کیا ہمیں تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے؟
تاریخ اسلام اور مسلم سربراہان مملکت کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی مانند عیاں ہوتی ہے کہ ان ادوار میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا رواج نہایت مرتب اور منظم ہواکرتا تھا۔ عمائدین سلطنت نے اپنی زیر نگرانی بے شمار علمی ادارے قائم کئے تھے، ان میں بعض ادارے ایسے بھی قائم ہوئے جو آج تک باقی ہے۔ امرائے اسلام اپنے زیر نگیں علاقوں میں درس و تدریس کے نظام کو بحال کرنے اور ان میں جِلا بخشنے کے لئے دیگر سربراہان سے رابطہ کرکے ماہرین علوم و فنون کو بلایا کرتے اور ان کی رہائش سمیت تشنگان علوم کی سیرابی کے وسائل فراہم کیا کرتے تھے۔ بیشتر امرائے اسلام کی علم دوستی کا عالَم یہ تھا کہ وہ علماء کرام کی مجالس سجایا کرتے اور ان کے درمیان علمی بحث ومباحثہ سے اپنی علمی تشنگی کو بجھایا کرتے تھے۔ یہ اسلام کے سنہرے دور کی باتیں ہیں جب ہر گلی اور ہر محلہ میں دینی ادارے ہوا کرتے تھے، آج ہم سوچیں کیا ہمیں تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے تو احساس ہوگا کہ اس میدان میں ہم نے اپنے ماضی کو یکسر فراموش کردیا ہےاور ہمارے حال کی تاریکی ماضی سے رشتہ کٹ جانے کی وجہ سے ہے۔
| کیا ہمیں تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے؟ |
بغداد، بخارا، سمرقند، نیشاپور، کوفہ، بصرہ اور مصر وغیرہ کی شہرت اوصاف و خصائص سے معمور جبال العلوم حضرات کی وجہ سے تھی۔ یہاں رہنے والے ماہرین علم و فن کے حلقہ سے ہزاروں کی تعداد میں تشنگان علوم سیرابی حاصل کیا کرتے تھے۔ بڑے شہروں میں کئی نامی گرامی ادارے قائم تھے، جہاں دینی علوم کے علاوہ دیگر علوم کے ماہرین بھی موجود رہا کرتے تھے۔ علوم میں استغراق کا عالم یہ تھا کہ ایک ایک لفظ کی تحقیق کے لئے کئی سو میل کی مسافت طے کرلیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ علوم کے ان متوالوں نے ایجادات کے باب میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جن کی روشنی میں موجودہ سائنس اپنا راستہ تلاش کرکے کامیابی کے منازل طے کررہی ہے۔ علوم کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو مسلم مفکرین کی نظر و فکر کا احسان مند نہ ہو۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پوری دنیا کے دانشوران اپنی علمی تشنگی کو بجھانے کے لئے مسلم ممالک کا سفر کرتے اور وہاں موجود لائبریریوں اور علمی اداروں سے بھر پور استفادہ کیا کرتے تھے۔ اگر ہندوستا ن کی بات کی جائے تو 1857 سے قبل صرف دہلی شہر میں ایک ہزار سے زائد مدارس تھے۔ دہلی کے علاوہ کئی ایسے شہر تھے جہاں علماء اسلام اپنے فیوض و برکات سے خلق خدا کو صراط مستقیم پر لانے کے لئے کوشاں تھے۔ فقہ حنفی کی مشہور و معتبر کتاب فتاوی ہندیہ (فتاوی عالمگیری) بادشاہ وقت اورنگزیب کی دلچسپی اور علم دوستی کی اعلی مثال ہے۔
مسلمانوں کا ماضی اور حال
لیکن افسوس کہ آج اسی ہندوستان میں مسلمان تعلیمی میدان میں پسماندگی کا شکار ہیں۔ جس میدان میں مسلمانوں نے فتح و نصرت اور ایجادات و اختراعات سے دنیا کو مستفید کیا تھا آج وہ اپنے دامن پر ان پڑھ اور جاہل قوم کا داغ لگائے بیٹھے ہیں۔ جس قوم کی لائبریریوں کی کتابوں کی روشنائی سے دجلہ کا پانی سیاہ ہوگیا تھا آج اس قوم کو پڑھنے کی فرصت نہیں ہے۔ جس قوم کے نبی ﷺ کو معلم بناکر مبعوث کیا گیا تھا آج وہ قوم تعلیم سے کوسوں دور ہے۔ جس قوم کے نبی کا امتیازی وصف علم و حکمت اور تعلیم و تعلم ہے آج وہ قوم علمی میدان میں دوسروں کی محتاج بن گئی ہے۔ جس قوم میں علم کی فضیلت و اہمیت یہ ہے کہ اس کے متلاشی راہ خدا میں ہوتے ہیں اور ان کے قدموں کے نیچے فرشتے پَر بچھاتے ہیں آج وہ قوم علمی میدان میں ناکام ہے۔ جس قوم نے علم و فضل کے میدان میں ان گنت موجد اور باکمال اشخاص پیدا کئے ہیں اور آج اس قوم کے پاس عالمی سطح کا کوئی معیاری ادارہ نہیں ہے۔جس قوم نے علم اور حصول علم کو ہر کس و ناکس کے لئے اور امت کے ہر فرد کے لئے آسان اور سہل بنادیا تھا آج اس قوم پر کسب علم سے دوری کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس قوم کی ناکامی کا عالَم یہ ہے کہ آج غیر بھی ان پر خنداں ہیں۔
انگریزوں کا نافذ کردہ نظام تعلیم
مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کے لئے نت نئے مسائل ہندوستان میں پیدا ہونے لگے، ہندوستان کا نظام تعلیم جو ہر طرح سے یہاں کے باشندوں کے لئے مفید اور باعث راحت تھا اسے یکسر تبدیل کردیا گیا، اور لارڈ میکالے کا مرتب کردہ ایسا تعلیمی نظام نافذ کیا گیا جس نے براہ راست مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں نظر انداز کردیا ۔ یہ نیا نظام تعلیم ایسے امور پر مشتمل تھا جو مذہب بیزاری اور بے شرمی و بے غیرتی کا داعی تھا۔ یہاں مسلمانوں کے لئے نئے نظام تعلیم سے ہم آہنگ ہونا ایک الگ مسئلہ تھا اور اس سے اہم اور قابل توجہ مسئلہ مسلمانوں کی دینی تعلیم کا تھا، کیونکہ اس نئے نظام تعلیم میں انگریزی زبان کو کلیدی حیثیت حاصل تھی، اور مسلمانوں میں اتنے بڑے پیمانے پر انگریزی زبان سے واقفیت رکھنے والے اہل علم موجود نہیں تھے۔ اس نظام تعلیم میں مذہبی تعلیم کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور ان کے مضامین ایسے مواد پر مشتمل تھے جو فتنہ ارتداد اور دین سے دوری کا باعث ہوسکتے تھے، بلکہ اس وقت کے مسلم دانشوران نے اس خدشہ کا برملا اظہار کیا تھا کہ یہ نظام تعلیم مسلمانوں میں فتنہ ارتداد کی لہر کو بڑھاوا دے گا اور مسلمانوں کے دین و ایمان کے لئے سم قاتل ثابت ہوگا، کیونکہ اس نظام تعلیم کو چلانے والے اور پڑھانے والے اُس وقت وہ لوگ تھے جو یا تو مذہب بیزار تھے یا پھر وہ اسلام مخالف ذہنیت کے حامل تھے۔
آج ہم کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ اس نظام تعلیم نے مسلمانوں کے دین و ایمان پر کیسا حملہ کیا ہے۔ جس مذہب میں حیا و پاکدامنی اور عفت و عصمت کو اہم شعبہ قرار دیا گیا تھا آج اس قوم کے بچے اور بچیاں بے حیائی و بے غیرتی میں غیروں کو شرما رہے ہیں۔ حیا و پاکدامنی کا ایسا جنازہ نکل گیا کہ اب والدین بھی رقص وسرود اور ناچ گانے کو ثقافت کے نام پر قابل تعریف فن قرار دے رہے ہیں۔ اپنی بہو بیٹیوں کو غیروں کی محافل ومجالس میں نیم عریاں لباس پہنانے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھنے لگے ہیں۔ بے حیائی و بے شرمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج مسلمان لڑکیوں میں بڑھتا ہوا فتنہ ارتداد مسلم قوم کی ذلت و نکبت کا باعث بن رہا ہے۔ اس پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور منصوبہ بند طریقے سے اپنے تعلیمی اداروں کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کے تعلیمی ادارے
ملک کا منظر نامہ یہ ہےکہ اس وقت مسلمانوں کے پاس اپنے تعلیمی ادارے نہیں ہے۔ آزادی کے بعد ہم نے اس جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی اور جن امور پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت تھی اور جن کو ترجیحات میں شامل کرنا تھا وہ ہماری ترجیحات سے باہر رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے علاوہ ہمارے پاس قومی سطح کا کوئی ادارہ نہیں ہے۔لیکن ان اداروں میں بھی مسلم بچوں کا تناسب کیا ہے وہ ہمیں معلوم ہے۔ ملکی سطح پر یا ریاستی سطح پر ہم اپنی تعداد اور فیصد کے اعتبار سے ادارے شمار کریں تو محسوس ہوگا کہ ہم نے اس اہم اور بنیادی کام کو کس قدر بے حیثیت بنا رکھا ہے۔ جب بنیادی تعلیمات کے لئے ہمارے پاس اپنے ادارے نہیں ہیں اور ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت عیسائی مذہب کے پیروکار یا مشرکانہ افعال کے مرتکب اساتذہ کی زیر نگرانی انجام دیئے جائیں گے تو تصور کیجئے کہ ان بچوں کی ذہنی تربیت اور مذہب اسلام سے ان کا لگاؤ کس حد تک باقی رہ سکتا ہے۔ ایک طالب علم کی زندگی پر اس کے والدین سے زیادہ اثر انداز اس کا استاذ ہوتا ہے، ایک بہترین اور کامیاب استاذ اگر اسے دین و دنیا میں کامیابی کی راہیں دکھا سکتا ہے تو ایک ناعاقبت اور دین بیزار استاذ طالب علم کے دین و دنیا دونوں کو تباہ و برباد کرسکتا ہے۔
مسلمانوں کا سب سے قیمتی اثاثہ ایمان ہے
آج جو ہماری قوم کے بچوں میں مذہب بیزاری اور دین سے دوری پنپ رہی ہے اور دینی احکامات کو اپنی کچی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی روش عام ہوگئی ہے یہ نتیجہ ہے ان صحبتوں کا جہاں جدت پسندی اور عقلیت کے نام پر مذہب اسلام اور مسلمانوں کے تئیں چھوٹے چھوٹے بچوں میں ایسے ایسے شکوک و شبہات بٹھائے جاتے ہیں جو رفتہ رفتہ دین کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوتے ہیں۔ سوچی سمجھی سازش کے تحت اسلام کے بنیادی عقائد و مسائل میں غیر ضروری اعتراضات پیدا کرکے مسلم بچوں کے اذہان کو پراگندہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔بے جوڑ منطقیانہ اور فلسفیانہ باتوں کو مدغم کرکے اسلام کو امن مخالف اور انسانیت سوز مذہب کے روپ میں پیش کرکے مسلم طلبہ کو پریشان کیا جاتا ہے۔اگر ہم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا نظم اپنی نگرانی میں کریں اور ان کے لئے بہترین ، مذہبی اور انسانیت نواز اساتذہ کا انتخاب کریں تو یہ طلبہ دنیاوی میدان میں کامیابی کے علاوہ اسلامی اخلاق سے بھی مزین ہوں گے اور ان کے اخلاق و کردار سے مذہب اسلام کی صحیح ترجمانی ہوگی۔ ہم اپنے بچے اور بچیوں کے لئے تعلیم و تربیت کا ایسا نظام مرتب کریں جس میں اختلاط کا شائبہ بھی موجود نہ ہو تو ہم فتنہ ارتداد کی لہر پر قابو پاسکتے ہیں اور بہترین اور مذہب اسلام پر عمل پیرا نسل نو کی امید کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس لڑکیوں کی تعلیم کا نظم (اس موضوع پر مکمل مضمون پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں)علیحدہ ہو، ان کی تربیت کے لئے باضابطہ ہمارے پاس منصوبے ہوں۔ ابتدائی سطح پر بنیادی تعلیمات کے ساتھ بچوں کو مذہبی تعلیمات سے جس قدر قریب کیا جائے گا اور انہیں مذہب اسلام کی حقانیت اور مسائل و عقائد کی باتیں بتائی جائیں گی مستقبل میں یہ باتیں ان کے کام آئیں گی اور باد مخالف ان کی ذہنی اور مذہبی تربیت کے سامنے سپر ڈال دیں گے۔ ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں آگے بڑھیں، کامیابی حاصل کریں، اپنی موجودگی درج کرائیں لیکن اس سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم اپنے مذہبی احکامات پر عمل پیرا ہوں۔ مذہبی فرائض و نوافل کی ادائیگی میں کمی و کوتاہی نہ ہو، اور یہ اسی وقت ممکن العمل ہے جب کہ ہمارے پاس اپنے تعلیمی ادارے ہوں، اور ہم اپنے اعتبار سے ان اداروں میں طلبہ کرام کی تربیت کریں۔ایک مسلمان کے لئے ایمان سے بڑی کوئی دولت نہیں ہے، دنیا اپنی تمام تر لذات و خواہشات سمیت دولت ایمانی کے سامنے ہیچ ہے، اس لئے دنیاوی تعلیم میں ترقی کرنے کے بالمقابل دین و ایمان کی حفاظت ضروری ہے۔
Nice
ماشاءاللہ! بہت اچھا مضمون ہے
Thanks
شکریہ محترم