مولی ہم تو تیرے بندے ہیں

اس کارگہ عالم میں ہمیشہ سے خیر و شر اور حق و باطل کی معرکہ آرائی رہی ہے، حق ہمیشہ سے ایک ہی شکل  اور ایک ہی دعوت کے ساتھ لوگوں کے سامنے آیا جبکہ باطل نے وقت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اپنا لبادہ بدلا ہے، کبھی وہ نمرود ،فرعون اور شداد کی شکل میں آیا ہے تو کبھی حکومتی کارندوں کے ظلم و ستم  کی شکل میں آیا ہے۔ حق و باطل کی اس کشمکش میں فتح و کامرانی ہمیشہ ان لوگوں کو نصیب ہوئی ہے جو راہ حق پر عزم مصمم کے ساتھ قائم و دائم رہے اور جنہوں نے باطل کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکار کردیا ، جن کی قوت ایمانی نے ہمالیہ کی بلندی کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا اور جن کے عزم و استقلال کے سامنے پہاڑ کمزور ثابت ہوئے۔ لیکن انسانی تاریخ نے ایسے ادوار بھی دیکھے ہیں جب وقتی طور پر باطل کا ایسا غلبہ ہوا کہ بعض علاقوں سے اور خطوں سے حق کے ماننے والے اور اللہ کی عبادت کرنے والے مٹا دیئے گئے۔ اگر صرف تاریخ اسلام کی بات کی جائے تو فتنہ تاتار اور سقوط اندلس ایسی لرزہ خیز اور المناک داستان ہے جس کو بیان کرتے ہوئے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ عیش و طرب کے دلدادہ افراد نے، نہتے اور کمزور عوام کو درد دینے کا کون سا ایسا نسخہ اور طریقہ ہے جسے نہیں آزمایا۔ لیکن وقت کےساتھ ساتھ یہ زخم مندمل ہوگئے اور اب یہ واقعات قصہ پارینہ بن کر تاریخ کی کتابوں میں سمٹ چکے ہیں۔ لیکن حق و باطل کی  معرکہ آرائی، ان آلام و مصائب اور دکھ درد کے بعد ختم نہیں ہوئی، بلکہ آج بھی جاری ہے اور شاید تا قیامت جاری رہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کے آخری رسول اور سرکار دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ دین کے راستے میں جتنی اذیتیں مجھے دی گئی ہے کسی اور کو نہیں دی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی مکہ کی تیرہ سالہ زندگی، کرب و بلا کی ایسی دلخراش داستان سمیٹے ہوئے ہے جسے سن کر اور پڑھ کر کلیجہ منھ کو آجاتا ہے۔ جب محبوب دو جہاں ﷺ کو اس دین کی دعوت و اشاعت کی پاداش میں مصائب جھیلنے پڑے ہیں تو ہمہ شما کی کیا حقیقت ہے، بلکہ اس راہ میں کامیاب اور فتح مند وہی ہے جوراہ خدا میں اذیت و تکالیف کو  برداشت کرتے ہوئے دین مستقیم پر گامزن رہےاور خلق خدا کو دین کی جانب بلاتا رہے۔

اس حقیقت کو جانتے ہوئے ہمیں اس بات پر یقین کامل ہے، اللہ تعالی کا اصول ہے  وہ ہمیشہ ایام کو بدلتے رہتے ہیں، اور کسی کے لئے  زمانہ یکساں نہیں رہتا ہے۔ اس دنیا میں قیصر و کسری اور بے شمار فراعنہ اور نماردہ نے اپنی حکومتوں کو لازوال اور بے مثال سمجھا تھا ،لیکن جب  وقت آیا تو انہیں باقی لوگوں کے لئے نشان عبرت بنا دیا گیا اور  صفحہ ہستی سے اس طرح ختم کردیا گیا کہ آج ان کا نام لیوا بھی کوئی موجود نہیں ہے۔اس آیت کی تفسیر میں مفتی شفیع صاحب ؒ معارف القرآن میں لکھتے ہیں: "اس آیت میں ایک اہم ضابطہ اور اصول کی طرف راہنمائی فرمائی وہ یہ کہ اللہ تعالی کی عام عادت اس عالم میں یہی ہے کہ وہ سختی نرمی، دکھ سکھ اور تکلیف و راحت کے دنوں کو لوگوں میں ادل بدل کرتے ہیں، اگر کسی وجہ سے کسی باطل قوت کو عارضی فتح و کامرانی حاصل ہوجائے تو جماعت حقہ کو اس سے بددل نہیں ہونا چاہئے اور یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ہم کو اب ہمیشہ شکست ہی ہوا کرے گی، بلکہ اس شکست کے اسباب کا پتہ لگاکر ان اسباب کا تدارک کرنا چاہئے، انجام کار فتح جماعت حقہ کو ہی حاصل ہوگی”۔ 

آج عالمی منظر نامے کو دیکھا جائے تو پوری دنیا میں، خدا کے نام لینے والے مختلف طریقوں سے آزمائش سے دوچار کئے جارہے ہیں۔ بلکہ دوسرے الفاظ میں، آج اللہ کے بندوں کے لئے زمین پر بسنے والوں نے زمین کو تنگ کردیا ہے، اور انہیں طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا کرر ہے ہیں۔ خدا کے بندوں کو ہراساں کرنے اور انہیں تکلیف پہنچانے کے لیے ایسے ایسے حربے اور طریقے آزمائے جارہے ہیں جو پہلے کبھی سنے نہیں گئے تھے بلکہ ایک طریقہ سے آج یہ بندے ظالموں کے لئے تختہ مشق بنے ہوئے ہیں، جن پر آئے دن طرح طرح کے عذاب مسلط کئے جاتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا خطہ نہیں ہے جہاں اسلام کے نام لینے والے امن و سکون اور عافیت و طمانینت کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں، حتی کہ وہ علاقے جہاں نام نہاد مسلم  لیڈران اور خود کو مسلمان کہنے والے حکمراں موجود ہیں، وہاں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا اور حق گوئی و بے باکی کا مظاہرہ کرنا خود کو پس زنداں کرنے کے مترادف ہے۔ تاریک کال کوٹھریوں میں کتنی جانیں تلف ہوگئیں جن کا حساب دینے والا کوئی نہیں ہے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے کتنی بااثر اور پر زور آوازیں دب گئیں جن کا اب کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ غرض یہ کہ خدا کی اس زمین پر، خدا کے نام لینے والے، اور اس کی عبادت کرنے والے مجرم بنا دیئے گئے ہیں۔ ان کی جائیداد اور املاک کو کھلونا بنا دیا گیا ہے، جسے جب چاہا اور جہاں چاہا برباد کردیا، نہ کوئی پرسان حال ہے نہ کوئی منصف اور نہ کوئی دادرسی کو آنے والا۔ طاقت و غرور اور تخت و تاج کے نشہ میں فرعون نے بنی اسرائیل کے ستر ہزار بچوں کو قتل کردیا لیکن قدرت نے ایسا بدلہ لیا کہ آج تک اس کا جسم عبرت بنا ہوا ہے۔

اللہ کا نام لینے والے، آج کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ مولی ہم تو تیرے بندے ہیں، تو ہی ہماری دادرسی فرما، کیونکہ آج باطل اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ہماری شناخت مٹانے پر کوشاں ہے۔  مساجد جسے اللہ تعالی نے اپنا گھر قرار دیا ہے جہاں ہر آنے والے کو قلبی اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے،جہاں اللہ تعالی کی عبادت کی جاتی ہے، جہاں اللہ تعالی کے بندے اس کی اطاعت و بندگی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، جو جگہ امن و آشتی اور خیر و برکت کا گہوارہ ہے، جو ہر کسی کے لئے یکساں طور پر مفید اور نافع ہے، ایسی مقدس اور متبرک جگہوں کو صرف اس لئے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہاں اللہ تعالی کے نام لیوا اس کی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کے فرض کردہ احکامات  ادا کرنے والوں کو زد و کوب کیا جارہا ہے اور انہیں ذہنی پریشانی میں مبتلا کرنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔ آج کا انسان کس قدر غافل اور گمراہ ہوگیا کہ اپنے خالق و مالک کا دشمن بن بیٹھا ہے۔ جس ذات رب العالمین نے اسے صحت و تندرستی اور مال و دولت سے نوازا ہے اسی کی شان میں گستاخی کرنے کو اپنے لئے باعث فخر تصور کئے بیٹھا ہے۔

حالانکہ ہم اس بات کو بہتر طریقے سے جانتے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا ہے، البتہ انسان کے کئے ہوئے عمل کو دنیا دیکھتی ہے اور  یاد رکھتی ہے۔ اگر انسان نے اچھا اور بھلائی کا کام کیا ہے تو اسے بھلائی کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے اور اس کی نسلیں صدیوں تک فخر محسوس کرتی ہے، لیکن اگر انسان نے زمین میں شر و فساد اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا ہے، طاقت کا غلط استعمال کیا ہے ، غریبوں کو ناحق ستایا ہے اور مظلوموں کی بد دعائیں سمیٹی ہے تو ایسے شخص کو ہمیشہ بُرائی سے یاد کیا جاتا ہے اور  اس کے غلط کرتوتوں کی سزا آنے والی نسلیں صدیوں تک برداشت کرتی ہے۔ اس لئے اس روئے زمین پر رہتے ہوئے، فتنہ و فساد پھیلانے کے بجائے پیار و محبت بانٹنا چاہئے، کیونکہ وقت کی خاصیت ہے کہ یہ بدلتا ضرور ہے اور پھر جب حالات پلٹا کھاتے ہیں تو بڑے بڑے نام نہاد سورما اور فلک بوس عمارتوں میں متاع تعیش کے دلدادہ افراد لقمہ تر کو ترس جاتے ہیں اور انہیں کوئی جائے پناہ نہیں ملتی ہے۔ یقینا آج خدا کے نام لیوا کمزور ہیں  لیکن یہ بے سہارا نہیں ہے ۔ یہ اس در بار میں سجدہ ریز ہونے والے ہیں جس نے میدان بدر کو تاریخ انسانی  کے لئے سبق آموز بنادیا ہے، یہ طارق بن زیاد کے جانشین ہیں جنہوں نے ساحل سمندر پر کشتی جلا کر واپسی کی تمام راہیں مسدود کردی تھیں، یہ صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کے فرزند ہیں جنہوں نے راہ خدا میں اپنا سب کچھ لٹا دیا تھا۔ ہمیں یقین کامل ہے کہ ہمارا مالک ہمارے ساتھ ہے اور یہ وقتی اور عارضی پریشانیاں ہماری کمزوریوں اور نااہلی کی وجہ سے عود کر آئی ہیں اگر آج ہم پھر سے صدق دل سے ان تمام شرائط پر عمل پیرا ہوجائیں تو خدائی فرمان جو ہماری سر بلندی اور سرفرازی کا مژدہ لئے چودہ سو سال سے ہمارے پاس ہے حقیقی شکل میں ہمارے ہاتھوں میں ہوگا۔

Related Posts

4 thoughts on “مولی ہم تو تیرے بندے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے