اسلام اور مغربی تہذیب

اسعد اقبال قاسمی

استاذ مدرسہ اشرف العلوم ہاوڑہ

جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کی تہذیب و ثقافت کا جائزہ لیتے ہیں تو اسلام ایک ایسے دین کے طور پر سامنے آتا ہے جو مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے۔ یہ فرد کے ساتھ معاشرہ کی بھی اصلاح کرتا ہے، یہ عبادت کے ساتھ حکومت کا طریقہ بھی سکھاتا ہے، یہ حکمرانی کے ضوابط بھی بتاتا ہے اور رعایا کے حقوق بھی، یہ مردوں کو ان کے اختیارات سے آگاہ کرتاہے اور عورتوں کو بھی سر بلندی اور عزت عطا کرتا ہے۔ یہ وہ مذہب ہے جو گھر سے لےکر مسجد اور بازار تک زندگی کے ہر قدم، ہر مرحلے پر انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے عمل کے لیے صحیح اور سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔یہ مذہب اسلام کی انفرادیت اور جامعیت ہے کہ اس نے زندگی کے کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔

دوسری طرف جب  ہم مغربی تعلیم، تہذیب اور ثقافت پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی بنیاد اسلامی افکار و اقدار کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔ گویا کہ اس کی سرشت اور فطرت میں اسلام دشمنی کو پیوست کردیا گیا ہے۔ آزادی کے نام پر اس نے اپنے آپ کو انسانیت، اخلاقیات، معاشرت اور شرم و حیا کی حدود و قیود سے آزاد کرلیا ہے۔ عورت کو مکمل آزادی دے کر جنسی اباحت، عریانی اور فحاشی کو رواج دیا اور خاندانی نظام کو تباہ و برباد کر دیا۔ عورتوں، بچوں اور کمزوروں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر ان کا استحصال کیا۔ اس نے مادی ترقی کے ساتھ ساتھ سود، شراب، جوا اور مختلف سماجی برائیوں کو بھی جنم  دیا۔اس تہذیب نے مادی اعتبار سے جتنی زیادہ ترقی کی اس سے کہیں زیادہ روحانی اعتبار سے زوال کا شکار ہوئی۔ خیر و شر میں امتیاز سے عاری یہ تہذیب اخلاقی احساس سے بھی دستبردار ہوگئی۔ اور جب یہ احساس کسی قوم سے نکل جاتا ہے تو اس کا اجتماعی وجود رفتہ رفتہ ختم ہونا شروع ہوجا تا ہے۔

آج بظاہر اسی تہذیب کے پیروکار اور اسی ثقافت کے علمبردار زندگی کے ہر میدان میں ترقی کے منازل طے کر رہے ہیں۔ علوم و فنون، فلکیات و طبعیات، سیادت و قیادت، سائنس وٹیکنالوجی غرض کہ تمام شعبوں میں اسی کی حکمرانی ہے۔ اس نے اپنی استعماری قوت اور روباہی فراست کے ذریعہ پوری دنیا کو اپنی تہذیب و ثقافت کا گرویدہ بنالیا ہے۔دنیا کے گوشہ گوشہ اور چپہ چپہ میں اس کے اثرات نمایا ں ہیں۔ مغربی طرز زندگی عام انسانوں کی ضرورت بن گئی اور مغربی نظام تعلیم دنیاوی ضرورت بنادی گئی ہے۔

مغرب نے انسان کو انسانیت نوازی، خدا پرستی، تقوی و پرہیز گاری، روحانیت اور اخلاقیات سے عاری کرنے کے لیے تعلیمی ڈھانچے کو ہی مکمل تبدیل کردیا۔ اور مادہ پرستی، جاہ طلبی اور عیش پرستی کو زندگی کا اہم مقصد قرار دے کر ایک نیا نظام تعلیم مرتب کیا۔ نتیجتاً اب ہر شخص دینی تعلیمات، اخلاقیات اور روحانیت کو پس پشت ڈال کر دنیاوی آسائشوں کو حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے؛ تاکہ اس کا معیارِ زندگی بلند ہوسکے اور معاشرہ میں اس کو عزت و وقار حاصل ہوجائے۔مغربی تہذیب کی آندھی نے دیگر تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کو خس و خاشاک کی مانند ہوا میں گم کردیا ہے۔ اب ہر جانب اسی کا دور دورہ اور بول بالا ہے۔ اب کوئی تہذیب کوئی ثقافت مغربی تہذیب و ثقافت سے زیادہ موثر اور معتبر نہیں رہ گئی ہے، دیگر اقوام و ملل کی تہذیب کے برعکس اس تہذیب کے چیلنج کا سب سے زیادہ سامنا اسلامی تہذیب و ثقافت کو ہی تھا، اس لیے کہ اُس وقت یہی تہذیب دینی و اخلاقی اور دنیاوی طور پر انسانیت کے لیے ایک کامل و مکمل تہذیب تھی۔آج بھی دنیا کے کسی گوشہ میں اگر مغربی تہذیب کمزور ثابت ہورہی ہے تو وہ مذہب اسلام کی تہذیب کی بدولت ہے۔

ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں

"یہ بالادستی شروع میں سیاست، عسکریات، تجارت اور معیشت کے میدان میں تھی اور اتنی زیادہ خطرناک نہیں تھی۔لیکن بالتدریج اس کا اثر مسلمانوں کی ذہنیت پر، مسلمانوں کے خیالات و افکار پر اور بالآخر تہذیب و تمدن پر پڑنا شروع ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دنیائے اسلام کے پیشتر حصے میں تعلیم یافتہ اور بااثر حضرات کی بڑی تعداد نے مغرب کے تصورات، مغرب کے خیالات اور مغرب کے افکار کو ایک طے شدہ اصول اور قابل قبول معیارکے طور پر اپنا لیا”۔

 مغربی تہذیب عہدِ وسطی میں

قرون وسطی میں مغرب یا مغربی تہذیب کا کوئی وجود نہیں تھا۔ مغرب علوم و فنون سے نابلد، تہذیب و تمدن سے ناآشنا اور سیادت و قیادت سے محروم ایک تہذیب تھی۔ تعلیمی مراکز جو اصل منبع ہوتا ہے انسانی تعمیر و ترقی کا نہ کے برابر تھے۔اہل یورپ کا یہ وہ دور تھا جسے آج بھی یہ (Dark age of history) کہتے ہیں۔

 جاگیر دارانہ نظام (Feudalism) کا رواج تھا جس میں عام انسان کی کوئی قیمت نہ تھی، انسانوں کو جانوروں اور آلاتِ زراعت کی طرح استعمال کیا جاتا تھا، اسے اپنے مستقل وجود کا احساس تک نہ تھا۔ وہیں مسلم قوم ایک طاقتور قوم تھی، زندگی کے ہر میدان میں اس کو بالادستی حاصل تھی۔ دینی علوم، افکار و نظریات، اخلاقیات اور روحانیت کے ساتھ تمام دنیاوی علوم و فنون، فلکیات و طبعیات، سائنس وٹیکنالوجی اور طب میں ماہر یہ قوم سیادت و قیادت کے تخت پر بیٹھ کر پوری دنیا پر حکومت کررہی تھی۔

ترقی کی بنیاد

کسی بھی قوم یا تہذیب کی تعمیر و ترقی اور استحکام کی بنیاد اس امر پر ہے کہ وہ قوم کسی ایک خاص نظریہ حیات، اصول و ضوابط اور نصب العین سے جڑی ہوئی ہو، اور وہ بحیثیت مجموعی اس نظریہ حیات اور ان اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہو۔ یہی اصل کامیابی کی کلید ہے، اسی سے اتحاد و اتفاق کی راہیں ہموار ہوتی ہیں، باہمی اور فکری ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر وہ قوم علمی، سماجی، معاشرتی، معاشی، اور سیاسی طور پر ترقی کے منازل طے کرتی چلی جاتی ہے۔

مسلم قوم اجتماعی طور پر جب تک اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہی، اسلامی افکار و اقدار سے اس کا گہرا تعلق رہا، وہ زندگی کے سارے شعبوں میں ساری دنیا سے آگے تھی۔ لیکن جب اس تعلق میں ضعف آنا شروع ہوا تو ہر چیز میں ضعف اور انحطاط کا شکار ہوتی چلی گئی۔ اس ضعف کو ختم کرنے اور عظمت رفتہ کے حصول کا ایک ہی راستہ ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی اپنے منبع اور سرچشمہ یعنی اپنے دین، نظریہ اور اپنی تہذیب سے جڑ جائے۔

 

Related Posts

One thought on “اسلام اور مغربی تہذیب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے