نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کتنی تھی

نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کتنی تھی؟

حقیقت تو یہ ہے کہ یہ موضوع قابل بحث و مباحثہ نہیں ہے لیکن معاندین اسلام نے جس طرح اس موضوع کو بحث و مباحثہ کی میز پر پیش کیا ہے، اس سے نہ یہ کہ صرف مذہب اسلام کی توہین لازم آتی ہے بلکہ رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی بھی زد میں آتی ہے۔ اس مسئلہ میں جن لوگوں نے بحث و مباحثہ کیا ہے ان میں اکثریت ان افراد کی ہے جو حقائق کو چھوڑ کر محض بھولی بھالی عوام کے اذہان کو پراگندہ کرنے کے لئے الزامات و اتہامات سے کام لیتے ہیں۔ ان حضرات کا مقصد مسئلہ کی تحقیق اور حقیقت تک رسائی نہیں بلکہ لوگوں میں بے چینی پیدا کرنا اور عوام کو غلط طریقے سے ورغلانا ہے۔ شادی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کیا تھی؟ اس سوال کا سب سے بہترین جواب خود عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے تفصیل سے بیان کیا ہے، اور اس حدیث کے راوی آپ کے بھانجے یعنی آپ کی بڑی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے صاحب زادے حضرت عروہ بن زبیر  ہیں۔ حضرت عروہ بن زبیر حضرت عائشہ کے خاص شاگرد بھی ہیں، اور حضرت عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ سے ایک دو نہیں بلکہ کئی احادیث روایت کی ہیں جن کی اسناد یا متن پر کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بخاری شریف میں مذکور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: "عن عائشۃ: اَن النبی ﷺ تزوجھا وھی بنت ست سنین، و اُدخلت علیہ وھی بنت تسع،  و مکثت عندہ تسعا” حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ سے ان کی شادی ہوئی تو وہ چھ برس کی تھیں، اور جب وہ آپ ﷺ کی خدمت میں لائی گئیں تو نو برس کی تھیں، اور نو برس آپ ﷺ کی رفاقت میں رہیں۔

حضرت عائشہ کی عمر کے متعلق جن لوگوں نے اعتراض کیا ہے، اور جن وجوہات کو دلیل بنایا ہے تقریبا تمام کے جوابات سیرت نگاروں نے اور علماء اسلام نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ دے دیئے ہیں۔ بعض روایتوں میں جو بظاہر تعارض ہے اور جن کی وجہ سے بعض حضرات نے وقت نکاح اور وقت رخصتی میں  اختلاف کیا ہے وہ بھی بہت زیادہ مضبوط نہیں ہے کیونکہ ان کے دلائل بہت زیادہ قوی نہیں ہیں۔ بعض وہ حضرات ہیں جنہوں نے حضرت عائشہ والی روایت کو اس لئے قبول کرنے سے گریز کیا ہے کہ ان کے اعتبار سے  یہ عمر وقت نکاح یا وقت رخصتی کے لئے مناسب نہیں ہے اور حضرت عائشہ کے کلام کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ ان سے اپنی عمر بتانے میں ذہول ہوگیا ہے۔ بعض لوگوں نے اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لئے یہاں تک کہہ دیا کہ حضرت عائشہ نے اپنی عمر بتاتے ہوئے "دہائی” کو حذف کردیا اور صرف "اکائی” کو ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ایک بات طے ہے کہ ائمہ رجال نے جو اصول و قواعد متعین کئے ہیں اور جن اصول و ضوابط کے تحت روایات اور اسناد قبول کی جاتی ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنا آسان ہے کہ اتنے اہم اور حساس معاملہ میں ائمہ حدیث کی کثیر جماعت غلطی پر نہیں ہوسکتی ہے۔  دوسری بات یہ ہے کہ اگر حضرت عائشہ کی حدیث کو ذہول پر مبنی قرار دیا جائے تو ان سے مروی دیگر روایات پر اعتراض کرنے والوں کے لئے ایسا دروازہ کھل جائے گا جس کے بند ہونے کی کوئی شکل نہیں ہوگی ۔ ائمہ حدیث اور علماء اسلام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ انہوں نے حق بتانے اور حق بات کی اشاعت میں کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ خلیفہ وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دوران خطبہ ایک عام مسلمان سوال جواب کرنے کی جسارت کرتا ہے اور حضرت عمر اسے تشفی بخش جواب مرحمت فرماتے ہیں۔علاوہ ازیں جب حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں عورتوں کے لئے مہر متعین کرنے کا مشورہ طلب کیا تو خلیفہ وقت ہونے کے باوجود ان کی مخالفت کی گئی اور انہوں نے اپنے فیصلہ کو واپس لیا ہے۔ ایسی ایک نہیں بے شمار مثالیں تاریخ اسلام میں موجود ہیں۔ 

سن 10 نبوی کو اسلامی تاریخ میں عام الحزن کہا جاتا ہے کیونکہ اس سال آپ ﷺ کو پے در پے دو بڑے اور گہرے صدمے سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔ ایک اپنے محبوب اور مشفق چچا خواجہ ابو طالب کی وفات اور دوسرے آپ ﷺ کی نیک صالح، ہمدرد و غمگسار اور عزیز ترین شریک حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی جدائی۔ ان دو صدموں نے آپ ﷺ پر گہرا اثر ڈالا، ایک جانب دین اسلام کی اشاعت کی ذمہ داری اور دوسری جانب گھر میں موجود بچوں کی دیکھ بھال۔ اس حال میں آپ ﷺ کو سب سے پہلے حضرت خولہ بنت حکیم نے شادی کا مشورہ دیا۔ حضرت خولہ بنت حکیم نے آپ ﷺ کو ایک نہیں بلکہ دو شادیوں کا مشورہ دیا، ایک حضرت سودہ بنت زمعہ سے اور دوسرے حضرت عائشہ بنت ابوبکر سے۔ حضرت سودہ بنت زمعہ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں اور ان کے شوہر بھی مسلمان تھے لیکن جلد ہی بارگاہ الہی میں پہنچ گئے۔ بہرحال آپ ﷺ نے حضرت سودہ بنت زمعہ سے نکاح فرمایا۔ حضرت سودہ چونکہ تجربہ کار اور عمردراز خاتون تھیں اس لئے ان سے نکاح کے بعد بچوں کی دیکھ بھال ان کی ذمہ داری بن گئی۔ 

آپ ﷺ نے تیسرا نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا اور اس نکاح کا مشورہ بھی حضرت خولہ بنت حکیم نے دیا تھا، جیسا کہ ذکر کیا گیا۔ حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ حضرت ابوبکر نے مطعم بن عدی کے بیٹے سے طے کر رکھا تھا لیکن جب آپ ﷺ کی بات آئی تو انہوں نے حضرت عائشہ کو آپ ﷺ کے نکاح میں دینے کو ترجیح دی۔ جہاںتک بات حضرت ابوبکر کے اس جملہ کی ہے "ھل تصلح لہ، انما ھی ابنۃ اخیہ” کیا عائشہ سے نکاح ان کے لئے جائز ہے وہ تو ان کے بھائی کی بیٹی ہے۔ حضرت ابوبکر کا یہ قول آپ ﷺ سے آپ کی رفاقت اور قربت کی وجہ سے ہے، ورنہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر کے درمیان ایسی رشتہ داری نہیں تھی جو رشتہ کے لئے مانع ہو، اور دوسری بات اس جملہ سے یہ سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے تعجب اپنے تعلق کی بنا پر کیا ہے، حضرت عائشہ کی عمر کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کہی  ہے۔  بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر حضرت عائشہ محض چھ یا سات سال کی تھی تو پھر ان کا رشتہ کیسے طے کیا جاچکا تھا، کیونکہ یہ عمر تو ایسی نہیں ہوتی ہے کہ والدین بچیوں کی شادی کے لئے متفکر ہوں۔ اس سلسلہ میں اہل عرب کے رواج کو تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے یہاں یہ عام معمول تھا، کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں چھوٹی بچیوں کے رشتے طے کئے گئے ہیں۔ خود ہمارے ملک ہندوستان میں آج بھی ایسے علاقے پائے جاتے ہیں جہاں نوعمری میں رشتے طے کردیئے جاتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں نکاح یا جو بھی مذہبی طریقہ ہو اس کے اعتبار سے شادی ہوجاتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ حضرت عائشہ کا نکاح چھ سال کی عمر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ خلاف قیاس یا خلاف عقل ہے سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ اگر یہ بات ہوتی  تو اُس دور میں جب کہ پورا مکہ آپ ﷺ کے خلاف تھا، آپ ﷺ کو ہر طرح سے بدنام کرنے کی کوشش جاری تھی، باہر سے آنے والوں کو آپ ﷺ کے خلاف ورغلایا جاتا تھا، یہ کیسے ممکن تھا کہ مکہ میں ایک ایسا عمل انجام دیا جائے جو ان کے رواج اور دستور کے سراسر خلاف ہو اور وہ لوگ خاموش تماشائی بنے رہیں۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہجرت کے بعد جب آپ ﷺ نے حضرت زینب بنت جحش سے نکاح فرمایا جو حضرت زید کی زوجیت میں تھیں تو صرف اس وجہ سے کہ حضرت زید آپ ﷺ کے متبنی تھے، اہل عرب نے اس بات کو طعن و تشنیع کا سبب بنایا جس کے رد میں اللہ تعالی نے سورہ احزاب میں متبنی کے مکمل حقوق بیان کئے  ہیں۔ 

ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس کم عمری میں حضرت عائشہ سے نکاح کیوں کیا؟ کن اغراض و مقاصد کے تحت یہ نکاح انجام پایا تھا۔ اس سلسلہ میں جس بات کو سب سے زیادہ زور و شور کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آپ ﷺکو  شریک حیات کی ضرورت تھی نیز گھر میں موجود بچوں کے لئے ایک ایسے تجربہ کار اور دین دار خاتون کی ضرورت تھی جو ان کی ضرورتوں کا خیال رکھ سکیں۔ حالانکہ جس عمر میں حضرت عائشہ کا نکاح ہوا ہے اس عمر  ان میں سے کوئی کام انجام نہیں دیا جاسکتا تھا۔ یہ اعتراض در اصل اس بات پر مبنی ہے کہ کن تقاضوں کے تحت آپ ﷺ نے حضرت عائشہ سے نکاح فرمایا، یہ کہنا کہ رفاقت، گھریلو ذمہ داری یا بچوں کی دیکھ بھال مقصود نظرتھا اس لئے چھ سال کے بجائے حضرت عائشہ کی عمر کو سولہ سال تسلیم کیا جائے، علاوہ ازیں حضرت عائشہ نے جس حدیث میں اپنی عمر کا تذکرہ کیا ہے اس میں "دہائی” کو حذف کردیا ہے اور صرف "اکائی” کو ذکر کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی زبان میں ایسا نہیں ہوتا ہے کہ "دہائی” کو حذف کرکے صرف "اکائی” کو ذکر کیا جائے، اگر بالفرض مان لیا جائے کہ حضرت عائشہ نے "دہائی” کو حذف کرکے صرف "اکائی” کو ذکر کیا ہے اس لئے عمر چھ نہیں بلکہ سولہ سال ہے، تو پھر سولہ سال کیوں تسلیم کیا جائے، اسے چھبیس بھی سمجھا جاسکتا ہے، چھتیس بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔اور اگر سولہ سال ہی تسلیم کیا جائے تو پھر تین سالوں تک حضرت عائشہ کی رخصتی کیوں موخر کی گئی۔

  دوسری بات حضرت عائشہ سے کس مقصد کے تحت نکاح کیا گیا۔ دراصل جب ہم اپنے ذہن و دماغ کے ترازو پر ہر چیز کو وزن کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس میں خرابیوں کا پیدا ہونا ظاہر ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ سے نکاح اس وقت کیا جب آپ ﷺ کے گھر میں تمام طرح کی ذمہ داریوں کے لئے حضرت سودہ بنت زمعہ موجود تھیں، اس لئے ان ذمہ داریوں کو مقصود بنانا یا ان پر اصرار کرنا خلاف عقل بات ہے۔ حضرت عائشہ سے نکاح کی سب سے بڑی وجہ دینی علوم کی اشاعت تھی، کیونکہ حضرت عائشہ کی پیدائش ایسے وقت میں ہوئی تھی جب ان کے والدین  مسلمان تھے۔ بچپن سے اسلامی ماحول میں پروان چڑھی تھیں، حضرت ابوبکر نے مذہب اسلام اور آپ ﷺ کے لئے جو قربانیاں پیش کی تھیں وہ سب آپ کے سامنے تھیں، حضرت عائشہ نے اپنے گھر کے ہر فرد کو مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام کے لئے جان کی بازی لگاتے دیکھا تھا، ایسے صاف ستھرے ماحول میں آپ کی پرورش ہورہی تھی، اس میں مزید جِلا بخشنے کے لئے آپ ﷺ نے انہیں چھوٹی عمر میں اپنے گھر بلالیا تاکہ اسلامی تعلیمات میں مزید پختگی پیدا ہو اور ان کے ذریعہ خاص طور پر خواتین کو اسلامی تعلیمات پہنچ سکیں۔ اور ہوا بھی یہی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کا علم امت کے لئے کس حد تک نافع اور سود مند ثابت ہوا ہے۔ دو ہزار سے زائد احادیث آپ سے مروی ہیں، بے شمار صحابہ کرام اور تابعین آپ کے علوم سے استفادہ کرنے والے تھے۔ حضرت عائشہ کی جس ماحول میں تربیت ہوئی تھی وہ خالص مذہبی تھا، پھر نبی کریم ﷺ نے آپ کے سیکھنے سکھانے کا خاص اہتمام فرمایا تھا، علااوہ ازیں خود حضرت عائشہ میں علم کے حصول کا جذبہ بہت زیادہ تھا، کیونکہ بے شمار احادیث ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کبھی راتوں میں جاگ کر اور کبھی دن میں ہمیشہ آپ ﷺ سے سیکھنے کی کوشش کیا کرتی تھیں اور ہر مسئلہ کی وضاحت کے لئے سوال کیا کرتی تھی۔ 

بعد کے ادوار میں جن لوگوں نے حضرت عائشہ کی عمر میں اختلاف کیا ہے، یا اس سلسلہ میں شش و پنج کے شکار ہوئے ہیں وہ سب معترضین کے اعتراضات سے بچنے کے لئے ہے، حالانکہ اگر حضرت عائشہ کے نکاح کی عمر یا رخصتی کی عمر اُس وقت کے رواج کے خلاف ہوتی تو یہ ممکن نہیں تھا کہ مخالفین اسلام آپ ﷺ کی ذات کو نشانہ نہ بناتے۔ ہر بات میں اور مذہب اسلام کے ہر عمل کو عقلی طور پر ثابت کرنے کے لئے معذرت خواہانہ انداز اپنانا اور دفاعی پوزیشن میں آنا یہ صرف مصلحت کے خلاف نہیں ہے بلکہ حقیقت سے مفر بھی ہے۔ مذہب اسلام پاک صاف مذہب ہے، اور پیغمبر اسلام تاریخ انسانی کے پہلے انسان ہیں  جن کے شب و روز کو ان کے ماننے والوں نے محفوظ رکھا ہے، مذہب اسلام کوئی افسانوی یا اساطیری مذہب نہیں ہے جس کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے پھر بھی ہم اسے ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کی تعلیمات قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے یکساں مفید ہیں۔

Related Posts

4 thoughts on “نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کتنی تھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے