پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

 

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

بدقسمتی اور لعنت و ملامت جب مقدر ہو جائے اور انسان کا ضمیر مردہ ہو جائے تو پھر اس سے ایسےایسے  افعال واعمال سرزد ہوتے ہیں جو اسے دائرہ انسانیت سے خارج کرکے جانوروں (انعام) کی فہرست میں شامل کر دیتے ہیں بلکہ اس سے بھی رذیل اور بے وقعت بنا دیتے ہیں۔ ایسے انسان جو خدائی قانون اور قدرت الہیہ کا مذاق اڑاتے ہیں، ان پر تبراء بازی کرتے ہیں، ان کا مضحکہ بناتے ہیں، اپنے کردار سے ان کی توہین کرتے ہیں، دوسروں کو اہانت و ملامت پر آمادہ کرتے ہیں، تاریخ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ ایسے افراد ہمیشہ دنیا کے لئے عبرت بنا دیئے گئے ہیں۔ ان کو قانون فطرت نے جب اپنے مضبوط اور آہنی شکنجوں میں کسا ہے تو ان کے حواریین اور ان کی نغمہ سرائی کرنے والے بھی انہیں محفوظ نہیں رکھ سکے ہیں، ان کی پشت پناہی کرنے والے اور ان کے حشم و خدم سب کے سب تار عنکبوت کی مانند پلک جھپکتے ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں۔ 

phonkun se ye chirag bujhaya na jayega
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے ناہنجار، اوباش اور خسیس لوگوں کی ٹولی رہی ہے جنہوں نے فطرت خدا وندی سے چھیڑ چھاڑ کی ہے اور بزعم خویش وہ اس دنیا کی ہیئت اور یہاں بسنے والوں کی طرز زندگی کو اس ڈگر سے ہٹانے میں کامیاب ہو نے والے ہیں جن پر انہیں رب العالمین نے چلایا ہے۔ ایسے لوگ رات کو دن اور دن کو رات بنانے اور انسانی ترقیات کے نام پر بشری تقاضوں سے منھ پھیر کر غیر انسانی طور طریقوں کو اپنانے کی سعی صدیوں سے کرتے آرہے ہیں لیکن انہیں ناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ایسی سطحی سوچ کے حامل افراد کامیاب ہو سکتے ہیں۔ 

موجودہ دور میں چند دریدہ دہن، خبطی، بد قماش اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جن خار دار وادیوں میں الجھ کر بے شمار فراعنہ وقت نے اپنی عقبی برباد کی ہے۔ ان میں بیشتر وہ ہیں جو خالق کائنات کے منکر اور اس کی نعمتوں کو جھٹلانے والے ہیں لیکن  کچھ ایسے بھی ہیں جو بظاہر اسی مالک حقیقی اور پروردگار عالم کے نام لیوا ہوتے ہیں لیکن دنیاوی منفعت، متاع تعیش کی خواہش اور چند روزہ ناموری کے حصول کے لئے اپنے رب ذوالجلال سے بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور ان کے احکامات و منہیات، کلام و کتاب میں کتر بیونت اور کاٹ چھانٹ کی بے تکی باتیں کرتے ہیں۔ ان کی پشت پناہی کرنے والے مفسد عناصر انہیں حریر و ریشم، سیم و زر اور پر تعیش زندگی کے سنہرے خوابوں میں الجھائے رکھتے ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان سے توبہ کی توفیق چھین لیتے ہیں اور دین و دنیا کی بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ ذات حی القیوم انہیں ڈھیل دیتی ہے اور وہ اپنی بد اعمالیوں میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔

قرآن مجید خدائے وحدہ لاشریک لہ کا کلام ہے، جس کے تحفظ اور بقا کی ذمہ داری خود مختار کائنات نے لی ہے۔ چودہ سو سال کے طویل عرصے کے دوران ان گنت کوششیں کی گئیں، تخت و تاج کے پہننے والوں نے اپنے مشیروں کے ساتھ مل کر سازشیں رچی، درہم و دینار کے پجاریوں نے بے دریغ دولتیں لٹائی، زبان و ادب کے شہنشاہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا استعمال، خدا کے خلاف استعمال کرنے میں تگ ودو کیں لیکن فرمان الٰہی کے سامنے سارے مکر و فریب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مکمل کلامِ الہی کو بدلنے اور اس کا متبادل پیش کرنے کا دعوی کرنے والے ایک آیت تو درکنار ایک جز میں بھی اس کا مثل لانے یا اس میں تحریف کرنے سے عاجز رہ گئے ہیں۔ شہنشاہی نظام حکومت ہو یا فسطائیت کا دور دورہ، جمہوریت کے پروردہ ہو یا ڈکٹیٹر شپ کے تحت چلنے والے ممالک، دور افتادہ علاقوں کے باشندے ہو یا شہروں میں بسنے والے تہذیب و تمدن کے حامی کسی کا کوئی حیلہ اور سازش اس سمت میں نہ کامیاب ہوئی ہے اور نہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ البتہ ایسے تمام افراد جنہوں نے نور الہی کو بجھانے کی کوشش کی ہے ان کے مقدر کا ستارہ ذلت وخواری کے غار عمیق میں ڈوب گیا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے مستقل اسلام اور مذہب اسلام کے خلاف زہر افشانی کرنے والے وسیم رضوی نے علی الاعلان مذہب اسلام کو چھوڑ کر ارتداد کی راہ کو اپنے لئے مقدر بنا لیا ہے۔اب تک ظاہرا  ہی سہی لیکن وہ مسلمانوں کی فہرست میں تھا لیکن اب وہ مکمل طور پر اس دائرہ سے باہر ہوگیا ہےاور ایک ایسی ڈگر پر چل پڑا ہے جہاں نجاست و غلاظت کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انسان کی بدقسمتی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ زندگی میں ہی اس کے اپنے اعزہ و اقارب والدین اور معاشرہ کے سربرآوردہ افراد نے دھتکار دیا ہے۔ لعنتوں کا مرکز بن گیا ہے اور ان لوگوں کے لئے باعث عبرت بنادیا گیا ہے جو مذہب اسلام اور اسلامی تشخصات کی تضحیک کے درپے ہوتے ہیں۔    

ایسے پر آشوب دور میں جب باطل اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ میدان میں ہے، مسلمانوں کو جسمانی و روحانی اذیت دینے کے در پر ہے، اور آلات و وسائل بھی انہیں فراہم ہے بلکہ موجودہ دنیا کے نقشے میں ان کا رعب و دبدبہ اور ان کی طاقت و قوت ظاہر و باہر ہے اور اسی زور بازو کے زعم میں وہ اس کلام الٰہی اور نور خدا کو نیست ونابود کرنے کے تانے بانے بن رہے ہیں جن کی بقا انسانوں کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ اس رب العالمین کے قبضہ میں ہے جو مالک ارض و سما ہے اور جس کی اجازت کے بغیر کوئی پتہ بھی حرکت نہیں کرتا ہے۔ یہ بد باطن بھول جاتے ہیں کہ وہ جس دنیا میں جی رہے ہیں وہ اللہ تعالٰی کی بسائی ہوئی ہے، یہاں کی ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے، اس دنیا میں انہیں اصولوں کے تحت زندگی گزارنا ہوگا جن اصولوں کو دنیا بنانے والے نے یہاں بسنے والوں کے لئے نازل فرمایا ہے۔ یہ دنیا ان دریدہ دہنوں کی بنائی ہوئی نہیں ہے کہ یہاں اپنی خواہشات کے اعتبار سے رد و بدل کریں گے۔

 البتہ ایسی صورت حال میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ شعائر اسلام کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے۔ کلام الٰہی کو طاقوں میں سجانے کے بجائے سینوں میں بسائے۔ اسلامی تعلیمات کو زندگی کے تمام شعبوں میں بروئے کار لائے، اور اپنی کمزوری و ضعف کے باوجود، دین اسلام اور کلام الٰہی کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدام کریں۔ یہ دین تا قیامت رہنے والا ہے، جز وقتی تھپیڑوں سے اس کی لو مدھم نہیں پڑ سکتی ہے اور نہ ہی اس شجر برگ و بار پر خزاں کا موسم اثر انداز ہو سکتا ہے۔ 

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن۔۔۔پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

 

Related Posts

0 thoughts on “پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے