ناحق طریقہ سے ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ

 قرآن کا پیغام

ناحق طریقہ سے ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

یا ایھا الذین آمنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل، الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم، ولا تقتلوا انفسکم، ان اللہ کان بکم رحیما۔ 

اے ایمان والو! آپس میں ناحق طریقہ پر ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ، سوائے اس کے کہ آپسی رضامندی سے تجارت ہو (تو کوئی مضائقہ نہیں) نیز اپنا خون نہ کرو، بے شک اللہ تمہارے ساتھ بڑے مہربان ہے۔ 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کرتے ہوئے مال غیر کے سلسلے میں ایک ضابطہ اور اصول بیان کردیا کہ ایک دوسرے کا مال و اسباب ناحق طریقہ پر نہ کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں ایمان والوں کو مخاطب فرمایا ہے کیونکہ شرعی امور کے مکلف ایمان والے ہی ہیں، غیر ایمان والے شرعی حدود و قیود سے آزاد ہیں۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، کیوں کہ اس کا تعلق بلاواسطہ بندے سے ہے۔ 

صاحب معارف القرآن نے ابو حیان کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ جس طرح دوسرے کے مال کو ناحق طریقہ سے کھانا ناجائز اور حرام ہے بعینہ اپنے مال کو ناجائز طریقوں سے خرچ کرنا، اسراف کرنا، حرام کام میں لگانا یہ سب ناحق طریقہ میں شامل ہے۔ 

بالباطل کا لفظ تمام ناجائز طریقوں کو محیط ہے، خواہ وہ چوری سے ہو، ڈاکہ زنی سے ہو، غصب اور دیگر ناجائز طریقوں کو استعمال کرکے ہو۔ اسی طرح ایسی اشیاء کی خرید وفروخت بھی اس میں شامل ہے جو فاسد ہو۔ ہر وہ طریقہ جو اسلامی روح کے منافی ہو اور جس میں اسلامی تعلیمات سے روگردانی ہو سب (بالباطل) کی تفسیر میں شامل ہے۔

آگے حلال طریقوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ حلال طریقوں میں تجارت کا ذکر موجود ہے (سوائے اس کے کہ آپسی رضامندی سے تجارت ہو) یہاں تجارت کا ذکر اس لئے ہے کہ کسب معاش کے ذرائع میں سے تجارت سب سے افضل اور طیب ذریعہ معاش ہے۔ کسب معاش کی فضیلت قرآن و احادیث میں بکثرت موجود ہے خصوصاً تجارت اور نیک تاجروں کے فضائل و مناقب بیان کئے گئے ہیں۔ حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے: "سب سے زیادہ پاک کمائی تاجروں کی کمائی ہے، بشرطیکہ وہ جب بات کریں تو جھوٹ نہ بولے، اور جب وعدہ کریں تو وعدہ خلافی نہ کریں، جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہ کریں، جب کوئی سامان خریدیں تو اس سامان کو برا اور خراب نہ بتائیں،  اور جب اپنا سامان فروخت کریں تو خلاف واقعہ اس کی تعریف نہ کریں، اور جب ان کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو ٹالے نہیں، اور جب ان کا قرض کسی کے ذمہ ہو تو ان کو تنگ نہ کریں”۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ اسلام نے بیع و شراء، تجارت اور دیگر طریقوں کے لیے جو حدود و قیود بیان فرمائے ہیں ان سے تجاوز کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ 

مالی حقوق کو بیان کرنے کے بعد جانی حقوق کو بیان فرمایا گیا کہ مالی حقوق میں بے ضابطگی عام بات ہے۔ جس طرح دوسرے کو ناحق قتل کرنا ممنوع ہے بعینہ اپنی جان کو ضائع کرنا بھی ناجائز ہے۔ 

ان تمام مالی اور جانی حقوق کو اس صراحت کے ساتھ اس لئے بیان کردیا گیا تاکہ بندہ مومن دنیاوی اور اخروی دونوں جگہوں پر عافیت اور سکون کے ساتھ رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے