مہذب دنیا کے متعصب انسان

مہذب دنیا کے متعصب انسان

سامان تعیش کی فراہمی، اسباب و وسائل کی فراوانی، مال و دولت کی کثرت، نئی ٹیکنالوجی کی بھر مار، صاف و شفاف پوشاک، تعلیمی اداروں کی ڈگریاں یا پھر اس جیسی دیگر ظاہری چیزیں انسان میں انسانیت پیدا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ انسان میں انسانیت دل دردمند سے پیدا ہوتی ہے۔ مذکورہ تمام اوصاف کے باوجود اگر ایک انسان کسی دوسرے انسان کی تکلیف پر خاموش ہے یا اسے اپنے سے کم درجہ کا انسان سمجھتا ہے تو یہ اس کے ذہنی دیوالیہ پن کا نتیجہ ہے۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ تہذیب و ثقافت اور مال و دولت کبھی بھی ایک خطہ میں نہیں رہے ہیں بلکہ حالات و حوادثات نے انہیں دنیا کے مختلف علاقوں کی سیر کرائی ہے اور رفتہ رفتہ آج یہ یورپ کی گلیاروں میں خیمہ زن ہے، ورنہ تاریخ نے یورپ کا وہ دور بھی دیکھا ہے جب  کلیسا کے ٹھیکیدار عوام کے مال و اسباب اور عزت و آبرو کے مالک ہوا کرتے تھے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دیگر اقوام عالم یا دیگر خطہ کے انسان ان سے مرتبہ اور درجہ میں کم ہیں یا انہیں جینے کا وہ حق حاصل نہیں ہے جو یورپ و امریکہ کی سفید فام قوم کو حاصل ہے۔

روس اور یوکرین کی جنگ نے مغربی دنیا کے طرز فکر اور ذہنی سوچ کو دنیا کے سامنے ایک دم واضح اور کھلے طور پر پیش کردیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس قوم کی عیاری و مکاری کسی سے مخفی اور ڈھکی ہوئی تھی البتہ ا ب جو جملے  ان کی زبانوں سے پھسل رہے ہیں یا جو باتیں وہ کررہے ہیں وہ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ وہ خود کو دنیا کے دیگر خطوں میں بسنے والے انسانوں کے مقابلہ میں زیادہ باعزت اور جینے کے زیادہ مستحق سمجھتے ہیں۔ مغربی میڈیا اور وہاں کے نمائندوں کی جانب سے دیئے گئے بیانات انسانیت کا درد رکھنے والے ہر فرد کے لئے باعث حیرت ہے۔ خود کو تہذیب یافتہ، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ سمجھنے والی قوم ذہنی اعتبار سے اس حد تک گری ہوئی ثابت ہوگی اس کا اندازہ مشکل تھا، لیکن بہر حال اب بات واضح ہوچکی ہے اور ان کی حقیقی انسانیت کا چہرہ طشت ازبام ہوچکا ہے۔

جنگ ہر حال میں جنگ ہوتی ہے جو اپنے ساتھ تباہی و بربادی اور نسل انسانی کی ہلاکت کا ایک لامتناہی سلسلہ لے کر آتی ہے۔ تاریخ عالم میں جب بھی جنگ ہوئی ہے تو اس سے انسانی تباہی اور املاک کا نقصان ضرور ہوا ہے۔ جنگ کوئی قابل تعریف اور قابل فخر چیز نہیں ہے، بلکہ جنگ ایک ایسی بُری بلا ہے جو انسانی سماج کو تہس نہس کرکے رکھ دیتی ہے۔ بچوں کو یتیم کردیتی ہے  اور عورتوں کے سہاگ کو اجاڑ دیتی ہے۔ ماؤں کی آنکھوں میں اپنے لخت جگر کا غم زندگی بھر کے لئے دے کر جاتی ہے۔ شہر کے شہر تباہ و برباد ہوجاتے ہیں، سالوں کی محنت پلک جھپکتے ضائع ہوجاتی ہے۔ فلک بوس عمارتیں زمین دوز ہوجاتی ہے اور شاہوں کے شیش محل کھنڈرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ انسانیت دم توڑ دیتی ہے اور ایک انسان دوسرے انسان کا دشمن بن جاتا ہے۔

اکیسویں صدی کے شروعات سے ہی انسانی دنیا پر جنگ مسلط کردی گئی تھی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سب سے پہلے افغانستان کو اپنا تختہ مشق بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہنستے کھیلتے ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ افغانستان جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ معنی کر برتری حاصل رہی کہ پوری دنیا ان کے پروپیگنڈے میں شامل تھی اور مغربی میڈیا نے افغانستان کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ چند سالوں بعد عراق کا نمبر آیا اور صدام حسین جس نے ایک بے مثال اور ترقی یافتہ ملک کی بنیاد رکھی تھی اسے برباد کردیا گیا۔ جن الزامات کے تحت عراق پر حملہ کیا گیا وہ تو ثابت نہیں ہوسکا البتہ ایک خوبصورت اور ترقی یافتہ ملک جو کبھی دوسروں کو تعاون فراہم کرتا تھا خود دوسروں کا محتاج بن گیا۔ اس کے بعد لیبیا اور دیگر ممالک اس فہرست میں شامل ہوتے چلے گئے اور ان سب میں مشترکہ بات یہ تھی کہ ان تمام ممالک پر حملہ کرنے والوں میں امریکہ اور اس کے اتحادی شامل تھے۔ اس لئے مغربی میڈیا نے ان ممالک کو اور یہاں کے رہنے والوں نیز راہنماؤں کو ظالم و جابر اور انسانیت کا دشمن بناکر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔جن کے گھر تباہ و برباد کئے گئے، جن کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، جن کے بچے یتیم ہوئے، جن کی عورتیں بیوہ ہوئیں انہیں لوگوں کو انسانیت کا دشمن بناکر پیش کیا گیا اور معصوموں کے قاتلین کو انعامات و اکرامات سے نوازا گیا۔ مسئلہ فلسطین جو کئی دہائیوں سے عالمی پیمانے پر معمہ بنا ہوا ہے اور جہاں ہر آئے دن اسرائیلی فوج کے ذریعہ معصوم فلسطینی مارے جاتے ہیں ان پر عالمی میڈیا خاموش ہے۔ اب تک کسی ملک نے اسرائیل پر پابندی عائد نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی میڈیا ہاؤس نے اس ملک کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اسرائیل کیوں دہشت گرد نہیں اور کیوں اسرائیل پر پابندیا ں عائد نہیں کی جارہی ہے ان تمام سوالات کے جوابات روس اور یوکرین کی جنگ کے دوران سمجھ میں آگئے ہیں۔

روس اور یوکرین کی جنگ نے مغربی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ مغربی افراد یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک مہذب اور ترقی یافتہ ملک دوسرے مہذب اور ترقی یافتہ ملک پر حملہ کیسے کرسکتا ہے۔ مغربی میڈیا کے ان مفکرین کے بقول اس جنگ میں ہمارے جیسے بھورے بال والے اور نیلی آنکھوں والے لوگ مارے جارہے ہیں۔ اس لئے امریکہ سمیت پورا یورپ یوکرین کی حمایت میں کھڑا ہوگیا ہے۔ آج روس کا حملہ ہر کسی کے لئے ظلم اور زبردستی بن گیا ہے لیکن جب اسی روس نے ملک شام کے معصوم افراد پر بم برسائے، ان کی بستیوں کو اجاڑا، بچوں کی کلکاریاں چھینی تھی تب تو امریکہ اور اس کے مغربی ممالک نے روس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی تھی، روس کے حملہ کو ظالمانہ قرار نہیں دیا گیا تھا۔ لیکن آج جب بات بھورے بالوں والوں کی ہے تو روس پر چہار جانب سے دباؤ بنایا جارہا ہے، جو ملک روس کے ساتھ ہیں یا اس کے خلاف جانے سے کترارہے ہیں ان کو ڈرایا جارہا ہے۔ کئی ممالک سے جنگجو افراد یوکرین پہنچ رہے ہیں تاکہ وہ روسی فوج کا مقابلہ کریں، اور یوکرین کو تباہ و برباد ہونے سے بچائیں، یورپی ممالک اسلحہ اور دیگر سامانوں کے ساتھ یوکرین کا مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عراق، افغانستان، لیبیا، شام اور دیگر ممالک جن کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے برباد کیا ہے اور لاکھوں انسانوں کی جانیں تلف ہوئی ہیں کیا وہ اس قابل نہیں تھے کہ ان کے لئے ماتم کیا جاتا۔ ان کے حقوق کی باتیں کی جاتی اور ان پر حملہ آور فوج کو واپس جانے کے لئے دباؤ بنایا جاتا، لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا کیونکہ یہ لوگ نیلی آنکھوں والے اور بھورے بال والے نہیں تھے۔ آئے دن فلسطین کے معصوم بچے اسرائیلی فوج کی درندگی کا شکار بنتے ہیں ان کے لئے کوئی بات کرنے والا نہیں ہے کیوں اسرائیل پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مہذب دنیا کے متعصب انسان ہیں جن کی نظر میں انسان ہونے کے لئے بھورے بال اور نیلی آنکھیں ضروری ہے ورنہ جنگ زدہ ملک یوکرین میں سیاہ فام اور ہندوستانیوں کو ٹرین میں چڑھنے سے منع نہیں کیا جاتا۔

یہ دنیا ہے یہاں کسی کی مصیبت پر قہقہے نہیں لگانے چاہئے کیونکہ اس دنیا کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ یہاں حالات کبھی یکساں نہیں رہتے ہیں۔ آج کسی کی بے کسی و بے بسی کا مذاق اڑانے والے ممکن ہے کل دوسروں کے لئے سامان عبرت اور سامان تضحیک بن جائے۔ ظلم ہر حال میں ظلم ہے اس کی شاخ زیادہ دنوں تک پھلتی اور پھولتی نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے شجر کو استمرار و دوام ہوتا ہے۔ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ جنگ بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جنگ مہینہ دو مہینہ اور سال دو سال میں ختم ہوجاتی ہے لیکن اس کے اثرات دہائیوں تک باقی رہتے ہیں اور اس کی داستانیں صدیوں تک سنائی جاتی ہے۔ ایک امن پسند اور پر سکون دنیا بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو عوام الناس کی تباہی و بربادی اور کسی ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ ہو۔ اس سلسلہ میں مذہب اسلام کا اصول سب سے عمدہ اور اچھا ہے کہ کسی معصوم کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے خواہ وہ سفید فام ہو یا سیاہ فام، کسی ترقی یافتہ ملک کا باشندہ ہو یا غریب ملک کا شہری ہر کسی کی جان کی قیمت برابر ہے اور اس روئے زمین پر ہر کسی کو جینے کا مکمل حق حاصل ہے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے