کیا ہمارے پاس لڑکیوں کی تعلیم کا نظم ہے

کیا ہمارے پاس لڑکیوں کی تعلیم کا نظم ہے؟

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے تعلیم کے میدان میں جنسی امتیازات کی بیخ کنی کی ہے، اور مرد و زن ہر دو نوع انسانی کو تعلیمی زیور سے آراستہ ہونے کا حق دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے آج تک ہر دور اور ہر زمانے میں بے شمار خواتین اسلام نے علم و معرفت اور حقائق و دقائق کے میدان میں بادہ پیمائی کی ہے اور انہیں وہ عروج حاصل ہوا جن کی وہ متمنی تھیں۔ آپ ﷺ خود عورتوں کی تعلیم کے تئیں نہایت سنجیدہ اور متفکر رہا کرتے تھے، اسی لئے ہفتہ میں ایک دن ان کی تعلیم و تربیت کے لئے خاص تھا، بقیہ دنوں میں عام ضرورت کے لحاظ سے سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اسلام کے برخلاف، اگر دیگر ادیان عالَم کا جائزہ لیا جائے اور تاریخ کا انصاف کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کو نہ صرف تعلیم سے محروم رکھا جاتاتھا، بلکہ انہیں انسانی حقوق بھی حاصل نہیں تھے۔ مال و متاع کی مانند بازاروں میں ان کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔ کہیں زندہ جلائے جانے کی رسم سے مجبور تھی اور کہیں عمر کے مخصوص حصہ میں پہنچنے کے بعد ناقابل استعمال اشیا کی مانند کوڑے دان میں پھینکنے والی شے سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے پاس لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی نظم و نسق نہیں تھا۔ اسلام وہ واحد مذہب تھا جس نے سب سے پہلے لڑکیوں کی تعلیم کا نظم و نسق اور ان کے بنیادی حقوق کو علی الاعلان بیان کیا، اور انہیں معاشرہ اور سماج میں برابری کے حقوق عطا کئے ہیں۔

kiya hamare pass ladkiyun ki taleem ka nazm hai
کیا ہمارے پاس لڑکیوں کی تعلیم کا نظم ہے

 

اسلامی عہد میں تعلیم کا نظم

خلافت راشدہ، عہد امویہ، عہد عباسیہ، سلطنت عثمانیہ یا دیگر سلاطین اسلام کے زمانے میں تعلیم و تعلم کا جو نظم و نسق رہا ہے وہ قابل تعریف اور قابل تقلید رہا ہے۔ ایک ایک شہر میں ہزاروں ادارے اور ان گنت ماہرین فنون دینی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ ایک ایک عالم کے حلقہ درس میں ہزاروں تشنگان علوم نبویہ سیرابی حاصل کیا کرتے تھے۔ یہ ادارے باضابطہ سلطنت کی زیر نگرانی ہوا کرتے تھے، ان کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری سلطنت کے عظیم اور قابل وزراء کیا کرتے تھے۔ تعلیم کے مختلف شعبے جات ماہرین کے زیر انتظام ہوا کرتے تھے۔ علم دوستی کا ایسا ماحول تھا کہ کسب معاش کے لئے ترجمہ نگاری، کتابوں کی جلد سازی، کتابت، جدید تصنیفات و تحقیقات، اور نئے علمی نکات کو واشگاف کرنے والے معزز افراد تصور کئے جاتے تھے۔ خلفاء اسلام کی جانب سے ان کی خاطر خواہ مدارات ہوا کرتی تھی۔ کثیر انعامات سے نوازے جاتے تھے۔ یہ حال صرف مَردوں کا نہیں تھا، بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کا نظم بھی قابل فخر تھا۔ حفظ قرآن مجید اور احادیث کے باب میں عورتوں نے بیش بہا کارنامے انجام دیئے ہیں۔ امام مالک ؒ کی بیٹیاں علم حدیث میں وہ درجہ رکھتی تھیں کہ ان کے حلقہ درس میں پڑھنے والے طلبہ عبارت خوانی میں اگر غلطیاں کرتے تھے تو وہ لکڑیاں بجاکر تنبیہ کیا کرتی تھیں۔ امام محمد بن سیرین کی بہن زہد و عبادت میں اس قدر منہمک رہا کرتی تھی کہ ان کی باندی ان کی حالت زار دیکھ کر افسوس کیا کرتی تھی۔ ام محمد زینب بنت احمد ابن عمر نوے سال کی عمر تک درس حدیث میں مشغول رہی ، امام ذہبی نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ طلبہ حدیث کے لئے دور دراز سے ان کے پاس سفر کے لئے آیا کرتے تھے، نیز اس نے خود بھی مصر، مدینہ منورہ اور دیگر شہروں میں درس دیا ہے۔ ام احمد زینب بنت مکی نے 94 سال کی عمر  تک حدیث کا درس دیا ہے۔

مسلم قوم کی تعلیمی پسماندگی

دختران ملت کی علمی کاوشوں کو اگر شمار کیا جائے تو صحائف اور دفاتر کم پڑجائیں گے، یہ ایک طویل سلسلہ ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اب تک جاری ہے۔ لیکن موجودہ وقت میں ہمارے ملک کے تعلیمی سانچوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے ماضی سے کٹ گئے ہیں۔ علم و فضل اور حقائق و معارف کے باب میں ہمارا ماضی ہم سے کہیں دور چلا گیا ہے۔مختلف رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں شرح خواندگی بہت نچلی سطح پر ہے اور مسلم لڑکیوں میں یہ شرح مزید کم ہوجاتی ہے۔ جس قوم کی شروعات "اقرا” سے ہوئی تھی آج وہی قوم علمی میدان میں انحطاط و زوال کا شکار ہوگئی ہے۔ جس قوم کا طرہ امتیاز تحقیق و تدقیق اور علمی موشگافیاں کرنا تھا، آج اسی قوم کو ناخواندہ قوم قرار دیا جارہا ہے۔ جس قوم میں علوم و فنون کے موجد پیدا ہوئے، آج وہی قوم اپنے اسلاف کے علوم  ومعارف سے بے خبر ہوتی جارہی ہے۔ قومی سطح پر مسلمانوں کی تعلیمی شرح قابل افسوس ہے لیکن لڑکیوں کی تعلیم کے نظم کے سلسلہ میں صورت حال ناگفتہ ہوگئی ہے۔

شرح خواندگی میں گراوٹ کے اسباب

لڑکیوں کی تعلیم میں شرٖح خواندگی کی گراوٹ میں کئی اسباب و وجوہات ہوسکتے ہیں، کیونکہ لڑکیوں کی تعلیم کا نظام کافی حساس اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ مسلمان کے لئے تعلیم ضروری ہے لیکن وہ تعلیم جو قرآن و حدیث اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے دور کردے فتنہ سے کم نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑا فتنہ کوئی ہونہیں سکتا کہ ایک مسلمان اپنے نبی کریم ﷺ کے اسوہ سے دور ہوجائے اور اس کی زندگی اسلام مخالف عناصر کے بنائے اصول و ضوابط کے تحت گزرے۔ موجودہ دور کے تعلیمی نظام کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں مخلوط نظام عام ہے۔ اور جن اداروں میں مخلوط نظام تعلیم نہیں ہے وہاں کا انتظام عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا کہ بچیوں کو تعلیم کے لئے بھیجا جاسکے۔ عمومی طور پر تعلیم کے نام پر ایسے شکوک و شبہات معصوم اذہان میں بٹھائے جاتے ہیں جو دین سے دوری کا باعث بنتے ہیں۔ غیر مذہبی ادارے ہونے کے باوجود ان کے نظام میں وہ چیزیں شامل ہوتی ہیں جن میں مسلمان کی شرکت کسی طور مناسب نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ گھرانے جو اپنی بچیوں کو اعلی تعلیم دلانے کے خواہشمند ہوتے ہیں لیکن مناسب ماحول اور تربیت کے فقدان کی وجہ سے بچیوں کو ان اداروں میں بھیجنے سے کتراتے ہیں۔ ان حضرات کا یہ عمل بھی درست ہے کیونکہ اگر تربیت کا فقدان ہو اور انسان اپنے مذہب سے بیزار ہوجائے یا بے راہ روی کا شکار ہوجائے تو پھر اعلی تعلیم کا حاصل کیا رہے گا؟

تعلیمی اداروں کی کمی

ملکی سطح پر اگر جائزہ لیا جائے تو مسلم قوم میں لڑکیوں کی تعلیم کا خاطر خواہ کوئی نظام نہیں ہے۔ چند بڑے شہروں کو چھوڑ دیا جائے تو عمومی طور پر ہمارے پاس اپنے ادارے موجود نہیں ہیں۔ ایسے اداروں کا فقدان ہیں جہاں والدین بے جھجھک اپنی بچیوں کو تعلیم کے لئے بھیج سکیں۔ بعض علاقوں میں کچھ ادارے کام کررہے ہیں تو ان کا تعلیمی معیار اعلی نہیں ہے۔ حالانکہ بحیثیت قوم ہمارے پاس ایسے اداروں کی فراوانی ہونی چاہئے تھی، لیکن افسوس کہ ہماری قوم کا دامن اس نظام سے خالی ہے۔ مسلمانوں کے لئے محض تعلیم ضروری نہیں ہے بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تربیت اور دینی حمیت و غیرت بھی ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہمارے پاس اپنے معیاری ادارے ہوں۔ لڑکیوں کی تعلیم کا نظم بشمول تربیت کے تبھی ممکن ہے جب ادارے کی کنجی دینی مزاج رکھنے والے افراد کے دست قدرت میں ہو۔ ایسے اداروں کی ضرورت ہے جس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تربیت کا مکمل نظام ہو تاکہ حصول تعلیم کے بعد بچیاں قوم و ملت کی خدمت کے ساتھ اپنے بلند اخلاق اور اعلی اسلامی کردار کے ذریعہ اسلام کی صحیح ترجمانی کرسکیں اور دین مستقیم پر گامزن رہ کر آنے والی نسلوں کی اسلامی تربیت کرسکیں۔ گزشتہ چند دنوں سے ہمارے ملک میں مسلم بچیوں کے حجاب کا مسئلہ درپیش ہے، کرناٹک کے بعض اداروں میں حجاب پہننے کی بناپر طالبات کو کلاس روم میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ ان بچیوں کے لئے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنا مشکل ہورہا ہے، حکومتی سطح کے افراد سے لے کر کالج اور اسکول کی انتظامیہ تک ان کے خلاف ہے اور ان سے ان کا جائز حق چھیننے کے در پے ہیں۔ یہ وہ بچیاں ہیں جو پردہ کی شرعی حیثیت (پردہ کی شرعی حیثیت سے واقف ہونے کے لئے مذکورہ لنک پر کلک کریں)سے واقف ہیں، ان کی تربیت میں حیا و پاکدامنی کا عنصر ہے جو اپنے بنیادی حقوق کے لئے سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے لیکن کیا یہ ہماری قوم کے لئے لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ آج ہمارے پاس ایسے ادارے موجود نہیں ہیں جو ہماری بچیوں کو اسلامی شناخت اور حیا و پاکدامنی کے ساتھ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے۔ اگر اب بھی ہماری قیادت اور قوم کے سربرآوردہ حضرات نے اس جانب توجہ نہیں دی تو ممکن ہے کہ مستقبل میں کوئی اپنے شعار کی خاطر احتجاج کرنے والا بھی نہیں ملے گا۔ لڑکیوں کی تعلیم جس قدر ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری ان کی تربیت ہے اور تربیت کا ماحول بنانے کے لئے اپنے اداروں کا وجود ضروری ہے۔

حالیہ زمانے میں مسلمان لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے فتنہ ارتداد کو دیکھا جائے اور فتنہ ارتداد کی لہر کا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ ان واقعات میں بیشتر وہ بچیاں ہیں جن کی تعلیم پر تو بھر پور توجہ دی گئی  لیکن افسوس کہ دینی تربیت کا نظام ناقص رہ گیا تھا جو کہ ایک مسلمان کے لئے دنیا میں سب سے قیمتی اثاثہ اور سرمایہ ہے۔ یہ بہت  حساس اور سنجیدہ مسئلہ ہے، اگر فوری طور پر اس سمت پیش رفت نہ کی گئی تو اس کے نتائج سے پوری قوم متاثر ہوسکتی ہے۔ ارتداد کی آندھی اگر تعلیمی راستوں اور تعلیمی اداروں کی جانب سے اٹھے تو پھر اس کی زد میں گاؤں دیہات کے غریب افراد اور ناخواندہ طبقہ نہیں بلکہ ظاہری طور پر ہشاس بشاش اور دانشوران اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اور موجودہ وقت میں ارتداد کی آندھی اسی تعلیم کے راستہ سے آرہی ہے، لہذا ہمیں بچاؤ کے لئے ایسے متبادل نظام کی ضرورت ہے جو اس آندھی کا مقابلہ کرسکے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے دین پر ثابت قدم رکھیں۔  

 

 

Related Posts

10 thoughts on “کیا ہمارے پاس لڑکیوں کی تعلیم کا نظم ہے

  1. آمین یارب العالمین

    خدا کرے ارباب علم و دانش اور متمول حضرات اس طرف توجہ دیں، واقعی اس وقت کی بڑی ضرورت ہے کہ بچیوں کے لئے شرعی پردہ کے ساتھ، اسلامی ذہن رکھنے والے اساتذہ کے ذریعہ ہر قسم کی تعلیم کا نظم ہو۔ جزاکم اللہ خیرا مولانا اسجد عقابی صاحب کہ آپ نے امت کو اس طرف متوجہ کیا۔

  2. بہت ہی موزوں اور ضروری موضوع پر بات کی ہے ،یقینا ارتداد کے جہاں بہت سے اسباب ہیں وہیں بے محابہ اختلاط جو مخلوط تعلیمی نظام سے ہو رہا ہے ایک بڑا سبب ہے اسی لئے اس پر توجہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
    جزاکم اللہ خیرا اسجد بھائی اللہ سلامت رکھے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے