مدارس کو جزیرہ نہ بنائیں
اہل مدارس کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا سرا ” اصحاب صفہ” سے ملتا ہے، صفہ مذہب اسلام کی پہلی دینی درسگاہ ہے جہاں دور دراز علاقوں سے آنے والے صحابہ کرام اور بعض مدینہ منورہ میں رہنے والے اصحابِ رسول دینی تعلیم کے لیے جمع ہوتے تھے اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہیں دین کی باتیں سکھایا کرتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب وفود کی کثرت ہوئی اور قبیلہ در قبیلہ اسلام کے دامن میں پناہ لینے لگے تو ان قبائل کی دینی ضروریات کی تکمیل کے لیے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم عموماً ان کے ہمراہ مدینہ منورہ سے حسب ضرورت لوگوں کو بھیجا کرتے تھے، ان میں بیشتر یہ اصحاب صفہ تھے جو بحیثیت معلم بھیجے جاتے تھے۔ اصحابِ صفہ ہمہ وقت ہر طرح سے دین اسلام کی اشاعت و ترویج اور حفاظت و صیانت کے لیے تیار رہا کرتے تھے۔ ان میں قرآنی علوم کے ماہرین، میدان جنگ کے مجاہدین، علم فقہ کے واقف کار اور احادیث نبویہ کے محافظ سب تھے اور ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
ہمارے ملک ہندوستان میں موجودہ طرز پر مدارس کی داغ بیل ڈالنے کا سہرا مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے رفقاء کار کو جاتا ہے جنہوں نے حالات و واقعات کو بھانپ لیا تھا اور ہندوستان میں دین اسلام کی حفاظت کا ذریعہ تلاش کر لیا تھا۔ ڈیڑھ سو سال قبل شروع کئے گئے کام کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کے متعلق کچھ لکھنا اور بولنا بے سود ہے۔ اس نازک ترین دور میں بھی اسلام کی شمع روشن کرنے والے وہی حضرات ہیں جو مدارس سے وابستہ ہیں یا مدارس کے خوشہ چیں ہیں۔ الحاد و ارتداد اور بے حیائی و بے غیرتی کے اس دور میں بھی امید کی کرن یہ مدارس ہیں اور جو تھوڑا بہت کام نظر آرہا ہے ان میں اہل مدارس سر فہرست ہیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مرور ایام اور گردش زمانہ کے ساتھ انسانی ضرورتیں اور افکار ونظریات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذہب اسلام میں ایسی خاصیت پیدا فرمائی ہے کہ یہ ہمیشہ زمانہ کی رفتار اور تبدیلی کے ساتھ آگے بڑھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ورنہ تو یقیناً مادی وسائل کی بھرمار اور حیران کن ترقیات کے اس دور میں مذہب اسلام کی اشاعت و ترویج اور ہم آہنگی مشکل امر ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے اور زمانہ کے اعتبار سے علماء کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں نئے مسائل کا استنباط کرتے رہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی مدارس کے ساتھ بھی ہونا چاہیے تھا لیکن شاید ایسا نہیں ہوسکا۔ مدارس کے طرز تعلیم اور طریقہ تعلیم پر دو وجوہ سے غور کرنا ضروری ہے۔ (اول) یہ ماننا چاہیے کہ مولانا قاسم نانوتوی نے جن ایام میں مدارس کا یہ سلسلہ شروع فرمایا تھا اب وہ حالات نہیں رہے، اور زمانہ بیل گاڑی سے ہوائی جہاز تک کا سفر طے کر چکا ہے۔ (دوم) مولانا قاسم نانوتوی نے متحدہ ہندوستان میں اس نصاب تعلیم کو رائج کیا تھا۔ بقول صاحب "سوانح قاسمی” مولانا نانوتوی اس نصاب پر تکیہ کرنے والے نہیں تھے بلکہ وہ مزید تبدیلی کے خواہاں تھے لیکن عمر نے وفا نہ کی اور وہ رخصت ہوگئے۔ سانحہ تقسیم کے بعد ملک ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی قیادت کے لیے ضروری تھا کہ وہ مستقبل کے تانے بانے بننے کی کوشش کرتے اور مدارس کے ذریعے نئے طرز پر وہ کام کرنے کی کوشش کرتے جو مولانا قاسم نانوتوی نے سلطنت مغلیہ کے بعد مذہب اسلام کی بقا اور مسلمانوں میں دینی علوم کو باقی رکھنے کے لیے کیا تھا۔
بہر حال اب یہ افسانہ ماضی ہے جس پر کلام کرنا بے سود ہے، لیکن اب، موجودہ دور میں جبکہ چہار جانب سے مسلمان بے بس و لاچار بنے ہوئے ہیں۔ غربت و افلاس، بے حیائی، الحاد و ارتداد اور مسلم نوجوانوں کی مذہب اسلام سے دوری نے حالات کو سنگین تر بنا دیا ہے، ہمیں یہ سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ کیا اہل مدارس اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں پورے اتر رہے ہیں۔ یہ ایسا سوال ہے جس کے دو رخ ہیں، ایک یقیناً قابل ستائش ہے کہ آج بھی مسلم قوم میں دینی معلومات رکھنے والے اور دینی قیادت کے فرائض کو انجام دینے والے اہل مدارس ہیں۔ جہاں بھی ہیں جیسے بھی ہیں دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں لیکن اس کا دوسرا رُخ یقیناً قابل افسوس ہے۔ آج ہم نے مدارس کو ایسے جزیرہ میں تبدیل کردیا ہے جس کا رابطہ باقی مسلم دنیا سے کمزور ہوگیا ہے بلکہ دن بدن مزید کمزوری پیدا ہوتی جارہی ہے۔ آج ضرورتوں کے مطابق وفود کے بھیجنے اور عوامی اصلاحات کا سلسلہ تقریباً بند ہوتا جارہا ہے۔ الحاد و ارتداد کی جانکاہ خبریں روز ہماری سماعت سے ٹکراتی ہے لیکن ان کے روک تھام کی خاطر خواہ سبیلیں پیدا نہیں کی جارہی ہیں۔ مسلم نوجوانوں میں دین سے دوری لا علاج مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے لیکن ان میں دینی معلومات کے لیے اقدامات بمشکل کئے جارہے ہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے اور یہی حقیقت ہے، حقیقت سے چشم پوشی، خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، اس لئے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مدارس کے رابطے عوام سے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ہم اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے عوام و خواص کے پاس جاتے ہیں لیکن ان کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہم عوام کے درمیان نہیں جاتے ہیں۔ اسلاف و اکابر کی بے لوث خدمت، ان کے واقعات، ان کے حالات اور ان کے بتائے ہوئے اصول کتابوں میں کہیں گم ہوتے جارہے ہیں لیکن اب یہ سب ہماری زندگیوں سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں۔ مولانا محمد علی مونگیری نے جب فتنہ ارتداد کے خلاف محاذ کھولا اور قادیانیت کے خلاف کمر بستہ ہوئے تو گاؤں گاؤں قریہ قریہ اس مشن کو لے کر پہنچے اور علاوہ ازیں قادیانیت کی دسیسہ کاریوں اور مذہب اسلام کی حقانیت کے تعلق سے اس کثرت سے کتابیں اور کتابچے چھپوائے کہ مولانا خود کہتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ ان رسائل کو اس کثرت سے عوام کے درمیان پھیلا دیا جائے کہ ایک مسلمان جب صبح نیند سے بیدار ہو تو اس کے سرہانے یہ کتابچے موجود ہوں۔ یہ فکر اور غم تھا جس نے آپ کو اپنے عملی جد وجہد میں کامیابی و کامرانی سے سرفراز فرمایا تھا۔
وہ جزیرے جو باقی دُنیا سے اپنے رابطے کمزور کرتے ہیں وہ دراصل خود اپنی کمزوری کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔ اس لئے اب اہل مدارس کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان مدارس کے سوتے خشک نہ ہونے پائے اور ماضی کی طرح ان کے فیوض و برکات سے امت مسلمہ مستفید ہوتی رہے۔