کسب حلال کی فضیلت و اہمیت

عام طور سے رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تذکرہ جب طرز زندگی اور حیات و خدمات کے طور پر کیا جاتا  ہے تو ان کے افلاس اور غربت کو اس طور پر بیان کیا جاتا ہے گویاکہ وہ دنیاوی نعمتوں سے بالکل بے خبر ہیں یا پھر وہ حضرات ان کے حصول پر قادر نہیں تھے۔ یا اس بات کو دوسرا رخ اس طور پر دیا جاتا ہے کہ ان مقدس ہستیوں نے کمال کے اس درجہ کو اس لئے پایا تھا کیونکہ انہوں نے دنیا سے بیزاری اختیار کی تھی اور فقر و فاقہ کو اپنے لئے پسند کرلیا تھا۔ ان چیزوں کو بیان کرنے والے حضرات عموما حضرت ابوذر غفاری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی مثالیں اور ان کے واقعات پیش کرتے ہیں۔ ان واقعات کو اس شدت سے بیان کیا جاتا ہے گویا کہ فقر و فاقہ اسلام کا ایک اہم اور بنیادی عنصر ہے جس کے بغیر روحانی منازل طے نہیں کئے جاسکتے ہیں،اور جس کو اپنائے بغیر سنت رسول ﷺ پر عمل پیرا ہونا ممکن نہیں ہے۔ کسب حلال اور صحابہ کرام کی معاشی حالت کے متعلق احادیث و واقعات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تابعین اور بعد کے ادوار کے علماء کرام کی زندگی کے ان پہلوؤں کو جان بوجھ کر پس پشت ڈالنے کی سعی کی جاتی ہے جو ان کے کسب حلال اور معاش کو اجاگر کرتے ہیں۔ 

 

قرآن مجید میں جہاں جہاں نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں ساتھ میں زکوۃ کی ادائیگی کو بھی فرض قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں میں ایک اہم ستون زکوۃ ہے۔ گیارہویں پارے میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے : "خذ من اموالھہم صدقۃ تطہرھم و تزکیھم بھا وصل علیہم” ان کے اموال سے صدقہ (زکوۃ)  لیجئے تاکہ آپ اس کے ذریعہ انہیں پاک صاف کردیں  اور ان کے لئے دعا کیجئے۔ قرآن مجید کی اس آیت میں اللہ تعالٰی نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ان کے اموال سے، مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس مال تھا، وہ فقیر و لاچار نہیں تھے، وہ اتنی استطاعت رکھتے تھے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرسکیں۔ 

زکوۃ کیا ہے اور کن پر واجب ہے

اگر زکوۃ کی تعریف کی جائے تو سب سے آسان تعریف  یہ ہے کہ "مال مخصوص کا مخصوص شرائط کے ساتھ کسی مستحق زکوۃ کو مالک بنانا”۔ مال مخصوص صاحب نصاب کے مال و دولت کا چالیسواں حصہ ہے۔ زکوۃ کن پر واجب ہے۔ زکوۃ اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس حوائج اصلیہ سے زائد از ضرورت مال موجود ہو۔ اب یہاں ٹھہر کر اندازہ لگائیں کہ اسلام کا اہم اور بنیادی ستون زکوۃ ہر مسلمان پر فرض نہیں ہے بلکہ صاحب نصاب مسلمان پر فرض ہے، اسی طرح اسلام کا ایک اور اہم رکن "حج” ان لوگوں پر فرض ہے جو زاد راہ سمیت اہل و عیال کے خرچ کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اسلام کے یہ دو اہم اور بنیادی ستون ان لوگوں کے ذمہ ہیں جن کے پاس مال و دولت ہے، جو کسب حلال کے ذریعہ اپنے معاش کو مضبوط کرتے ہیں اور اپنے مال سے اسلام کے احکامات کی بجاآوری کو اپنے لئے باعث سعادت دارین تصور کرتے ہیں۔ 

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا” الید العلیا خیر من الید السفلٰی” (البخاري ١٤٢٩) دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ جو لوگ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں، اپنے مال ودولت سے غریبوں کی مدد کرتے ہیں، کسب حلال میں سے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں، سائلین کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے ہیں، وہ بندہ مومن بہتر ہے اس بندہ سے جو دوسروں سے مانگ کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ جو دوسروں کے دروازوں پر دستک دے کر دست سوال دراز کرتا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا:کلا، واللہ ما یخزیک اللہ ابدا، اِنک لتصل الرحم، وتحمل الکل، وتکسب المعدوم، و تقری الضیف وتعین علٰی نوائب الحق” ہر گز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتواں کا بوجھ اپنے کندھوں پر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جن صفات حسنہ کو ذکر کیا ہے ان میں سے بیشتر وہ ہے جو کسی مفلوک الحال اور تنگدستی میں زندگی بسر کرنے والے کے بس میں نہیں ہوسکتا ہے۔  آپ ﷺ نے بغرض تجارت کئی اسفار کئے ہیں اور تجارت کی غرض سے اطراف مکہ کے کئی ممالک کا سفر کیا ہے۔ آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا شمار مکہ کی مالدار خاتون میں ہوتا ہے۔ مذہب اسلام تنگدستی اور فقر و فاقہ کی تعلیم نہیں دیتا ہے۔ بلکہ اسلام کہتا ہے: لا رہبانیۃ فی الاسلام” اسلام میں رہبانیت کا تصور نہیں ہے۔ خود کو تمام طرح کے دنیاوی نعمتوں سے الگ کرنے کی صورت میں اسلام کا اہم ترین فریضہ "دنیا کی امامت” کیسے انجام دی جاسکتی ہے۔ 

یقینا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ابتدائی زندگی مشکل بھری تھی۔ مہاجرین صحابہ کے ابتدائی ایام مشکل میں گزرے تھے۔ لیکن حضرت ابو ہریرہ کا وہ دور بھی آیا ہے جب وہ ریشم کے کپڑوں سے اپنی ناک صاف کرکے غربت کے ایام کو یاد کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال کے متعلق آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ما نفعنی مال قط ما نفعنی مال ابو بکر” مجھے کسی کے مال نے وہ فائدہ نہیں پہنچایا جو ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ ابتداء اسلام میں جب غلاموں نے اسلام قبول کیا اور ان پر کفار مکہ کی جانب سے ظلم و ستم ڈھائے جانے لگے تو انہیں حضرت ابوبکر نے خرید کر آزاد کرایا تھا۔ مشہور صحابی رسول اور مؤذن رسول حضرت بلال بھی آپ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ حضرت ابوبکر نے ایک دو نہیں بلکہ کئی غلاموں کو خرید کر آزاد کرایا تھا۔ یہ واضح ہے کہ حضرت ابوبکر اس حیثیت کے تاجر اور مالدار شخص تھے کہ غلاموں کو خریدنے اور انہیں آزاد کرنے کی استطاعت رکھتے تھے  اور یہ سب کچھ رزق حلال اور کسب حلال کی برکت کی وجہ سے تھا۔

صحابہ کرام کا معاش

اہل مکہ نے تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنا رکھا تھا۔ چنانچہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں بھی ان حضرات نے انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے برخلاف جو کاشت کار تھے، تجارت کو اپنا پیشہ بنایا۔ اخوت و بھائی چارگی قائم ہونے کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اپنے اسلامی بھائی حضرت سعد سے فرمایا کہ مجھے صرف بازار کا راستہ بتادو۔ اللہ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کی تجارت میں وہ برکت عطا فرمائی کہ آپ کا شمار مالدار ترین اصحاب رسول ﷺ میں ہوتا ہے۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن غنی  رضی اللہ عنہ نے جب غزوہ تبوک کے موقع پرتین سو اونٹ مع ساز و سامان کے مرحمت فرمایا   تو آپ ﷺ نے فرمایا: "ما علی عثمان ما عمل بعد ھذہ ما علی عثمان ما عمل بعد ھذہ "۔ اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں، اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تجارت سے وابستہ تھے۔  حضرت زبیر بن عوام ، زید بن ثابت اور خباب بن ارت یہ وہ اصحاب رسول ہیں جن کے گھروں میں درہم و دینار ڈھیر میں پڑے رہتے تھے، اور ایک ایک وقت میں لاکھوں راہ خدا میں خرچ کیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام کی مقدس جماعت کے پاس مال و دولت کی کثرت اتفاقیہ امر نہیں تھی بلکہ یہ کسب حلال کی برکت تھی۔ 

کسب  حلال کی فضیلت

اسلام ایک پاکیزہ مذہب ہے اور یہ پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی خود فرماتے ہیں کہ میں پاک لوگوں کو پسند کرتا ہوں۔ اسلام نے کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی میں بھی ان باتوں کا بہت زیادہ خیال رکھا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "فکلوا مما رزقکمُ اللہ حلٰلا طیبا، و اشکرو نعمت اللہ ان کنتم اِیاہُ تعبدون”۔ تو اللہ نے تم کو جو روزی دی ہے، ان میں سے حلال و پاک چیزیں کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو، اگر تم واقعی اسی کی عبادت کرتے ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "ما اکل احد طعاما قط خیرا من ان یاکل من عمل یدہ، و ان نبی اللہ داؤد کان یاکل من عمل یدہ”۔ کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کبھی کھانا نہیں کھایا (اپنی محنت کی کمائی سے) اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔  اس حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ مذکور ہے کہ اپنے ہاتھ کے کسب حلال سے بہتر کوئی اور رزق نہیں ہے۔ 

کسب معاش کی فضیلت

کسب معاش ایک اہم فریضہ ہے۔ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے: "فاِذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض و ابتغوا من فضل اللہ”۔ پھر جب نماز پوری ہوجائے تو اللہ کی زمین میں پھیل جاؤ، اللہ کی روزی تلاش کرو ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو کسب معاش کی جانب ابھارا گیا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ رزق حلال کی تلاش میں رہے۔ وہ لوگ جو اللہ کی اطاعت و بندگی سمیت تجارت میں مشغول رہتے ہیں اور ان کی تجارت انہیں یاد الہٰی سے غافل نہیں کرتی ہے، ان کی تعریف کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا: "رجال لا تلھیھم تجارۃ و لابیع عن ذکر اللہ و اِقام الصلوۃ و اِیتاء الزکوۃ”۔ وہ لوگ صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں، جن کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ کو یاد کرنے ، نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غفلت میں نہیں ڈالتی ہے۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ کسب معاش بھی ایک اہم فریضہ ہے اور فریضہ کی ادائیگی کے لئے تگ و دو کرنا مستحسن عمل ہے۔ 

کسب حلال کی حدیث

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "طلب کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضہ” کسب حلال کی تلاش عبادات کے بعد اہم فریضہ ہے۔ تجارت اور کسب معاش میں لگ کر انسان اپنے اہل و عیال کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے جو اہم ذمہ داری ہے۔ اگر انسان کسب معاش کی جانب توجہ نہ دے تو ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے دوسروں کے در پر بھٹکنے کی نوبت آئے گی، اور یہ عمل اسلام میں مذموم ہے۔  اگر انسان کے پاس کسب حلال کی استطاعت ہو تو وہ اس کے ذریعہ دیگر ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے، اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ غرباء و مساکین کے لئے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے۔ مساجد و مدارس اور دیگر دینی امور کی نشر و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ یہ تمام کار خیر رزق حلال کی برکت سے ہی انسان کو حاصل ہوسکتے ہیں۔ وہ لوگ جو رزق حلال کی تلاش میں رہتے ہیں اور اسلامی اصول و قواعد کے مطابق تجارت کرتے ہیں ان کے متعلق آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "التاجر الصدوق الامین  مع النبین و الصدیقین والشھداء "۔ ایمان دار تاجروں کا انجام انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ 

رزق حلال کی دعا اور رزق حلال کی برکت

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اَللھم اِنی اَسئلک علما نافعا، و رزقا طیبا، و عملا متقبلا”۔ اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم، حلال رزق اور مقبول عمل کا خواستگار ہوں۔  اس دعا میں نبی کریم ﷺ نے امت کو تعلیم دی ہے کہ علم و عمل سمیت رزق حلال کے لئے بھی دعا مانگتے رہنا چاہئے۔ جب بندہ رزق حلال کماتا ہے اور اس سے کھاتا ہے تو اس کی برکت سے خیر وجود میں آتے ہیں۔ نیکی کے افعال و اعمال اس سے صادر ہوتے ہیں۔ نیک کاموں کی جانب اس کا دل مائل ہوتا ہے اور وہ نیکی کے کاموں میں اپنے رزق حلال کو باعث سعادت سمجھ کر خرچ کرتا ہے۔ حضرت سعد بن وقاص نے آپ ﷺ سے درخواست کی ، آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ مجھے مستجاب الدعوات بنادے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے سعد، اپنا کھانا پاکیزہ اور حلال رکھو، تم مستجاب الدعوات بن جاؤگے۔ 

رزق حرام کی نحوست

حافظ احمد علی محدث سہارنپوری ؒ فرماتے ہیں کہ حرام مال میں سے صدقہ کرنا اور راہ خدا میں خرچ کرنا حرام ہے اور یہ اس گناہ کو نہیں مٹا سکتا ہے جو کسب حرام کی وجہ سے انسان پر آیا ہے۔ رزق حرام کی نحوست کو قرآن و حدیث میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ آج کل عموما لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہم اللہ کے دربار میں اس قدر گڑگڑاکر دعا مانگتے ہیں لیکن ہماری دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ ایسے شخص کا نقشہ حدیث میں آپ ﷺ نے یوں کھینچا ہے: "الرجل یطیل السفر اشعت اغبر یمد یدیہ الی السماء، یا رب، یا رب، و مطعمہ حرام، و مشربہ حرام، و غذی الحرام، فاَنی یستجات لک”۔ ایک شخص طویل سفر میں ہو، بال بکھرے ہوئے، کپڑے گرد آلود، پھر وہ آسمان کی جانب ہاتھ اٹھا کر رب سے فریاد کرتا ہے، اے میرے رب میرے دادرسی فرما، اے میرے رب میری دار رسی فرما، اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کی غذا حرام پھر کیسے اس کی دعا قبول کی جاسکتی ہے۔  جب انسانی جسم میں رزق حرام کی ملاوٹ ہوگی تو اس کی پرورش بھی اسی طرح ہوگی۔ رزق حرام کی ایک بڑی نحوست یہ ہے کہ بندہ کی دعا بار گاہ رب العالمین میں قبول نہیں ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ عبادت کی توفیق بھی ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا جب لوگ اس بات کی پرواہ نہیں کریں گے کہ ان کے پاس جو مال آیا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔ 

کسب معاش رزق حلال کی تلاش میں ہو۔ اللہ تعالٰی نے قرآن میں کئی جگہ مال طیب کے کھانے کا ذکر کیا ہے۔ "کلوا من الطیبات و اعملوا صالحا” پاکیزہ رزق کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ دنیاوی معاملات سے بالکلیہ بے رغبتی مناسب نہیں ہے۔ جب دنیاوی امور سے بے رغبتی عام ہوجائے گی تو اس سے غربت بڑھے گی اور غربت کے متعلق آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "کاد الفقر ان یکون کفرا”۔ غربت کفر تک پہنچادیتی ہے۔  اسلام میں کسب حلال اور معاش کی تگ و دو کو منع نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ اس چیز کے لئے ابھارا گیا ہے۔ ہاں، اسلام اس بات کو ممنوع قرار دیتا ہے کہ کسب معاش میں پھنس کر بندہ اپنے رب حقیقی کو بھول جائے، حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھے، بے ایمانی کے ساتھ معاملات طے کرے، ایمانداری سے دور ہوجائے، جھوٹ بولنے لگ جائے، خرید و فروخت میں دھوکہ دہی پر اتر آئے، یا پھر اس کی تجارت اسے نماز، روزہ اور دیگر عبادات سے غافل کردے تو ایسی صورت میں وہ تاجر ان غلط کاموں کی وجہ سے گناہ گار ہوگا، کیونکہ وہ ایسے امور کی انجام دہی میں مصروف ہوگیا ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔

 

Related Posts

0 thoughts on “کسب حلال کی فضیلت و اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے