مولانا فیض الحسن سہارنپوری

مولانا فیض الحسن سہارنپوری: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں جب مسلم حکمرانوں کی حکمرانی ماند پڑ چکی تھی اور رفتہ رفتہ فرنگیوں نے پورے ملک کو اپنے قبضہ تسلط میں لے لیا تھا، اس وقت ہندوستان ایسے نابغہ روزگار ہستیوں کا مسکن و منبع بنا ہوا تھا جس کی نظیر کم از کم تاریخ ہند میں نہیں نظر آتی ہے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کے بھائیوں نے علم تفسیر، علم حدیث اور علم فقہ وغیرہ کے مجالس و محافل سجا رکھے تھے، دوسری جانب مولانا فضل امام خیرآبادی منطق و فلسفہ کی درسگاہ کو زینت بخشے ہوئے تھے، اردو زبان و ادب  کا چمنستان نصیر دہلوی، ذوق دہلوی اور غالب جیسے لوگوں سے معطر تھا اور ہر جانب اپنی بھینی بھینی خوشبو سے لوگوں کو اپنی جانب مائل کئے ہوئے تھا، ان نامور ہستیوں کے علاوہ مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا رشید الدین خان کشمیری، مولانا مملوک علی نانوتوی جیسے جبال العلوم موجود تھے، ان کے درمیان ایک نام جسے تاریخ نے محفوظ نہیں رکھا یا ان کے بعد والوں نے ان پر وہ کام نہیں کیا جن کے وہ مستحق تھے مولانا فیض الحسن سہارنپوری ہیں۔ مولانا فیض الحسن سہارنپوری کو  اگر تاریخ ہندوستان کا عظیم عربی شاعر قرار دیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا بلکہ عربی زبان و ادب کے یہ پہلے ادیب ہیں جنہوں نے قدیم شعرائے عرب کے کلام کو اپنے فن کا محور بنایا اور ان سے استفادہ کی راہیں آسان کیں۔ یوں تو مولانا فیض الحسن سہارنپوری اردو، فارسی اور عربی تینوں زبان کے ماہر ادیب اور باکمال شاعر تھے لیکن آپ کی شہرت عربی ادب کے حوالہ سے زیادہ ہے، سر سید احمد خان، مولانا حالی اور علامہ شبلی نعمانی جیسے افراد نے آپ سے خوشہ چینی کی ہے۔

ولادت

آپ کی ولادت 1816 عیسوی کو سہارنپور میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد علی بخش کا شمار علاقہ کے مالدار ترین رئیسوں میں ہوتا تھا، زمینداری کے علاوہ آپ کا گھرانہ علم و فضل کا بھی مسکن تھا اور اسی وجہ سے علاقہ میں اس گھرانہ کے افراد "خلیفہ” کے لقب سے مشہور تھے۔ عتیق الرحمان اصلاحی صاحب نے آپ کو قریشی بتایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مولانا فیض الحسن سہارنپور خود بھی قریشی لکھا کرتے تھے۔ آپ کے آباء و اجداد نقل مکانی کرکے سہارنپور میں آباد ہوگئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ علمی تفوق اور خاندانی وجاہت کی بناپر علاقہ میں اثر و رسوخ کے حامل تصور کئے جاتے تھے۔ مولانا فیض الحسن سہارنپوری کے والد محترم عربی و فارسی کے اچھے ادیب تھے، اور مولانا کی ابتدائی تعلیم والد ماجد کے زیر سایہ ہوئی تھی۔ بچپن میں تعلیم و تعلم کے بجائے کھیل کود میں زیادہ دلچسپی تھی، طفلانہ کھیل کود کے علاوہ آپ نے پہلوانی میں بھی ہاتھ آزمائے اور زمانہ کے اعتبار سے دیگر ورزشی کھیلوں میں بھر پور حصہ لیا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد ان چیزوں سے طبیعت اچاٹ ہوگئی اور حصول علم کا شوق پیدا ہوا، گھر میں والد محترم کی شکل میں باصلاحیت و صالحیت کے خوگر ذات کی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور قلیل عرصہ میں ان تمام کتابوں کا احاطہ کرلیا جو علاقہ میں رائج تھیں۔ مزید تعلیم کے لئے سہارنپور میں آپ کو تشفی پیدا نہیں ہوئی، چنانچہ آپ مرکز  علم و دانش دہلی تشریف لے گئے اور صدر الصدور مفتی صدر الدین آزردہ کی درس گاہ سے وابستہ ہوگئے اور پھر منطق و فلسفہ اور ادب کی تعلیم میں رسوخ پیدا کرنے کے لئے رامپور روانہ ہوگئے جہاں مولانا فضل حق خیرآبادی اپنی مجلس علم سجائے تشنگان علوم کی سیرابی کا سامان فراہم کررہے تھے۔ دہلی و رامپور کے علاوہ آپ لکھنو کے علماء کی درسگاہوں سے بھی وابستہ رہے تھے۔ ڈاکٹر حامد علی خان کے مطابق آپ نے شیخ احمد سعید سے روحانی استفادہ کیا اور ظاہری علوم سمیت باطنی علوم میں تکمیل کے لئے ان سے منسلک ہوگئے۔ یہ اس دور کا رواج اور عام دستور تھا کہ ظاہری علوم سے فراغت کے بعد باطنی علوم میں تکمیل پیدا کرنے اور اصلاح قلب کی خاطر خانقاہوں میں مقیم اولیاء اللہ کی صحبت میں بیٹھ کر تزکیہ قلوب کیا کرتے تھے۔

عملی زندگی کا آغاز

تعلیم سے فراغت کے بعد آپ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے اور چند دنوں میں آپ کی شہرت پھیل گئی۔ اسی زمانہ میں سر سید احمد خان نے آپ سے مقامات حریری سبعات معلقہ اور دیگر کتابیں پڑھیں۔ 1857 میں جب دہلی اجاڑ دی گئی اور مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ شان و شوکت خاک و خون  میں تبدیل ہوکر ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہوگئی تو دہلی کے معزز اور باحیثیت مسلمان جنہوں نے 1857 میں انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا، ان سب کو تیہ تیغ کردیا گیا یا پھر ان کے اسباب و وسائل اور مال و دولت پر قبضہ جمالیا گیا تھا۔ ایسے جنگ زدہ ماحول میں مولانا فیض الحسن سہارنپوری نے دہلی کو خیر باد کہنے میں عافیت سمجھی اور اپنے وطن سہارنپور واپس آگئے۔ سہارنپور واپسی کے بعد آپ نے ذریعہ معاش کے لئے ملازمت اختیار کی لیکن بہت جلد دل اچاٹ ہوگیا۔ 1857 کے بعد سر سید احمد خان نے سائنٹیفک سوسائٹی قائم کرلیا تھا اور اس کے تحت وہ بعض کتابوں کا عربی ترجمہ کرانا چاہتے تھے۔ سر سید احمد خان مولانا فیض الحسن کی عبقری شخصیت اور ان کے عربی زبان و ادب کی مہارت سے بخوبی واقف تھے، انہوں نے اپنے استاذ کو 1864 میں اپنے پاس بلا لیا۔ مولانا کچھ دنوں تک وہاں مقیم رہے، لیکن مولانا فیض الحسن سہارنپوری علوم ظاہریہ سمیت علوم باطنیہ میں بھی دسترس رکھتے تھے، علاوہ ازیں وہ قرآن و حدیث میں بے جا تاویلات اور جدید علوم کو کُل کائنات سمجھنے کے فلسفہ کے مخالف تھے یہی وجہ ہے کہ سر سید احمد خان سے ان کی زیادہ نہیں بنی اور 1870 میں مولانا لاہور کے اورینٹل کالج کے شعبہ عربی سے منسلک ہوگئے۔

مولانا فیض الحسن اور لاہور اورینٹل کالج 

1870 میں مولانا فیض الحسن علوم شرقیہ کے استاذ کی حیثیت سے لاہور اورینٹل کالج منتقل ہوگئے۔ یہاں رہتے ہوئے آپ کو مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع میسر ہوا۔ آپ نے اپنی ادارت میں عربی زبان کا نہایت معتبر اور معیاری مجلہ "شفاء الصدور” شائع کرنا شروع کیا، جس میں عموما تمام مضامین آپ کے ہوا کرتے تھے۔ اس رسالہ کا اثر صرف مولانا کی ذات تک محدود نہیں تھا بلکہ پورا کالج اس سے متاثر ہوا اور ایک ایسا علمی ماحول قائم ہوگیا جہاں ہر طرف علم دوستی کی فضا قائم ہوگئی تھی۔غیر معمولی طور پر عربی زبان و ادب کا رواج بڑھنے لگا، طلبہ کرام کے شوق کا عالم یہ تھا کہ وہ کالج کے علاوہ گھرخارجی اوقات میں بھی مولانا سے مستفید ہونے کے متمنی رہا کرتے تھے۔ کالج کے علاوہ ذاتی طور پر آپ سے استفادہ کرنے والے طلبہ کرام کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا، حالت بایں جا رسید کہ مولانا قلت وقت کے شکار ہوگئے۔ مولانا کی مصروفیت اور طلبہ کرام کی علمی تشنگی کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جسے عتیق الرحمان اصلاحی نے بیان کیا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی جب اعظم گڈھ سے لاہور مولانا فیض الحسن سہارنپوری سے پڑھنے کے لئے گئے تو کالج میں داخلہ کا زمانہ ختم ہوچکا تھا۔ علامہ شبلی نے خارج میں پڑھانے کی درخواست کی لیکن خارج میں استفادہ کرنے والے طلبہ کرام کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ مزید کی گنجائش نہیں تھی۔ پھر یہ طے ہوا کہ مولانا کالج سے گھر آتے ہوئے درمیان راستہ میں جو وقت ہے اس میں پڑھادیں۔ چنانچہ استاذ و شاگرد کے اس جذبہ نے امام محمد شیبانی اور امام محمد بن ادریس شافعی کی یاد تازہ کردی۔ علامہ شبلی نے لاہور میں رہتے ہوئے اسی طرح مولانا سے کسب فیض کیا اور مقصد کی تکمیل کی۔ علامہ شبلی بذات خود ایک بلند پایہ محقق اور زبان و ادب کے استاذ ہیں لیکن آپ نے مولانا فیض الحسن سہارنپوری سے جو استفادہ کیا اور ان کی ذات کا علمی اثر جو علامہ کی  ذات پر ہوا وہ تاحیات باقی رہا۔ علامہ سید سلیمان ندوی "حیات شبلی” میں لکھتے ہیں: "واقعہ یہ ہے کہ اسی درس نے مولانا میں عربی علم ادب کا صحیح مذاق حد کمال کو پہنچایا”۔ آگے لکھتے ہیں: "مولانا فیض الحسن صاحب کا سب سے بڑا فیض قرآن پاک کا معجزانہ فصاحت و بلاغت کی نکتہ شناسی تھی، مولانا فیض الحسن صاحب اسی اصول سے قرآن پاک کا بامحاورہ اردو ترجمہ اپنے خاص طالب علموں کو پڑھاتے اور فصاحت و بلاغت کے نکتے بتاتے تھے، مولانا شبلی مرحوم میں یہ ذوق اخیر تک زندہ رہا”۔

عربی زبان و ادب کے حوالہ سے مولانا کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے عام دستور سے ہٹ کر قدیم عرب شعرا کے کلام کو ہندوستان میں متعارف کرایا، نیز درس و تدریس میں انہیں کتابوں پر زیادہ توجہ دیا کرتے تھے۔ رائج الوقت کتابوں کے علاوہ نادر و نایاب کتابوں کے درس کی وجہ سے مولانا کا ادبی ذوق نہایت بلند اور قابل قدر ہوچلا تھا۔ عربی زبان کے علاوہ فارسی اور اردو زبان پر بھی مہارت تامہ حاصل تھی، تینوں زبانوں میں شعرو شاعری کیا کرتے تھے بلکہ زمانہ لاہور میں بسا اوقات اپنے شاگردوں کے ساتھ مشاعرہ میں بھی حاضری لگا لیا کرتے تھے۔ آپ کی بیس سے زائد تصانیف ہیں۔اورینٹل کالج میں آپ کی علمی و ادبی خدمات سے متاثر ہوکر وہاں کی انتظامیہ نے حکومت سے آپ کے لئے "شمس العلماء” کے خطاب کی سفارش کی لیکن جب مولانا اس سے آگاہ ہوئے تو انکار فرمادیا۔ در اصل مولانا نہایت متواضع منکسر المزاج اور صوفی مزاج انسان تھے۔ ابتدائی زمانہ سے ہی علوم ظاہریہ سمیت علوم باطنیہ سے بھی مستفید ہوتے رہے تھے اس لئے دنیاوی نقش و نگار اور جاہ و جمال کی خواہش دل میں کبھی پیدا نہیں ہوتی تھی۔عموما یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ زبان و ادب سے زیادہ گہری دلچسپی رکھنے والے حضرات تصوف و سلوک کی جانب مائل نہیں ہوتے ہیں لیکن مولانا چونکہ خود ایک صاحب علم انسان تھے اس لئے آپ نے ابتدا سے ہی اس کا التزام رکھا تھا اور اخیر میں سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے دامن ارادت سے وابستہ ہوگئے۔

مولانا  فیض الحسن کی تصانیف

تعلیقات الجلالین: جلالین شریف جو کہ علم تفسیر کی اہم کتاب ہے جو تقریبا بیشتر مدارس میں داخل نصاب ہیں، مولانا نے اس پر مفصل اور جامع حاشیہ لکھا ہے۔

بیضاوی شریف: علم تفسیر کی نہایت اہم کتاب ہے۔ مولانا نے اس پر بھی حاشیہ لگانے کا کام کیا ہے اور ان تمام جگہوں کو تقریبا حل کرنے کی کوشش کی ہے جہاں طلبہ کرام کو دقتیں پیش آتی ہیں۔

مشکوۃ المصابیح: مشکوۃ المصابیح ایک طویل زمانہ تک ہندوستان میں علم حدیث سے انتہائی کتاب کی حیثیت سے علماء رکرام کے درمیان رائج رہی ہے اور آج بھی یہ کتاب عموما مداس میں داخل ہیں۔ اس پر مولانا کا اہم اور علمی حاشیہ موجود ہے۔

شرح حماسہ فیضی: اس کتاب کی اہمیت و افادیت عربی زبان و ادب کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ لیکن جس طرز پر آپ نے شرح کو مرتب کیا ہے اس سے قبل اس طرح کی کوئی شرح نظر نہیں آتی ہے۔

ریاض الفیض: یہ سبعہ معلقہ کی شرح ہے۔ یہ مولانا کا وقیع ادبی کارنامہ ہے جو مولانا کو دیگر ادباء سے ممتاز کرتا ہے۔

تحفہ صدیقیہ: علم حدیث سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اس حدیث کی اہمیت سے واقف ہیں، آپ نے یہ رسالہ اپنے کسی دوست کو لکھ کر بھیجا تھا جسے بعد میں شائع کردیا گیا تھا۔

روضہ فیض (فارسی مثنوی)۔ مثنوی صبح عید (اردو)۔ کلزار فیض (اردو)۔فیضیہ (مثنوی)۔ چشمہ فیض (فارسی مثنوی)۔ نسیم فیض (فارسی کلام)۔  فیض القاموس (عربی لغت)۔ الشفا الصدور (عربی مجلہ)۔ یہ بعض تصانیف ہیں جو مولانا نے مستقل درسی خدمات انجام دینے کے باوجود مرتب فرمایا تھا۔

سفر آخرت

مولانا فیض الحسن سہارنپوری نے نوجوانی میں تعلیم و تعلم سے قبل پہلوانی اور دیگر آلات حرب و ضرب میں اچھی مہارت حاصل کی تھی۔ چنانچہ اخیر عمر تک پہلوانی کے اثرات آپ کی صحت پر باقی تھے۔ لیکن 6 فروری 1887 کو لاہور میں اچانک آپ کو ایک سانپ نے ڈس لیا جس کے زہر سے آپ جانبر نہ ہوسکے اور لاہور میں ہی انتقال ہوگیا۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو سہارنپور لایا گیا اور تجہیز و تکفین کا عمل سہارنپور میں انجام دیا گیا۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے