیل امینی ایک فرد یا شخص کا نام نہیں تھا بلکہ آپ اپنی ذات میں انجمن اور قافلہ تھے۔ آپ تحقیق و تدقیق کی اس خوبصورت وادی کے راہی تھے جن کے سوتے اسلاف تک پہنچتے ہیں۔ خط وکتابت اور انشا پردازی کی منفرد اسلوب کے خالق ہیں۔ 

آپ کی پیدائش 1952 کو سیتا مڑھی میں ہوئی اور آپ کی ابتدائی تعلیم علاقہ کی مشہور و معروف درس گاہ (مدرسہ امدادیہ دربھنگہ) میں ہوئی۔ بعد ازاں آپ نے دارالعلوم مئو، مدرسہ امینیہ دہلی اور دارالعلوم دیوبند سے بھرپور علمی استفادہ کیا۔ آپ کی زندگی پر ان جبال العلوم اور آفتاب و ماہتاب کے گہرے نقوش پائے جاتے تھے، جن کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ پابندی وقت میں آپ ضرب المثل تھے۔ وقت کے نظام الاوقات میں آپ متقدمین علماء کی چھاپ رکھتے تھے۔  غیر ضروری ملاقات سے اجتناب فرماتے اور وقت کو خوب سوچ سمجھ کر مفید کاموں میں استعمال کیا کرتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں غیر ضروری مشغولیات و مصروفیات میں الجھنے کے بجائے مطالعہ میں وقت بِتانے کو ترجیح دیا کرتےتھے، اور آپ کا یہ عمل تادم حیات باقی رہا۔ مولانا نور عالم خلیل امینی کی طالب علمانہ زندگی ان اسلاف و اکابر کی پرتو تھی جنہوں نے کسمپرسی اور غربت و ناداری کے باوجود  علمی میدان میں اپنا لوہا منوایا تھا۔

مولانا نور عالم خلیل امینی دارالعلوم دیوبند میں 

1982 کے حادثہ فاجعہ کے بعد مولانا نور عالم خلیل امینی کو دارالعلوم دیوبند نے باضابطہ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے بلایا۔ ان دنوں آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں درس وتدریس سے متعلق تھے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی رفاقت اور معیت نے مولانا نور عالم خلیل امینی کی صلاحیتوں میں چار چاند لگا دیئے تھے۔ مولانا علی میاں ندوی کے اعتماد نے آپ کے ادبی ذوق و شوق کو مزید مہمیز لگایا،  مولانا علی میاں ندوی کے اعتماد کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنے مضامین و مقالات نظر ثانی کے لئے مولانا نور عالم خلیل امینی کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ 1972 سے 1982 تک تقریباً دس سالوں تک  ندوۃ العلماء سے وابستہ رہے، ان ایام میں آپ کو عربی زبان و ادب کے حوالے سے کافی شہرت مل گئی تھی۔ طلبہ کے درمیان آپ کو خصوصی مقبولیت حاصل تھی اور طلبہ کی وارفتگی آپ کے تئیں قابل دید تھی۔  جس کے نتیجے میں دارالعلوم دیوبند کی جانب سے خصوصاً عربی زبان و ادب کی خدمت کے لئے آپ کو پیش کش کی گئی۔ مولانا علی میاں ندوی کے مشورہ سے آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ نے عربی زبان و ادب میں طلبہ کی راہنمائی فرمائی اور ان کے ذوق و شوق کو اس قدر بلند کیا کہ یہاں کی فضا عربی زبان و بیان کے تعلق سے یکسر تبدیل ہوگئی۔ طلبہ میں علمی قابلیت و صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہا کرتے تھے اور ان کے لئے عربی زبان کے نئے مواد فراہم کرنے میں ہمیشہ جد و جہد کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ 

مولانا نور عالم خلیل امینی اور مولانا وحید الزماں کیرانوی 

مولانا نور عالم خلیل امینی کو سب سے زیادہ مولانا وحید الزمان کیرانوی کی شخصیت نے متاثر کیا تھا۔ آپ کے رہن سہن، وضع قطع، گفتار و رفتار ہر چیز میں مولانا کیرانوی کی چھاپ نظر آتی تھی۔ درس و تدریس میں آپ نہایت پر زور انداز میں اس طرزِ تدریس کے داعی تھے جسے مولانا کیرانوی نے وضع کیا تھا۔ آپ وقفہ وقفہ سے ان باتوں کو اور ان طریقوں کو طلبہ کے درمیان دہراتے رہا کرتے تھے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی تدریس کے زمانہ میں مولانا وحید الزماں کیرانوی کا ایسا تعارف طلبہ کے درمیان کراتے تھے کہ ان کو دیکھے بغیر طلبہ مکمل طور پر پہچاننے پر قادر ہوجایا کرتے تھے۔ آپ طلبہ میں تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے کے داعی تھے، رٹے ہوئے ترجمہ اور تشریح سے حد درجہ گریز کیا کرتے تھے۔ آپ کے فیض یافتگان اس انداز درس وتدریس کے حد درجہ مدح خواں ہیں۔ مولانا وحید الزماں کیرانوی کی رجال ساز شخصیت کا حقیقی پرتو مولانا نور عالم خلیل امینی کی ذات گرامی تھی۔

مولانا نور عالم خلیل امینی کی انشا پردازی

مولانا نور عالم خلیل امینی بے باک، نڈر اور بے خوف قلم کار تھے۔ آپ کے مضامین وقت کی سفاک اور ظالمانہ حکومت کی قلعی کھول دیا کرتے تھے۔ آپ کے مضامین تحقیقی ہوا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی ادارت میں شائع ہونے والا مجلہ (الداعی) خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ آپ نے مظلومین کے حق میں اپنے قلم کے ذریعہ آواز بلند کیا اور ظالمین کے سفاک چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ جن چہروں پر ملکوتی چادریں تنی ہوئی تھی انہیں آپ نے سر عام تحقیق و تدقیق کی میز پر سجا کر عوام کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ ملک کی موجودہ پالیسی پر کھل کر تنقید کی تھی، اور ارباب اقتدار کی ان غلطیوں کی نشاندھی کی تھی جو مستقبل کے لئے مضر ثابت ہونے والی تھی۔ آپ کا شمار ان قلم کاروں میں ہوتا تھا جو ہر حال میں حقیقت حال کو عوام الناس تک پہنچاتے تھے۔ ملک و بیرون ملک کے بیشتر اخبارات و رسائل آپ کے مضامین سے مزین ہوا کرتے تھے۔ آپ کے مضامین زبان و ادب کے اعلی معیار کا نمونہ ہوتے تو دوسری جانب حقائق کو واشگاف کرنے کے باب میں بے مثل ہوتے تھے۔ مصلحت پسندی کے نام پر حقائق سے چشم پوشی کے بجائے حقیقت پسندی کو بیان کرنے میں یقین رکھتے تھے۔

وقت کی پابندی اور بے جا محافل و مجالس میں شرکت سے دوری نے مولانا نور عالم خلیل امینی کو بہترین قلم کار ہی نہیں بلکہ زود قلم بھی بنا دیا تھا۔ آپ بہت زیادہ لکھنے کے عادی تھے۔ آپ نے تقریباً دس کتابیں اردو زبان میں اور اتنی ہی کتابیں عربی زبان میں تحریر فرمائی ہیں۔ جن میں تین کتابیں سوانحی مضامین کا مجموعہ ہے۔ بلکہ ایک کتاب (وہ کوہ کن کی بات) منفرد انداز میں لکھی گئی مکمل سوانح ہے، جسے مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب نے اپنے استاذ محترم مولانا وحید الزمان کیرانوی کی شخصیت کو دنیا سے متعارف کرانے کے لئے مرتب کیا ہے، اپنے فن کی یہ ایسی البیلی کتاب ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مفتی ظفیر الدین مفتاحی نے کہا تھا کہ اگر شاگرد ایسا ہو تو میں جینے سے زیادہ مرنا پسند کروں گا۔ دوسری اہم کتاب پس مرگ زندہ ہے۔ اس کتاب میں آپ نے ان شخصیات پر خامہ فرسائی کی ہے جنہیں آپ نے دیکھا اور جن سے آپ کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں، اسی موضوع پر تیسری کتاب (رفتگان نارفتہ) ہے۔ کیا معلوم تھا کہ اتنی جلدی آپ بھی انہیں مسافرانِ آخرت میں شامل ہوجائیں گے۔ شخصیات پر مضامین و مقالات لکھنے کے باب میں آپ بے مثال تھے، الفاظ و تعبیرات سمیت شخصیت کے ان نمایاں خد و خال کو واضح کرنے میں یقین رکھتے تھے جو ان کا اصل کارنامہ ہے۔ شخصیات پر لکھنے والوں کا عام مزاج ہوتا ہے کہ وہ تعریف و توصیف میں آسمان و زمین کے قلابیں ملاتے ہیں اور مرحوم کی جانب ایسے فضائل و مناقب منسوب کرتے ہیں جو ان کی زندگی کا کبھی حصہ نہیں تھے۔مولانا نور عالم خلیل امینی ؒ کا یہ طرز رہا کہ آپ ذاتی اوصاف ، علمی،سیاسی اور  سماجی خدمات کو بیان کرنے اور ان نمایاں کارناموں کے ذریعہ شخصیات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں یقین رکھتے تھے  جن کی تگ و دو میں مرحوم کی زندگی کا بیشتر حصہ صرف ہوا یا انہوں نے اس میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہو۔ آپ کی کتاب (فلسطین صلاح الدین کے انتظار میں) کافی مقبول ہوئی، اس کتاب میں حالات و واقعات سے آپ نے بہت دور رس نتائج اخذ کئے ہیں۔ فلسطین سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے اس سے بہتر اور معتبر کتاب بہت مشکل سے دستیاب ہوسکتی ہے۔ قضیہ فلسطین کی مکمل روداد بالترتیب شرح و بسط کے ساتھ اس کتاب میں موجود ہے۔مولانا نور عالم خلیل امینی ان خوش نصیب اصحاب علم میں سے ہیں جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ زبان و قلم دونوں سے مالا مال فرماتے ہیں۔ مولانا نور عالم خلیل امینی کی مختصر تقریر جسے آپ نے (حرفِ شیریں) کے نام سے مرتب کیا ہے، اب تک اس کتاب کے تقریباً چالیس ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ یہ عند اللہ مقبولیت کی دلیل ہے۔ عربی زبان میں آپ کی مرتب کردہ کتاب (مفتاح العربیہ) مدارس میں داخل نصاب ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے تقریباً پچیس اہم اور بنیادی کتابوں کا عربی ترجمہ کیا تھا جن میں (علماء دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج) شامل ہے۔ آپ کی یہ کتاب دارالعلوم کے متعلق غلط پروپیگنڈہ کرنے والوں کا  مسکت جواب تھا جو عالم عرب میں مسلک دیوبند کو ایک گمراہ فرقہ کے طور پر پیش کرکے دنیاوی منفعت کے حصول کے خواہاں رہے ہیں۔  

الداعی کے لئے لکھے گئے اشراقہ کا مجموعہ بنام (من وحی الخاطر) پانچ جلدوں میں ہے۔ سیمینار، کانفرنس اور دیگر پروگراموں کے لئے لکھے گئے مضامین و مقالات الگ ہیں۔ عالم عرب کے بیشتر ممالک میں علمی وادبی سیمینارز میں آپ نے شرکت کی ہے اور آپ کے علم و فضل کے قائل وہ اصحاب فکر و نظر بھی رہے ہیں جو اپنی ذات میں انجمن تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ (دیوبندیت) اور اکابرین دیوبند کو آپ نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرکے عالم عرب میں متعارف کرایا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی کی عربی سوانح (الشیخ المقری محمد طیب) لکھ کر حکیم الاسلام کی عبقری شخصیت سے عرب دنیا کو متعارف کرایا۔ حضرت تھانوی کی کتابوں کی تعریب کرکے ان کے علوم وفنون سے عربی زبان والوں کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔ آپ نے بے شمار ایسے علمی کارنامے انجام دیئے ہیں جو صدیوں تک یاد رکھے جائیں گے اور جن کے فیوض وبرکات نسلوں تک باقی رہیں گے۔ 

 آپ کی ادیبانہ شخصیت کہیں نہ کہیں آپ کی علمی پہچان پر حاوی ہوگئی تھی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کو ان سے زیادہ پڑھنے والا اور ان کے اصول و ضوابط کو اپنی زندگی میں ان سے زیادہ برتنے والا شاید کوئی موجود ہو۔ مفتی سعید احمد پالنپوری (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) کی مرتب کردہ کتاب (حجۃ اللہ البالغہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی) پر آپ کا مقدمہ آپ کی جلالت علمی کو بتانے کے لئے کافی ہے۔ تلاوت قرآن اور اوراد و وظائف کے علاوہ تدبر قرآن روزانہ کا معمول تھا، قرآن مجید کے اسرار و حکم اور پوشیدہ خزانوں کی برکت تھی کہ زمانے پر آپ کی رائے زنی اور حالات و واقعات کے تناظر میں پیش آنے والے نتائج کی پیشن گوئی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوا کرتی تھی۔ 

مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کو 2017 میں عربی زبان کی خدمات کے اعتراف میں صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اردو اور عربی زبان و ادب میں آپ فقید المثال تھے۔ موجودہ دور میں اکثر و بیشتر لکھنے والوں پر آپ کی چھاپ نظر آتی ہے۔ مدارس اور یونیورسٹی میں عربی زبان وادب سے وابستہ افراد عموماً آپ سے شرف تلمذ رکھتے ہیں۔ آپ کے لکھے گئے مضامین مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں جنہیں دیکھ کر اور پڑھ کر زبان کے رموز و اوقاف اور اشارات و کنایات کو سیکھا جاتا ہے۔ تقریباً نصف صدی پر محیط آپ کا علمی سفر 3 مئی 2021 کو اختتام پذیر ہوا۔ 

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

Related Posts

5 thoughts on “زبان و ادب کے شہسوار مولانا نور عالم خلیل امینی

  1. Howdy would you mind stating which blog platform you’re working
    with? I’m planning to start my own blog in the near future but I’m
    having a difficult time choosing between BlogEngine/Wordpress/B2evolution and Drupal.
    The reason I ask is because your design and style seems different then most
    blogs and I’m looking for something completely unique.

    P.S Sorry for being off-topic but I had to ask!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے