علامہ انور شاہ کشمیری کی تصانیف

علامہ انور شاہ کشمیری کی تصانیف

علامہ انور شاہ کشمیری : حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

علامہ انور شاہ کشمیری ایک نام، ایک عہد، ایک انجمن، ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں علوم و فنون کے تمام گلوں کو جمع کیا گیا تھا، ایک ایسی ذات جس کے تبحر علمی پر عرب و عجم کے علماء انگشت بدنداں ہیں، ایک مفسر، ایک محدث، ایک فقیہ، ایک متکلم، ایک فلسفی، ایک مؤرخ، ایک مبلغ، ایک مجاہد غرضیکہ تمام علمی صفات کا ایسا مجموعہ ہے جس کی نظیر صدیوں میں ملتی ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی وفات پر شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے؛ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی لکھتے ہیں: علامہ اقبال نے دینی معاملات میں جتنا فیض علامہ انور شاہ کشمیری اور سید سلیمان ندوی سے اٹھایا ہے کسی اور سے نہیں اٹھایا ہے(سید سلیمان ندوی کی حیات و خدمات کو پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں)۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی وفات پر منعقد تعزیتی جلسہ میں علامہ اقبال نے فرمایا: "اسلام کی ادھر کی پانچ سو سالہ تاریخ شاہ صاحب کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے”۔(علامہ انور شاہ کشمیری اور علامہ اقبال کے تعلقات کو پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) اسی سے ملتا جلتا جملہ علامہ زاہد الکوثری نے علامہ انور شاہ کشمیری کی شان میں فرمایا تھا کہ امام دار قطنی کے بعد علم حدیث میں شاہ صاحب جیسا کوئی محدث پیدا نہیں ہوا ہے۔  

علامہ انور شاہ کشمیری نے تصنیف و تالیف کو اپنے لئے منتخب نہیں فرمایا تھا بلکہ درس و تدریس آپ کا میدان تھا ، البتہ جن کتابوں کو آپ نے ترتیب دیا ہے وہ عموما خاص پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔ اندرون اسلام جب فروعی مسائل کو بعض افراد نے بنیادی درجہ دے دیا اور اسے معیار حق و باطل تصور کرنے لگے تو ان مسائل کو واضح کرنے اور ان کی شرعی حیثیت اور صحابہ کرام کے طرز عمل سے لوگوں کو آگاہ کرانے کے لئے چند کتابیں مرتب فرمائی ہیں۔ علاوہ ازیں جب ملک ہندوستان میں فتنہ قادیانیت نے سر ابھارا اور مسلم قوم میں الحاد و بے دینی کی لہر نے زور پکڑا تو شاہ صاحب نے قلم اٹھایا اور پھر جو کچھ کتابی شکل میں موجود ہے وہ ختم نبوت کے اثبات اور فتنہ قادیانیت ہی نہیں بلکہ بعد میں آنے والے فتنوں سے بھی نمٹنے کے لئے بھی کافی ہے۔

علامہ انور شاہ کشمیری کی تصانیف دو طرح کی ہیں۔ ایک تو وہ تصانیف ہیں جنہیں آپ نے خود مرتب کیا ہے اور بعض وہ ہیں جنہیں آپ کے تلامذہ نے آپ کی تقاریر اور دروس سے اخذ کرکے مرتب کیا ہےاور علامہ انور شاہ کشمیری نے خود ان کتابوں کو دیکھا ہے اور ان پر نظر ثانی کے بعد اشاعت کی اجازت فرمائی ہے، بعض کتابیں وہ بھی ہیں جنہیں علامہ انور شاہ کشمیری کی ایماء پر آپ کے شاگردوں نے مرتب کیا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی تصانیف اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں ہے، جن میں بعض منظوم ہیں تو بعض منثور ہیں۔ آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کیا ہے اور ایسے نادر ونایاب موتیوں کو پرویا ہے جو بمشکل کہیں ملتے ہیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری صرف ایک محدث ہی نہیں بلکہ علم کا وہ ناپید کنارہ تھے، جس میں ہر فن اپنے اکمال کے ساتھ موجود تھا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے تصانیف کے میدان میں ایسی بیش بہا قیمتی تصانیف چھوڑی ہیں جو علماء دیوبند کی جانب سے امت مسلمہ کے لئے عظیم تحفہ ہے۔ حلقہ دیوبند میں آپ سے زیادہ علم حدیث میں دسترس رکھنے والا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے بیشتر بڑے اور اہم کام علم حدیث کے باب میں پائے جاتے ہیں۔ آپ کے درس بخاری کی ترتیب بنام فیض الباری، انعام الباری تشنگان علوم نبویہ کے لئے سر چشمہ کی حیثیت رکھتی ہے، اسی طرح آپ کے درس ترمذی پر آپ کے کئی نامورشاگردوں نے کام کیا ہے۔ العرف الشذی، معارف السنن، العرف الذکی۔ یہاں ہم علامہ انور شاہ کشمیری کی بعض اہم اور چنیدہ کتابوں کو بیان کررہے ہیں۔ 

مشکلات القرآن 

علمائے دیوبند میں کئی ایسی نامور ہستیاں گزری ہیں جنہوں نے تفسیر، ترجمہ اور قرآن مجید کے دیگر علوم پر کام کیا ہے لیکن چند ایسی شخصیات بھی گزری ہیں جنہوں نے قرآن کے بعض حصوں پر کام کیا ہے لیکن ان کا کام ایسا جامع و مانع اور علمی پیاس بجھانے والوں کے لئے ایسا چشمہ ہے کہ تمنا ہوتی ہے، کاش ان حضرات نے مکمل قرآن مجید پر کام کیا ہوتا۔ سلطان القلم مولانا مناظر احسن گیلانی نے سورہ کہف کی تفسیر ایسے البیلے اور اچھوتے انداز میں لکھی ہے کہ آج لوگ اس کے سیاق و سباق اور انداز فکر و نظر سے قرآن مجید کے دیگر حصوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی جن کے علمی کارناموں سے ایک عالم منور ہے، اور جن کی تحریروں کو پڑھ کر بے شمار بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم جانے کی توفیق ملی ہے، آپ نے بھی قرآن کے بعض مختلف حصوں کی مختلف ادوار میں تفسیر لکھی ہے لیکن باضابطہ اس کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔ علامہ انور شاہ کشمیری کا حال بھی تقریبا یہی تھا۔ آپ نے قرآن کی ان آیتوں کا انتخاب فرمایا جسے فہم و فراست کے اعتبار سے مشکل ترین تصور کیا جاتا تھااور جن آیتوں میں عموما ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی تھیں جن کا ازالہ ضروری تھا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے اپنی اس کتاب میں 190 آیتوں کا انتخاب فرمایا ہے اور ان تمام آیتوں پر فاضلانہ و محققانہ گفتگو فرمائی ہے۔ اس کتاب کی زبان گرچہ عربی ہے لیکن کئی مقامات پر فارسی زبان کا استعمال بھی ہوا ہے ۔ دو زبانوں کے اشتراک کی وجہ سے بعض مرتبہ اس کتاب سے استفادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ کتاب کی نافعیت اور صاحب کتاب کی علمی شخصیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کتاب پر از سر نو کام کیا جائے اور تحقیق و تدقیق کے ذریعہ دوبارہ منظر عام پر لایا جائے۔

فیض الباری

علم حدیث میں صحیح البخاری کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ کسی اور کتاب کو حاصل نہیں ہے۔ بلکہ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد سب سے اصح کتاب، صحیح البخاری ہے۔ مختلف ادوار میں اس کتاب کی شروحات لکھی گئی ہیں۔ لیکن علمائے دیوبند میں علامہ انور شاہ کشمیری سے قبل کسی نے اس جانب پیش رفت نہیں کی تھی بلکہ قدیم کتابوں پر اکتفا کئے ہوئے تھے۔علامہ انور شاہ کشمیری کا درس ایسا جامع و مانع ہوا کرتا تھا کہ آپ کے بیشتر شاگرد کچھ نہ کچھ لکھنے کی سعی کیا کرتے تھے۔ مولانا بدر عالم میرٹھی نے اس کام کو انجام دینے کا بیڑا اٹھایا اور آپ کے درس بخاری کو مرتب کرنا شروع کیا۔ محنت و جانفشانی اور شب و روز کی انتھک کوششوں کے صلہ میں بالآخر وہ کامیابی نصیب ہوئی جو آج بھی امت مسلمہ کے لئے عظیم سرمایہ ہے۔ فیض الباری کی جمع و ترتیب کے بعدعلامہ انور شاہ کشمیری نے بذات خود نظر ثانی فرمائی ہے۔ چھ جلدوں میں مرتب یہ کتاب عالم اسلام کے بڑے جامعات اور لائبریریوں کی زینت ہے جس سے اہل ذوق مستفید ہورہے ہیں۔ فیض الباری کی جامعیت و نافعیت لاجواب اور بے مثال ہے۔ اردو زبان میں آپ کے دروس بخاری کو مولانا احمد رضا بجنوری نے "انعام الباری” کے نام سے مرتب کیا ہےجو اردوداں طبقے کے لئےبیش بہا نعمت ہے۔ 

الضرب الخاتم علی حدوث العالم۔ مرقات التحریم لحدوث العالم

ان دونوں کتابوں کا موضوع ان کے نام سے ظاہر و باہر ہے۔ در اصل یہ کتابیں اس زمانے میں تصنیف کی گئی تھیں جب انگریزوں کے تسلط کے بعد ان کے نظام تعلیم میں مسلم طلبہ کی کثرت ہونے لگی اور مسلم طلبہ ان کے فلسفیانہ اور مفسدانہ عقائد کی بھینٹ چڑھنے لگے۔ ایسے وقت میں خصوصا نوجوانوں کے اذہان کی صفائی کے لئے اس موضوع پر محقق و مدلل کلام کی ضرورت تھی۔ اولا شاہ صاحب نے چار سو اشعار پر مشتمل عربی زبان میں (الضرب الخاتم علی حدوث العالم) کو مرتب فرمایا اور کچھ دنوں بعد نثر میں مرقات التحریم لحدوث العالم کو مرتب فرمایا۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی ان دونوں تصانیف نے جدید فلسفہ کے طلسم کو سبوتاژ کردیا اور کمزور و ذہنوں میں جو شکوک و شبہات کے جالے بُنے جارہے تھے وہ یکایک ھباءا منثورا ہوگئے۔ شاعر مشرق اور فلسفہ جدید کے نامور محقق علامہ اقبال کہتے ہیں اس کتاب کو پڑھ کر میں حیران ہوں کہ کوئی مولوی جدید فلسفہ پر اتنی جامع ترین کتاب مرتب کرسکتا ہے۔ موجودہ دور میں دیکھا جائے تو آج پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام کے عقائد پر جو شکوک و شبہات کے جالے بُنے جارہے ہیں ان کو ختم کرنے کے لئے اس سلسلہ میں کام کیا جائے۔ ہمارے اکابرین نے جو علمی سرمایے چھوڑے ہیں وہ اتنے اور ایسے جامع ہیں کہ ان کے علاوہ ہمیں مزید کی ضرورت نہیں ہے، اگر ضرورت ہے تو ان تصانیف و تقاریر سے استفادہ کی جس سے ہم محروم ہیں۔ 

معارف السنن

علامہ انور شاہ کشمیری کے دروس کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ اردو زبان میں ہونے کے باوجود انہیں عربی میں نقل کرنا زیادہ سہل ہوتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ کے تلامذہ نے آپ کے دروس کو عربی زبان میں قید کرنے کا اہتمام فرمایا تھا۔ علامہ انور شاہ کشمیری کے دروس ترمذی کو کئی افراد نے مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان میں جو مقام و مرتبہ اور جو مقبولیت معارف السنن کے حصہ میں آئی ہے وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ معارف السنن کے مرتب حضرت مولانا علامہ یوسف بنوری ہے جنہوں نے علامہ انور شاہ کشمیری کی خدمت میں طویل وقت گزاراتھا۔ آپ کے سفر و حضر کے ساتھی بنے رہے اور خدمت کا یہ صلہ ملا کہ علامہ انور شاہ کشمیری کے علوم کا حقیقی امین علامہ یوسف بنوری کو سمجھا جانے لگا ۔ شاہ صاحب کی اکثر و بیشتر کتابوں کی اشاعت علامہ بنوری کے ہاتھوں ہوئی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی ان کے مکتبہ سے جاری ہے۔ معارف السنن اپنے آپ میں ایک بے مثال اور بے بدل کارنامہ ہے لیکن افسوس کہ علامہ یوسف بنوری کی عمر نے وفا نہیں کی اور سات ضخیم جلدوں کے بعد یہ کتاب ناقص رہ گئی ہے۔ معارف السنن کے علاوہ العرف الشذی (مولانا چراغ صاحب، اب یہ کتاب مولانا شاکر محمود کی تحقیق و تعلیق کے بعد دوبارہ منظر عام پر آچکی ہے) اور العرف الذکی(مفتی عبد اللہ معروفی استاذ دارالعلوم دیوبند، اس کی پانچ جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں اور ابھی بقیہ حصوں پر کام جاری ہے، اللہ تکمیل کے مرحلہ تک پہنچائے) علامہ انور شاہ کشمیری کے دروس کا مجموعہ ہے۔    

انوار المحمود

علامہ انور شاہ کشمیری نے دارالعلوم میں تقریبا احادیث کی تمام کتابوں کا درس دیا ہے اور وقتا فوقتا آپ کے شاگردوں نے آپ کے دروس کو جمع کرنے کا اہتمام فرمایا ہے۔ مولانا صادق نجیب عابدی نے اردو زبان میں آپ کے درس ابو داؤد شریف کو تحریر کیا تھا جو ہزار صفحات سے زائد پر مشتمل تھا۔ دروس کی تکمیل کے بعد شاہ صاحب نے بذات خود اس پر نظر ثانی فرمائی لیکن یہ کتاب آپ کی حیات میں زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوسکی۔ بعد میں علامہ شبیر احمد عثمانی (علامہ شبیر احمد عثمانی کی حیات و خدمات کے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں)کے افادات کے ساتھ یہ کتاب دو ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی۔ لیکن اب یہ کتاب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ 

التصریح بما تواتر فی نزول المسیح

اس کتاب کو علامہ انور شاہ کشمیری کے لائق و فائق شاگرد مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی ؒ نے آپ کی ایما پر مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جو نزول مسیح اور قرب قیامت کے متعلق ہے۔ بعد میں الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ الشامی نے اس کتاب پر تحقیق و تعلیق کا کام کیا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مرتب کتاب مفتی شفیع صاحب کے صاحبزادہ حضرت مفتی رفیع عثمانی نے کیا ہے اور اب دونوں نسخے مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ قرب قیامت کی نشانیاں، فتنہ دجال، نزول مسیح اور دیگر فتنوں سے احادیث کی روشنی میں واقفیت حاصل کرنے کے لئے بہترین اور جامع کتاب ہے۔ 

عقیدۃ الاسلام فی حیوۃ عیسی علیہ السلام۔ تحیۃ الاسلام فی حیوۃ عیسی علیہ السلام

ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے لوگ رہے ہیں بلکہ ایسے لوگوں کو تیار کیا جاتا رہا ہے جو مذہب اسلام کی تعلیمات اور دیگر ارکان و فرائض پر اعتراض پیدا کرکے عام مسلمانوں میں خلجان پیدا کرنے کے درپے رہا کرتے ہیں۔ انہیں میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو احادیث رسول کا انکار کرکے ذخیرہ احادیث سے مسلمانوں کے اعتماد کو کمزور کرنے کی سعی لاحاصل میں عرصہ دراز سے لگی ہوئی ہے، بعض لوگ مخصوص قسم کی احادیث کو اپنا مطمح نظر بناتے ہیں اور ان کے متعلق عقلی قیاس آرائیوں کا بازار گرم کرتے ہیں۔ حیات عیسی علیہ السلام اور ان کا قرب قیامت میں نزول احادیث سے ثابت ہے اور اس تواتر کے ساتھ مذکور ہیں کہ اس میں کسی قسم کا کوئی تردد نہیں ہے اور ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ قرب قیامت میں حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے اور دجال سمیت دیگر فتنوں کا سد باب کریں گے۔ لیکن غلام احمد قادیانی نے حیات عیسی کے متعلق قرآن مجید کی آیت سے غلط استدلال کرکے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی۔حالانکہ حضرت عیسی علیہ السلام باحیات ہیں اور انہیں اللہ تعالی نے دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے حالت زندگی میں ہی اپنے پاس بلا لیا تھا۔ اس کتاب میں حیات عیسی علیہ السلام پر بے جا اعتراضات کے تشفی بخش جوابات مرقوم ہیں جو تشنگان علوم کے لئے سیرابی کا باعث ہے۔یہ دونوں کتابیں قادیانیت کے فتنہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دی گئی ہیں۔

دعوت حفظ ایمان

اسلام کی تاریخ میں بارہا ایسا ہوا کہ کچھ ناہنجار اشخاص نے عوام کو راہ راست سے بھٹکانے اور انہیں ضلالت و گمراہی کے دلدل میں دھکیلنے اور اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر ایسے کام انجام دیئے ہیں جس کے بُرے نتائج سے صرف وہ اثر انداز نہیں ہوئے بلکہ ان کا ساتھ دینے والے تمام دیگر افراد بھی خسارہ میں رہے ہیں۔ اس فتنہ کی شروعات دور نبوت میں مسیلمہ کذاب کے ذریعہ ہوئی جب اس نے حیات نبی ﷺ میں عوام کو گمراہ کرنے کے لئے نبوت کا دعوی کیا۔ اس کذاب کی پیروی کرتے ہوئے مختلف ادوار میں مختلف فتنہ و فساد کے حامل افراد نے ختم نبوت پر داغ لگانے کی کوشش کی ہے۔ ماضی قریب میں قادیان نامی گاؤں میں منشی غلام احمد قادیانی نامی شخص نے نبوت کا دعوی پیش کیا۔ اس فتنہ کی پشت پناہی اور سربراہی اس دور کی انگریز حکومت نے کی اور بھولے بھالے غریب مسلم عوام کے ایمان پر ڈاکہ زنی کرنے کے تمام وسائل اس شخص کو فراہم کئے گئے۔ اس سے وابستہ افراد کو مال و دولت اور پیسوں کی بہتات کے ذریعہ سماج میں باعزت مقام عطا کرنے کی کوشش کی گئی۔ علامہ انور شاہ کشمیری کے دور میں جب کشمیرکمیٹی بنائی گئی تو اس کا صدر ایسے شخص کو بنایا گیا جو قادیانی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا اور جس کا شریعت محمدی ﷺ سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اس کمیٹی میں شاعر مشرق علامہ اقبال جیسے افراد شامل تھے۔ جب علامہ انور شاہ کشمیری اس سے باخبرہوئے تو سخت بے چین ہو اٹھے، علامہ اقبال کو خطوط روانہ کئے، کشمیر کمیٹی کے دیگر ذمہ داران کو مکتوبات بھیجا۔ یہ کتابچہ "دعوت حفظ ایمان” اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس کے دو حصہ ہیں جو آپ نے تقریبا دس دن کے وقفہ کے دوران لکھ کر روانہ کیا تھا۔ 

ہندوستان میں ختم نبوت پر مولانا محمد علی مونگیری(مولانا محمد علی مونگیری کی حیات و خدمات کو پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) اور علامہ انور شاہ کشمیری کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، ان دونوں حضرات نے اس میدان میں بڑے پیمانے پر کتابیں تصنیف فرمائیں اور عوام میں انہیں تقسیم کرانے کا اہم فریضہ انجام دیا تھا۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی دیگر تصانیف اس موضوع پر یہ ہیں: اکفار الملحدین۔ خاتم النبیین۔ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح۔عقیدۃ الاسلام۔تحیۃ الاسلام۔یہ تمام کتابیں مختلف موضوعات پر ہیں؛ لیکن رد قادیانیت پر ترتیب دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی تقریر "مقدمہ بہاولپور” بھی مکمل کتابی شکل میں موجود ہے۔ آپ کی یہ تقریر فتنہ قادیانیت کے تابوت میں آخری کِیل ثابت ہوئی ۔ 

فصل الخطاب فی مسئلۃ ام الکتاب

یہ کتاب ان لوگوں کے رد میں ہے جو شریعت محمدیہ میں ایسے امور کو باعث نزاع اور باہمی اختلاف کا محور بناتے ہیں جو ماضی میں کبھی رہا ہی نہیں ہے۔ قرات خلف الامام کا مسئلہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام شافعی کے درمیان بھی مختلف فیہ ہے لیکن یہ دونوں حضرات، یا فقہ میں ان کی اقتدا کرنے والے ایک دوسرے پر الزامات و اتہامات کی بارش نہیں کرتے ہیں کیونکہ دونوں حضرات مجتہد ہیں اور دونوں کے پاس اپنے علمی دلائل قرآن و احادیث کی روشنی میں موجود ہیں۔ لیکن گزشتہ ایک دو صدی میں ایسے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے ان فروعی مسائل کو بنیادی مسائل بنانے کی کوشش کی اور امت میں اختلاف و انتشار کی بیج بونے میں کامیاب ہوئے۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے اپنی اس کتاب میں دونوں طرح کی احادیث کو جمع کیا ہے اور پھر ان کی روشنی میں مسئلہ کو منقح و مجلی کیا ہے۔

اکفار الملحدین فی ضروریات الدین

یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے نہایت پیچیدہ ہے۔ کیونکہ مسئلہ تکفیر اہل قبلہ زمانہ قدیم سے الجھا ہوا رہا ہے اور اسی وجہ سے کئی دور کے علماء نے اس سلسلہ میں سکوت اختیار فرمایا ہے۔ لیکن چونکہ قادیانیت قبلہ، کلمہ، نماز وغیرہ کا بھی بظاہر اقرار کیا کرتے تھے پھر ان کی تکفیر کیسے کی جاتی۔ علامہ انور شاہ کشمیری کی اس تصنیف کے متعلق مولانا خلیل احمد سہارنپور لکھتے ہیں:”فقہاء، محدثین اور متکلمین کے کلام میں اہل قبلہ کی تکفیر کا مسئلہ بہت پیچیدہ سا ہوگیا تھا اور سمجھ میں آنے والا نہ تھا، ہاں اگر کسی خوش نصیب کو اللہ تعالی اپنی بارگاہ سے عقل سلیم عطا فرماتے اور قبول حق کی توفیق عنایت فرماتے تو اور بات تھی اور بعض لوگ تو اپنی کم فہمی کی وجہ سے فقہاء و محدثین کی عبارات سے غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے۔ پس حضرت مولانا الشیخ الحاج انور شاہ کشمیری نے جو دارالعلوم کے صدر المدرسین کے عہدہ پر جلوہ افروز ہیں اس عقدہ کو حل کرنے کے لئے کمر ہمت باندھی اور مسئلہ تکفیر اہل قبلہ کی تحقیق میں دن رات ایک کرتے ہوئے حق اور باطل کے درمیان دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی واضح کردیا”۔ اس کتاب میں علامہ انور شاہ کشمیری نے مختلف علماء اسلام کے نظریات کو بیان کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ اہل قبلہ کون ہیں اور کون نہیں نیز کن عقائد کے حاملین کو اہل قبلہ تصور کیا جائے گا اور کن باتوں کے منکرین کو اس صف سے خارج سمجھا جائے گا ۔  

کشف الستر عن صلاۃ الوتر

فقہاء اسلام میں یہ مسئلہ رہا ہے کہ وتر کی نماز ایک رکعت ہے یا تین رکعت اور پھر اس کی نوعیت کیا ہے، اسے کب ادا کرنا چاہئے ۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے اپنی اس کتاب میں تفصیلی بحث اس موضوع پر کی ہے اور تمام طرح کی احادیث اور ائمہ کے اقوال کو جمع کیا ہے۔ 

نیل الفرقدین فی مسئلۃ رفع الیدین

یہ ایک فروعی مسئلہ ہے جس میں ہردور کے ائمہ حتی کہ بعض صحابہ کرام کے درمیان بھی اختلاف رہا ہے۔ بعض حضرات رفع یدین کو ترجیح دیتے تھے اور بعض ترک رفع یدین کو، یہ اختلاف ائمہ اربعہ میں بھی پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں میں یہ مسئلہ فروعی طور پر ہی سہی لیکن مختلف فیہ رہا ہے۔ اس کتاب میں علامہ انور شاہ کشمیری نے تمام روایات اور اکابرین ائمہ کی آراء کو جمع کرنے کا اہتمام فرمایا ہے۔ موجودہ دور میں بعض ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو قرات خلف الامام، آمین بالجہر اور رفع یدین کو فروعی مسئلہ نہیں بلکہ بنیادی مسئلہ بناکر امت میں اختلاف و انتشار کا سبب بن رہے ہیں۔

خاتم النبیین 

ختم نبوت کے دلائل کو یکجا کرنے میں علامہ انور شاہ کشمیری نے شب و روز محنت کرکے اس کتاب کو مرتب کیا ہے۔ ختم نبوت کی عقلی و نقلی دلائل نیز اجماع امت اور اقوال سلف سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ختم نبوت کیا ہے۔ نیز اس کتاب میں قادیانی کے عقائد اور اس کے دعوی کا بھر پور رد موجود ہے۔

سہم الغیب فی کبد اہل الریب 

مذہب اسلام میں بسا اوقات بعض چالاک اور شاطر قسم کے انسانوں نے قرآن و حدیث کے نام پر امت مسلمہ کو گمراہ کیا ہے۔ ایسے لوگوں کی طویل فہرست ہے جو ہر زمانے اور ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں۔ لکھنؤ کی ناٹک کمپنی میں کام کرنے والے ایک شخص نے دہلی کو اپنا مسکن بنایا اور اپنی میٹھی میٹھی باتوں کے ذریعہ دیکھتے ہی دیکھتے عوام الناس کے درمیان ایک خطیب کے طور پر مشہور ہوگیا۔ قرآن و حدیث سے نابلد عوام اس کی باتوں میں آنے لگے اور شدہ شدہ وہ شخص ان کے عقائد پر حملہ آور ہوگیا۔ علم غیب کے مسئلہ میں اس قدر افراط سے کام لیا کہ نبی آخر الزمان ﷺ کے لئے مطلق علم غیب کا دعوی کیا اور عوام کو نبی کی جھوٹی محبت کا جھانسہ دے کر ان کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے لگا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے اس شخص کے رد میں علم غیب اور اس کی اقسام پر یہ رسالہ تصنیف فرمایا، اس رسالہ میں آپ نے مولانا قاسم نانوتوی(مولانا قاسم نانوتوی کی حیات و خدمات کو پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) اور مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے علمی نکات سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ آج بھی جو لوگ علم غیب کے مسئلہ کو کما حقہ سمجھنا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ کافی ہے۔ اس کتاب کو قیام دہلی کے وقت مرتب فرمایا گیا تھا  جب آپ کی عمر بائیس سال تھی۔   

خزائن الاسرار۔گنجینہ اسرار

یہ علامہ انور شاہ کشمیری کے اوراد و وظائف اور دعاء کی کاپی ہے، جسے سب سے پہلے مجلس علمی ڈابھیل نے شائع کیا تھا اور اس کے اردو ترجمہ کی سعادت مولانا مظفر الحسن قاسمی کے حصہ میں آئی۔ دعا، تعویذ اور جھاڑ پھونک کا سلسلہ مذہب اسلام میں ابتدائی زمانہ سے چلا آرہا ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بارہا صحابہ کرام کو ان کی تکالیف کے مواقع پر آیت کریمہ یا دعائیہ کلمات کے ذریعہ پھونکا ہے اور جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے شفاء عطا فرمائی ہے۔ 

یہ وہ کتابیں ہیں جنہیں آپ نے مرتب فرمایا ہے یا پھر ان کو آپ کی ایما پر مرتب کیا گیا ہے لیکن کتابوں کی ایک طویل فہرست وہ ہے جو آپ کی حیات و خدمات اور نوادرات و ملفوظات کو یکجا کرنے کے لئے مختلف افراد نے لکھی ہے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور علم دوست احباب اپنے ذوق اور صلاحیت کے بقدر آپ کی تحریروں سے خوشہ چینی کررہے ہیں اور بکھرے موتیوں کو سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری کو اللہ تعالی نے علوم نبویہ اور دنیاوی علوم کا بڑا حصہ عطا فرمایا تھا۔ حتی کہ آپ بعض ایسے علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے جن کا رواج مدارس کی چہار دیواری میں نہیں ہے۔ مطالعہ کا ذوق و شوق اس قدر تھا کہ آپ نے صرف علماء اسلام کو ہی نہیں بلکہ مغربی فلاسفہ کو بھی بہت اچھے سے پڑھا تھا اور یہی وجہ ہے کہ علم کلام جدید پر آپ کی پکڑ بہت زیادہ مضبوط تھی۔

Related Posts

One thought on “علامہ انور شاہ کشمیری کی تصانیف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے