سوء ظن

اِیاکم و الظن، فاِن الظن اکذب الحدیث

ظن ایک معیار ہے، ایک پیمانہ ہے، ایک میزان ہے ایک انسان کی شخصیت کو متعارف کرانے، اس کے اقوال و افعال اور کردار کو ناپنے، اس کے اخلاق کو سمجھنے، اس کی صداقت و حقانیت کو پرکھنے اور اس کے خیالات کو پڑھنے کا۔ اگر یہ ظن، سوء ظن اور بدگمانی ہے تو یہ ذہنی طور پر انسان کو مفلوج کردیتا ہے، اس کی تعمیری شخصیت کی صلاحیت کو ختم کردیتا ہے، اس سے امامت و قیادت کے اوصاف سلب کرلیتا ہے۔ ایسے انسان سے بہتری، خیرخواہی اور اچھائی کی امیدیں ختم ہو جاتی ہیں، اس کے سوچنے سمجھنے کا زاویہ بدل جاتا ہے، قوم کے تئیں اس کے افکار منفی رخ اختیار کرلیتے ہیں۔  تعمیری کام کے بجائے تخریبی کاموں میں اس کا ذہن کام کرنے لگتا ہے۔اور اگر یہ ظن، حسن ظن ہے تو یہ انسان کو جملہ اقسام کے صفات حمیدہ سے آراستہ کردیتا ہے۔ اسے امت کی قیادت و سیادت کا اہل بناتا ہے اور اس میں تعمیری کام کرنے کی بھر پور صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔

اسی لیے روایات میں جہاں ایک طرف حسن ظن کو ایک بہترین عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے تو دوسری طرف سوء ظن کو اکذب الحدیث کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  : "إنَّ حُسنَ الظَّنِّ مِن حُسنِ العِبادَة” "حسن ظن بہترین عبادت ہے”۔ (ابوداؤد، حديث  4993  باب فی حسن الظن)۔ یعنی یہ ایسی عبادت ہے جس کی ادائیگی کے لیے نہ بدنی اور نہ مالی قربانی کی ضرورت ہے، بلکہ محض آپ کی سوچ اور فکر و خیال کی وجہ سے آپ کی نیکیوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور اجرو ثواب میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اور سوء ظن کی قباحت کو بیان کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں "إياكم والظن، فإن الظن أكذب الحديث‏”‏ ( سنن الترمذي 1988 باب ما جاء في سوء الظن)۔ اس کی قباحت کی شدت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوء ظن کو سب سے بڑا جھوٹ قرار دیا ہے۔ یعنی اس کا شمار اکبر الکبائر میں ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بھی مختلف مواقع پر حسن ظن کی تعلیم دی ہے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، ایک مومن کے متعلق اچھا گمان رکھنے کا درس دیا ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے: ”تو کتنا عمدہ ہے، تیری خوشبو کتنی اچھی ہے، تو کتنا بڑے رتبہ والا ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، مومن کی حرمت (یعنی مومن کے جان و مال کی حرمت) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ ہے، اس لیے ہمیں مومن کے ساتھ حسن ظن ہی رکھنا چاہیئے“۔ (ابن ماجہ باب : حرمة دم المؤمن وماله)۔

حضرت سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں کہ ظن کی دو قسم ہے۔ اول یہ کہ کسی کے متعلق دل میں کوئی خیال پیدا ہوا، پھر اس خیال میں پختگی آئی اور بلا تحقیق و جستجو کے دوسروں سے اسے بیان کردیا، یہ سراسر حرام ہے۔ کیونکہ اس سے مرد مومن کی حرمت پامال ہوتی ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ دل میں بلا قصد خیال پیدا ہوا، لیکن یہ دل میں قائم نہیں رہا اور نہ اس کا کسی سے تذکرہ کیا گیا، یہ صورت گرچہ حرام نہیں ہے، لیکن اس سے اجتناب ضروری ہے۔ کیونکہ اسی طرح شیطان انسان کے دلوں میں جگہ بناتا ہے اور خیالات کی کثرت پیدا کرتا ہے۔

آج یہ بیماری بالکل عام ہوتی جارہی ہے، دلوں سے اس کی قباحت ختم ہوتی جارہی ہے، ہر ایک دوسرے سے خوف زدہ ہے کہ معلوم نہیں میرے سلسلے میں اس کے کیا خیالات ہیں۔جس بُرائی کو قرآن و حدیث میں اس قدر صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، اس کی ہولناکی اور بُرے نتائج سے بارہا آگاہ کرایا ہے، اس میں ملوث ہوکر مرد مومن کی حرمت اور اس کے تقدس کو پامال کررہے ہیں،  اس کے علاج کی ضرورت ہے، تصورات و تخیلات اور افکار و نظریات کو صحیح سمت عطا کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا علاج باطنی اصلاح ہے، اس لیے کہ شیطان کا سیدھا حملہ باطن پر ہی ہوتا ہے، وہ یہیں سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جان لو! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ درست ہے تو پورا جسم درست رہتا ہے لیکن اگر اس میں فساد آجائے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے، وہ قلب ہے۔

انسان کے افعال و اعمال کا دار و مدار اصلاح قلب پر مبنی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابرین اور صوفیاء کرام نے تزکیہ قلوب پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ باطنی اصلاح سے مقصود یہی ہے کہ قلب انسانی میں اتنی پاکیزگی پیدا ہوجائے کہ دوسروں کی ٹوہ میں وقت ضائع کرنے کے بجائے رضائے الہی میں مشغول رہے۔

ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "اتقوا مواضع التہم” تہمت کی جگہوں سے بچو۔ ایسے افعال و اعمال اور ایسی جگہوں سے اجتناب ضروری ہے، جو باعث ملامت ہو یا ان کے انجام دینے یا ان مقامات پر جانے سے تہمت کا اندیشہ ہو۔

ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ اعتکاف میں تھے، ایک شب ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں۔ کچھ دیر وہ آپ ﷺ کے ساتھ رہیں، اور جب رخصت ہونے لگیں، تو آپ ﷺ انہیں رخصت کرنے دروازہ تک تشریف لائیں۔ شب کی وجہ سے تاریکی چھائی ہوئی تھی، اسی لمحہ دو انصاری صحابی کا وہاں سے گزر ہوا، وہ دونوں وہاں سے تیزی سے گزرنے لگے تو آپ ﷺ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خاتون میری بیوی صفیہ ہے۔ ان دونوں  نے فرمایا، یا رسول اللہ آپ نے کیا بات کہہ دی! کیا آپ کے متعلق کوئی بُرا خیال ذہن میں لاسکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "ان الشیطان  یبلغ من الانسان مبلغ الدم و انی خشیت ان یقذف فی قلوبکما شیئا” شیطان انسان کے بدن میں خون کی مانند دوڑتا ہے اسلئے مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی وسوسہ نہ پیدا کردے، اس لئے میں نے وضاحت کردی ہے۔

یہ حال اس ذات گرامی کا ہے، جن کے ماننے والے ان کے نام پر بخوشی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا کرتے تھے۔ جن سے محبت اور جن کی اطاعت ایمان کے لئے ضروری ہے۔ جن کی اتباع  اور اطاعت کے بغیر اللہ کی بندگی قابل قبول نہیں ہے۔ مواضع التہم سے بچنے کا اس قدر اہتمام کہ بذات خود آواز دے کر انہیں حقیقت حال سے آگاہ کررہے ہیں۔ موجودہ دور میں اگر کسی صاحب حیثیت یا ذمہ دار کو یہ احساس ہوجائے کہ میرے متعلق بدگمانی پائی جاتی ہے تو اسے زائل کرنے کے بجائے، اس چیز کو اپنی "انا” کا مسئلہ بنالیتے ہیں۔ یہ مرد مومن کی شان نہیں ہے کہ وہ ایسے اعمال سے پہلو تہی کرے جس کا نمونہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے خود پیش کرکے دکھایا ہے۔  مسلمان کی زندگی کا مقصد یہی ہے کہ اس کا ہر عمل اور فعل نبی کریم ﷺ کی سنت اور طریق کے مطابق ہو۔  آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "فمن التقی الشبہات فقد استبرا لدینہ و عرضہ” جو شبہ پیدا کرنے والی چیز سے بچا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کرلیا۔ مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ جس طرح سوء ظن سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے، اسی طرح ایسے افعال و اعمال سے اجتناب کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے جو موجب تہمت ہو۔

اَللھم أحسن ظننا في الناس

وأحسن ظن الناس فينا

 

 

 

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے