امام ابو حنیفہ سوانح و افکار

امام ابو حنیفہ سوانح و افکار

تبصرہ بر ‘امام ابو حنیفہ سوانح و افکار’

 

امام شافعی نے حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہ کی شان میں فرمایا تھا”الناس کلھم عیال فی الفقہ علی ابی حنیفہ”۔ امام شافعی کا یہ جملہ امام ابو حنیفہ کی عظمت شان میں اضافہ نہیں کرتا ہے بلکہ امام صاحب کی صحیح قدر وقیمت اور مرتبہ کو بتانے کے لئے یہ جملہ استعمال کیا گیا ہے۔ تدوین فقہ میں امام ابو حنیفہ نے جو کارنامے انجام دیئے ہیں اور جن طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے فقہ کی تدوین کی ہے وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ آج پوری دنیا میں سب سے زیادہ فقہ حنفی کی اتباع کرنے والے مسلمان موجود ہیں اور خصوصا بر صغیر میں فقہ حنفی کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ امام ابو حنیفہ کی حیات و خدمات اور آپ کی کاوشوں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور مستقبل میں بھی بہت کچھ لکھا جائے گا کیونکہ آپ کی شخصیت عالم اسلام کی ان چیدہ اور چنندہ شخصیات میں سے ہیں جن سے ہر دور اور ہر زمانے کے لوگ یکساں طور پر استفادہ کرر ہے ہیں۔ حالانکہ ماضی قریب میں اہل اسلام میں بعض ایسے افراد پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہ کی شخصیت کو کئی طرح سے مجروح کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی تمام کوششیں سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہیں اور ان کی ذہنیت کے پس پردہ علمی اختلاف نہیں بلکہ مسلکی عناد پوشیدہ ہے۔ مذکورہ بالا کتاب "امام ابو حنیفہ سوانح و افکار” میں صاحب کتاب مفتی امانت علی قاسمی نے اس اہم گوشہ پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔

کچھ صاحب کتاب کے بارے میں

مفتی امانت علی قاسمی کو اللہ تعالی نے بے پناہ خصائص و فضائل سے نوازا ہے۔ آپ فقہی بصیرت کے حامل ہیں اور فقہ اکیڈمی اور جمعیۃ علماء ہند کے بینر تلے ادارہ مباحث فقہیہ میں کئی سالوں سے شرکت کر رہے ہیں۔ موجودہ وقت میں فقہ و فتاوی میں آپ کی آراء کو ترجیحی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ، علاوہ ازیں، ‘فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند’ کی ترتیب و اشاعت کے لئے جس کمیٹی کا انتخاب کیا گیا اس میں آپ بھی شریک رہے ہیں اور شبانہ و روز کی محنت شاقہ کے بعد اب تک پانچ جلدیں زیور طبع سے آراستہ ہوکر آچکی ہیں۔ ملک اور بیرون ملک کے کئی مجلات میں آپ کے مضامین تسلسل سے شائع ہوتے ہیں اور گزشتہ سال  اپنی ادارت میں اپنے علاقہ کے لوگوں میں دینی بیداری پیدا کرنے کے لئے ‘سہ ماہی مجلہ بنام صبح نو’ شروع کیا ہے، جس کے اثرات نظر آرہے ہیں۔ کرونا وائرس کے دوران جب پورے ملک میں تالہ بندی تھی اور نماز با جماعت، جمعہ کی نماز نیز عیدین کی نماز اور دیگر مسائل شرعیہ کی ادائیگی میں دقت اور پریشانیاں پیش آرہی تھیں اس وقت آپ نے ‘کرونا وائرس اسلامی ہدایات اور جدید مسائل، لکھ  کر امت کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیا تھا۔ علاوہ ازیں آپ نے ترمذی شریف کی شرح ‘تحفۃ العبقری’ کی ترتیب کا کام بھی انجام دیا ہے۔

کچھ کتاب کے بارے میں

کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر باب کے تحت چند فصلیں بیان کی گئی ہیں تاکہ تمام باتوں کو علیحدہ طور پر مکمل وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے اور قاری کو مکمل سیرابی حاصل ہوجائے۔ کتاب کا پہلا باب "حیات و افکار” کے نام سے ہے۔ اس باب میں صاحب کتاب نے امام ابو حنیفہ کی سیرت کے نقوش ، معاشی سرگرمیاں، سیاسی افکار، امام صاحب کی فراست نیز اس باب میں ایک اہم فصل امام ابو حنیفہ اور تصوف ہے۔ امام ابو حنیفہ کی زندگی کا یہ وہ پہلو ہے جس پر بہت کم گفتگو کی گئی ہے اور یا پھر بیشتر سوانح نگار نے اس پہلو کو نظر انداز کردیا ہے۔ جس طرح فقہ میں امام ابو حنیفہ کے تلامذہ کی کثیر تعداد ہیں تصوف میں بھی آپ کے تلامذہ شہرت کے حامل ہیں۔ حضرت ابراہیم بن ادہم، حضرت داؤد طائی، حضرت فضیل بن عیاض اور بشر حافی جیسے صوفیاء کرام نے امام صاحب سے تصوف و سلوک میں استفادہ کیا ہے۔

 

کتاب کا دوسرا باب امام ابو حنیفہ کی ‘علمی خدمات’ پر مشتمل ہے۔ امام صاحب کے متعلق عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ انہوں نے فقہ کی تدوین میں حدیث کے بجائے قیاس کا زیادہ استعمال کیا ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ کی حیثیت ائمہ حدیث کے نزدیک کیا ہے، اور انہوں نے امام ابو حنیفہ کی شخصیت کو علم حدیث میں کیا مقام دیا ہے، یہ قابل مطالعہ ہے۔  علم حدیث کی مختلف شاخوں پر امام صاحب کو دسترس حاصل تھا اور وہ ان ابواب میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔ فقہ حنفی کی تدوین میں امام ابوحنیفہ نے جس قدر جانفشانی سے کام لیا ہے، اس کی نظیر تاریخ اسلام میں نہیں ملتی ہے۔ امام صاحب نے فقہ کی تدوین کے لئے باضابطہ شورائی نظام بنا رکھا تھا جس میں باکمال اور بافیض افراد شامل تھے۔ ہر مسئلہ پر سیر حاصل بحث ہوتی اور تمام اختلافات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط کیا جاتا تھا۔ امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر، قاسم بن معن، عافیہ بن یزید، یحیی بن زکریا، یوسف بن خالد اور داؤد طائی جیسے افراد پر یہ انجمن مشتمل تھی۔

کتاب کا تیسرا اور آخری باب ‘امام ابو حنیفہ اہل علم کی نظر میں’ ہے۔ اس باب میں صاحب کتاب نے پہلی فصل میں نہایت عرق ریزی سے ایسے نادر و نایاب  جواہر و موتی کو                   سمیٹنے کا کام کیا ہے جو عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔ ائمہ حدیث اور ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال کو بیان کرنے کے ساتھ ان کے حوالے درج کئے گئے ہیں اور اس بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام صاحب کا مقام و مرتبہ علم حدیث میں مشغول رہنے والے افراد کے درمیان کیا تھا اور انہوں نے امام صاحب کی شخصیت کو اپنے لئے اور علوم اسلامیہ کے لئے کیا پایا ہے۔ ائمہ حدیث میں بیشتر وہ افراد ہیں جنہوں نے بلاواسطہ یا بالواسطہ امام ابو حنیفہ سے استفادہ کیا ہے۔ سفیان ثوری، امام مالک، سفیان بن عیینہ، امام شافعی، یحیی بن سعید القطان، یحیی بن معین، امام احمد بن حنبل اور دیگر ارباب فضل و کمال کے اقوال اور اعترافی بیانات کو یکجا کردیا گیا ہے۔ اس باب میں ایک اہم فصل ہے جو موجودہ وقت میں ہر عالم کے لئے پڑھنا ضروری ہے تاکہ عوام میں پھیلائے جارہے شکوک  و شبہات کا جواب دینے میں آسانی ہو، صاحب کتاب نے اس فصل کو ‘امام ابو حنیفہ اہل حدیث علماء کی نظر میں’ کے نام سے منسوب کیا ہے۔ اس فصل میں کئی بڑے علماء کا نام شامل ہے یہاں تمام کے اقوال کو جمع کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ ماضی قریب کے نامور عالم دین اور عالَم عرب کے مشہور محدث ‘شیخ البانی ‘ کے حوالہ سے مرقوم ہے: "امام صاحب کے فضائل و مناقب کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو علم و فہم کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا، یہاں تک کہ امام شافعی نے کہا کہ لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے خوشہ چیں ہیں اور امام صاحب کی اسی عبقریت کی بنا پر امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں زبردست خراج عقیدت کے ساتھ اپنے کلام کو ختم کردیا اور اس پر میں بھی اپنی بات کو مکمل کرتا ہوں”۔

امام ابوحنیفہ سوانح و افکار دو اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ اول یہ کہ اس میں امام ابو حنیفہ کی ذاتی زندگی، کاروبار، حصول علم اور دیگر باتیں مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں لیکن دوسرا پہلو زیادہ معنی خیز اس اعتبار سے ہے کہ اس میں امام صاحب کی مختلف علمی سرگرمیوں کو بالترتیب فصل در فصل بیان کرنے کا التزام کیا گیا ہے جس کی وجہ سے قاری کے ذہن میں خلجان نہیں بلکہ تر و تازگی اور فرحت و سکون کی کیفیت سما جاتی ہے اور امام اعظم ابو حنیفہ کی حقیقی علمی خدمات سے واقفیت ہوتی ہے۔

کتاب کے مطالعہ پر ذاتی رائے

امام ابو حنیفہ سوانح و افکار ایک شاندار اور بے مثال طرز تحریر کا نمونہ ہے۔ الفاظ و تعبیرات کی گنجلک وادیوں میں قارئین کو الجھانے کے بجائے صاحب کتاب نے آسان اور سلیس اردو کا استعمال کیا ہے تاکہ ہر کوئی مستفید ہوسکے۔ کتاب کی ایک اہم خوبی، باب در باب اور فصل در فصل والی ترتیب ہے، جس نے کتاب کو پیچیدہ ہونے کے بجائے عام فہم اور سہل بنا دیا ہے اور ابو حنیفہ کی زندگی کے تمام پہلو بیک وقت لیکن جداگانہ طور پر نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کی سوانح حیات اور افکار و خیالات کو سمجھنے کے لئے فی الحال یہ بہترین اور جامع کتاب ہے اور تشنگان علوم کو چاہئے کہ اس سے مستفید ہوا جائے، یوں بھی امام ابو حنیفہ کو اپنا فقہی امام تسلیم کرتے ہوئے ہمیں کم از کم ان کی علمی شخصیت سے متعارف ہونا چاہئے۔ مفتی امانت علی قاسمی کی دو کتابیں ایک ساتھ منظر عام پر آئی تھیں ایک ‘شیخ یوسف القرضاوی اور فقہ الاقلیات’ اور دوسری ‘امام ابو حنیفہ سوانح و افکار’، قابل ذکر بات یہ ہے کہ دونوں کتابیں علمی و تحقیقی ذوق کا پتہ دیتی ہے اور تشنہ لبوں کو سیرابی فراہم کرتی ہے۔ فقہ الاقلیات ایک اہم موضوع ہے اور دنیا بھر میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات کے مختلف ہونے کی وجہ سے اس موضوع کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔مفتی صاحب نے فقہ الاقلیات کی ابتدا، طریقہ کار کے علاوہ بعض مسائل کو بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے لیکن جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے وہ کافی و شافی ہے۔ اللہ تعالی کاوشوں کو قبول فرمائے اور ذخیرہ آخرت بنائے۔

 

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے