مولانا محمد شفیق قاسمی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو
عروس البلاد ممبئی جسے سپنوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ اس شہر کی خاصیت یہ ہے کہ جب پوری دنیا رات کی تاریکی میں محو خواب ہوتی ہے، تب بھی یہ شہر جاگتا ہے اور اپنے مکینوں کو جگاتا ہے۔ پورے ملک اور بیرون ممالک سے افراد اپنے معاش کی حصول یابی کیلئےحسین خوابوں کو سجائے اس وادی میں قدم رکھتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔ جو ایک بار یہاں آگیا، پھر اس نے کبھی دوبارہ جانے کی کوشش نہیں کی بلکہ سرزمین ممبئی کی مٹی اور یہاں کی تہذیب وثقافت میں رچ بس گئے۔ اس شہر نے کبھی کسی کو مایوس نہیں کیا ہے۔ ہر کسی کو اس کا حصّہ دیا ہے۔ یہاں بوجھ اٹھا کر محنت مزدوری کرنے والا بھی خوش ہے اور وسیع و عریض فلک بوس عمارتوں میں مقیم افراد بھی خوش ہیں۔ یہ شہر ہندوستان کی معاشی راجدھانی ہے، جہاں سے پورے ملک کی معیشت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔یہاں بسنے والے مذہب، ذات پات اور خاندانی رسم و رواج سے پَرے انسانیت کی بنیاد پر باہمی تعاون کو فوقیت و اہمیت دیتے ہیں۔اس شہر میں ہر مذہب کے ماننے والے مکمل اطمینان و سکون کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔مختلف علاقوں میں مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں اپنے ماننے والوں سے پُر رہتی ہے۔ممبئی شہر میں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو تجارت و ملازمت سمیت دیگر دینی معاملات میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ معاش کی اس نگری میں چند ایسے افراد بھی دور دراز کے علاقوں سے وارد ہوئے ، جن کے دلوں میں رزق سے زیادہ رزاق کے بندوں کی فکر تھی۔ جنہوں نے اپنے سینوں میں موجود شمع ایمانی سے شہر کے مسلمانوں کی دنیا و عاقبت سنوارنے کا کام کیا ہے۔ جنہوں نے حصول رزق سے زیادہ مسلمانوں کی دینی، فکری و اصلاحی تربیت کو اپنی زندگی کا مشن بنایا، اور پوری زندگی اس کار خیر کو انجام دیتے رہے ہیں۔ انہیں چند نابغہ روزگار ہستیوں میں ایک درویش صفت، منکسرالمزاج، سادگی کے پیکر، مجذوب صفت ہستی حضرت الاستاذ محترم مولانا محمد شفیق قاسمی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی ہے، جنہوں نے تقریباً نصف صدی تک اقتصادی راجدھانی ممبئی میں علمی چراغ جلائے رکھا، جن کی مخلصانہ کاوشوں اور دعائے نیم شبی کے اثرات سرزمین ممبئی کے ذرات میں اب بھی پیوست ہیں ۔ مولانا محمد شفیق قاسمی ؒ نے ممبئی عظمی کی عظیم درس گاہ دارالعلوم امدادیہ سے منسلک ہوکر ایسے رجال تیار کئے ہیں جو صرف شہر ممبئی ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں اپنی دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تاریخ پیدائش
آپ کی پیدائش اتر پردیش میں ضلع بستی کے "کرہی” نامی گاؤں میں جناب محمد صالح صاحب کے گھر 1944 بمطابق 1363 ہجری میں ہوئی۔ عہد طفلی میں ہی والد محترم کے سایہ سے محروم ہوگئے۔ عظیم، خدا ترس، نیک صفت والدہ محترمہ نے اسباب و وسائل سے عاری، اور غربت کے ماحول میں رہنے کے باوجود دینی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ والدہ کی شبانہ روز کی دعائیں اور محنت و جفاکشی رنگ لائی، اور ان کے لخت جگر، نور نظر نے علم و عمل کے باب میں خود کو ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید بنالیا۔ کسمپرسی کے ایام میں مولانا محمد شفیق قاسمی نے حصول دنیا کے بجائے حصولِ علم کو ترجیح دی اور تا دمِ حیات آپ اپنے اس عمل پر ثابت قدم رہے۔
تعلیم کا آغاز
آپ نے تعلیم کی ابتدا ءاپنے گاؤں میں واقع مدرسہ ہدایت العلوم سے شروع کی۔ مدرسہ ہدایت العلوم ایک قدیم اور تاریخی ادرہ ہے، اس مدرسہ نے علاقہ کے دینی ، فکری و اصلاحی باب میں بہت اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔اس زمانہ میں مدرسہ کے صدر المدرسین حضرت مولانا ہدایت علی رحمۃ اللہ علیہ ( خلیفہ اجل حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ) تھے۔ قاعدہ بغدادی سے آپ نے تعلیم کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا ہدایت علی کی زیر سرپرستی مشکوۃ شریف تک کی تعلیم حاصل کی۔آپ اپنے استاذ محترم کے معتمد اور قابل شاگرد تھے۔ مولانا محمد شفیق قاسمی ؒ نے زمانہ طالب علمی میں اپنے اساتذہ کرام کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہوئے ہمیشہ خود کو ان کے لئے وقف کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ مولانا ہدایت علی ؒ نے اپنے اس نونہار اور لائق ق فائق شاگرد کو ہمیشہ اپنی مخصوص دعاؤں میں یاد رکھا اور ان کی کامیابی و کامرانی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہا کرتے تھے۔ 1382 ہجری میں آپ نے مظاہر علوم سہارنپور کا سفر کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مظاہر علوم میں وقت کے عظیم محدث شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب اور حضرت مولانا امیر احمد رحمۃ اللہ علیہم جیسے کبار علماء اپنی تابانیوں سے تشنگان علوم نبویہ کو سیرابی فراہم کررہے تھے۔حافظ احمد علی محدث سہارنپوری، مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور دیگر اکابرین مظاہر علوم کے اس چمن میں دور دراز سے طلبہ علوم نبویہ کے حصول کے لئے تشریف لایا کرتے تھے۔ مولانا محمد شفیق قاسمی نے علوم متداولہ کی تکمیل کے لئے مظاہر علوم کا انتخاب فرمایا اور ان اکابرین عظام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ آپ نے مکمل بخاری شریف حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی ہے۔
دوران طالب علمی آپ ہمیشہ سے اپنے اساتذہ کرام کی بے لوث خدمت انجام دینے کو اپنے لئے شرف تصور کیا کرتے تھے۔ حضرت شیخ الحدیث کی مجالس میں پابندی سے شرکت فرماتے اور واردین کی ضیافت میں ہمہ وقت مشغول رہا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں مولانا شفیق قاسمی صاحب گوشت کھانے سے اجتناب کیا کرتے بلکہ گوشت کی جانب طبیعت مائل ہی نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ حضرت شیخ الحدیث دستر خوان پر موجود تھے، دستر خوان پردیگر اشیاء سمیت گوشت بھی موجود تھا۔ حضرت شیخ الحدیث نے اپنے مطیع و فرمانبردار اور محبوب شاگرد سے کھانے کیلئے کہا۔ مولانا محمد شفیق صاحب نے جواب دیا: "حضرت گوشت کی جانب طبیعت مائل نہیں ہوتی ہے”۔ یہ سن کر، حضرت شیخ الحدیث نے اپنے پاس دستر خوان پر بٹھایا اور کہا: "کھاؤ، ان شاءاللہ، طبیعت مائل ہو جائے گی”۔ مولانا محمد شفیق صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اس کے بعد، گوشت سے زیادہ مرغوب غذا ءمیرے لئے اور کوئی نہیں تھی۔ 1383 میں آپ نے دورہ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی۔
مولانا اسعد اللہ صاحب کی خدمت میں
ناظم مظاہر علوم حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان دنوں پیرانہ سالی کے ایام سے گزر رہے تھے۔ ضعف و نقاہت کی وجہ سے ہمیشہ ایک خادم کی ضرورت محسوس ہوتی تھی جو بروقت کام کو انجام دے سکے۔ مولانا شفیق صاحب نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے، حضرت والا کی خدمت کیلئے خود کو پیش کردیا۔ حضرت والا کے وضو کا انتظام، غسل وغیرہ کیلئے گرم پانی، آرام کیلئے بستر وغیرہ کی درستگی، مہمانوں کی ضیافت، غرضیکہ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب کی خدمت کیلئے ہمہ وقت چاق وچوبند رہتے، جب ضرورت پیش آتی، آپ خدمت کیلئے حاضر رہتے تھے۔ مولانا اسعد اللہ صاحبؒ کی خدمت میں رہتے ہوئے آپ نے علمی اعتبار سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ ان کے اقوال و ملفوظات کو یاد رکھتے، مطالعہ کے لئے کتابیں بآسانی فراہم ہوجاتی اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ حضرت ناظم صاحبؒ سے سوال و جواب کے ذریعہ اپنی علمی تشنگی کو سیرابی فراہم کرتے تھے۔ان نابغہ روزگار ہستیوں کی دعاؤں کا ثمرہ تھا کہ اللہ نے آپ کو اپنے دین کی خدمت کیلئے منتخب کرلیا تھا۔
دارالعلوم دیوبند میں داخلہ
مظاہر علوم سے فراغت کے بعد اپنے استاذ محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کے مشورہ سے دارالعلوم دیوبند کے "شعبہ تفسیر” میں داخلہ لیا۔ دارالعلوم دیوبند کا یہ وہ عہد تھا جب یہاں "شعبہ تفسیر” کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ طلبہ کرام شعبہ تفسیر میں وقت لگانے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ایک سال تک دارالعلوم دیوبند کے علمی ماحول نے آپ کی صلاحیتوں میں چار چاند لگا دیے۔ فن تفسیر کی باریکیوں اور تفسیر کی تاریخی روایات میں آپ نے مہارت حاصل کی۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ، حضرت مولانا فخر الحسن صاحبؒ، علامہ ابراہیم بلیاوی ؒاور علامہ حسین بہاری ؒجیسے کبار علماء اسلام سے استفادہ کیا۔ حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی فن تفسیر میں بے کمال استاذ تھے۔ آپ نے گرچہ مصروفیت کے باعث قرآن مجید کی تفسیر مکمل نہیں مرتب کی ہے، لیکن جن آیات پر آپ نے لکھا ہے، اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔1384 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ وطن مالوف واپس ہوئے اور یہاں مدرسہ ہدایت العلوم سے وابستہ ہوگئے۔
درس و تدریس کی ابتدا
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ نے استاذ محترم مولانا ہدایت علی کی منشا ءکو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مدرسہ ہدایت العلوم میں تدریسی خدمات کا فیصلہ کیا۔ جوانی کا جوش اور مطالعہ کی کثرت کا عالم یہ تھا کہ، آٹھ آٹھ گھنٹے پڑھاتے، لیکن کبھی کوئی کتاب بغیر مطالعہ کے نہیں پڑھاتے تھے۔یہ آپ کے اعلی اخلاق اور تہذیب و شائستگی کا ادنی نمونہ تھا کہ جس مدرسہ کی چہار دیواری میں آپ نے اپنا عہد طفولیت گزارا تھا، جن اساتذہ کرام کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا، جن کی مشفقانہ تربیت کے زیر اثر آپ کو یہ علمی مقام و مرتبہ نصیب ہوا تھا، انہوں نے آپ کو اسی مدرسہ میں طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لئے منتخب کیا تھا۔بچے جس عمر میں طفلانہ کھیل کود میں اپنا وقت لگاتے ہیں، آپ اس عمر میں اپنے اساتذہ کی بکریاں چَرایا کرتے تھے۔سردی کے موسم میں ان کے لئے گرم پانی کا انتظام کرتے اور ان کے راحت و سکون کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے۔
ممبئی آمد
اس کارگہ عالم کا مکمل نظام اس ذات باری کے قبضہ میں ہے جس نے اس عالَم کو بسایا ہے۔روئے زمین پر وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات روز ازل سے ہی لوح محفوظ میں موجود ہے۔کبھی انسان کی خواہش کہیں رہنے یا کچھ کرنے کی ہوتی ہے لیکن مقدرات میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لئے ایسے اسباب پیدا کردیئے جاتے ہیں کہ اس کی جانب سے دل اٹھ جاتا ہے۔مولانا شفیق قاسمیؒ صاحب اپنے علاقہ میں رہ کر درس و تدریس میں وقت لگانا چاہتے تھے لیکن حالات اور مقدرات نے انہیں ممبئی شہر پہنچادیا۔ممبئی شہر میں اللہ تعالٰی نے آپ کو دین اسلام اور تعلیمات نبوی کی ترویج و اشاعت کے فریضہ سے جوڑ دیا اور تا دم حیات آپ تعلیم و تعلم میں لگے رہے۔
1387ہجری میں آپ ممبئی تشریف لائے۔ سانکلی اسٹریٹ میں واقع مدرسہ حسینیہ میں بحیثیت استاد منتخب کئے گئے۔ اگرچہ یہ مدت بہت مختصر ہے، کیوں کہ بعض داخلی مسائل کی بنا پر کچھ دنوں بعد مدرسہ بند ہوگیا۔ مدرسہ حسینیہ کے بند ہونے کے بعد 20 ذیقعدہ 1387 ہجری میں قاضی فخرالدین رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو مولانا بدر الدین اجمل علی قاسمی کو درس نظامی کی کتابوں کو پڑھانے کیلئے منتخب کیا۔
دارالعلوم امدادیہ میں تقرری
1389 ہجری میں آپ دارالعلوم امدادیہ ممبئی سے منسلک ہوئے۔ موجودہ وقت میں دارالعلوم امدادیہ ممبئی شہر کا سب سے قدیم اور سب سے عظیم دینی و تعلیمی ادارہ ہے۔1949 میں مولانا عبد العزیز بہاریؒ نے اس مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس وقت سے آج تک یہ مدرسہ اپنے فیوض و برکات اور بانی کی مخلصانہ جد و جہد و کاوش کے طفیل امت مسلمہ کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتا آرہا ہے۔ممبئی جیسے اقتصادی اور معاشی شہر کے قلب میں واقع ہونے کے باوجود یہاں کا معیار تعلیم قابل تعریف ہے، اور یہاں کے اساتذہ کی دعاء نیم شبی کے صدقے یہاں کے فیض یافتگان دین کے مختلف شعبے جات میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔دارالعلوم امدادیہ کا قیام اس وقت میں عمل میں آیا تھا جب ممبئی شہر کے مسلمانوں میں بدعات و خرافات اور رسم و رواج نے دین حنیف کی حقیقی تصویر کو مسخ کردیا تھا۔دین کے نام نہاد قائد و راہبر، راہزن بن کر عوام الناس کے ایمان کو برباد کررہے تھے۔ایسے پرآشوب اور ناساز حالات میں دارالعلوم امدادیہ نے حقیقی اسلام کو عوام الناس کے سامنے پیش کیا، خود ساختہ اور ڈھونگی راہزنوں کے چنگل سے عوام کو چھڑایا جس کے نتیجہ میں بے شمار بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم جانے کی توفیق ملی اور دین حنیف پر گامزن رہنے کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔
مولانا شفیق قاسمیؒ کا انٹرویو حضرت مولانا معراج الحق رحمۃ اللہ علیہ (سابق نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند) نے لیا تھا۔ اس زمانہ میں مولانا عبد الستار رحمۃ اللہ علیہ (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃالعلماء) مدرسہ دارالعلوم امدادیہ کے صدر المدرسین تھے۔ اس کے بعد آپ نے پوری زندگی مولانا عبد العزیز بہاری رحمۃ اللہ علیہ کے لگائے گئے اس پودے کو سینچنے اور سنوارنے میں گزار دیا۔ آپ کا انداز درس نہایت سلیس اور دلکش تھا۔ پیچیدہ مسائل کو چٹکیوں میں حل فرمانے کے ہنر سے واقف تھے۔ خصوصاً آپ کا درس جلالین شریف طلباء کے درمیان سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث تھا۔ تاریخ و سیر کے حوالے جات اور مفسرین کی آراء نیز اختلاف ائمہ کو واضح انداز میں بیان کرنے میں آپ ید طولی رکھتے تھے۔ تاریخ کی سنگلاخ وادیوں میں آپ نہایت شائستہ اور ششتہ طرزِ بیان کو اپناتے ہوئے راجح اقوال کی نشاندھی کرتے تھے۔
مطالعہ اور کتب بینی آپ کا سب سے محبوب مشغلہ تھا۔ آپ ہمہ وقت کتابوں کی جستجو میں رہا کرتے تھے۔ کثرت مطالعہ اور کتب بینی کی برکت تھی کہ آپ کا گھر کتابوں کی لائبریری کا منظر پیش کرتا تھا۔ ایک باضابطہ کمرہ کتابوں کیلئے مختص تھا، جس میں ہر جانب مختلف علوم و فنون کی کتابیں بالترتیب لگی ہوئی تھی۔ آپ میں اخذ کرنے اور نادر اقوال نیز تاریخی حوالے جات کو محفوظ کرنے کا حد درجہ شوق تھا۔ اس کام کیلئے آپ ہمہ وقت اپنے ساتھ ایک کاپی (ڈائری) رکھتے تھے تاکہ بروقت محفوظ کیا جاسکے۔ مختلف موضوعات پر، مختلف علماء اسلام، دانشوران قوم و ملت کے بے شمار اقوال کو ان ڈائریوں میں قید کیا ہے۔ اپنے دور میں پیش آنے والے واقعات کو تاریخ اور دن سمیت قلم بند فرماتے، یہی وجہ ہے کہ آپ جب پرانے واقعات کو دہراتے اور بیان کرتے تو تاریخ، سن، مہینہ حتی کہ دن بھی بتایا کرتے تھے۔فن تاریخ میں آپ بے مثال تھے۔ تفسیر اور تاریخ آپ کا سب سے پسندیدہ موضوع تھا۔ ان ہر دو موضوعات پر آپ کی گرفت قابلِ رشک تھی۔ (ان شاء اللہ تمام ڈائریوں پر کام کرنے کا ارادہ ہے، دعا فرمائیں فرصت کے اوقات میسر ہوجائے)
مولانا شفیق قاسمی اپنے شاگردوں کو ہمیشہ سادگی کی تعلیم دیا کرتے تھے، انہیں دنیا کی چکا چوند میں گم نہ ہونے کے بجائے آخرت کو پیش نظر رکھ کر دنیا کی رنگینی سے اپنے آپ کو بچانے کا مشورہ دیتے تھے، مولانا محترم پوری زندگی اسٹیج، جلسہ جلوسوں سے دور رہے فرمایا کرتے تھے کہ میرے استاذ محترم نے ’ہائی لائٹ‘ ہونے والی جگہوں سے منع کیا ہے اور میں اسی پر عمل پیرا ہوں۔ طبیعت میں انتہائی سادگی کے ساتھ حضرت میں مزاح کا عنصر بھی تھا، کبھی کبھی دوران درس طالبعلموں کو اس طرح کی باتیں بتایا کرتے تھے کہ لگتا تھا کوئی مجذوب پیشین گوئی کررہا ہے۔ ایک واقعہ یاد آرہا ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب انٹرنیٹ ہندوستان میں اپنے قدم پسار رہا تھا، فیس بک، وہاٹس ایپ اور دیگر ایپس متعارف بھی نہیں ہوئے تھے، انہوں نے ہندوستانی نسلوں اور خاص کر مدارس کے طلبا سے کہا تھا کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ لوگ مطالعہ سے دور بھاگیں گے، ان کی کتابیں تمام کی تمام انٹرنیٹ پر آجائیں گی لیکن بہتوں کو پڑھنے کی توفیق نہیں ہوگی اور ایک دن ایسا آئے گا کہ انٹرنیٹ کے طوفان میں مطالعہ کا ذوق وشوق ختم ہوجائے گا ۔ آج جب ہم طالب علموں پر نظر ڈالتے ہیں تو حضرت الاستاذ کی کہی ہوئی بات صد فیصد درست معلوم ہوتی ہے۔
دارالعلوم امدادیہ کی مسند صدارت
1992 کے درمیان مولانا عباس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد آپ کو متفقہ طور پر دارالعلوم امدادیہ کیلئے بطور صدر المدرسین منتخب کیا گیا۔ آپ شہرت و مقبولیت اور ناموری سے ہمیشہ دور رہا کرتے تھے، لیکن ارباب مدرسہ اور کمیٹی کے اصرار پر اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ نے اس عہدہ کو قبول فرمایا۔ اعانت غیبی اور احباب مدرسہ کے باہمی تعاون سے آپ نے اس عہدہ کا کما حقہ حق ادا کیا تھا۔ اساتذہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور طلبہ کے تئیں مخلصانہ رویہ نے آپ کو اعلی مقام عطا کیا تھا۔ آپ تا دمِ حیات اس عہدہ پر برقرار رہے اور ہمیشہ طلبہ کے بہترین مستقبل کیلئے متفکر رہا کرتے تھے۔طلبہ کرام کی تعلیم کے سلسلہ میں آپ حد درجہ فکرمند رہا کرتے تھے۔ وقت کی پابندی، گھنٹوں کی پابندی اور نصاب کی تکمیل کے بہت زیادہ خواہاں تھے۔ 1992 سے 2017 تک آپ مسند صدارت پر متمکن رہے، اس مدت میں مدرسہ کا تعلیمی معیار، تربیتی انداز اور طلبہ کرام کو سہولت پہنچانے میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ طلبہ کرام کی خارجی مشغولیات، جیسے ہفتہ واری پروگرام، جداری پرچہ کی اشاعت، طلبہ کی لائبریری وغیرہ میں ذاتی طور پر دلچسپی لیا کرتے تھے۔2009/2010 میں آپ نے طلبہ کرام کی لائبریری کے لئے الگ سے ایک کمرہ تیسری منزل پر تعمیر کرایا، لائبریری کا مکمل کام آپ کی نگرانی میں ہوا۔ لائبریری کا یہ کام رمضان المبارک کی چھٹی کے درمیان ہوا تھا، لیکن شوال کے مہینہ تک کام تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔ آپ کی خواہش یہ تھی کہ تعلیمی سال کے ساتھ ساتھ لائبریری کا آغاز بھی ہوجائے۔ رنگ و روغن کے کام کو فوری طور پر مکمل کرنے کے لئے آپ از خود چند طلبہ کے ساتھ شامل ہوگئے۔ طلبہ کے اس گروپ میں بندہ بھی شامل تھا، باصرار ہم تمام طلبہ مولانا کو اس بات پر راضی کرسکے کہ آپ فقط راہنمائی فرمائیں ہم تمام خدمت کے لئے تیار ہیں۔لائبریری کی تمام کتابوں کا از سر نو اپنی نگرانی میں اندراج کرائے، حسب ضرورت مزید کتابوں کا اضافہ فرمایا۔
دارالعلوم امدادیہ سے آپ کو حقیقی لگاؤ اور محبت تھی۔ ایک تعلق، جسے الفاظ کے پیرائے میں ڈھالا نہیں جاسکتا، ایک چاہت، جسے کوئی دوسرا محسوس نہیں کرسکتا، ایک الفت جس کے جذبات کو کوئی دوسرا سمجھ نہیں سکتا۔ دارالعلوم امدادیہ آپ کے نام سے متعارف تھا اور آپ دارالعلوم امدادیہ کے نام سے متعارف تھے۔ دو جان ایک قالب کی جیتا جاگتا نمونہ تھا۔ آپ نے اپنے عنفوان شباب کو مدرسہ کی ہمہ جہت ترقی کے لئے وقف کردیا تھااور آپ کی پیرانہ سالی مدرسہ کی دیکھ بھال میں بسر ہوئی ہے۔ مدرسہ کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کو اپنی ذات پر ترجیح دیا کرتے تھے، جب تک وہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا آپ بے چین و بے قرار رہا کرتے تھے۔ مدرسہ اور طلبہ مدرسہ کے تئیں حد درجہ خود دار واقع ہوئے تھے، کسی صورت مدرسہ کی تحقیر یا کسی کی بدزبانی اور ہرزہ سرائی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ خوب یاد ہے، ایک مرتبہ رات دس گیارہ بجے کے درمیان کسی صاحب نے بغیر پیشگی اطلاع کے شادی کا (مابقیہ)کھانا بھجوایا، طلبہ کھانے سے فارغ تھے، مولانا کو اس بات کی اطلاع دی گئی، تمام صورتحال سے آگاہ سے کیا گیا، مولانا نے یہ کہہ کر کھانا قبول کرنے سے انکار کردیا کہ ہمارے طلبہ مہمان رسول ہیں، یتیم اور لاوارث نہیں کہ کسی کا (مابقیہ) کھانا استعمال کریں۔
سفر حج
زیارت بیت اللہ اور حج کی تمنا ہر مسلمان کی قلبی خواہش ہوتی ہے۔ اس آرزو اور تمنا میں دور دراز میں بسنے والے اہل اسلام زاد راہ کے انتظام میں لگ کر بسا اوقات زندگی گزاردیتے ہیں۔لیکن حاضری کی سعادت انہیں نصیب ہوتی ہے جنہیں اللہ تعالی اپنے گھر کی زیارت کرانا چاہتا ہے۔مولانا شفیق قاسمیؒ ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالٰی نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار اپنے گھر بلایا تھا۔ 1979 میں آپ نے پہلا حج کیا۔ آپ کا یہ سفر بذریعہ پانی جہاز ہوا تھا، ممبئی کے ساحل سے جدہ کے ساحل تک چودہ دن لگے تھے۔مولانا فرمایا کرتے تھےکہ اس مدت کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ عام لوگ بھی ان چودہ دنوں کے دوران ارکان حج اور دیگر طریقوں کو خوب اچھی طرح یاد کرلیا کرتے تھے۔پورا سفر ذکر و اذکار، تلاوت قرآن، تکبیر و تلبیہ میں گزرتا تھا۔عام لوگوں کے لئے دین کے بنیادی عقائد اور مسائل سیکھنے کا یہ بہترین وقت ہوتا تھا۔
اسی سال حرم شریف پر بلوائیوں نے حملہ کیا تھا۔ تقریباً پندرہ دنوں تک حرم شریف بند رہا، بالآخر اللہ نے اپنے مقدس گھر کو باطل عقیدے والوں سے پاک کردیا۔ مولانا محمد شفیق صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ اس سفر حج میں، میں نے تقریباً گیارہ سو طواف کئے تھے۔ ایک ایک بار میں 52 طواف کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ خدا کے گھر سے حد درجہ عقیدت ہی تھی کہ مدرسہ میں پڑھاتے ہوئے آپ کو اللہ نے چھ مرتبہ اپنے در کی حاضری کیلئے منتخب کیا تھا۔
فیض یافتگان
آپ نے تقریباً نصف صدی تک تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس طویل عرصہ میں ہزاروں کی تعداد میں آپ کے شاگرد پیدا ہوئے۔ شہر ممبئی سمیت ملک و بیرون ممالک کے چپہ چپہ میں آپ کے فیض یافتگان علم کی شمع جلائے ہوئے ہیں۔اس طویل عرصہ میں آپ نے طلبہ کرام کی کامیابی و کامرانی اور ان میں تعلیمی قابلیت پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔آپ کی یہ خدمت ذخیرہ آخرت ہے۔ آپ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ میں پڑھاتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو تادم حیات اس شعبہ سے منسلک رکھا۔
مشہور و معروف تلامذہ
اس دنیا کا عام دستور ہے کہ استاذ اور تعلیمی ادارہ کی قابلیت و معیار کا اندازہ ان کے فیض یافتگان سے کیا جاتا ہے۔ اگر کسی استاذ سے پڑھنے والے طلبہ لائق و فائق بن کر دنیا میں نام روشن کر رہے ہیں تو اس کی کامیابی کی اصل وجہ استاذ کی محنت و جفا کشی اور طلبہ میں علم کو گھول کر پلانے کی صلاحیت کو گردانا جاتا ہے۔ مولانا نور عالم خلیل امینی ؒ اور دیگر حضرات نے مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کی اس صفت کو بہت نمایاں طور پر بیان کیا ہے کہ وہ رجال سازی میں بے مثال تھے۔تربیت کا جو انداز آپ کو حاصل تھا اس کی مثال بمشکل نظر آتی ہے۔
استاذ محترم مولانا شفیق قاسمی کو اللہ تعالٰی نے رجال سازی اور مردم شناسی ہردو صلاحیت سے نوازا تھا۔ آپ کی نظر عنایت اور توجہ نے بے شمار طلبہ کی زندگی کو سنوارا اور بنایا ہے۔ آپ طلبہ کی حوصلہ افزائی فرماتے، اور ان کی راہنمائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ تے تھے۔ بطور مثال چند نام ذکر کئے جاتے ہیں:
حضرت مولانا بدر الدین اجمل علی قاسمی ( ممبر آف پارلیمنٹ و رکن شوری دارالعلوم دیوبند۔ حضرت مولانا محمود دریابادی ( رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و جنرل سکریٹری علماء کونسل ممبئی)۔ مولانا محمد افضل قاسمی ( استاد دارالعلوم بولٹن اینڈ لیکچرر کالج بلیک بورن برطانیہ) حافظ اقبال چونا والا ( رکن مجلسِ مشاورت دارالعلوم وقف دیوبند۔ مفتی اکرام اللہ قاسمی ( استاد مجمع ابی ابن کعب سعودی عرب) ۔ مولانا محمد اسجد عقابی قاسمی ( استاد دارالعلوم وقف دیوبند)۔ مفتی عبد الحلیم بستوی (مرتب احسن الہدایہ )۔ مفتی محمد مرشد قاسمی (استاد مسیح العلوم بنگلور)۔ مشہور صحافی مولانا نازش ہما قاسمی یہ چند نام، ان کے علاوہ ہیں جو مدرسہ دارالعلوم امدادیہ اور اطراف ممبئی میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔
تواضع و انکساری
تواضع و انکساری وہ اعلی صفات ہیں جو انسان کو بلندی کے اعلی مقام پر لے جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "من تواضع للہ فقد رفعہ اللہ، جو اللہ کے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ اسے بلندی عطا فرماتے ہیں”۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا میں انہیں صاحب فضل و کمال سے استفادہ ممکن ہوسکا ہے جن کے یہاں تواضع غالب رہا ہے۔ ورنہ تو اس روئے زمین پر بے شمار ایسے ادباء و نقاد نے جنم لیا ہے جو اپنے فن کے امام تھے لیکن ان کی رعونت اور کبر و تکبر کی وجہ سے خلق خدا استفادہ سے محروم رہی ہے۔ماضی قریب میں چند ایسی شخصیات گزری ہیں جن کے علم پر کسی کو کوئی کلام نہیں تھا، لیکن پوری زندگی وہ افہام و تفہیم، تعلیم و تعلم اور درس و تدریس سے محروم رہے ہیں۔
مولانا شفیق قاسمیؒ تواضع و انکساری، عاجزی، خاکساری، اصاغر نوازی، قدر دانی جیسی صفات حمیدہ سے متصف تھے۔ آپ اخلاق حسنہ کے پیکر اور خوش مزاج و خوش گفتار شخصیت کے مالک تھے۔طلبہ کے تئیں حد درجہ مشفق اور واردین کے لئے مثالی مہمان نواز تھے۔ایام کی گردش اور حالات کی سختی آپ کی خوش مزاجی پر اثر انداز نہیں ہوتی تھی، آپ ہر حال میں کدورت، رعونت، کبر، فخر و غرور جیسی صفات سے کوسوں دور رہا کرتے تھے۔ طلبہ کرام کی مسلسل غلطیوں پر بھی آپ انتہائی قدم اٹھانے کے روادار نہیں تھے، اور یہی وجہ ہے کہ ایسے بے شمار طلبہ جو دوران تعلیم، سلسلہ تعلیم کو منقطع کرنا چاہتے تھے، آپ کی عنایت و محبت کے طفیل آج عالم با عمل بن کر دین اسلام کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ رہن سہن میں نمود و نمائش اور ہٹو بچو جیسی چیزوں سے بے نیاز تھے۔ اٹھنے، بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سنت نبوی کے پیکر تھے۔ کھانے پینے میں جو میسر ہوتا، خوش دلی سے نوش فرماتے اور اللہ کا شکر بجا لاتے۔رنگ برنگ اور زرق و برق کے بجائے سادہ لباس زیب تن فرماتے۔ طلبہ کرام بھی اگر مولانا کے گھر پہنچتے تو خوب خاطر داری کرتے اور باضابطہ کھانے پینے میں اہتمام کیا کرتے تھے۔
مرض الوفات
2015 کے اوائل میں آپ کی طبیعت خراب ہوئی۔ ابتداء میں علاج و معالجہ کی کوشش کی گئی لیکن افاقہ نہیں ہوسکا۔ طبیعت میں اضمحلال برقرار رہا اور نشاط کی کیفیت جاتی رہی تھی۔ اسی اثناء میں آپ کو ممبئی کے مشہور اسپتال پرنس علی خان اسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں آپ کو انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا۔ ڈاکٹروں کی تشخیص نے موذی مرض کی نشاندھی کردی تھی۔ کچھ دنوں بعد جب افاقہ ہوا تو آپ نے دربارہ درس وتدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ مسلسل درد و الم اور تکلیف کے باوجود اسباق کی پابندی کرتے تھے۔ مسلسل دو سالوں تک آپ اس جان لیوا بیماری میں مبتلا رہے لیکن کبھی بھی بیماری کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ تقریباً 17 جولائی 2017 بمطابق 22 شوال 1440 اچانک طبیعت زیادہ بگڑ گئی۔ آناً فانا ًآپ کو صابو صدیق اسپتال میں داخل کرایا گیا لیکن اس بار خدا کو کچھ اور منظور تھا۔ نصف صدی تک ہندوستان کی معاشی راجدھانی کا یہ درویش اور مجذوب 19 جولائی کو دنیاوی چکا چوند سے ہمیشہ ہمیش کیلئے دور اپنے مالک حقیقی کی بار گاہ میں پہنچ گیا۔ اور بعد نماز عشاء سرزمین ممبرا میں ہمیشہ کےلیے محو خواب ہوگیا۔ اللہ تبارک و تعالی حضرت الاستاذ کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ (آمین)

Mashallah
Thanks
ایک مدت سے جِس تحریر کا امدادیہ کے ہر فرد کو بے صبری سے انتظار تھا الحمدللہ آپ کے ذریعے وہ تحریر ایک گرانقدر مضمون کی شکل میں منظرِ عام پر آئی اللہ پاک آپ کا زور قلم اور زیادہ کرے اس عظیم کارنامہ پر آپکو جزائے خیر عطا فرمائے اور اسی طرح ہمارے اکابرین کی خدمات سے ہمیں رو شناس کرانے کی توفیق عطا فمائے۔۔aamin
آمین ثم آمین۔
ہمت افزائی کا شکریہ
ماشاءاللہ نہایت ہی شاندار تعارف اور خدمات کا اجمالی تذکرہ
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اساتذہ کی قدر وقیمت کی توفیق بخشے اور ان کی خدمت کی توفیق عنایت فرمائے آمین
آمین ثم آمین
ماشاءاللہ بہت خوب۔ اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے،درجات بلند کرے اور مدرسہ کو نعم البدل عطا فرمائے۔
ماشاءاللہ لا جواب تحریر
الله آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے
ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے اللہ پاک سے دعا گو ہوں کہ اللہ پاک استاد محترم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوش میں اعلی سے اعلی مقام عطار فرمائے آمین اور برادرم مولانا اسجد عقابی صاحب کو اللہ پاک بہترن بدل عطاء فرمائے
ماشاء اللہ
اللہ پاک مولانا اسجد کی عمر و علم میں برکت عطا
فرمائے
مولانا رحمہ اللہ کی ڈائری…… کا انتظار ہے اللہ مولانا موصوف کو اس کام کے لئے منتخب فرمائے اور آسانی کا معاملہ فرمائے