ممبئی ہائی کورٹ، ‏تبلیغی ‏جماعت ‏اور ‏ضمیر ‏فروشوں ‏کا ‏ٹولہ

ممبئی ہائی کورٹ، تبلیغی جماعت اور ضمیر فروشوں کا ٹولہ

ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد برانچ نے تبلیغی جماعت کے تعلق سے منصفانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے پورے معاملات کو سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ قرار دے دیا ہے۔ ہائی کورٹ کے مطابق باہر ممالک سے آکر مرکز نظام الدین کے تبلیغی پروگرام میں شرکت کرنے والے افراد کو بلی کا بکرا بنایا گیا تھا جبکہ یہ حضرات بے قصور ہیں۔ 

مارچ کے مہینہ میں جب تقریباً پوری دنیا کورونا وائرس سے متاثر ہوچکی تھی اور ہندوستان میں بھی چند افراد کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے تھے لیکن اس وقت تک ہمارے ملک ہندوستان میں ایسی کوئی گہما گہمی یا حکومت کی جانب سے اعلان نہیں ہوا تھا جس کی بنیاد پر مذہبی اجتماعات، شادی، کھیل کود اور دیگر محافل و مجالس جہاں عوام کا جم غفیر ہوتا ہے انہیں قابلِ گرفت یا قابلِ ملامت تصور کیا جائے یا ان پر اتہامات و الزامات کے نشتر چلائے جائیں۔ مارچ کے دوسرے عشرے میں حکومت ہند نے اس بیماری کو ہیلتھ ایمرجنسی تسلیم نہیں کیا تھا۔ فروری کے اخیر میں امریکی صدر کے اعزاز میں لاکھوں افراد کو ایک اسٹیڈیم میں جمع کیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ ہورہا تھا، کہیں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ سب معمول کے مطابق تھا لیکن انہی ایام میں کورونا وائرس خاموشی سے اپنے قدم بڑھائے جارہا تھا اور پھر ایک دن اچانک 22 مارچ کو جنتا کرفیو کا اعلان کیا جاتاہے۔ یہ اعلان غیر متوقع تھا لیکن حکومتی مشورہ اور پھیلتے ہوئے وائرس کی روک تھام کیلئے اس اعلان پر عمل پیرا ہونا ضروری تھا۔ عوام نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا اور حتی الامکان گھروں سے باہر نکلنے پر اجتناب کیا۔ یہ اعلان اس قدر غیر متوقع تھا کہ اچانک ریلوے نے ٹرین سروس بھی بند کرنے کا اعلان کردیا۔ جو جہاں تھا، جس حال میں تھا اسی حال میں یہ سوچ کر رہ گیا کہ ایک دن کی بات ہے پھر اپنی منزلوں کو رواں دواں ہوجائیں گے۔
لیکن شام ہوتے ہوتے پورے ملک کو یکلخت ہر طرح کی سہولت سے محروم کردیا گیا۔ بغیر کسی منصوبہ اور بلا سوچ بچار کے تالا بندی کی تین ہفتوں تک توسیع کردی گئی۔ تمام طرح کی سواریاں حتی کہ ذاتی سواریوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ جو جہاں تھے، جس حال میں تھے، جیسے تھے اچانک ان کی زندگی تھم گئی۔ تمام صوبوں کی سرحدیں بند کردی گئی۔ اس اچانک گہما گہمی اور غیر منصوبہ بند طریقے سے نافذ کردہ تالا بندی کے ہولناک نتائج منظر عام پر آنے لگے۔ مزدور حضرات جو فٹ پاتھ اور شہروں کی سڑکوں کے کنارے زندگی کی شام گزارتے ہیں، ان کے عارضی مسکن کو ختم کردیا گیا۔ ہر دن کنواں کھود کر پانی پینے والے پھیری والے اور ڈیلی مزدور نان شبینہ کو ترسنے لگے، غریبوں کے چولہے بند ہوگئے۔ معصوموں کی چیخ و پکار سے ماؤں کی چھاتیاں پھٹنے لگی، بچوں کی بھوک دیکھ کر باپ کی آنکھیں تر ہورہی تھی لیکن مجبوری اور لاچارگی نے قدموں کو جکڑ لیا تھا۔ یہ سب کچھ ہورہا تھا اور سب کچھ دیکھا جارہا تھا۔ میڈیا کے چند غیور اور باضمیر افراد ایسے لوگوں کی کہانیاں، ان کے درد و الم اور بھوک سے بلکتے بچوں کو میڈیا کوریج دے رہے تھے۔ لوگوں میں بیداری پیدا ہورہی تھی۔ اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ یہ غریبوں کیلئے جان لیوا ثابت ہوگا۔ لوگوں نے بولنا شروع کردیا تھا، حکومت سے سوالات کئے جارہے تھے، حکومتی نمائندوں کو جواب دینے پر مجبور کیا جارہا تھا، عوام کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی اور پھر اچانک وہ سب کچھ بھلا دیا گیا۔
ایسا کھیل رچا گیا، جس نے تمام تکالیف کو پس پشت ڈال دیا۔ ایک وائرس، ایک بیماری، ایک مرض کو ایک مخصوص طبقہ سے جوڑ کر پوری قوم کو کٹہرے میں لاکر کھڑا کردیا گیا۔ تبلیغی جماعت کو تختہ مشق بنایا گیا اور اس کے ضمن میں پوری مسلم قوم مطعون ہوگئی۔ الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا غرضیکہ ہر چہار جانب مکمل سوچی سمجھی سازش کے تحت مہینوں تک دن و رات گلا پھاڑ کر انہیں بدنام کرنے کے تمام حربوں کو بروئے کار لایا گیا۔ ایک بیماری کے ضمن میں ہمارے ملک کے نام نہاد میڈیا والوں نے فرقہ پرستی کا ایسا کارڈ کھیلا جس میں کئی معصوموں کی جان چلی گئی۔ گاؤں دیہات میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی کے بورڈ آویزاں کئے گئے۔ سبزی فروش اور پھل فروش مسلمانوں کو زد و کوب کیا گیا۔ مسلمانوں کی دکانوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ پوری قوم کو اچھوت اور انسانیت کا دشمن بناکر پیش کیا، ہر دن غلط خبروں اور جھوٹی باتوں کے ذریعے مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا رہا ہے اور یہ سب کچھ صرف اس لئے کیا گیا تھا، تاکہ متوسط اور اعلیٰ طبقے کے افراد غریبوں کے درد نہ دیکھ سکیں۔ ان کے بچوں کی بلبلاہٹ نہ سن سکیں، ہزاروں میل کی پیدل مسافت سے چھلنی قدموں کو نہ دیکھ سکیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لئے کیا گیا تھا تاکہ ہم حقیقت سے بے خبر رہیں اور جملوں کی رنگین دنیا میں کھوئے رہیں۔
ملک ہندوستان کے میڈیا نے جتنا گھناؤنا کھیل کھیلا تھا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انسانیت اور شرافت کے تمام اقدار کو بالائے طاق رکھ کر جھوٹ، فریب، دغا اور دھوکہ کا دوسرا نام میڈیا بن گیا تھا۔ کئی علاقوں میں میڈیا کے جھوٹ کا پردہ فاش پولس کی جانب سے کیا گیا۔ اس کے باوجود ان میڈیا والوں نے جھوٹی خبروں کو شائع کرنے سے اجتناب نہیں کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ 
دیر آید درست آید۔ لیکن کیا ان ضمیر فروشوں اور انسانیت کے دشمنوں کو جو چند کھنکھناتے سکوں کے عوض اپنا ایمان، اپنا پیشہ، اپنا ضمیر سب کچھ بیچ دیتے ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ کیا مستقبل میں انہیں ایسے کام کرنے سے روکا جائے گا۔ کیا ان کے کالے کرتوتوں پر قدغن لگے گا یہ وہ سوالات ہیں جو اب بھی لاینحل ہیں۔ یہ سوالات اس وقت تک لاینحل رہیں گے جب تک انسانیت کے دشمن اور ضمیر فروشوں کا ٹولہ اس پیشہ سے وابستہ رہے گا۔ عوام کو بیدار ہونا پڑے گا، انہیں سمجھنا پڑے گا کہ آخر کب تک ہم ان کے جھوٹ کو برداشت کریں گے۔ کب تک حقیقت حال سے عوام کو بے خبر رکھا جائے گا۔ کب تک غریبوں کے نام پر امیروں کی کوٹھیوں کو بھرنے کے انتظامات کئے جائیں گے۔ اگر ہم بیدار ہوجائیں تو وہ سب کچھ ممکن ہے جو ہم سوچتے ہیں۔ ہمیں جھوٹ نہیں سچ چاہئے۔ ہمیں مذہب میں تقسیم کرنے والا میڈیا نہیں بلکہ حقیقت کو بیان کرنے والا میڈیا چاہئے۔ لیکن یہ سب کچھ تب ہوگا، جب ہم بیدار ہوجائیں گے۔ 

ہمارے دیگر مضامین سے استفادہ کیلئے کلک کریں

Related Posts

0 thoughts on “ممبئی ہائی کورٹ، ‏تبلیغی ‏جماعت ‏اور ‏ضمیر ‏فروشوں ‏کا ‏ٹولہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے