نبی سے محبت کا تقاضا اور ماہ ربیع الاول 

دنیا میں آپ ﷺ کی ذات گرامی وہ واحد ہستی اور شخصیت ہے جن کے اخلاق و کردار کواکملیت اور جامعیت حاصل ہے۔ روئے زمین پر کوئی ایسا انسان نہیں آیا جس کے اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ کی گواہی دوست و دشمن ہر کوئی یکساں طور پر دے۔ نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو تشنہ ہو یا جس میں کوئی نقص ہو۔ آپ ﷺ کے اخلاق کریمانہ کی گواہی ان لوگوں نے بھی دی ہے جو ہمیشہ آپ کی ذات کے مخالف رہے ہیں۔ آپ ﷺ کی زندگی کے ہر گوشہ کو آپ کے ماننے والوں نے محفوظ کیا ہے اور تاریخ انسانی کی آپ ﷺ واحد شخصیت ہیں جن کی تعلیمات ، افکار و نظریات کے علاوہ ذاتی زندگی اور گھریلو حالات بھی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ جس قدر شرح و بسط کے ساتھ آپ ﷺ کی حیات طیبہ کو محفوظ کیا گیا ہے وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ہے۔ آپ ﷺ سے منسوب ہر چیز اور ہر شخص کو تاریخ نے محفوظ رکھا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ جس ماہ مبارک میں آپ ﷺ کی ولادت ہوئی ہے اسے نظر انداز کردیا جاتا۔ ماہ ربیع الاول کو یہ شرف حاصل ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت اس مہینہ میں ہوئی ہے، اور مسلمانوں کا بڑا طبقہ اس مہینہ کو اس مناسبت سے بڑی اہمیت دیتا ہے۔ جلسہ و جلوس اور سیرت رسول ﷺ کے موضوعات پر مجالس و محافل سجائی جاتی ہیں اور عوام میں بیداری پیدا کرنے کے لئے سیرت کے پروگرام کا ایک سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔ مسلمانان عالم نبی کی محبت میں سرشار ایسے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں، ان کی کامیابی کے لئے خوب تگ و دو کرتے ہیں۔جشن عید میلاد النبی کے نام پر بارہ ربیع الاول کو عمومی طور پر جلوس کا مظاہرہ کرکے اس دن کو یادگار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کیا نبی سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس ماہ ربیع الاول میں جلسے جلوس پر اکتفا کریں یا اس سے آگے بڑھ کر ہمیں کچھ اور کرنے کی ضرورت ہے؟ 

ishq-e-nabi-ke-taqaze-aur-month-of-rabiu-al-awwal
عشق نبی اور ماہ ربیع الاول

ماہ ربیع الاول میں جشن منانا کافی نہیں ہے

نبی سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کریں، ان کی لائی ہوئی شریعت کو اپنی زندگی میں اتاریں، ان کے بتائے ہوئے  احکامات پر چلیں اور ان کے طور طریقوں کی اتباع کریں۔ نبی سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سال کے ہر مہینہ اور ہر مہینہ کے ہر دن قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزاریں۔ اوامر و نواہی کے باب میں احادیث اور فرمان رسول ﷺ پر عمل پیرا ہوں۔ لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ نبی سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ماہ ربیع الاول میں جشن منائیں، جلسے جلوس کریں، میلاد کا انعقاد کریں، قوالیاں گائیں، اسراف و تبذیر کا مظاہرہ کریں، نامناسب اور غیر مستحسن عمل میں اپنا وقت لگائیں،ڈھول تاشے بجائیں حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ یہ اعمال و افعال کسی طور پر مذہب اسلام میں مستحسن نہیں ہے۔ نبی سے محبت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ فضول خرچی کریں اور لہو ولعب کی راہیں ہموار کریں؛ بلکہ نبی سے سچی اور حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اسوہ نبی ﷺ کو اپنائیں۔ اپنی عبادات و معاملات اور معاشرتی ہر قسم کے حالات میں سنت رسول کی اتباع کریں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ ہمارے نبی ہر حال میں جہان کے لئے رحمت ہے اور ہم مسلمان اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کریں کہ معاشرہ اور سماج کے لئے مسلمان سے زیادہ مفید اور نافع کوئی نہیں ہوسکتا ہے اور ہم سے زیادہ بااخلاق کوئی اور نہیں ہوسکتا ہے۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس میں ہمارے لیے اسوہ رسول نہ ہو، چاہے اس کا تعلق امانت و دیانت سے ہو، ایفائے عہد سے ہو، سچائی سے ہو اور یا تحمل و بردباری سے ہو، ہر ہر قدم پر آپ ﷺ کا اسوہ موجود ہے۔ نبی ﷺ سے سچی اور حقیقی محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے افعال و کردار اور شب وروز کو ان طور طریقوں کے مطابق بنائیں جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔

اخلاق حسنہ اور ہم مسلمان

نبی سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم "انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق” پر عمل پیرا ہوں۔ جس اخلاق کی تکمیل کے لئے نبی اکرم ﷺ کو دنیا میں مبعوث کیا گیا ہے اور جس کی آپ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی ہے، ضروری ہے کہ ہم ان اخلاق حسنہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ آپﷺ کی حیات طیبہ میں قدم قدم پر اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ دکھائی دیتا ہے۔ آپ کے اخلاق کو اللہ تعالٰی نے بیان کرتے ہوئے فرمایا "و انک لعلی خلق عظیم” لیکن قابل افسوس بات ہے کہ آج مسلمانوں کو اخلاق کی کمی اور بد اخلاقی کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ جس قوم کے پاس اخلاق و کردار کے تمام اصول و ضوابط موجود ہیں وہ اخلاق سے عاری ہونے کا دھبہ لگائے بیٹھی ہے۔ اخلاق و کردار یہ اسلامی تعلیمات کا اہم اور بنیادی جز ہے۔ کیونکہ ایک انسان دوسرے انسان کے اخلاق سے متعارف ہوتا ہے اور اخلاق ہی کی بنیاد پر متاثر ہوتا ہے۔ خوش اخلاق اور خوش گفتار افراد کے ارد گرد لوگ بیٹھنا پسند کرتے ہیں، ان کی مجلسوں میں شرکت کرتے ہیں لیکن اگر انسان اخلاق سے عاری ہو تو دیگر افراد کو چھوڑ دیجئے خود ان کے اہل خانہ اور لواحقین ان سے دوری بنائے رکھتے ہیں۔ 

نبی سے محبت کا تقاضا صرف یہی نہیں ہے کہ ہم ماہ ربیع الاول کے ابتدائی بارہ دنوں میں خوب جلسے جلوس کریں اور بعد ازاں سب کچھ بھول جائیں۔ نبی سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ کی تعلیمات کو زندگی میں اتارے اور آپ کے بتائے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔ ہمارے نبی ﷺ جس طرح اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کئے گئے تھے، اسی طرح آپ کو معلم انسانیت بھی بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "انما بعثت معلما”۔ میں معلم بناکر مبعوث کیا گیا ہوں۔ مذہب اسلام نے تعلیم و تعلم اور پڑھنے پڑھانے پر جس قدر تاکید کی ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔ مذہب اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے تعلیم کو تمام انسانوں کے لئے (بغیر کسی بھید بھاؤ کے) عام کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج مسلمان اس میدان میں بھی بچھڑے ہوئے اور ناکام نظر آرہے ہیں۔ آپ ﷺ کے نزدیک علم کی اہمیت کیا تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ غزوہ بدر کے بعد جب مشرکین قیدی لائے گئے اور ان کو رہا کرنے کے متعلق تجاویز پیش کی گئیں تو ایک تجویز یہ بھی پاس ہوئی کہ جنگ کے وہ قیدی جو لکھنا پڑھنا جانتے ہیں، وہ دس دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے ، یہی ان کی رہائی کا تاوان تصور کیا جائے گا۔ میدان جنگ کے جانی دشمنوں کو آپ ﷺ نے علم کے سکھانے پر رہا کردیا تھا۔ لیکن افسوس کہ آج قومی سطح پر عالمی سطح پر مسلمانوں کے لئے ایک اہم اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس تعلیمی ادارے نہیں ہیں۔ ہمارے بچوں میں حصول علم کا ذوق و شوق نہیں ہے اور ہماری قوم ناخواندہ قوم تصور کی جاتی ہے۔  

موجودہ وقت میں سیرت کی اہمیت 

موجودہ وقت میں سیرت رسول اکرم ﷺ کی اہمیت اس لئے بھی دو چند ہوجاتی ہے کہ اب مذہب بیزاری اور انسانوں میں نام نہاد آزادی کا بھوت سوار ہوگیا ہے۔ مذہبی زندگی کو عام زندگی سے الگ تھلگ کرنے کا تصور عام ہوتا جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں میں دین اسلام کے خلاف عجیب و غریب قسم کے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ اگر ہماری زندگی میں سنت رسول زندہ ہو تو ایسے واہیات قسم کے خیالات سے ذہن پراگندہ نہیں ہوں گے۔ لیکن ہم ماہ ربیع الاول کے ابتدائی ایام میں تو خوب جی بھر کر شور شرابے کرتے ہیں لیکن جب عمل کرنے کی باری آتی ہے تو ہمارے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے فرمودات سے جس قدر دوری ہوگی اسلام کے تئیں غلط قسم کے شکوک و شبہات اور گمراہی کے اسباب دن بدن بڑھتے چلے جائیں گے۔عصر حاضر میں پیدا ہونے والےفتنوں کی سرکوبی کے لئے سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو سیرت طیبہ کی تعلیمات سے آگاہ کریں تاکہ وہ فتنہ ارتداد کی لہر (فتنہ ارتداد کے متعلق پڑھنے کے لئے مذکورہ لنک پر کلک کریں) اور دیگر خرافات سے محفوظ رہ سکیں۔  

آج ہم مسلمان اس لئے ہر میدان میں ناکام نظر آرہے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات کو چھوڑدیا ہے اور ہم اس طریقہ سے ہٹ گئے ہیں جو ہمارے لئے متعین کیا گیا تھا۔ جن راستوں پر چل کر صحابہ کرام اور ہمارے اسلاف و اکابرین نے دنیا پر حکمرانی کی تھی آج ہم اس راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ آج ہم خود ساختہ راہوں اور طریقوں کو اپنی کامیابی کی ضمانت تصور کیے بیٹھے ہیں حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا و جہان کی کامیابی صرف اور صرف نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔

 

Related Posts

2 thoughts on “نبی سے محبت کا تقاضا اور ماہ ربیع الاول

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے