اسلام میں نکاح کی اہمیت اور ہمارا طرز عمل

اسلام میں نکاح کی اہمیت اور ہمارا طرز عمل

اسلام میں نکاح کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف دینہ، فلیتق اللہ فی النصف الباقی”جب کوئی بندہ شادی کرلے تو اس نے اپنا آدھا ایمان مکمل کرلیا ہے، اسے چاہئے کہ باقی آدھے میں اللہ سے ڈرتے رہے۔ مذہب اسلام میں نکاح کی اہمیت یہ ہے کہ اسے نبی کریم ﷺ نے نصف ایمان قرار دیا ہے۔ نکاح صرف مذہب اسلام میں ہی نہیں ہے بلکہ اسلام سے قبل جتنے بھی مذاہب آئے ہیں تمام امت میں اس کا رواج رہا ہے اور نکاح تمام انبیاء کرام کی سنت بھی ہے۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:” ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا و ذریہ”ہم نے آپ سے قبل رسولوں کو بھیجا ہے اور ہم نے انہیں بیویاں اور اولاد سے نوازا تھا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اربع  من سنن المرسلین: الحیاء، والتعطر، والسواک والنکاح”۔ چار چیزیں انبیاء کرام کی سنتیں ہیں، حیاء، خوشبو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔ 

نکاح-کی-اہمیت-

نکاح کی اہمیت قرآن مجید میں

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "و انکحو الایامی منکم والصلحین من عبادکم و امائکم، اِن یکونوا فقراء یغنھم اللہ من فضلہ ، واللہ واسع علیم”۔اور اپنے میں سے غیر شادی شدہ (خواہ شادی نہ کی ہو یا کسی اور سبب سے بیوی یا شوہر نہ ہو) نیز اپنے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے لائق ہوں، ان کا نکاح کردو، اگر وہ تنگ دست ہیں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو مالدار کردیں گے اور اللہ وسعت والے ہیں اور سب کچھ جانتے ہیں۔ اس آیت میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ جب بندہ یا بندی شادی کی عمر کو پہنچ جائے اور کوئی عذر بھی نہ ہو تو ان کا نکاح کردینا چاہئے۔ نکاح میں بلا وجہ تاخیر مذہب اسلام میں ممنوع ہے۔ قدرت کے باوجود نکاح سے دور رہنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ موہوم خطرات کے پیش نظر نکاح سے اجتناب غیر ضروری عمل ہے۔جب اللہ تعالی نے خود فراخی اور وسعت کا وعدہ کیا ہے تو اس کے کسب معاش کے لئے  سبیل بھی وہی پیدا فرئیں گے۔

اسلام میں رہبانیت نہیں ہے

 ایک مرتبہ چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے باہمی صلاح و مشورہ سے رہبانیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان حضرات نے پہلے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن سے آپ ﷺ کی عبادت و ریاضت کے متعلق دریافت فرمایا اور ایک عزم اور حوصلہ کے ساتھ کہ اب دنیاوی معاملات سے باکل کنارہ کشی اختیار کرلینا ہے، وہاں سے روانہ ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ جب تشریف لائے تو آپ ﷺ کو ان کے عمل اور ان کی نیت سے آگاہ کیا گیا ۔ آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا” اَنتم الذین قلتم کذا و کذا، اَما وَاللہ لاَخشاکم للہ و اَتقاکم لہ، لکننی اصوم و اُفطر و اُصلی و ارقد و اَتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی”۔کیا تم لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ خبردار! اللہ کی قسم، میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تقوی اختیار کرنے والا ہوں، اس کے باوجود میں روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نوافل بھی ادا کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، پس جس شخص نے میری سنت سے رو گردانی کی وہ مجھ سے نہیں ہے(میرے طریق پر نہیں ہے)۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے نکاح کی استطاعت کے باوجود نکاح سے دور رہنے پر منع فرمایا ہے۔ 

نکاح اور پاکدامنی

مذہب اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کو مکمل واضح طور پر بیان کیا ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جسے اسلام نے نشنہ چھوڑا ہو۔ اسلام میں نکاح کی فضیلت و اہمیت کا تعلق پاکدامنی سے ہے۔ معاشرہ اور سماج میں باعزت اور صاحب توقیر انہیں تصور کیا جاتا ہے جن میں پاکدامنی ہوتی ہے۔پاکدامنی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”من اراد ان یلقی اللہ طاہرا مطہرا فلیتزوج الحرائر”۔ اللہ تعالٰی سے جو شخص پاک و صاف ملنا چاہے وہ شریف عورتوں سے شادی کرے۔ اس حدیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ نکاح کا پاکدامنی سے بڑا گہرا ربط اور تعلق ہے۔ بغیر نکاح پاکدامنی کی زندگی گزارنا مشکل ترین امر ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ فطرت کے خلاف عمل کرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں بسا اوقات وہ سنگین جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ رہبانیت اختیار کرنے والوں کی شہوت رانی کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نکاح کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے: "و یتزوج لکسر الشھوۃ و اعفاف النفس و تکثیر النسل” شادی شہوت توڑنے، نفس کو عفیف بنانے اور افزائش نسل کے لئے کی جاتی ہے۔ اگر انسان نکاح سے کنارہ کشی اختیار کرلے تو وہ بے شمار نعمتوں سے محروم رہے گا، اور گناہوں میں مبتلا ہونے کے خطرات بڑھتے چلے جائیں گے۔اسلام میں عفت و عصمت (اسلام میں عفت و عصمت کا مقام اس موضوع پر پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں)کو وہ مقام حاصل ہے  کہ اس کے تحفظ کے لئے اسلام نے مختلف سزائیں اور وعیدیں تجویز کی ہیں۔

نکاح کے مقاصد

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "یا معشر الشباب، من استطاع الباءۃ فلیتزوج، فاِنہ اغض للبصر و احصن للفرج، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فاِنہ لہ وجاء”۔ اے نوجوانو! جس کے پاس نکاح کی استطاعت ہے اسے چاہئے کہ نکاح کرلے، کیونکہ نکاح نظریں جھکانے اور شرمگاہ کو تحفظ دینے کا قوی ذریعہ ہے، اور جو استطاعت نہ رکھے تو وہ روزوں کی پابندی کرے، کیونکہ روزے کی شدت شہوت کو توڑ دیتی ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے واضح اور صریح الفاظ میں نکاح کرنے اور نہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اگر بندہ قابل استطاعت ہے اور بیوی کے حقوق ادا کرنے پر قادر ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نکاح کرلے تاکہ غیر فطری کام میں مشغول نہ ہو۔ دوسری جانب رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے جو بیوی کے حقوق ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔ حقوق کی ادائیگی کے بغیر خوشگوار زندگی کا تصور محال ہے۔ نکاح کا مقصد صرف خواہشات کی تکمیل نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ ایک کامیاب اور خوشحال معاشرہ کی تشکیل مقصود ہے۔ گھریلو زندگی جس قدر خوشگوار ہوگی، گھر کا ماحول بھی اسی قدر پُرسکون ہوگا، جب گھر کا ماحول پُرسکون ہوگا تو یقینا معاشرہ اور سماج کا ماحول خوشگوار ہوگا۔ ایک بہترین، مثالی اور خوشگوار معاشرہ کی تشکیل کے لئے نکاح ضروری ہے۔اسی طرح ایسے افراد کو بھی نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے جنہیں کامل یقین ہے کہ وہ نکاح کے بعد انصاف قائم نہیں کرسکیں گے یا حقوق کے ادا کرنے سے عاجز و قاصر رہیں گے۔

نکاح کی اہمیت اور حدیث شریف

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ا”ِن اَعظم النکاح برکۃ ایسرہ مؤنہ”۔ سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔ اس حدیث میں دونوں جانب یعنی میاں بیوی ہر دو کےلئے نصیحت ہے۔ مہر اور دیگر نان و نفقہ کے نام پر بیوی کی جانب سے ایسے مطالبات نہ پیش کئے جائیں جو شوہر پر بار گزرے یا جو اس کی استطاعت سے باہر ہو۔ ایسے اضافی مطالبات کی صورت میں یا تو شوہر کے دل میں بیوی کی جانب سے محبت کے بجائے کدورت بیٹھ جائے گی یا پھر وہ بیوی کی خوشنودی اور اس کی محبت کے لئے ایسے اقدامات کرنے پر مجبور ہوگا جو شرعا ناجائز اور سماجی طور پر بُرے سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر کی جانب سے جہیز یا ضروریات زندگی کے نام پر ایسے مطالبات رکھے جائیں جو بیوی اور اس کے اہل خانہ کے لئے باعث تکلیف ہو۔ بسا اوقات رشتہ طے ہونے کے بعد، مجبوری میں ایسے ناجائز مطالبات کو ماننا پڑتا ہے جو ان کے لئے ضروری بھی نہیں تھے اور نہ ہی وہ لوگ اس کے اہل ہیں۔ جہیز ایک ناسور  بن چکا ہے جس سے  چھٹکارہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ جہیز معاشرتی ناسور پر مضمون پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں۔

ہمارے معاشرہ میں شادی بیاہ کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے، اسے کسی ایک فریق کی جانب منسوب نہیں کیا جاسکتا ہے، اسے کسی فرد یا مخصوص طبقہ کی جانب منسوب نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک معاشرتی ناسور ہے جس میں ہر کوئی ملوث ہے اور ہر کوئی اس بیماری سے جوجھ رہا ہے۔ نام و نمود اور ظاہری ٹھاٹ باٹ کو برقرار رکھنے کے لئے بہترین نمائش اور حد درجہ اہتمام بھی اسی قبیل سے ہیں۔ صاحب استطاعت افراد اپنی شان دکھانے اور برقرار رکھنے کے لئے شرعی حدود کو پھلانگ جاتے ہیں جبکہ غریب اپنی عزت بچانے کے لئے قرض کے بوجھ تلے دب کر معاشرہ کی  لعن طعن سے بچنے کے لئے ایسے اقدامات کرتا ہے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ آپ کا شمار مالدار ترین اصحاب رسول ﷺ میں ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کے عہد میں انہوں نے شادی کی، جب دوسرے دن ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کے کپڑے پر زردی دیکھی (جسے عموما عورتیں استعمال کرتی تھی) آپ ﷺ نے پوچھا: "ما ھذا؟ قال: تزوجت امراۃ! قال: ما اصدقتہا؟ قال: وزن نواۃ من ذھب ، قال: بارک اللہ لک، اَولم ولو بشاۃ”۔حضرت عبد الرحمن بن مہاجر صحابی ہے۔ آپ ﷺ کا عہد ہے۔ آپ ﷺ موجود ہیں۔ دیگر انصار و مہاجرین سب مدینہ میں ہے، جن کے باہمی محبت اور اخوت و بھائی چارگی کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے: "رحماء بینھم”۔ ایک دوسرے کے لئے رحم دل ہیں۔ مدینہ کے مالدار ترین صحابی نے شادی کی ہے اور کہیں کوئی چرچا اور نمود و نمائش نہیں ہے۔ مدینہ میں کوئی اعلان یا پوسٹر نہیں لگایا گیا اورنہ ہی  معاشرہ اور سماج کے ڈر سے بارات  نکالی گئی ۔ نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق شادی کی رسم ادا کی گئی کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو۔

نکاح میں وجہ ترجیح

قال النبی ﷺ: "تُنکح المراۃ لاربع، لمالھا و لحسبھا و لجمالھا ولدینھا، فاظفر بذات الدین، تربت یداک”۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چار وجوہات کی بنا پر عورتوں سے شادی کی جاتی ہے۔ مال و دولت، حسب و نسب، خوبصورتی اور تدین۔ آپ ﷺ نے دیندار کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے۔ اگر کسی میں یہ چاروں خوبیاں پائی جائیں تو "نور علی نور” ورنہ ترجیح دیندار کو دی جائے گی۔ محض مال و دولت، حسب و نسب یا خوبصورتی بغیر دینداری کے مطلوب نہیں ہے۔ کیونکہ جنت جیسا گھر بنانا کافی نہیں ہے بلکہ اس گھر کو جنت بنانا ضروری ہے، اور جنت جیسا سکون دینداری پر محمول ہے،اس کے بغیر قلبی سکون میسر نہیں آسکتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : "اَلا بذکر اللہ تطمئن القلوب”۔  ہمارے معاشرہ میں نکاح کے لئے وجہ ترجیح کیا ہے، اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اصحاب فکر و نظر کو اس سمت میں پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح شادی کے لئے ڈگریاں اور خاندانی جاہ و جلال کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اس سے کہیں زیادہ دینداری کو پیش نظر رکھا جائے ، کیونکہ دینداری کی صورت میں کامیابی و کامرانی اور خوشگوار زندگی کا وعدہ نبی کریم ﷺ کی حدیث سے ثابت ہے، اور جس چیز میں کامیابی کا وعدہ نبی کریم ﷺ نے کیا ہے اس میں کامیابی و کامرانی یقینی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "الدنیا متاع و خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ” پوری دنیا شے ہے، اور دنیا کی بہترین شے نیک بیوی ہے۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے نیک شریک حیات کو دنیا کی سب سے بہترین اور افضل شے قرار دیا ہے، کیونکہ نیک بیوی اپنے شوہر کو بُرائی سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس کے سکون کا باعث بنتی ہے اور اس کے گھر بار کی حفاظت کرتی ہے۔ نیک شریک حیات کے حصول کا واحد ذریعہ فرمان نبی ﷺ "نکاح” ہے۔جو لوگ نکاح جیسی عظیم نعمت سے بھاگتے ہیں یا اسے لغو خیال کرتے ہیں وہ دنیا کی سب سے عظیم نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔

نکاح میں تاخیر باعث نقصان ہے

جب کسی کام کو فطرت کے تقاضوں کے مطابق انجام دیا جائے تو اس میں برکت ہوتی ہے، بگاڑ کے اسباب نہ کے درجہ میں ہوتے ہیں اور اس کے نتائج ہمیشہ ثمر آور ثابت ہوتے ہیں۔نکاح انسانی نسل کی افزائش و بقا کے لئے ضروری ہے۔ جہاں اس سے ایک جانب حیا و پاکدامنی اور عفت و عصمت میسر آتی ہے ، وہیں دوسری جانب اسے اللہ تعالٰی نے سکون کا ذریعہ بھی قرار دیا ہے۔ لیکن قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ موجودہ دور میں نت نئے تقاضوں کی وجہ سے بچے اور بچیوں کی شادی میں بلا وجہ تاخیر کی جاتی ہے۔ نکاح میں تاخیر کی وجہ سے مختلف قسم کی بُرائیاں معاشرہ میں پیدا ہورہی ہیں۔ جنسی جرائم میں اضافہ ہورہا ہے اور عفت و عصمت کا تقدس پامال ہوتا جارہا ہے۔ نکاح میں تاخیر کی وجہ سےفتنہ ارتداد  کا عفریت مسلم معاشرہ میں داخل ہوگیا ہے۔ فتنہ ارتداد صرف مسلمان لڑکو ں تک محدود نہیں ہے بلکہ اب مسلمان لڑکیوں میں بھی فتنہ ارتداد تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مذہب اسلام فطرت کے عین مطابق ہے، اس لئے محض دنیاوی نام و نمود کی خاطر مذہبی احکامات سے دوری یا ان کی بجاآوری میں تاخیر مناسب نہیں ہے۔

آسان و مسنون نکاح مہم

مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بینر تلے "آسان و مسنون نکاح مہم” کی تحریک چلائی ہے جو ایک قابل ستائش قدم ہے۔ اس "آسان و مسنون نکاح مہم” کے تحت ملک بھر کے مختلف علاقوں میں دس روزہ تربیتی پروگرام اور ورکشاپ کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند قدم ہے اس سے شادی بیاہ میں در آنے والی رسم و روایات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ آسان و مسنون نکاح مہم کے تحت نکاح کی فضیلت و اہمیت اور زوجین کے حقوق کو ان لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے جو دینی علوم سے ناواقف ہیں یا جن کی زندگی دین سے دوری کی وجہ سے کشمکش کا شکار ہے۔

ہماری ذمہ داریاں

اسلام میں نکاح کی اہمیت و فضیلت کو بہت واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن معاشرتی طور پر ہمیں نکاح کی اہمیت و فضیلت  کو عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ نکاح کے باب میں جن خوبیوں کو نبی کریم ﷺ نے وجہ ترجیح قرار دیا ہے، ان کی اہمت و فضیلت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام مسائل پر سیر حاصل بحث کرنے کے لئے  ہفتہ واری جمعہ کے بیانات کو استعمال کیا جاسکتا ہے،  یا پھر جن علاقوں میں جو مناسب طریقے اپنائے جاسکتے ہیں ان کے ذریعہ عوام الناس کو اس جانب ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک عوام کی ذہن سازی دنیا و آخرت کے فوائد و نقصانات کو سامنے رکھ کر نہیں کی جائے گی، بے راہ روی کا خطرہ برقرار رہے گا۔ مسلمان کا ہر عمل عبادت کی نیت سے ہونا چاہئے ۔ کھانا، پینا، سونا، جاگنا، شادی بیاہ تمام دنیاوی معاملات کو رضائے الہٰی کے لئے انجام دینا چاہئے۔ نیتوں کے بدلنے سے اعمال کی حیثیت بدل جاتی ہے۔ اگر اللہ کی خوشنودی کے لئے معاملات کئے جائیں گے تو ان میں اللہ کی نصرت شامل حال رہے گی۔ 

Related Posts

One thought on “اسلام میں نکاح کی اہمیت اور ہمارا طرز عمل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے