قرآن کا پیغام

ولا یخافون لومۃ لائم

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

یا ایھا الذین آمنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم و یحبونہ، اذلۃ علی المؤمنین اعزۃ علی الکفرین، یجاھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم، ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء، واللہ واسع علیم۔

اے ایمان والو! تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے، (وہ یاد رکھے کہ) عنقریب اللہ ایسے لوگوں کو لائیں گے، جن سے اللہ محبت کرتے ہیں اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں، وہ مسلمانوں کے ساتھ نرمی کرنے والے اور کفار کے مقابلہ میں زور آور ہوں گے، وہ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور برا کہنے والے کے برا کہنے سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے، اللہ جسے چاہتے ہیں عطا فرماتے ہیں اور اللہ بڑی گنجائش والے اور علم والے ہیں۔

آیت مذکورہ کے سیاق وسباق میں تین اہم اور بنیادی اصول کو بیان کیا گیا ہے جو مسلمانوں کی اجتماعیت اور ملی وحدت کے لئے ناگزیر ہے۔

پہلا اصول غیر مسلموں سے تعلقات کے سلسلے میں ہے۔ مذہب اسلام نے اپنے متبعین کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ رواداری، ہمدردی، خیر خواہی، عدل و انصاف، اور حسن سلوک کا برتاؤ کرے؛ لیکن یہ رواداری اور دوستی اس حد تک گہری نہ ہو جائے کہ اسلامی تشخص خلط ملط ہو جائے۔

دوسرا اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ دوسروں کی رواداری میں اسلامی تشخص اور شعائر اسلام سے کھلواڑ کرتے ہیں وہ اس گمان میں نہ رہے کہ ان کے اس عمل سے اسلام کو کوئی نقصان اور گزند پہنچے گا۔ 

تیسرا اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کی دوستی نیک بندوں سے ہی ہوتی ہے۔

موجودہ دور میں ارتداد کی آندھی نے مسلمانوں کے بڑے طبقے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ خصوصاً ہمارے ملک میں سازش کے تحت ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے غریب طبقہ متاثر ہو رہا ہے اور دوسری جانب آزادی اور مساوات کے خوبصورت لبادہ میں اسلام بیزاری اس طور پر پیش کی جارہی ہے جس کے عوض آزاد خیال تعلیم یافتہ طبقہ مذہب سے رشتہ توڑنے کو فیشن تصور کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ جاننا چاہئے کہ مذہب اسلام کے تحفظ و بقا کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لے رکھی ہے، وہ دوسری قوم اور دوسرے افراد کو اسلام کی بقاء کے لئے کھڑا کردے گا۔ جیسا کہ تاتاریوں کی یلغار کے بعد اللہ نے اپنی قدرت سے اسلام کو مزید تقویت سے نوازا تھا۔ 

مذکورہ آیت میں اللہ نے ان لوگوں کے اوصاف کو ذکر کیا ہے جو اسلام کے تحفظ کا ذریعہ بنیں گے۔ ان کی پہلی خوبی یہ ہوگی کہ اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ بھی اللہ سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ محبت کا معیار یہ ہے کہ وہ لوگ متبعین سنت ہوں گے۔ ان کی زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی عکاس ہوں گی۔ 

دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے تئیں نرم دل ہوں گے۔ یعنی آپسی معاملات کو باہم سنجیدگی اور صدق و صفا کے ساتھ نمٹائیں گے۔ تیسرا اصول یہ بیان کیا گیا کہ وہ کافروں کے معاملہ میں زور آور ہوں گے، غیروں کی جانب سے پیدا کردہ حالات انہیں مغلوب نہیں کر سکیں گے اور وہ ہر حال میں غالب رہیں گے۔ چوتھی صفت یہ بیان کی گئی کہ وہ ظلم و زیادتی کے خلاف بقاء اسلام کے لئے ہمیشہ سینہ سپر رہیں گے۔ پانچویں خوبی یہ بیان کی گئی کہ وہ لعن طعن کرنے والے اور برائی کرنے والوں سے بے پرواہ ہوں گے۔ 

یہ پانچ خوبیاں ان خوش نصیب افراد کی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے تحفظ کے لئے منتخب فرمایا ہے۔ دینی کام کرنے والوں کو ہمیشہ ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ یہ مذکورہ خوبیاں اللہ رب العزت نے بیان فرمایا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے