*کرونا وائرس اور قرنطینہ کے دن:*

*مشاہدات اور تجربات کے آئینے میں

*از قلم: محمد سعد غزالی قاسمی مقیمِ حال قطر*

اس وقت کرونا وائرس کا خوف پوری دنیا پر مسلط ہے۔ حکومتی سطح پر ہنگامی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے – احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے احکامات جاری کئے جارہے ہیں ۔ کئی ممالک میں تین تین، چار چار اور  پانچ پانچ مہینوں تک مکمل لاک ڈاؤن دیکھنے کو ملے ہیں- ہمارے ملک بھارت میں بھی اس وقت کہیں لاک ڈاؤن تو کہیں شارٹ لاک ڈاؤن چل رہا ہے ۔ تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا ہے ۔ معاشیات میں گراوٹ آچکی ہے۔

بیرون ممالک سے آنے والوں پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔ ہر آنے جانے والے بیرون و اندرون ملک افراد پر قرنطینہ (کورنٹائن) لازم قرار دیا گیا ہے – منہ پر ماسک لگانا ضروری ہوگیا ہے ۔ بھیڑ بھاڑ اکٹھا کرنے، ہاتھ ملانے سے منع کیا گیا ہے۔ صفائی کا خاص خیال رکھنے، کھانسی، بخار یا زکام ہونے پر فوراً  نزدیکی طبی مراکز کی طرف رجوع کرنے کے لیے صلح دی گئی ہے۔ 

اب یہ کرونا وائرس جو چین کے ووھان شہر سے نکل کر دنیا کے ہر خطے میں پہنچا، انسان جسکی وجہ سے خوفزدہ ہوا اور میڈیا کے ذریعے دہشت زدہ کیا گیا – وہ چین سے چل کر سات سمندر پار مشرق وسطیٰ میں بسا ہوا اک چھوٹا سا ملک قطر میں مجھے بھی  آگھیرا

*اور میں کرونا کا شکار ہو گیا*

24 ذوالقعدہ1441 ھ بمطابق 16 جولائی 2020 جمعرات کی شام جب اچانک میری طبیعت خراب ہونے لگی اور بخار کا احساس ہوا – مجھے یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ میں اس کرونا وبا کا شکار ہو جاؤں گا جسکے آج ہر سو چرچے ہیں- خیر جمعرات کی شام آہستہ آہستہ جب مجھے بخار کا احساس ہوا تو میرے پاس موجود کچھ نزلہ زکام اور بخار وغیرہ کی دوائیں تھیں جو میں نے لینی شروع کردی، مگر کچھ افاقہ ہوتا پھر کچھ دیر بعد بخار آجاتا اور اسی اثنا میں مجھے کھانسی بھی ہونے لگی تھی اور پورے بدن میں شدید تھکن کا احساس ہو رہا تھا – دو دن اسی حالت میں گزرے – پھر میں نے 18 جولائی بروز سنیچر ہسپتال جانے کا  ارادہ کیا اور  اپنے کام سے فارغ ہو کر رات تقریباً 10:30 ساڑھے دس بجے ذہن و دماغ میں کرونا کا خوف لئے ہوئے، تصورات کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اپنی کار سے ایک دوست کے ہمراہ الحميله ہسپتال پہنچا، اس وقت ڈاکٹروں کی ڈیوٹی تبدیل ہو رہی تھی؛ تقریباً آدھے گھنٹے انتظار کے بعد میں اندر گیا اور ابتدائی چیک اپ کرنے والے حضرات چیک اپ کرنے سے پہلے مجھ سے کہنے لگے کہ "اگر آپکو کھانسی، گلے میں خراش اور بخار کا سمپٹم ہے تو ہم آپ کو آگے ریفر کریں گے ورنہ آپ کل صبح ساڑھے پانچ بجے آئیے؛ اس وقت ہسپتال میں صرف کرونا کے ڈاکٹرز موجود ہیں” (یہاں اک بات بتاتا چلوں کہ قطر میں کسی بھی ہسپتال میں جائیں تو سب سے پہلے نرس اور پریکٹس کرنے والے حضرات چیک اپ کرتے ہیں پھر آخیر میں ڈاکٹر کے پاس بھیجا جاتا ہے ) مجھے اندر سے تھوڑی گھبراہٹ ہو رہی تھی کہ کہیں کرونا نہ ہوگیا ہو، میں ان سے کہنے لگا کہ بس میرے بدن ہاتھ بہت زیادہ درد کر رہے ہیں اور صبح میری ڈیوٹی ہے میں صبح نہیں آسکتا – مگر میری آواز سے(جو عموماً بخار کے وقت تبدیل ہوجاتی ہے) انہیں اندازہ ہوگیا کہ شاید بخار ہے – مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا گیا پھر میرا چیک اپ کرنے کے بعد "کہنے لگے آپکو تو بخار ہے؛ آپ کو ہچکچانا نہیں چاہئے آپ کو تو بتانا چاہیئے تھا، ہم آپکو ڈاکٹر کے پاس بھیجتے ہیں ابھی صرف 2،3 مریض ہیں اسکے بعد آپکا نمبر آجائے گا” پھر انہوں نے مجھے سیریل نمبر کی ٹوکن دیکر اندر جانے کا اشارہ کیا اور میں اندر جا کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا؛ کچھ دیر بعد مجھے ڈاکٹر کے کمرے میں لے جایا گیا اور وہاں اچھی طرح چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے  میری طبیعت دیکھ کر مجھے دو دن آرام کا مشورہ دیا اور ساتھ میں رپورٹ

بنوا کر دی کہ 2  دن آپ آفس نہیں جائیں گے – میں ڈاکٹر کے

کمرے سے نکل کر دوائ کا انتظار کرنے لگا، دوائ لینے کے بعد تقریباً رات 12:30 ساڑھے بارہ بجے میں وہاں سے واپس ہوا

مگر دو تین دن گزرنے کے بعد بھی طبیعت میں کوئی افاقہ نہیں ہوا بلکہ جسم میں شدید درد کا احساس ہونے لگا اور بخار بھی کبھی تیز ہوتا تو کبھی کم- میں نے دوبارہ ہسپتال جانے کا ارادہ کیا اور معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ہماری رہائش کے قریب ہی ہسپتال ہے جہاں قطر ہلالِ احمر کی جانب سے کرونا کا بھی ٹیسٹ کیا جاتا– 

میں 23 جولائی صبح  گیارہ بجے وہاں پہنچا اور ڈاکٹر نے چیک کر نے کے بعد مجھ سے کرونا ٹیسٹ کے لئے کہا اور دوائی کے کاؤنٹر کی طرف اشارہ کیا؛ 

میں دوائی لیکر انتظار کرتا رہا، تقریباً دو گھنٹے انتظار کے بعد میرا کرونا ٹیسٹ ہوا اور کہا گیا آپ کی رپورٹ آئندہ کل سیل فون پر میسج کے ذریعے آجائے گی،  میں ٹیسٹ کے بعد واپس آگیا – یہ واضح رہے کہ یہاں قطر میں رپورٹ آپکے ہاتھ میں نہیں دیتے ہیں بلکہ آپکے موبل پے میسج کے ذریعے بھیجا جاتا ہے

*احتراز ایپ اور اگلے دن کا انتظار:*

احتراز ایپ اک ایسا موبائل ایپلیکیشن ہے جو آپکو بروقت کرونا وائرس سے آگاہ کرتا ہے – یہ ایپلیکیشن قطر حکومت کی جانب سے تیار کیا گیا ہے جو قطر میں رہنے والے ہر فرد کے لیے اپنے موبائل پر انسٹال کرنا لازم ہے – اسکی خاصیت یہ ہے کہ اگر آپکے آس پاس کوئ کرونا کا مریض ہے تو یہ ایپ آپکو اس سے آگاہ کرتا ہے – اگر آپ ایسی جگہ جا رہے ہیں اور آپکو معلوم نہیں کہ وہ جگہ ریڈ زون میں شامل ہے تو یہ ایپ اس سے بھی آگاہ کرتا ہے –  اس ایپلیکیشن میں چار طرح کے کوڈ ہیں 1. ہرا (Green) 2. پیلا (Yellow) 3. گرے اور 4 چوتھا لال (Red) اگر آپ کا کوڈ ہرا ہے تو آپ صحتمند ہیں، آپ باہر آ جا سکتے ہیں، گھوم پھر سکتے ہیں، اگر آپکے کوڈ کا رنگ پیلا ہے تو اسکا مطلب آپ گھر پر قرنطینہ  (home quarantined) ہیں، اگر آپ کا رنگ گرے ہے تو آپ مشتبہ ہیں (ہوسکتا ہے آپکو کرونا ہو) اور اگر آپ کا ایپلیکیشن کا کوڈ لال ہے تو جسکا مطلب آپکو کرونا ہوگیا ہے اور آپ کےباہر نکلنے پر مکمل پابندی ہے- یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ کسی سپر مارکیٹ، مال یا بینک، ریسٹورنٹ وغیرہ میں اس احتراز ایپلیکیشن دکھائے بنا آپ اندر نہیں جاسکتے اور اسکا کوڈ ہرا ہونا شرط ہے – اگر ایپ کا کوڈ ہرا ہے تبھی اندر جانے کی اجازت ملے گی ورنہ نہیں – یہ اس ایپلیکیشن کا مختصر تعارف تھا – 

اب میں دوسرے دن دل میں طرح طرح کے خیالات لئے انتظار کرنے لگا کہ کب میری رپورٹ آئے گی؛ میں بار بار میسج دیکھتا مگر شام تک کوئی میسج نہیں آیا – جب میں نے احتراز ایپلیکیشن چیک کیا تو وہاں میرا کوڈ ہرے سے بدل کر لال ہو چکا تھا – جسکا مطلب تھا کہ اب میں کرونا کا شکار ہو چکا ہوں اور میری رپورٹ پازیٹو آگئی ہے- تھوڑی بہت مجھے پریشانی ہوئی – میرے دوست و احباب مجھے دلاسہ دیتے رہے – میں نے قطر کے کرونا ہاٹ لائن نمبر پے کال کرکے انہیں اس سلسلے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ آپکی رپورٹ پازیٹو آگئی ہے اور وزارت صحت کی طرف سے آپکو کال آئے گی اور دو تین دن کے اندر آپکو کورنٹائن سینٹر کیلئے لے جایا جائے گا – تقریباً دو گھنٹے بعد مجھے وزارت صحت کی جانب سے کال موصول ہوئی اور ساری معلومات لینے کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ آپ کو ایک سے تین دن کے اندر کورنٹائن کردیا جائے گا، آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوں- پھر وزارت صحت کی کال کے کچھ ہی دیر بعد حمد میڈیکل کارپوریشن سے کال آیا – انہوں نے میری طبیعت اور رہائش گاہ معلوم کرنے کے بعد مجھ سے کہا کہ ہم ابھی آپکے لئے کورنٹائن سینٹر دیکھ رہے ہیں؛ آج ہی رات یا پھر کل صبح ہم آپکو 14 چودہ دن کورنٹائن کے لئے لے جائیں گے، آپ اپنی تیاری کر لیں

*حمد ہسپتال:*

یہاں قارئین کو حمد ہسپتال کا مختصر تعارف پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں؛ حمد ہسپتال قطر کا سب سے بڑا سرکاری اور مرکزی ہسپتال ہے – جس پر ملین ڈالرز کے انویسٹمنٹ ہیں – جہاں ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہیں،  دنیا بھر کے بہترین ڈاکٹرز یہاں موجود ہیں – اور ہر مہینے پوری دنیا سے اپنے اپنے شعبوں کے ماہر ڈاکٹروں کی آمد ہوتی ہے، جنکو قطر حکومت کی جانب سے بلایا جاتا ہے – یہ ہسپتال دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں شمار کیا جاتا ہے – اور تقریباً یہاں ہر طرح کا علاج مکمل فری میں کیا جاتا ہے جسکے لئے آپ کے پاس قطر کا ہیلتھ کارڈ ہونا شرط ہے جسکی مدت ایک سال کی ہوتی ہے جو قطری شہری کیلئے 50 ریال کا  بنتا ہے اور مقیم حضرات کے لیے 100 ریال ہے اور یہ ہیلتھ کارڈ یہاں کام کرنے والے لوگوں کی کمپنیاں اپنے ورکرز کے لئے بناتی ہیں۔

خیر پھر مجھے کچھ دیر بعد حمد ہسپتال کے شعبہ ٹرانسپورٹیشن کی جانب سے کال آتی ہے کہ آپ اپنی رہائشگاہ کا لوکیشن بھیجیں؛ کچھ دیر بعد آپکو لینے گاڑی آئے گی – میں نے اپنا لوکیشن بھیج دیا – کچھ دیر بعد پھر سے کال آئی کہ "حمد ٹرانسپورٹیشن کی جانب سے بات کر رہے ہیں، آپ تیار رہیں، ہم پندرہ سے بیس منٹ کے اندر پہنچ رہے ہیں” – پھر میں نے اپنا سامان پیک کرنا شروع کردیا اور پندرہ منٹ بعد مجھے کال آئی کہ "ہم پہنچ گئے ہیں اور نیچے آپکا انتظار کر رہے ہیں” – میں اپنا سامان لیکر نیچے کی جانب چل دیا؛ مگر میرے ذہن و دماغ میں طرح طرح کے خیالات گردش کر رہے تھے اور مجھ پر اک خوف طاری تھا – اور میں یہ سوچ کر اور بھی زیادہ خوفزدہ ہو رہا تھا کہ ایمبولینس میں کیسے جاؤں؛ کبھی اس میں بیٹھا بھی نہیں – اور ویسے بھی ایمبولینس کو دیکھ کر خوف سا ہونے لگتا ہے – جب میں لفٹ سے نیچے اتر کر باہر نکلا تو میری آنکھیں حیرت زدہ تھیں کہ میرے سامنے اک نئ بلیک کلر کی مرسڈیز کھڑی تھی – پہلے پہل تو مجھے یقین نہیں آیا اور میں چاروں طرف دیکھنے لگا کہ شاید کسی اور سمت میں میری ایمبولینس کھڑی ہو – جب ہر طرف نظریں دوڑانے کے بعد کہیں ایمبولینس نظر نہیں آیا تو میں نے اس نمبر پر کال ملایا اور پوچھا؛ Where are you now ابھی آپ کہاں ہیں 

 تو ڈرائیور نے مجھے مرسڈیز کے اندر سے اشارہ کیا؛ پھر مجھے یقین ہوا – اور یوں مرسڈیز میں بیٹھ کر 24 جولائی کی رات تقریباً 10 دس بجے کورنٹائن سینٹر کی جانب قرنطینہ کے لئے روانہ ہوا – 

*ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے کے سناٹے سے

*لیکن ایک سفر پر اے دل اب جانا تو ہوگا*

 

*قرنطینہ کے دن:*

گاڑی مجھے لیکر دوحہ کے قلب میں واقع حمد ہسپتال سے تقریباً 100 میٹر کے فاصلے پر قطر کا مشہور پانچ ستارہ ہوٹل ملینیم پلازہ کے دروازے پر رکتی ہے – اندر سے سیکیورٹی گارڈز کا اہلکار آتا ہے؛ پھر ڈرائیور اسکو کچھ کاغذات دیتا ہے جس میں شاید میری پوری تفصیلات موجود تھی – پھر مجھے ہوٹل کے اندر لے جایا جاتا ہے اور وہاں سے ہوٹل کے تیرہویں منزل پر – یہاں پر ڈاکٹروں کی ٹیم پھر سے میرا چیک اپ کرتی ہے اور چیک اپ کے بعد مجھے آٹھویں منزل پر موجود کمرے کی چابی دی جاتی ہے اور یہ چابی اے ٹی ایم کارڈ کی شکل میں ہوتی جس میں سینسر لگے ہوتے ہیں اور سینسر بورڈ دروازے پر نصب ہوتے ہیں؛ یہ کارڈ اس سینسر بورڈ کے سامنے کرنے سے دروازہ کھل جاتا ہے – خیر جب میں نے دروازہ کھولا تو اک عالیشان کمرہ میرا منتظر تھا؛ جہاں ہر طرح کی سہولیات موجود تھیں جو ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ہوتے ہیں – ایک بڑا سا بیڈ دلہن کی طرح سجا میرے آنکھوں کے سامنے تھا اور اسکے دونوں أطراف میں دو چھوٹے چھوٹے سائد ٹیبل تھے جس پر قمقمے لگے ہوئے تھے جسکی روشنی کمرے کی خوبصورتی کو دوبالا کر رہی تھی – میرے بیڈ کے سراہنے ایک لینڈ لائن فون، ایک میز برائے مطالعہ اور ایک برائے طعام  اس پر بھی ایک فون تھا-؛ اور ایک فون غسل خانے کے اندر نصب تھا – پلنگ کے سامنے میز پر ایک بڑی سکرین والی ٹی وی – میری آنکھیں یہ سب کچھ دیکھ کر محو حیرت تھیں – میرا ہوٹل میں میڈیکل چیک اپ کے بعد مجھے تین نمبر دیئے گئے تھے جنمیں سے دو نمبر ہسپتال و ڈاکٹروں سے متعلق اور ایک نمبر ہوٹل سے متعلق تھا – اگر کسی بھی طرح کی ضرورت پیش آئے تو اس نمبر پر کال کرنے سے مطلوبہ شی فورا حاضر کردی جاتی تھی – آگر آپکو صحت کے متعلق کوئی مسئلہ درپیش آئے تو فون کرنے پر فوراً ڈاکٹر حاضر اور اسی طرح کھانے پینے کا کوئی مسئلہ ہو آڈر دینے پر فوراً حاضر ہوجاتا- اور ایک بات جو مجھے حیرت زدہ کر رہی تھی کہ روزانہ بلا ناغہ منسٹری آف ہیلتھ وزارت صحت کی جانب سے کال آتی دو پہر اور رات  کے کھانے کے تعلق سے؛ وہ ہمیشہ مجھے سے پوچھتے "آپ دو پہر اور رات میں کیا کھانا پسند کریں گے” میرے آرڈر پر میں جو کچھ بھی کہتا وہ کھانا وقت پر حاضر ہوتا اور یہ پکوان وزارت صحت کی نگرانی میں تیار کیا جاتا تھا – معلوم کرنے پے پتہ چلا کہ یہ سب کچھ میرے ویزا اسٹیٹس  کی وجہ سے تھا – در اصل یہ میرے مہربان رب کی مہربانی تھی مجھ پر کہ اس نے مجھ جیسے حقیر بندے کو کام کے ٹینشن سے فارغ کرکے کرونا کے بہانے آرام کا موقع دیا-  خیر اسی طرح دن گزرتے گئے اور میری طبیعت میں بہتری آتی چلی گئ – ( 26 سورۃ الشعراء (مکی، آیات 227)

وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ (80)

اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔) چودہ دن قرنطینہ میں گزارنے کے بعد آخری دن میری ساری رپورٹس اور ساتھ میں پندرہ دن میری چھٹی کی بھی رپورٹ بنوا کر مجھے قرنطینہ سے روانہ کیا گیا – یہ تھا یہاں کا طریقہء علاج اور کورنٹائن سینٹر جسے دیکھ کر مریض کی آدھی طبیعت ٹھیک ہو جائے – اور اسکا پورا خرچہ قطر حکومت کی جانب سے تھا ( اللہ تعالیٰ یہاں کی حکومت اور حاکموں کو جزائے خیر عطا فرمائے) –

*کرونا وائرس کے تجربات، احتیاطی تدابیر اور اسلام کے رہنما اصول*

 اسلام ایک دین فطرت ہونے کے علاوہ دین رحمت بھی ہے۔ اسلام ہماری مادّی فلاح اور جسمانی صحت کے لئے بھی ایک بہترین اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہ ایک صحت مند معاشرہ کے ساتھ ساتھ صحت مند انفرادیت پر بھی زور دیتا ہے۔

پیارے آقا صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے 

 ”اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اُتاری جس کی شفاء نازل نہ فرمائی ہو”۔ (صحیح البخاری، 2: 847  و جامع الترمذی، 2: 25)

یہ حدیثِ مبارک بنی نوع انسان کو ہر مرض کی دوا کے باب میں مسلسل تحقیق و تجربات کو جاری رکھنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ تصور دیناکہ بعض بیماریاں کلیتاً لاعلاج ہیں، ایسے تصور کو اِسلام نے قطعی طور پر بے بنیاد اور غلط قرار دیا ہے۔ اپنی تحقیق سے کسی مرض کا علاج دریافت نہ کر سکنے پر مرض کو ناقابلِ علاج قرار دینا جہالت کی علامت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

اس مہلک وباء سے بچاؤ کے لئے اِسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔   

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ ”طاعون ایک بصورت عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر نازل ہوا تھا، لہذا جب تم کسی علاقے میں اس کے متعلق سنو تو وہاں مت جاؤ اور اگر کسے علاقے میں طاعون پھوٹ پڑے تو فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے نہ نکلو”- (سنن أبی داؤد، کتاب الجنائز، باب الخروج من الطاعون 3103 اور صحیح مسلم،کتاب السلام، باب الطاعون: 2218)

اس طرح خیر الانام ختم الرسل رحمت للعالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت نہایت ہی سادہ الفاظ میں امت مسلمہ کو سمجھایا ہے کہ خود بھی بچو اور دوسروں کے لیے بھی بچاؤ کی کاروائی انجام دیتے رہا کرو۔

حاصل کلام یہ ہے کہ حال ہی میں تمام ممالک نے کرونا وائرس زدہ علاقوں کو سیل کر کے اِسی نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے احتیاطی تدابیر کو اہمیت دے کر لوگوں کو آنے اور جانے سے روکا ہے۔

میرے تجربات بتاتے ہیں کہ کرونا وائرس دوسرے فلو کی طرح ایک فلو ہے – جیسے نزلہ، زکام اور بخار وغیرہ ایک فلو ہیں اسی طرح یہ بھی ہے – یہ در اصل چین کے ووہان شہر میں پھیلنے والے کرونا وائرس کے اثرات ہیں – اگر کسی کو کرونا ہو جائے تو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے – یہ وائرس آپکے اندر زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ رہتا ہے – اگر انسان اس ایک ہفتہ میں احتیاط کرلے تو اسکو ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں، اسے کچھ نہیں ہوگا – کرونا کے علامات کھانسی، بخار اور بدن میں درد تھکاوٹ وغیرہ ہیں – سب سے پہلے ڈاکٹر کے پاس جا کر کھانسی بخار وغیرہ کی دوائی لیں، مستقل طور پر گرم پانی کا استعمال کرے تاکہ پھیپھڑوں میں کف جمنے نہ پائے – گرم پانی پینا ہے اور اس سے غرارے کرنا ہے اور اسی طرح لال چائے اور ثابت گرم مصالحہ کا پانی (جسے مالیگاؤں کا کڑھا کہا جاتا ہے) – اگر یہ پابندی سے کر لیا جائے تو إن شاء اللہ، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ایک ہفتہ کے اندر بندہ کرونا سے شفایاب ہو جائے گا

یہ میرے مشاہدے اور تجربات تھے جو میں نے قلمبند کرنے کی کوشش کی

اللہ ہم سب کی اس وبا سے حفاظت فرمائے؛ آمین

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے