امیر شریعت ثامن اور امارت شرعیہ: وقت نے سونپ دیا ہے فرض قیادت تجھ کو
امیر شریعت سابع حضرت مولانا ولی رحمانی ؒ کے انتقال کے بعد امارت شرعیہ بہار، اڈیسہ و جھارکھنڈ کے امیر شریعت کا مسئلہ کئی مہینوں تک تعطل کا شکار رہا، لیکن بالآخر 9 اکتوبر کو یہ معاملہ ارباب حل و عقد نے سلجھایا اور جناب مولانا فیصلولی رحمانی صاحب امیر شریعت ثامن منتخب ہوئے۔ ان ایام میں کیا کچھ واقعات رونما ہوئے اور کیسے حالات سے امارت شرعیہ کو دوچار ہونا پڑا، اب ان باتوں پر گفتگو فضول اور لایعنی ہے، کیونکہ اب انتخاب امیر کا مسئلہ حل ہوچکا ہے اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی خیر کا معاملہ فرمائے۔
| امیر شریعت ثامن اور امارت شرعیہ |
امارت شرعیہ اور علامہ انور شاہ کشمیری
امارت شرعیہ کا قیام حضرت ابو المحاسن مولانا محمد سجاد صاحب ؒ کی کاوشوں اور ان کے اخلاص و للہیت کا نمونہ ہے۔ آپ ہمہ جہت فکر کے حامل اور حالات حاضرہ سے واقفیت رکھنے والے زمانہ شناس انسان تھے، آپ کے ذریعہ پیدا کردہ کئی تحریکات میں سے ایک امارت شرعیہ ہے جو تقریبا سو سالوں سے مسلمانوں کی راہنمائی کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ امارت شرعیہ کے قیام کا اصل مقصد دینی و مذہبی امور میں مسلمانوں کی راہنمائی کرنا ہے، امارت شرعیہ نے اپنے ابتدائی ایام سے اس فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ امارت شرعیہ کی اہمیت و افادیت پر وقت کے کبار علماء کے تبٖصرے موجود ہیں لیکن علامہ انور شاہ کشمیری نے جو اس سلسلہ میں بیان فرمایا ہے وہ قابل ذکر ہے، علامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں: "ہندوستانی صوبوں میں صوبہ بہار قابل مبارکباد ہے کہ اس نے امارت شرعیہ کا ایک نظام قائم کر رکھا ہے اور اس کے ماتحت بہت سے مفید قومی و مذہبی امور انجام پارہے ہیں۔ اگر دوسرے صوبے بھی اس فریضہ کی اہمیت کا احساس کریں اور اس کی ادائیگی میں لگ جائیں تو ان کی اجتماعی قوت سے ہر صوبہ کی مقامی حیثیت بھی قوی ہوگی اور ہندوستان میں ایک منظم محکمہ شرعیہ قائم ہوجائے گا”۔
امارت شرعیہ کا نظام دارالقضا
امارت شرعیہ کے سو سال مکمل ہوگئے ہیں، اور ان سو سال میں سات امرائے شریعت نے امارت کی باگ ڈور کو سنبھالا ہے اور اس کی ترقیات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امیر شریعت اول سے امیر شریعت سابع تک ہر کسی نے قوم کی فلاح و بہبود کے لئے زمانہ کے لحاظ سے امارت شرعیہ سے مسلمانوں کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے اور ہمیشہ اس کے مثبت نتائج دیکھنے کو ملے ہیں۔ مسلمانوں کے عائلی مسائل میں امارت شرعیہ نے جو کارنامے انجام دیئے ہیں وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے، اور آج بھی مذکورہ تینوں صوبوں میں امارت شرعیہ کے دارالقضا اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے مسلم قوم کا بڑا طبقہ اپنے مسائل امارت شرعیہ کے دارالقضا میں حل کرانے میں یقین رکھتے ہیں، اور ان دارالقضا کو مسلمانوں کا اعتماد بھی حاصل ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ فی زماننا دارالقضا کے قیام میں کافی تیزی آئی ہے اور گزشتہ چند سالوں میں کئی نئے دارالقضا قائم ہوئے ہیں۔ ماضی میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اور امیر شریعت سادس حضرت مولانا نظام الدین کی کاوشوں کے طفیل امارت شرعیہ کے نظام دارالقضا اور دیگر شعبے جات کو کافی تقویت حاصل ہوئی تھی، مذکورہ دونوں بزرگوں نے امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی کی قیادت میں امارت شرعیہ کو علاقائی سطح سے قومی بلکہ عالمی سطح پر شناخت دلائی ہے۔
امیر شریعت سابع حضرت مولاناسید ولی رحمانی اور امارت شرعیہ
امیر شریعت سابع مولانا ولی رحمانیؒ نے اس سمت میں خاص پیش رفت فرمائی تھی اور امارت شرعیہ کے نظام دارالقضا کو مزید مستحکم بنانے کے لئے مضبوط لائحہ عمل تیار کیا تھا۔ امیر شریعت سابع حضرت مولانا ولی رحمانیؒ صاحب بابصیرت اور زمانہ شناس تھے۔ آپ نے مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے تعلیمی میدان میں کچھ کر گزرنے کا فیصلہ فرمایا اور آپ کا یہ فیصلہ 2008 میں رحمانی 30 کی شکل میں ظاہر ہوا، تعلیمی میدان میں آپ کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ 2015 میں امیر شریعت سابع منتخب ہونے کے بعد آپ کے اہم اور دیرینہ خوابوں میں سب سے اہم یہ تھا کہ دارالقضا کا نظام مزید فعال و متحرک ہو، اور بہار جھارکھنڈ اور اڈیسہ کے ہر ضلع میں امارت شرعیہ کے تحت ایک سی بی ایس سی اسکول قائم ہو، علاوہ ازیں ان تینوں صوبوں میں آپ ایک ایک میڈیکل کالج بھی بنانے کے خواہاں تھے، اس سلسلہ میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی اور اسکول کے قیام کا سلسلہ شروع بھی ہوا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور امیر شریعت سابع اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ہم امید کرتے ہیں کہ امیر شریعت سابع کے دیرینہ خوابوں کی تکمیل کے لئے امیر شریعت ثامن جناب مولانا فیصل ولی رحمانی صاحب کوشاں رہیں گے۔ اب یہ ذمہ داری امیر شریعت ثامن کی ہے کہ وہ مذکورہ منصوبوں کی تکمیل فرمائے یا حسب منشا اس میں رد و بدل فرمائے۔ اگر موجودہ امیر شریعت سابق امیر شریعت کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں اور مشن کو ترجیحی طور پر فوقیت دیتے ہیں تو یہ قوم کے لئے بھی نافع ہوگا اور سابق امیر شریعت مولانا ولی رحمانی کے لئے بھی بہترین خراج عقیدت ہوگا۔
امیر شریعت ثامن کی ذمہ داریاں
امیر شریعت ثامن جناب مولانا فیصل ولی رحمانی صاحب، خانوادہ بانی ندوۃ العلما حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ کے چشم و چراغ ہیں جنہوں نے اپنے دور میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی ہجرت کے بعد فتنہ عیسائیت کا مقابلہ کیا اور قادیانیت نے جب بہار کے علاقوں میں اپنے پیر پسارے ہیں تو اس فتنہ کی بیخ کنی کے لئے پوری زندگی لگادی۔ اور مسلمانوں میں دینی تعلیم نیز "جدید صالح اور قدیم نافع” پر عمل کرتے ہوئے اس وقت کے کبار علماء خصوصا حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی حمایت سے ندوۃ العلماء کی بنیاد ڈالی، جس کے دور رس نتائج مرتب ہوئے اور آج تک امت مسلمہ اس شجر سایہ دار سے فیض یاب ہورہی ہے۔ امیر شریعت ثامن جناب مولانا فیصل رحمانی صاحب کے لئے بھی موجودہ وقت میں بے شمار مسائل ہیں اور ایسے وقت میں قیادت کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں آئی ہے جب مسلم قوم ایک جانب تعلیمی میدان میں پسماندگی کا شکار ہے تو دوسری جانب فتنہ ارتداد نے قوم مسلم کو ذلت و نکبت کے غار عمیق میں ڈھکیل رکھا ہے۔ مسلم قوم ہرچہار جانب سے مسائل سے گھری ہوئی ہے ایسی صورت میں جناب مولانا فیصل ولی رحمانی صاحب کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جس طرح مولانا فیصل ولی رحمانی کے آباء و اجداد، حضرت مولانا محمد علی مونگیری، امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی اور امیر شریعت سابع حضرت مولانا ولی رحمانی نے دین اسلام اور قوم و ملت کی خدمات میں اہم کردار ادا کیا ہے، مولانا فیصل ولی رحمانی صاحب بھی ان کے نقوش پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حالات حاضرہ کے تناظر میں مسلمانوں کی دینی و دنیاوی امور میں قیادت کے فرائض انجام دیں گے۔
امارت شرعیہ کی اصلاحی تحریکات
حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو جو اہم اور بڑے مسائل در پیش ہیں ان میں اہم تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی حصہ داری ، تعلیمی اداروں کا قیام اور مسلمان لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے فتنہ ارتداد کی روک تھام کے لئے پُر زور تحریک ہے۔اگر اپنے تعلیمی اداروں کی جانب توجہ نہیں دی گئی تو اس کے نتائج ہلاکت خیز اور تباہ کن ثابت ہوں گے، کیونکہ جس طرح سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں میں فتنہ ارتداد اور دین سے دوری کے اسباب و عوامل پر شر پسند عناصر کام کررہے ہیں وہ ہمارے لئے باعث فکر ہے۔ ان کی روک تھام ضروری ہے اور بنیادی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، محض فروعی بات چیت اور دو چار اخبار کے انٹرویو سے یہ معاملہ گرفت میں نہیں آنے والا ہے بلکہ ان مفاسد کی روک تھام کے لئے زمینی سطح پر مستقل کام کرنے کی ضرورت ہے۔جس طرح امارت شرعیہ کے مبلغین تمام علاقوں کا دورہ کرتے ہیں، نقباء امارت کے توسط سے گاؤں گاؤں تک پہنچتے ہیں اور امارت شرعیہ کے پیغام کو عوام الناس تک پہنچاتے ہیں ضرورت ہے کہ ایسے مبلغین رکھے جائیں جو حالات کے اتار چڑھاؤ سے واقف ہو اور اپنے مجوزہ علاقوں میں اصلاحی تحریک برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہو۔مسلمانوں میں عمومی جلسے جلوس کی روایت عام ہوگئی ہے لیکن زمینی سطح پر اصلاحی تحریکات کا سلسلہ کمزور ہوچکا ہے۔ عہد ماضی میں جس طرح ہمارے اکابرین قریہ قریہ گھوم کر عوام میں دینی بیداری پیدا کرتے اور عام لوگوں تک پہنچ کر انہیں دین اسلام پر عمل کی تلقین فرمایا کرتے تھے اب وہ طریقہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے، حالانکہ جس قدر نافع اور مفید اولیاء اللہ کے یہ اسفار ہوا کرتے تھے، آج کے یہ بڑے بڑے جلسے جلوس ان منفعت سے عاری نظر آتے ہیں۔ جن دینی مجالس و محافل میں گریہ و زاری اور رقت کا سماں بندھا رہتا تھا آج ان مجالس میں میلوں جیسا ماحول نظر آتا ہے۔اس روایت کو ختم کرکے پرانے طرز پر اصلاحی تحریکات برپا کرنے کی ضرورت ہے۔
امارت شرعیہ کے شعبے جات
امارت شرعیہ کے تحت کئی ادارے کام کررہے ہیں، جن میں مدارس ، اسکول، اسپتال اور کئی ایک ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس ہیں۔ ان اداروں کی کارکردگی کیا ہے اور کس حد تک یہ مفید و نافع ہیں ان پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں موجودہ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ اضافی شعبے جات قائم کئے جائیں، استفادہ کو آسان سے آسان تر بنایا جائے۔ انسٹی ٹیوٹس وغیرہ کے قیام کے ساتھ ان کی ترقیات کی جانب بھر پور توجہ کی ضرورت ہے، نیز جو قدیم ادارے کام کررہے ہیں ان میں بہتری کی کوشش کی جائے اور زیادہ سے زیادہ منافع بخش بنانے کی عملی تدابیر اختیار کی جائے۔
عوام الناس کی قیادت سے توقعات
موجودہ وقت میں مسلمانوں کو ایک ایسی مضبوط اور منصوبہ بند قیادت کی ضرورت ہے جو دینی و دنیاوی ہر دو طرح کے معاملات کو سلجھانے اور ان میں مسلمانوں کی بہتری کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کی اہل ہو۔ ہم امید کرتے ہیں کہ امیر شریعت ثامن امارت شرعیہ کو محض ایک رفاہی ادارہ کے طور پر نہیں لے کر چلیں گے، بلکہ اس پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے چھوٹے بڑے تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ رفاہی کام یقینا ضروری ہے لیکن اس کے اثرات عارضی ہوا کرتے ہیں؛ جبکہ امارت شرعیہ سے ایسے کام انجام دینے کی بھی ضرورت ہے جو عارضی نہیں بلکہ دائمی فوائد پر مشتمل ہو اور جس کے اثرات نسلوں تک برقرار رہے۔ امیر شریعت ثامن جناب مولانا فیصل ولی رحمانی صاحب دینی و دنیاوی دونوں علوم میں دسترس رکھتے ہیں، اور دونوں قسم کے اداروں کو چلانے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ جس طرح خانقاہ رحمانی مونگیر سے اس خانوادہ نے مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں ترقی دینے کے لئے کئی اہم اقدامات کئے ہیں اگر اسی طرز پر امارت شرعیہ سے تعلیمی مہم چھیڑی جائے اور مسلم طلبہ و طالبات کے لئے اعلی تعلیم کی تیاری کے لئے نظام بنایا جائے تو یہ قوم کے لئے بہت نافع اور مفید ثابت ہوگا۔ زمینی حقائق تو یہی بتاتے ہیں کہ بہار، اڈیسہ و جھارکھنڈ کے مسلمانوں کے پاس اپنا کوئی معیاری تعلیمی ادارہ نہیں ہے، چند مخیر حضرات نے اس جانب پیش قدمی کی ہے لیکن ان کے ادارے علاقائی سطح پر بھی ناکافی سمجھے جاتے ہیں۔
امارت شرعیہ سے توقعات
امارت شرعیہ ایک مضبوط اور مستحکم پلیٹ فارم ہے، اگر یہاں سے تعلیمی مہم کا آغاز کیا جائے یا اصلاحی مہم چلائی جائے تو اس سے ہر فرد مومن مستفید ہوگا۔ ان سب چیزوں کے لئے ضروری ہے کہ فعال و متحرک ہوکر ہمہ وقت کے لئے خود کو وقف کردیا جائے، جس طرح بانی امارت شرعیہ نے امارت کے استحکام کے لئے تمام طرح کی قربانیاں دی ہیں جس کے نتیجہ میں ہمیں یہ ورثہ ملا ہے، آج اس ورثہ سے قوم کو فائدہ پہنچانے کے لئے اسی تگ و دو اور اخلاص و للہیت کی ضرورت ہے۔ قوم ماضی میں بھی پیاسی تھی اور آج بھی قوم تشنگی کا شکار ہے، قوم آج بھی یہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ کوئی ایسا قائد آئے جو ہمارے دین و دنیا دونوں معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرے۔ قوم ماضی میں بھی شانہ بشانہ کھڑی تھی اور آج بھی شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ لیکن جس طرح ماضی میں قوم مسلم پر آلام و مصائب کے پہاڑ توڑے گئے تھے آج بھی اسی قسم کی تکالیف سے مسلمان دوچار ہیں۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کا صرف دینی تشخص نشانہ پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا وجود نشانے پر ہے۔ نت نئے قوانین اور بڑھتی ہوئی نفرت نے مسلمانوں پر زندگی کو تنگ کردیا ہےایسے میں باعزت زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود کو مین اسٹریم کا حصہ بنائیں اور جب تک مسلمانوں کی قیادت اس جانب متوجہ نہیں ہوگی محض دو چار افراد کی باتوں سے کوئی تبدیلی پیدا ہونے والی نہیں ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ امیر شریعت ثامن جناب مولانا فیصل ولی رحمانی صاحب مسلمانوں کی قیادت کے فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دیں گے، اور ان میدانوں میں جنگی پیمانے پر کام کرنے کی کوشش کریں گے جہاں تک پہنچنا مسلمانوں کے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور سمجھا جاتا ہے!
Masha Allah bahut hi achhi post hai jis ki bahut sakhthh jaroorat thi Allah Ap ke qalam me aur tarqqi naseeb farmaye
thanks
ماشاءاللہ
حضرت بہت ہی عمدہ، قابل ستائش اور لایق توجہ ہونے کے ساتھ فکریہ اور حوصلہ افزا بھی ہے
شکریہ محترم